شب قدر میں بدن پر زعفران ملنے سے کیوں منع کیا گیا هے

جناب طبرسی کی طرح علامه طباطبائی نے تفسیر المیزان میں[1] شب قدر کی برکتوں کے سلسله میں ابن عباس سے ایک روایت نقل کی هے که رسول الله صلّی الله علیه وآله نے فرمایا: شب قدر میں سدرۃ المنتهی کے فرشتے نازل هوتے هیں انھیں میں جبرئیل بھی هیں جن کے هاﭠﮭ میں ﮐﭼﮭ پرچم بھی هوتے هیں جن میں سے ایک کو میری قبر پر ایک کو بیت المقدس ایک کو مسجد الحرام اور ایک کو طور سینا کے پهاڑ پر نصب کردیتے هیں اور اس شب میں جرئیل هر مؤمن مرد اور مؤمن عورت کو سلام کرتے هیں سوائے اس کے جو زیاده شراب پیتا هے اور جو خنزیر کا گوشت کھاتا هے اور جو زیاده زعفران اپنے بدن پر ملتا هے۔[2]

روایت کے مضمون کی وضاحت کے لئے چند نکات کا ذکر کرنا ضروری هے:

۱۔ روایت میں جبرئیل کے سلام نه کرنے کی بات آئی هے نه که زعفران کے استعمال کے گناه هونے کی اور نه هی اس شخص کے بخشے نه جانے کی جو یه کام کرتا هے۔[3] البته جبرئیل کا سلام الله کی خاص رحمت هے جس کے حصول کے لئے دل کی خاص صلاحیت اور استعداد کی ضرورت هے۔ یعنی الله کی رحمت اور بندے کے درمیان ایک قسم کی قربت هونا چاهئے تاکه اس کا فیض بندے تک پهنچ سکے۔

۲۔ زعفران کی تین خاصیتیں هیں: غذائی، دوائی، زینتی (عطری کرنا اور رنگین کرنا)۔[4] روایت میں اس کی عطری اور رنگی خاصیت کے استفاده سے روکا گیا هے، یعنی اس کا زینتی پهلو مد نظر هے، اس کا غذائی اور دوائی پهلو پیش نظر نهیں هے۔ چونکه اصل تعبیر [التضمخ بالزعفران] هے جو [التلطخ بالطیب و الکثار منه] کے معنی میں استعمال هوئی هے، یعنی تیل ملنا اور عطر ملنا[5] اس طرح سے که اس میں زیاده روی کی جائے اور اس کے قطرے بدن پر جاری هوجائے۔[6] لهذا اگر کوئی شب قدر میں زیاده زعفران ملے تو جبرئیل اس کو سلام نهیں کرتے۔

۳۔ یه واضح سی بات هے که زعفران کے کسی طرح کے بھی استعمال میں شرعی اعتبار سے کوئی حرمت نهیں پائی جاتی۔

ایک طرف بدن پر زعفران ملنے اور خوشبو اور رنگ استعمال کرنے کے ﮐﭼﮭ دوائی فوائد بیان کئے گئے هیں۔[7] یا دوائی پهلو سے قطع نظر خوشبو کے طور پر خلوق (زعفران سے ماخوذ خوشبو) استعمال کرنے کی سفارش کی گئی هے۔ دوسری طرف علامه مجلسی کی بقول بعض روایات میں آیا هے که خوشبو کے طور پر خلوق (زعفران سے ماخوذ خوشبو) کا زیاده استعمال نه کریں۔ دوسری روایت میں هے که اس کو رات سے صبح تک بدن پر نه رهنے دیں۔ البته بعید نهیں هے که یه اس لئے هو تاکه اس کا رنگ بدن پر زیاده نه ره جائے۔[8]

البته روایت میں جو یه آیا هے که [جو شخص شب قدر میں زیاده زعفران ملے اس پر فرشتے سلام نهیں کرتے]، تو اس سلسله میں چند احتمالات پائے جاتے هیں:

۱۔ یه کها جاسکتا هے که رمضان کی راتیں خصوصا اس کی آخری دس راتیں، عبادت و بندگی کی راتیں هیں اور بعید هے که جس نے اس رات کو زعفران کے زینتی استعمال میں زیاده روی کی هو[9] وه راز و نیاز کرسکے اور الله کی بارگاه میں ناله و فریاد کرسکے اور ان راتوں سے استفاده کرسکے، لهذا وه جبرئیل کے سلام کا اهل نهیں هے اور روایت میں موجود مضمون ایک بیرونی حقیقت کی عکاسی کرتا هے۔

۲۔ اسلام نے صفائی ستھرائی اور تزئین و آرائش کو بهت اهمیت دی هے۔[10] لیکن خود زینت کی کیفیت اور اس کے موقع و محل وغیره کے سلسله میں بھی ﮐﭼﮭ باتیں کهی هیں؛ مثلا رسول الله صلّی الله علیه وآله نے فرمایا: عورتوں کی خوشبو کا رنگ ظاهر هونا چاهئے اور بو چھپی رهنا چاهئے اور مردوں کی خوشبو کی بو ظاهر اور رنگ چھپا هونا چاهئے۔[11] روایات میں آیا هے که همیشه بدن پر تیل نه ملیں لیکن خواتین هر دن مل سکتی هیں۔[12] مردوں کے لئے هاﭠﮭ پاؤں کا خضاب مکروه هے مگر یه که پیر کے پھٹنے یا دوا کے طور پر استعمال کریں۔[13] رسول الله صلّی الله علیه وآله نے شادی شده اور غیر شادی شده خواتین کو هاﭠﮭ رنگنے کی سفارش فرمائی هے۔[14] بالوں اور داڑھی میں خضاب لگانا مردوں کے لئے سنت هے۔ جیساکه بالوں اور هاﭠﮭ پیروں کا خضاب عورتوں کے لئے سنت هے۔[15]

اس لحاظ سے کها جاسکتا هے که زعفران سے رنگنا ایسی زینت تھی جسے خواتین زیاده اپناتی تھیں، اس لحاظ سے اگر مرد بھی زعفران کو زینت کے طور پر استعمال کریں اور اسے هاﭠﮭ پاؤں وغیره پر ملیں تو عورتوں سے شباهت هوجائے گی،[16] اور ابن عباس کی روایت کے مطابق الله نے چاها هے که شب قدر میں ایسا نه کیا جائے۔

لیکن لگتا هے که یه احتمال چند جهتوں سے درست نهیں هے؛ کیونکه :

اولا: یه ثابت نهیں هے که زعفران ملنا عورتوں سے مخصوص هے که اس کے ذریعه اس کی حرمت بھی ثابت هوسکے،[17] حتی یه بھی ثابت نهیں هے که عورتیں زیاده استعمال کرتی تھیں که روایت ابن عباس کے مضمون کو اس پر ناظر مان لیں؛

ثانیا: عورت اور مرد کے لباس، زینت اور آرائش و زیبائی موقع و محل کے اعتبار سے بدلتے رهتے هیں، یعنی اگر ایک زمانے میں کوئی چیز عورتوں سے مخصوص هو اور پھر بعد میں ان سے مخصوص نه ره جائے تو مردوں کے لئے اس کے استعمال میں اشکال نهیں هونا چاهئے جبکه ابن عباس کی روایت کا ظاهر یه هے که کسی بھی زمانے میں زعفران استعمال کرنے والوں کو جبرئیل کا سلام شامل نهیں هوگا؛

ثالثا: ابن عباس کی روایت خواتین کو بھی شامل هے۔

۳۔ شب قدر میں مردوں کا زیاده زعفران استعمال کرنا ان کے هاﭠﮭ پاؤں پر زعفران کے رنگ کے باقی ره جانے کا باعث هوگا، یه کام کراهت رکھتا هے[18] اور کسی وجه سے الله نهیں چاهتا که شب قدر میں یه کام انجام دیا جائے۔ لیکن یه احتمال بھی سو فیصد قابل قبول نهیں هوسکتا چونکه یه کراهت خواتین کے لئے روایات سے ثابت نهیں هوتی، جبکه ابن عباس کی روایت خواتین کو بھی شامل هے۔

نتیجۃً پهلے احتمال میں کوئی اشکال نهیں دکھائی دیتا۔ لیکن آخر کار یه سوال ره جائے گا که زعفران تو صرف مکروه هے اور اس میں کوئی شک نهیں که حرام نهیں هے تو پھر روایت میں اس کو شراب اور خنزیر کے ساﭠﮭ کیوں رکھا گیا هے؟ البته اس کے جواب میں کها جاسکتا هے که اس روایت کے اندر شب قدر میں الله کے بخشنے یا نه بخشنے یا پھر زعفران کے بدن پر ملنے کی حرمت کی بات نهیں کی گئی هے، بلکه اس گروه پر جرئیل کے سلام[19] نه کرنے کی گفتگو هے اور یه تین گروه اس سے محروم هیں اور جبرئیل کا سلام کرنا اس سے جڑا هے که انسان ان مکروه اعمال سے بھی دوری کرے۔



[1] المیزان، ج۳۰، ص۵۶۸؛ مجمع البیان، ج۱۰، ص۵۲۰

[2] روی ابن عباس عن النبی (ص) انه قال: اذا کان لیلۃ القدر تنزل الملائکۃ الذین هم سکان سدره المنتهی و منهم جبرائیل، فینزل جبرئیل و معه الویۃ، ینصب لواء منها علی قبری و لواء علی بیت المقدس و لواء فی المسجد الحرام و لواء علی طور سینا ولا یدع فیها مؤمنا و لامؤمنۃ الا سلم عله الا مدمن خمر و اکل لحم خنزیر و لاتضمخ بالزعفران۔

[3] موجوده روایات میں اس طرح نهیں آیا هے که جو شخص شب قدر زعفران ملے الله اس کو نهیں بخشے گا، مثلا ایک روایت میں رسول خدا صلّی الله علیه وآله سے منقول هے که الله شب قدر میں هر مسلمان کو بخش دے گا سوائے کاهن اور ساحر… کے۔ اس میں زعفران استعمال کرنے والے نام نهیں هے؛ الکشاف، ج۴، ص۲۴

[4] زعفر الطعام: کھانے میں زعفران ڈالا؛ تزعفر: زعفران کی خوشبو لگائی؛ زعفره: اسے زعفران سے رنگا۔ فرهنگ عربی فارسی، ترجه المنجد۔ اسی طرح امام صادق ععع کی روایت میں هے که عدوا کے طور پر خلوق کو هاتھ پیر پر ملنے میں کوئی حرج نهیں هے جس کا زیاده تر حصه زعفران سے هوتا هے؛ حلیۃ المتقین، باب۲، فصل۱۱، اور…

[5] تضمّخ بالطیب: تیلمالی هوئی، عطر مالی هوئی؛ تلطخ: آلوده هوا، لتھڑ گیا؛ لطخ: جو چیز بھی اپنے رنگ کے علاوه کسی اور رنگ میں رنگ دی جائے؛ فرهنگ عربی فارسی، ترجمه المجد، ماده ضمخ و لطخ۔

[6] دیکھئے: دونوں تفسیروں کے حاشیه؛ اور کتاب العین، ج۴، ص۴۲؛ لسان عرب، ج۳، ص۳۷ میں آیا هے: لطخ الجسد بالطیب حتی کانه یقطر۔

[7] امام صادق ععع کی روایت میں آیا هے: پھٹے کی دوا کے عنوان سے هاتھ پاؤں پر حمام میں خلوق ملنے میں کوئی حرج نهیں هے لیکن اس پر پابند رهنے کو آپ پسند نهیں فرماتے تھے۔ مرحوم مجلسی فرماتے هیں: خلوق ایسی خوشبو تھی جس میں زعفران هوتا تھا اور اس کا رنگ ره جاتا تھا۔ دیکھئے: حلیۃ المتقین، مردوںاور عورتوں کے زیور پهننے کے آداب کے ذیل میں، ۱۱ویں فصل، خضاب کے باب میں، اور باب۶ فصل۴

[8] ایضا، باب۶، خوشبو کے آداب میں… فصل۴، ذرا سی تبدیلی کے ساتھ

[9] بعض لوگوں نے احتمال دیا هے که بدن پر زیاده زعفران ملنے سے شهوت بھڑکتی هے لهذا الله نے نهیں چاها هے که انسان اس شب میں ایسے امور میں لگے، امام صادق ععع نے فرمایا: خوشبو دل کو مضبوط کرتی هے اور جماع کی قوت اور شهوت کو بڑھاتی هے، حلیۃ المتیقن باب۶، فصل۲

[10] مثلا سرمه لگانا، خضاب لگانا، رنگنا، کنگھی کرنا، خوشبو لگانا، مسواک کرنا، ناخون کاٹنا وغیره سے بعض ابواب مخصوص هیں

[11] حلیۃ المتیقن باب۶، فصل۲

[12] حلیۃ المتیقن باب۶، فصل۶

[13] حلیۃ المتیقن باب۲، فصل۱۱

[14] ایضا

[15] ایضا

[16] امام صادق ععع نے آخر الزمان کی علامتوں میں اس کو شمار کیا هے که عورتوں کے علامات یعنی هاتھ پاؤں کو رنگنا اور بالوں کی آرائش مردون پیدا هوجائے گی؛ ایضا

[17] مرد عورت کے ایک دوسرے سے مشابهت پیدا کرنے کی حرمت کے بارے میں رجوع فرمائیں: مکاسب محرمه، باب الاکتساب بما هو حرام فی نفسه

[18] جیسا که ملاحظه کیا گیا امام صادق ععع نے بهتر نهیں سمجھا که همیشه خلوق کو هاتھ پاؤں پر لگایا جائے اور اس کی بو سے استفاده کیا جائے۔ علامه مجلسی نے بھی فرمایا هے که: خلوق ایسی خوشبو تھی جس میں زعفران هوتا تھا اور اس کا رنگ ره جاتا تھا؛ حلیۃ المتیقن مرد و عورت کی زینت و زیور کے سلسله میں… ۱۱ویں فصل، خضاب کرنے بیان میں

[19] وه سلام که جب ابراهیم کو ان کے فرزند کی بشارت دینے کے لئے تو ان پر سلام بھیجا، کهتے هیں که ابراهیم نے کها اس سلام کی لذت ساری دنیا کی لذتوں سے زیاده تھی، یا وه سلام ابراهیم کو نمرود کی آگ میں ڈالا گیا اور آگ گلزار بن گئی، تفسیر نمونه، ج۲۷، ص۱۸۶

تبصرے
Loading...