سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۳ اور سورہ احقاف کی آیت نمبر ۱۵ کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کی کیسے توجیہ کی جاسکتی ہے؟

خداوند متعال ایک بار سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۳ میں اعلان فرماتا ہے کہ دودھ پلانے کی مدت پورے دو سال ہے { حولین کاملین} – لیکن سورہ احقاف کی آیت نمبر ۱۵ سے معلوم ھوتا ہے کہ حاملگی اور دودھ پلانے کی مجموعی مدت ۳۰ مہینے بیان کی گئی ہے {ثلاثون شھرا} چونکہ حاملگی کی مدت ۹ مہینے ہے، اس لئے قدرتی طورپر دودھ پلانے کی مدت ۲۱ مہینے ھونی چاہئیے، نہ کہ ۲۴ مہینے یا پورے دوسال- ان دو آیات کے درمیان اختلاف کی کیسے توجیہ کی جاسکتی ہے؟
ایک مختصر

اگر دو سال دودھ پلانے کی مدت، واجبی حکم ھو، تو یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ حاملگی کے نو مہینوں اور دودھ پلانے کے ۲۴ مہینوں کا مجموعہ ۳۳ مہینے ہے، نہ ۳۰ مہینے جسے قرآن مجید نے بیان کیا ہے- دودھ پلانے کی یہ مدت واجب نہیں ہے ، بلکہ یہ ان ماوں کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت کو خاتمہ بخشنا چاہتی ہیں- اس بنا پر مذکورہ آیت کے ذیل میں بیان کئے گئے شرائط کے تحت بچے کا دودھ بند کرنا جائز ہے- پس جس عورت کا وضع حمل ۹ مہینے کے بعد ھوتا ہے، وہ ۲۱ مہینے تک اپنے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے { دودھ پلانے کی کم از کم جائز مدت} اور اس طرح حاملگی اور دودھ پلانے کی مجموعی مدت ۳۰ مہینے ھوگی، جو سورہ احقاف کی آیت نمبر ۱۵ کی مصداق ہے- دودھ پلانے کی مدت پورے دوسال واجب ھونے کے فرض پر، ضروری نہیں ہے کیوں کہ حا ملگی کی مدت مختلف ھوتی ہے – اس بنا پر جو عورت چھ مہینے کی مدت میں وضع حمل کرتی ہے اور ۲۴ مہینے تک اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے، وہ اس آیہ شریفہ کے لئے ایک دوسری مثال ہے دودھ پلانے کی مدت دو سال بیان کرنے والی سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۳ اور سورہ لقمان کی آیت نمبر ۱۴ کو حاملگی اور دودھ پلانے کی مجموعی مدت کو ۳۰ ماہ بیان کرنے والی سورہ احقاف کی آیت نمبر۱۵ کے ساتھ قرار دیکر، جب ہم ۳۰ مہینے سے ۲۴ مہینے کم کرتے ہیں، تو باقی ۶ مہینے بچتے ہیں، جو حاملگی کی سب سے کم مدت ہے- مذکورہ دو آیتوں کے درمیان اس وقت اختلاف پیدا ھو سکتا ہے، جب دو سال دودھ پلانے کی مدت اور ۹ ماہ حاملگی کی مدت واجب اور نا قابل تغیر ھو-
تفصیلی جوابات

۱-” ماوں کو اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلانا چاہئیے-[1]” کیا دو سال تک بچے کو دودھ پلانا، واجب ہے؟

مذکورہ آیہ شریفہ وجوب کی دلیل پیش نہیں کرتی ہے، کیونکہ اس کے ضمن میں ارشاد ھوتا ہے:” وہ مائیں جو رضاعت کو پورا کرنا چاہیں” یعنی دودھ پلانے کی مدت کا تعلق ماں کی مرضی اور ارادہ سے ہے، پس معلوم ھوتا ہے کہ، دودھ پلانے کی مدت واجب نہیں ہے- اس کے علاوہ ارشاد ھوتا ہے :” ایک دوسرے کے ساتھ صلاح و مشورہ کرنے اور رضا مندی کی صورت میں، بچے کو دودھ پلانا بند کیا جاسکتا ہے-” پس ظاہر ہے کہ اس مدت کو بیان کرنے سے مراد، واجب نہیں ہے-[2] ماوں کو حق ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں، جب وہ دودھ پلانے کی پوری مدت {دو سال} سے استفادہ کرنا چاہیں- دوسال پورے ھونے سے پہلے بچے کو دودھ پلانا بند کرنا جائز ہے، لیکن اس کام کے لئے والدین کی رضا مندی کافی نہیں ہے، بلکہ اس سلسلہ میں صلاح و مشورہ کیا جانا چاہئیے تاکہ بچے کے حق کو بھی تحفظ ملے اور ماں باپ کے حقوق کی بھی رعایت ہو جائے- مستحب ہے کہ دودھ پلانے کے لئے معین کی گئی پوری مدت تک ماں اپنے بچے کو دودھ پلائے اور وہ پورے دو سال ہیں اور اگر وہ اس سے کم مدت تک دودھ پلانا چاہتی ھو، تو اس کے لئے کم سے کم مدت ۲۱ مہینے جائز ہے-[3]

۲-کیا اس حکم میں سب بچے مشترک ہیں؟ ابن عباس جیسے بعض مفسرین اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ مدت{ دو سال} ہر پیدا ھونے والے بچے کے لئے ثابت نہیں ہے اور یہ صرف اس بچے کے لئے ہے جو چھ مہینے کا پیدا ھو جائے-[4] ابن عباس کی دلیل سورہ احقاف کی آیت نمبر ۹۵ ہے {ثلاثون شھرا}، یہ آیہ شریفہ دلالت کرتی ہے کہ حاملگی اور دودھ پلانے کا زمانہ ۳۰ مہینے ہے، پس جس قدر حاملگی کا زمانہ کم تر ھو ہم اسی حساب سے دودھ پلانے کی مدت میں اضافہ کرسکتے ہیں تاکہ دونوں ملا کرزمانہ پورا{ ۳۰ ماہ} ھو جائے اور جس قدر حاملگی کا زمانہ زیادہ ھو تو اسی حساب سے دودھ پلانے کی مدت سے کم کرسکتے ہیں-[5]

۳-حاملگی کی سب سے کم ترمدت کتنی ہے؟ شیخ مفید اپنی کتاب الارشاد میں نقل کرتے ہیں کہ:” عمر بن خطاب کی خلافت کے دوران، ایک ایسی عورت کو ان کے پاس لایا گیا، جس نے شادی کے چھ مہینے بعد بچے کو جنم دیا تھا، عمراسے {زنا کے الزام میں} سنگسار کرنا چاہتے تھے- امیرالمومنین حضرت علی {ع} ان کے اس کام میں رکاوٹ بنے اور آپ{ع} نے اس آیہ شریفہ کی بنا پرثابت کیا کہ ممکن ہے یہ بچہ اس عورت کے اپنے شوہر کا ھو اوروہ عورت زنا کی مرتکب نہ ھوئی ھو- حضرت علی{ع} نے فرمایا:” خدا وند متعال ، عورت کی حاملگی کی ابتداء سے بچے کو دودھ پلانے کی آخری مدت تک ارشاد فر ماتا ہے: حاملگی اور دودھ پلانے کی مجموعہ مدت تیس مہینے ہے- اور دودھ پلانے کی مدت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: پورے دو سال ہے، پس جب کوئی عورت اپنے بچے کو پورے دو سال دودھ پلائے{ اور دوسری جانب سے} حاملگی اور دودھ پلانے کی مجموعی مدت تیس مہینے ھو، تو نتیجہ کے طور پر حاملگی کی مدت چھ مہینے ھوگی- عمر بن خطاب نے اس بیان کو سننے کے بعد اس عورت کو رہا کیا اور اسلام میں اس حکم کو درج کیا اور پیغمبر{ص} کے اصحاب اور ان کے بعد آنے والوں نے ہمارے زمانہ تک اس حکم پر عمل کیا ہے-[6]

علامہ طباطبائی نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو “الدرالمنثور” [7]سے نقل کیا ہے- اور علامہ ، سورہ احقاف کی آیت نمبر ۱۵ اورسورہ بقرہ کی آیت ۲۳۳ اور سورہ لقمان کی آیت۱۴ سے نتیجہ نکالتے ہیں کہ حاملگی کی کم ازکم مدت چھ مہینے ہے- اس بنا پر تیس مہینوں میں سے دو سال کم کر کے معلوم ھوتا ہے کہ حاملگی کی کم سے کم مدت چھ مہینے اور دودھ پلانے کی زیادہ سے زیادہ مدت، جس کے بارے میں شرعی حکم ہے، ۲۴ مہینے ہیں – اگر بچہ ماں کے پیٹ میں سات مہینے، یا آٹھ مہینے یا نو مہینے رہے، تو بچے کے پیدا ھونے کے بعد دودھ پلانے کی زیادہ سے زیادہ مدت بالترتیب تیئس مہینے، بائیس مہینے اور اکیس مہینے ہے- شیخ طوسی اور امین الاسلام طبرسی ابن عباس کا قول ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:” جن روایتوں کو ہمارے علماء نے نقل کیا ہے وہ اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں، کیونکہ انھوں نے روایت کی ہے کہ ۲۱ مہینے سے کم مدت تک بچے کو دودھ پلانا بچے پر ظلم {وستم} ہے-[8]

۴-روایات کے مطابق دودھ پلانے کی کم سے کم مدت:

کتاب وسائل الشیعہ کی مندرجہ ذیل دو روایتوں کی بنا پر، دودھ پلانے کی کم از کم مدت ۲۱ مہینے ھوسکتی ہے اور اس سے کم تر جائز نہیں ہے:

الف} امام صادق {ع} نے فرمایا ہے:” دودھ پلانے کی واجب مدت، ۲۱ مہینے ہے- پس جو عورت اس سے کم مدت تک دودھ پلائے، اس نے کوتاہی کی ہے اور اگر وہ دودھ پلانے کی پوری مدت پورا کرنا چاہتی ہے، تو اس سے پورے دو سال مراد ہیں-[9]

ب} حضرت صادق {ع} نے ہی مزید فرمایا ہے:” دودھ پلانے کی مدت ۲۱ مہینے ہے، پس اس سے کم تر بچے پر ظلم {وستم} شمار ھو گا-[10]

۵-رضاعت{ دودھ پلانے} میں بچوں کا اشتراک: مفسرین کے ایک گروہ کا اعتقاد ہے کہ دو سال تک دودھ پینا تمام بچوں کے لئے ثابت ہے اس حکم کا صرف شش ماھہ پیدا ھونے والے بچوں سے مخصوص ھونا ظاہر آیت کے موافق نہیں ہے- بظاہر: آیہ شریفہ: الوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین- – -” پیدائش کے بعد پورے دو سال تک دودھ پلانے کے حق کو ثابت کرتی ہے اور بچے کا ماں کے رحم میں رکنا اور وہاں پرتغذیہ ھونا کوئی معیار نہیں ہے، پس تمام بچوں کا حق ہے کہ پورے دو سال تک ماں کا دودھ پی لیں اور ماں کو حق ہے کہ اپنے بچے کو پورے دو سال تک دودھ پلا دے-[11]

۶-نتیجہ:

لفظ “یرضعن” ایک ایسی خبرہے، جس سے امر کے معنی سمجھے جاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ امر مستحب ہے- لفظ “والدات” تمام ماوں کے حالات پر مشتمل ہے، جو حسب ذیل ہیں:

وہ مائیں، جو شش ماھہ یا ہفت ماھہ یا ہشت ماھہ اور یا نو ماھہ وضع حمل کرتی ہیں- لفظ “اولاد” تمام بچوں پرمشتمل ہے، جو: شش ماھہ، ہفت ماھہ، ہشت ماھہ اوریا نو ماھہ پیدا ھوتے ہیں، مذکورہ مطالب کی بنا پرآیہ شریفہ دودھ پلانے کا حکم بیان کرتے ھوئے، اس حکم میں تمام بچوں کو مساوی جانتی ہے، یعنی انھیں دو سال تک دودھ پینا چاہئیے، لیکن یہ حکم مستحب ہے، پس اگر کم از کم مدت تک دودھ پلانے پر اکتفا کیا جائے، تو سورہ احقاف کی آیت نمبر ۱۵ کا مصداق ہے، یعنی دودھ پلانے کا کم از کم زمان، ۹ مہینے کی حاملگی کی مدت کوملاکر مجموعہ ۳۰ مہینے ھوتا ہے- اور اگر بچہ دو سال تک دودھ پی لے تو سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۲ کے مستحب حکم پر عمل ھوا ہے، کہ سورہ احقاف کی آیت نمبر ۱۵ سے کوئی منافات نہیں ہے، کیونکہ حتمی طور پر دو سال تک دودھ پلانا واجب نہیں ہے اور اس آیت سے دودھ پلانے کی کم ترین مدت کا مطلب نکالا جاسکتا ہے- پس اگر ارشاد فرماتا کہ: دو سال تک دودھ پلانا واجب ہے اور اس کے بعد فرماتا:حاملگی اور دودھ پلانے کی مجموعی مدت ۳۰ مہینے ہے، تو اس میں تناقض واضح تھا- اس بنا پر تیس مہینوں کا ایک مصداق وہ بچہ ہے جو شش ماھہ پیدا ھوا ہے اور پورے دو سال تک دودھ پیتا ہے- حاملگی کا کم از کم زمان + دودھ پلانے کا زیادہ سے زیادہ = ۳۰ مہینے{ ۳۰= ۶+۲۴} اور دوسرا مصداق وہ بچہ ہے جو ۹ ماھہ پیدا ھوا ہے اور ۲۱ مہینے تک دودھ پیتا ہے، یعنی {کم ازدودھ پینے کی مدت + متعارف حاملگی= ۳۰ دن {۳۰=۹+۲۱}

 

[1] بقرہ، 233.

[2] فخررازی، تفسیر کبیر، ج 6، ص 118، طبع دوم، دارالکتب العلمیة، تهران.

[3] شهید ثانی، شرح لمعه، کتاب نکاح، باب الرضاع.

[4] علی فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیرالقران، ج 2، ص 171، طبع اول، سازمان اوقاف و خیریه، انتشارات اسوه،1426ھ ۱۳۸۴ ھ؛ محمد بن حسن طوسی، التبیان فی تفسیرالقران، ج 3،ص 373، طبع اول، مؤسسه نشر اسلامی (جامعه مدرسین).

[5][5] تفسیرکبیر، فخر رازی، ج 6، ص 118.

[6] شیخ مفید، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ج 1، ص 197، ترجمهٔ سید هاشم رسولی محلاتی، ناشر: علمیهٔ اسلامیه؛ دیلمی، ارشادالقلوب، ج 2، ص6، طبع نجف، المطبعة الحیدریة.

[7] الدرالمنثور، ج 6، ص40، به نقل از المیزان.

[8] مجمع البیان، ج 2، ص 171؛ تبیان، ج 3، ص 373.

[9] محمد بن الحسن، الحرالعاملی، وسائل الشیعة، ج 21،ح 27564، ص 454، طبع 3، مؤسسهٔ آل البیت علیهم السلام لاحیاََََء التراث، بیروت-لبنان، 1429ھ.

[10] وسائل الشيعة، ج 21، ص 455، ح27567.

[11] جوادی آملی، عبدالله، تسنیم، ج 11، ص 374، طبع اول، انتشارات أسراء، قم، اسفند 1385ھ-

 

تبصرے
Loading...