سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۴۲ میں ارشاد ھوتا ہے :” اور اس وقت کو یاد کرو جب ملائکہ نے مریم کو آواز دی کہ خدا نے تمھیں چن لیا ہے اور پاکیزہ بنادیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں برتری عطا کی ہے” ان کی برتری کس وجہ سے ہے؟ کیا انھوں نے انسانیت کے لئے کوئی خدمت کی ہے یا صرف عبادت اور تقوی میں دنیا کی دوسری عورتوں سے برتر تھیں؟ حضرت عیسی{ع} کی داستان سے بھی معلوم ھوتا ہے کہ انبیائے الہی پہلے سے ہی معین ھوئے ہیں- اور انھوں نے نیک صفتوں کو حاصل کرنے کے لئے ذاتی طور پر کوئی کوشش نہیں کی ہے- ورنہ جس بچے نے گہوارہ میں پیغمبری کا دعوی کیا، اس نے کب اپنی تربیت کے لئے وقت صرف کیا ہے؟

اس سوال کا جواب واضح ھونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے حضرت مریم {ع} کی زندگی پر ایک سرسری نظر ڈالیں:

تاریخ، اسلامی احادیث اور مفسرین کے کلام سے معلوم ھوتا ہے کہ ” حنۃ”اور” اشباع” نامی دو بہنیں تھیں، ان میں سے پہلی، بنی اسرائیل کی ایک نمایاں شخصیت عمران کے عقد میں قرار پائی اور دوسری کو خدا کے پیغمبر حضرت زکریا{ع} نے اپنی ہمسر کے عنوان سے منتخب کیا-

سالہا سال تک عمران کی شریک حیات کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ھوا- ایک دن “حنہ” ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھیں، اس نے ایک پرندہ کو دیکھا جو اپنے بچوں کو کھانا کھلاتا تھا، مامتا کی اس محبت کا مشاہدہ کرنے پر اس خاتون کے دل میں اولاد کا عشق شعلہ ور ھوا اور صمیم قلب سے بارگاہ الہی میں اپنے لئے ایک اولاد کے لئے دعا کی اور اس کے فورا بعد ان کی یہ دعا قبول ھوئی اور وہ حاملہ ھوئیں-

بعض روایتوں سے معلوم ھوتا ہے کہ خداوند متعال نے عمران کو وحی بھیجدی تھی کہ اسے ایک ایسا بیٹا عطا کرے گا جو بابرکت ھو گا اور وہ لاعلاج مریضوں کا علاج کرے گا اور مردوں کو خدا کے حکم سے زندہ کرے گا، اور اسے پیغمبر کے عنوان سے بنی اسرائیل میں بھیج دیا جائے گا-

انھوں نے یہ داستان اپنی شریک حیات کے سامنے بیان کی، جب وہ حاملہ ھوئیں ، تو اس نے خیال کیا کہ وہ بیٹا وہی ھوگا جو اس کے شکم میں ہے اور وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ اس کے شکم میں موجود بچہ مریم { اس بیٹے کی ماں} ہے اور اسی وجہ سے اس نے نذر کی کہ اس بیٹے کو خانہ خدا” بیت المقدس” کا خدمت گزار قرار دے گی- لیکن پیدائش کے وقت مشاہدہ کیا کہ وہ بیٹی ہے، یہاں پر وہ پریشان ھوئیں کہ ان حالات میں کیا کرے، بیت المقدس کے خدمت گزار لڑکوں سے چنے جاتے تھے اور کسی لڑکی کے اس عنوان سے منتخب ھونے کا سابقہ نہیں تھا-

بعض افراد نے کہا کہ: عمران کی بیوی کا اس نذر کے لئے اقدام اس لئے تھا کہ عمران اس کی حاملگی کے دوران فوت ھوچکے تھے، ورنہ بعید تھا کہ وہ ایسی نذر کرتیں-[1]

قرآن مجید کی آیات اور احادیث سے بخوبی معلوم ھوتا ہے کہ مریم بنت عمران، ایک غریب خاندان میں پیدا ھوئی ہیں، ان کا خاندان مالی لحاظ سے کمزور ھونے کی وجہ سے ان کی پرورش کی طاقت نہیں رکھتا تھا{ کیونکہ ان کے والد ان کی پیدائش سے پہلے فوت ھو چکے تھے} اس لئے ان کی سرپرستی کو حضرت زکریا { حضرت مریم کے خالو} نے اپنے ذمہ لیا تھا- اس عظیم خاتون کی زندگی سختیوں، زحمتوں اور محرومیتوں میں گزری ہے، کیونکہ وہ اپنی ماں کی نذر کے مطابق بچپن سے ہی معبد کی خادمہ کے عنوان سے فریضہ انجام دیتی تھیں اور اس عبادت خانہ میں اس کم سن بچی کو نا قابل برداشت ذمہ داریاں سونپی جاتی تھیں اور وہ تمام مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتی تھیں اور کسی قسم کی شکایت زبان پر نہیں لاتی تھیں- اس کے علاوہ خودغرض اور بے ایمان افراد کی طرف سے طعنہ زنیوں اور تہمتوں کو بھی صبر و تحمل سے برداشت کرتی تھیں اور خداوند متعال ان سے مکمل طور پر راضی تھا- خداوند متعال نے ان خاتون کی اس عظمت، صبر، رضامندی اور اطاعت محض کی وجہ سے انھیں یہ مقام و منزلت عطا کیا ہے- [2]   اور ان کے بارے میں فرمایا:” اور اس وقت کو یاد کرو جب ملائکہ نے مریم کو آواز دی کہ خدا نے تمھیں چن لیا ہے اور پاکیزہ بنادیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں برتری عطا کی ہے”[3]

البتہ، ان کی ان مخلصانہ کوششوں کے نتیجہ میں خداوند متعال نے انھیں اپنے زمانہ کی عورتوں پر برتری عطا کی- کیونکہ خداوند شاکر ہے اور اپنے بندوں کے مخلصانہ اور نیک اعمال کا اجر دئے بغیرنہیں چھوڑتا ہے- قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے: ” جو مزید خیر کرے گا تو خدا اس کے عمل کا شاکر اور اس سے خوب واقف ہے “[4] انسانوں کی، خدا کی طرف راہنمائی کرنے کے لئے اولوالعزم پیغمبروں کی تربیت اور اسی طرح حضرت مریم{ع} کی پاک و سالم زندگی، جو ہر عصر و زمان کی عورتوں اور ماوں کی تربیت کرنے کے لئے بہترین نمونہ عمل ہے، یہ اس عظیم خاتون کی انسانی معاشرے کے لئے سب سے بڑی خدمت ہے جو کسی دوسری خدمت کے ساتھ قابل موازنہ نہیں ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ انسان کے لئے سب سے بلندترین و بہترین خدمت انسان کی تربیت کرنا ہے- اگر کوئی شخص صرف ایک انسان کی صحیح معنوں میں خدمت کرکے معاشرہ کے حوالہ کرے تو، اس نے ایک بڑی خدمت انجام دی ہے، چہ جائیکہ ایک ماں ایک عظیم الشاں پیغمبر کی تربیت کرے جو لاکھوں انسانوں کی ہدایت کا سبب بنے، کیا اس سے بڑھ کر کسی خدمت کا تصور کیا جاسکتا ہے؟

اس بناپر کیا یہ عظیم اور قابل قدر بشارت، حضرت مریم {ع} کے تقوی و پرہیزگاری کے سائے میں زحمتوں اور طاقت فرسا کوششوں کے علاوہ کسی اور وجہ سے حاصل ھونا ممکن ہے؟ یہ آیہ شریفہ اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ حضرت مریم {ع} اپنے زمانہ میں عظیم ترین خاتون تھیں- قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ خداوند متعال مخلصانہ اعمال کی جزا دیتا ہے، اگر چہ وہ عمل کم بھی ھو- با لفاظ دیگر پرور دگار حکیم و مہربان کی بار گاہ میں کیفیت کی اہمیت ہے نہ کمیت کی-

لیکن حضرت عیسی{ع} کا اپنی پیدائش کی ابتداء میں گہوارہ کے اندر گفتگو کرنا اگر چہ ایک عظیم معجزہ ہے کہ جس سے حضرت عیسی {ع} کی عظمت اور مقام معلوم ھوتا ہے، لیکن در حقیقت یہ عظیم الہی معجزہ ان کی ماں کی عصمت و پاک دامنی کے دفاع میں تھا کہ حضرت مریم پر ناروا تہمتیں لگائی جاتی تھیں اور دشمن موجودہ قرائن و شواہد سے استفادہ کر کے { حضرت عیسی کے تولد اور حضرت مریم کے بے شوہر ھونے سے} اور قرینہ حاصل کرکے اس معصوم بندہ الہی پر الزام لگاتے تھے- اگر وہ اس کام میں کامیاب ھوجاتے تو حضرت عیسی{ع} کی نبوت داغدار ھوجاتی، مگر جس چیز نے ان جھوٹوں اور افوا بازوں کو نا کام بنا دیا وہ یہی عظیم معجزہ تھا- چنانچہ خداوند متعال نے زلیخا کی طرف سے حضرت یوسف{ع} پر تہمتیں لگائے جانے کے قضیہ میں ، اسی قسم کے ایک مشابہ معجزہ، یعنی ایک شیر خوار بچے کی گفتگو سے حضرت یوسف {ع} کی پاک دامنی کی گواہی پیش کی  اور ان کی پاک دامنی اور صداقت سے عام لوگ آگاہ ھوئے –

حضرت عیسی {ع} کی لیاقت و شائستگی اور خود سازی، مقام نبوت اور ہمدردانہ ہدایت و رہبری کو ثابت کرنے کے لئے یہ بہترین دلیل ہے- اور چونکہ خداوند متعال ان مسائل سے آگاہ تھا اس لیے قبل از عمل پا داش کے طورپر ان کے لئے یہ عنوان اور عصمت کا مقام عطا کیا اور انھیں اس مقام پر منصوب کیا-

 


[1] . مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج‏2، ص: 523، انتشارات دارالکتب اسلامیه، تهران،1376

[2] آل عمران ،37-35:” إذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبّ‏ِ إِنىّ‏ِ نَذَرْتُ لَكَ مَا فىِ بَطْنىِ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنىّ‏ِ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ(35)فَلَمَّا وَضَعَتهَْا قَالَتْ رَبّ‏ِ إِنىّ‏ِ وَضَعْتهَُا أُنثىَ‏ وَ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَ لَيْسَ الذَّكَرُ كاَلْأُنثىَ‏  وَ إِنىّ‏ِ سَمَّيْتهَُا مَرْيَمَ وَ إِنىّ‏ِ أُعِيذُهَا بِكَ وَ ذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ(36)فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَ أَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَ كَفَّلَهَا زَكَرِيَّا  كلَُّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا  قَالَ يَامَرْيَمُ أَنىَ‏ لَكِ هَاذَا  قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ  إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيرِْ حِسَابٍ(37)

[3]آل عمران،42:” وَ إِذْ قالَتِ الْمَلائِكَةُ يا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفاكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفاكِ عَلى‏ نِساءِ الْعالَمين‏”

[4] . بقره ،158:” وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَإِنَّ اللَّهَ شاكِرٌ عَليم”

 

تبصرے
Loading...