سورہ آل عمران کی آیت نمبر۱۴ کے پیش نظر کیا عورت بھی مردوں کے لئے مادیات کا ایک حصہ اور حقیر تھی اور حیوانوں کے زمرے میں شمار ھونی چائیے؟

سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۴میں دنیوی مظاہر سے محبت کرنے کی سرزنش کی گئی ہے اور اسے حقیر امور میں شمار کیا گیا – اسی آیہ شریفہ میں اس قسم کے مظاہر کی کچھ مثالیں پیش کی گئی ہیں، جن میں: عورت، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، تندرست گھوڑے، چوپائے اور کھیتیاں شامل ہیں- سوال یہ ہے کہ کیا عورت بھی مردوں کے لئے مادیات کا ایک حصہ اور حقیر تھی اور وہ بھی حیوانوں کے زمرے میں شمار ھونی چاہئے؟
ایک مختصر

مقدمہ:

مذکورہ سو ال کے جواب می ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ، جو معنی آپ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۴ سےلئے ہیں ، و ہ صحیح نہیں ہیں، اگر آیہ شریفہ کے معنی پر ٰغو ر کیا جائے، تو آپ کے پیش کئے گئے معنی کے علاوہ کچھ اور معنی نکلتے ہیں، آیہ شریفہ فرماتی ہے:” لوگوں کے لئے خواہشات دنیا- عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، تندرست گھوڑے یا چوپائے، کھیتیاں، سب مزین اور آراستہ کردی گئی ہیں کہ یہی متاع دنیا ہے اور اللہ کے پاس بہترین انجام ہے-“[1] یہ آیہ شریفہ انسانوں کی زندگی کے تکوینی اور فطری امور میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتی ہے- ہر ایک اپنی زندگی میں اپنے اہل و عیال، اولاد اور مال کی محبت رکھتا ہے- آیہ شریفہ بذات خود کو ئی قابل مذمت امر بیان نہیں کرتی ہے بلکہ صرف انسان کی ایک قسم کی دنیوی دلچسپیوں کو بیان کرتی ہے- تفاسیر[2] کے مطابق یہاں پر، خداوند متعال نے ہی انسان کی فطرت میں عورتوں {بیویوں} اور اولاد اور مال کی محبت پیدا کی ہے کہ ان کے ذریعہ انسان کمال اور تربیت کی راہ پر چل پڑتا ہے اور انسانیت کی حقیقت تک پہنچتا ہے- سر انجام وہ اپنی دنیوی نعمتوں کو گنتا ہے لیکن یاد دہانی کراتا ہے کہ ان چیزوں سے دل نہ لگائیں اور خدا کی راہ میں جہاد کریں-

مذکورہ آیت میں قرآن مجید ایک لطیف اور گہرے نکتہ کو بیان کرتا ہے- اپنی بیویوں {جنس مونث} سے محبت کرنے کے ضمن اپنے بیٹوں{ جنس مذکر} سے محبت کرنا بھی بیان کرتا ہے، اس بنا پر آپ کا اعتراض جنس مذکر کے بارے میں بھی صحیح ھونا چاہئے- ان چند ناموں کے ایک ساتھ ذکر ھونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سب ایک ہی رتبہ پر ہیں- اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اپنے ماں باپ کے ساتھ ذاتی گاڑی میں سفر پر گیا، تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کے والدین، وہ اور حتی کہ اس کی ذاتی گاڑی ہم رتبہ ہیں؛

آیہ شریفہ کی تفسیر:

قرآن مجید کی آیات کی تفسیر کے طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ آیت کے ماقبل و ما بعد کا بہت غور سے مطالعہ کرنا چاہئے تا کہ اس کے بارے میں ایک جامع تفسیر بیان کی جاسکے- مذکورہ آیت بھی ان ہی میں سے ہے، اس سے قبل والی آیتوں میں، کفار یا ان افراد کی بات تھی جنھوں نے اپنی زندگی کا اصلی مقصد، اولاد اور مال و ثروت کو قرار دیا تھا اور یہ ان کے لئے غرور و تکبر کا سبب بنا تھا اور وہ محسوس کرتے تھے اس کے باوجود وہ ابدی ہیں اور انھیں خدا کی ضرورت نہیں ہے، حقیقت میں یہ آیہ شریفہ ان کی گزشتہ [مالی و اولاد کی ]محبت کو مکمل کرنے والی ہے، کہ اے کافرو، دنیوی زینتوں، اپنی بیویوں، اولاد اور سونے اور چاندی سے وابستہ نہ رہو اور اپنے اصلی مقصد سے، جو در حقیقت پروردگار کی عبادت و اطاعت ہے، غافل نہ رہنا-

اسی سلسلہ میں علامہ طباطبائی، تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں:” یہ آیہ شریفہ اور اس کے بعد والی آیت، اس سے پہلی والی آیات کے مطالب کو بیان کرتے ہوئے تشریح کرتی ہے، کہ ارشاد فرمایا گیا ہے: إِنَّ الَّذينَ كَفَرُوا لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَ لا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً وَ أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ” جو لو گ کافر ھو گئے ہیں ان کے اموال واولاد کچھ بھی کام آنے والے نہیں ہیں اور وہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں-“[3]

اس آیہ شریفہ سے معلوم ھوتا ہے کہ کفار کا یہ اعتقاد تھا کہ وہ اپنے مال و اولاد کے ذریعہ خدا سے بے نیاز ھوسکتے ہیں، یہ آیہ شریفہ بیان کرتی ہے کہ اس تصور کا سبب ، ان کا مادی میلا نات اور لذات کے سلسلے میں فریب کھانا تھا کہ انھوں نے آخرت کے امور سے منقطع ھوکر دنیا کی طرف رخ کیا، اور اس طرح بہت اہم امور سے محروم ھوکر عارضی امور کو اپنایا- وہ غلط فہمی سے دوچار ھوکر نہ سمجھ سکے کہ مادی لذتیں نا پائیدار ہیں اور یہ خدا تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے اور یہ نیک انجام ہے-[4]

حقیقت میں گزشتہ آیات، وسیع تر معنی میں انسان کو یہ پیغام پہنچانا چاہتی ہیں، کہ اے انسان ؛ ان نعمتوں سے مناسب استفادہ کرنا جو ہم نے تمھیں عطا کی ہیں اور خداوند متعال سے غفلت نہ کرنااور ان نعمتوں کے ساتھ اس قدر وابستگی پیدا نہ کرنا جو تمھارے لئے غفلت و گمراہی کا سبب بن جائیں-

اس موضوع سے متعلق مزید عناوین حسب ذیل ہیں:

سوال: 2940{سایٹ: ur3179} ” قرآن و قوامیت مردان بر زنان”

سوال: 3849 {سایٹ: ur4123} “عدم بر تری مرد برزن”

 

[1] آل عمران،14.

[2] بابایی،احمد علی،برگزیدۀ تفسیر نمونه،ج1،ص267.

[3] آل عمران،10

[4] طباطبایی ، محمد حسین ، ترجمه تفسير الميزان ، سيد محمد باقر موسوى همدانى ، ج 3 ، ص 148، دفتر انتشارات اسلامى جامعه ى مدرسين حوزه علميه قم ، قم ، 1374، ھ ش ، 14.س

 

تبصرے
Loading...