سنیچر کا دن یہودیوں کے لیے کیوں سزا کا دن ہے؟ کیا عیسائیوں کے لیے اتوار کا دن سزا کا دن ہے؟

قرآن مجید نے جن داستانوں کو اہمیت دی ہے اور ائمہ اطہار{ع} اور مسلمان مفسروں نے ان کی تفسیر کی ہے ان میں سے ایک داستان “اصحاب سبت” ہے۔

بعض یہودیوں کو کچھ نافرمانیوں کی وجہ سے سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑنے کی ممانعت کی گئی۔ انہوں نے مکر و فریب سے خداوندمتعال کے اس حکم  کی نافرمانی کی، اس لیے لعن و عذاب سے دوچار ہوئے اور بندروں کی شکل میں تبدیل ہوئے۔

“اصحاب سبت” کی داستان قرآن مجید کے چند سوروں میں آئی ہے، من جملہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۶۵، سورہ نساء کی آیت ۴۷ و ۱۵۴ ، سورہ اعراف کی آیت ۱۶۳ اور سورہ نحل کی آیت ۱۲۴ میں[1]۔

حضرت امام باقر{ع} کی امام علی{ع} سے نقل کی گئی ایک روایت کے مطابق “اصحاب سبت” کی داستان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

” اصحاب سبت، قوم ثمود کا ایک یہودی قبیلہ تھا، خداوندمتعال نے ان کی فرمانبرداری کا امتحان لینے کے لیے سنیچر کے دن ان پر مچھلیاں پکڑنا حرام قرار دیا تھا۔ انہوں نے اپنی نافرمانی کی توجیہ کرنے کے لیے ، دریا کے اندر چھوٹے چھوٹے تالاب بنائے تھے اور مچھلیوں کے ان میں داخل ہونے کے بعد  تالاب کو بند کرتے تھے اور اس طرح مچھلیوں کو دوبارہ دریا میں جانے سے روکتے تھے اور دوسرے دن انہیں پکڑتے تھے۔ ایک مدت تک یہی حالت جاری رہی اور کسی نے انہیں اس حیلہ گری اور قانون شکنی سے منع نہیں کیا ، ان میں سے بعض لوگوں کو شیطان نے ذہن نشین کرایا تھا کہ خداوندمتعال نے تم لوگوں کو سنیچر کے دن مچھلی کھانے سے منع کیا ہے نہ کہ شکار کرنے سے ، اس لیے وہ سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑنے کا اقدام کرتے تھے اور دوسرے دن انہیں کھاتے تھے اور اس طرح روزبروز ان کے گناہ بڑھتے گئے۔ ۔ ۔ اس کے بعد حضرت {ع} نے فرمایا: لوگ ان دو گروہوں سے روبرو مقابل ہوئے۔ کچھ لوگوں نے امربالمعروف کیا اور انہیں خداوندمتعال کی سزا سے ڈرایا اور جب دیکھا کہ ان کی نصیحت ان میں اثر نہیں کرتی ہے تو، عذاب کے خوف سے وہاں سے بھاگ گئے اور بیابانوں میں پناہ لے لی۔ لیکن کچھ لوگ باوجودیکہ ان کے کام کو ناپسند جانتے تھے، امربالمعروف و نہی عن المنکر پر عمل نہ کرتے ہوئے وہیں پر رہے، اس لحاظ سے وہ سب عذاب الہٰی سے دوچار ہوئے اور سرانجام مچھلی پکڑنے والے مسخ ہو کر بندروں کی شکل میں تبدیل ہوگئے۔ اور امربالمعروف نہ کرنے والے، سخت عذاب سے دوچار ہوئے، لیکن امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں نے نجات پائی۔۔ ۔ ۔ ” روایت کے آخر میں حضرت علی{ع} نے فرمایا: قسم اس خدا کی جو ایک دانہ کو مٹی کے اندر سے پودے کی شکل میں باہر لاتا ہے اور جس نے انسان کو پید اکیا ہے، بیشک میں اس امت کے ان افراد کو پہچانتا ہوں جنہوں نے نہ انکار کیا اور نہ اپنے عقیدہ میں تبدیلی لائی، بلکہ انہوں نے بھی خدا کے حکم کی نافرمانی کی  ہے اور دنیا میں پراگندہ ہوئے ہیں اور خداوندمتعال نے ارشاد فرمایا ہے: “پس ظالم گروہ پر نفرین ہو[2]” اور اسی طرح فرمایا ہے: ” ہم نے نہی عن المنکر کرنے والوں کو نجات دیدی اور ظالموں کو بُرے عذاب سے دوچار کیا ہے، کیونکہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔”[3]، [4]

اگرچہ یہ مسئلہ یہودیوں کے بارے میں ہے، لیکن آیہ شریفہ کا حکم ان تمام افراد کے لیے ہے جو خداوندمتعال کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں، یہودیوں کا یہ کام بعض سود خواروں کے مانند ہے جو بظاہر خرید و فروخت کے بہانے سے سود کے پیسوں کے مقابلے میں ایک ماچس کی ڈبیا کو فروخت کر کے اپنی سود خواری کی توجیہ کرتے ہیں اسی طرح رشوت خوار اپنے برے کام کی “حق الزحمت” کے عنوان سے توجیہ کرتے ہیں؛

لیکن سوال کے دوسرے حصہ کے بارے میں کہنا چاہے کہ، عیسائیوں کے اتوار کے دن سزا کے بارے میں ہمیں اسلامی کتابوں میں کوئی روایت نہیں ملی ہے۔ اس سلسلہ میں جو بعض تفسیروں میں آیا ہے وہ یوں ہے:

“اکثر عیسائی سنیچر کے بارے میں کوئی خاص توجہ نہیں رکھتے ہیں، بلکہ اتوار کے دن تعطیل کرتے ہیں، کیونکہ ان کا اعتقاد ہے کہ حضرت عیسیٰ{ع} جمعہ کے دن شہید ہوئے ہیں اور وہ تین دن کے بعد عالم ارواح سے اٹھ کر اپنے شاگردں  میں ظاہر ہوئے ہیں۔ اس بنا پر حضرت عیسیٰ{ع} نے یکشنبہ کے دن قیام کیا ہے اور عیسائیوں کے لیے وہ دن مذہبی عید ہے۔

بعض عیسائی جو سبتیون{سنیچر والے} کے نام سے مشہور ہیں، یہودیوں کا جیسا اعتقاد رکھتے ہیں کہ سنیچر ایک مقدس دن ہے ، اس لیے اس دن کوئی کام نہیں کرتے ہیں اور اتوار کے دن کام کرتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ انجیل کی آیات کے مطابق ، تورات کے دس احکام اپنی جگہ پر باقی ہیں اور حضرت عیسی ان کو مکمل اور نافذ کرنے کے لیے آئے تھے[5]۔

اس موضوع سے متعلق عنوان:

رابطۀبوزینهشدنو ماهی گیری در روز شنبه، 6479 {سائٹ:6912}

 


[1]ان آیات کی مکمل تفسیر سے آگاہ ہونے کے لیے ملاحظہ ہو: سافت ویر “جامع تفاسیر” ۔ مرکز تحقیقات کمپیوٹری علوم اسلامی قم۔

[4]ملاحظہ ہو: قمی، علی بن ابراهیم بن هاشم، تفسیر قمی، ص 244، مؤسسة دار الکتاب، قم،  1404ق.

[5]ملاحظہ ہو: بلاغی، سید عبد الحجت، حجة التفاسیر و بلاغ الإکسیر، ج 2،(مقدمه)، ص 765، انتشارات حکمت، قم، 1386 ق.

 

تبصرے
Loading...