سلام علیکم ، دوسروں پر لعنت بھیجنے اور تکفیر کرنے کے کیا اثرات ہوتے ہیں، جبکہ ناحق ہو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

ہم، سوال میں کیے گیے موضوع کی، چند محوروں کے تحت تحقیق کرتے ہیں:

۱۔ دوسروں پر لعنت بھیجنا اور نفرین و تکفیر کرنا اور بُرا بھلا کہنا ، جبکہ طرف  مقابل تکفیر و لعنت وغیرہ کا مستحق نہ ہو، قدرتی ہے ایسے کام کی شرع مقدس اسلام اور دینی تعلیمات میں ممانعت کی گئی ہے اور ایسے شخص کے لیے عذاب اخروی بھی ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف اسلام کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے،جس کے احکام  حکمت و مصلحت کی بنا پر ہیں، بلکہ کوئی انسان اور غیر الہٰی قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا ہے اور انسانوں کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ دوسرے باشندوں کے ذاتی معاملات میں مداخلت کریں، بلکہ ایسا کام کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی بھی کی جاتی ہے۔

۲۔ اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ باایمان انسان ، نہ صرف ان چیزوں کو زبان پر جاری نہیں کرتے ہیں، جو گناہ ہوں اور کسی کی حق تلفی ہوں، بلکہ ان باتوں کو بھی زبان پر جاری نہیں کرتے ہیں جو گناہ اور منفی نہیں ہیں اور اصطلاح میں انہیں لغو کہتے ہیں۔ قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے: ” یقیناً صاحب ایمان کامیاب ہوگیے اور لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں۔[1]” یہ آیھ شریفہ کہتی ہے کہ درحقیقت مومنین ایسے تربیت ہوئے ہیں کہ نہ صرف باطل تصورات اور بے بنیاد باتوں اور بیہودہ کام انجام نہیں دیتے ہیں، بلکہ قرآن مجید کی تعبیر میں ان سے پرہیز کرتے ہیں، دوسروں کو لعن و تکفیر کرنے کی بات ہی نہیں۔

۳۔ ہماری دینی تعلیمات مین اس قسم کے کاموں کی ممانعت کے علاوہ ، دینی پیشواوں کی ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ : اگر کوئی کسی پر لعنت بھیجے اور وہ شخص لعنت کا مستحق نہ ہو تو یہ لعنت، اسی لعنت کرنے والے کی طرف پلٹتی ہے:وَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَعَنَ رَجُلٌ الرِّيحَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ (ص) فَقَالَ لَا تَلْعَنِ الرِّيحَ فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ وَ إِنَّهُ مَنْ لَعَنَ شَيْئاً لَيْسَ لَهُ بِأَهْلٍ رَجَعَتِ اللَّعْنَةُ عَلَيْهِ”[2]

” ایک شخص نے رسول خدا{ص} کے سامنے ہوا پر لعنت بھیجی،رسول خدا{ص} نے فرمایا: ہوا پر لعنت نہ بھیجو، کیونکہ وہ خدا کی طرف سے مامور ہے اور بیشک جو کسی پر لعنت کرے اور وہ مستحق لعنت نہ ہو، تو وہ لعنت، لعنت کرنے والے کی طرف پلٹتی ہے۔”

اس روایت سے واضح ہے کہ ہوا پر لعنت کی گئی ہے اور اس کے خلاف برا بھلا کہا گیا ہے،نہ کہ انسان پر کہ جس کا احترام خانہ کعبہ کے احترام کے مانند ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے کردار و گفتار کے بارے میں ہوشیار  رہنا چاہئیے اور کسی دلیل اور شرعی حجت کے بغیر کسی کام کا اقدام نہ کریں۔

۴۔ البتہ اس نکتہ کی طرف یاددہانی کرنا ضروری ہے کہ اولیائے الہٰی کو اذیت پہنچانے والوں پر لعنت کرنا، نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کی ترجیح بھی ہے۔ لیکن جو کچھ بیان کیا گیا، مذکورہ سوال کے پیش نظر، ان افراد کے بارے میں ہے جو ناحق دوسروں پر لعنت بھیجتے ہیں اور تکفیر کرتے ہیں اور مختلف شخصیتوں کو چیلینج کرتے ہیں، نہ کہ ان لوگوں پر جنہوں نے انبیا و اولیائے الہٰی  کو اذیت پہنچائی ہے کہ ان پر خدا اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد الہٰی ہے: ” جو لوگ ہمارے نازل کیے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کر دینے کے بعد بھی چھپاتے ہیں اور ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔[3]

 


[1]مؤمنون، ۱-۲ ” حقیقت میں لغو ، بعض مفسرین کے بقول ہر وہ گفتار و عمل ہے کہ جس کا قابل ملاحظہ فائدہ نہ ہو۔ ۔ “، مکارم، ناصر، تفسير نمونه، ج‏14، ص 195، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1372ش.

[2]کلینی، کافی، ج 8، ص 69، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1368ش.

 

تبصرے
Loading...