سائنس اور دین کس طرح موافقت برقرار کی جاسکتی ھے؟

جو افراد دین اور سائنس کو دو متناقض راستے جانتے ھیں اس کا سبب یھ ھے کھ انھیں ادیان الھی خصوصا دین مبین اسلام اور اسکی ذمھ داری کے دائرے کا اندازه نھیں ھے اور وه لوگ نھیں جانتے ھیں کھ وه کون سا دین ھے جس کی علم اور ٹیکنالوجی کے ساتھه کوئی مخالفت نھیں ھے

دین ایک عام لفظ ھے، جو سب ادیان آسمانی یا غیر آسمانی ، تحریف شده یا غیر تحریف شده ( جیسے اسلام ) کو شامل ھے۔ ھمارے نظریھ کے مطابق صرف اسلام ھی ایسا دین ھے جو ھر زمانے اور وقت میں ایک مثبت کردار ادا کرسکتا ھے۔ جبکھ دوسرے ادیان اس طرح کی صلاحیت سے محروم ھیں کیوں کھ صرف اسلام ھی سب سے کامل اور خاتم دین ھے ۔

بنیادی طور پر دین کی کارکردگی علم کی کارکردگی کے دائرے سے بالکل مختلف ھے۔ انسان کےلئے ضرورتِ دین کی دلیل ایسے امور کا موجود ھونا ھے جنھیں حاصل کرنے میں انسان کی عقل ، حس اور اس کا تجربھ کافی نھیں ھے۔ یھ مطلب ، یعنی انسان کے ادراکی آلات کا محدود ھونا فلسفیانھ بحثوں میں عقل کی تائید کو پھنچا ھے، اور قرآن مجید نے بھی، اس کی جانب اشاره کیا ھے ۔ قرآن فرماتا ھے ۔ “علمکم ما لم تکونوا تعلمون”[1] آپ کو وه چیزیں سکھائیں جنھیں آپ نھیں جانتے تھے اس خصوصیت کے ساتھه انسان کبھی بھی ایک ایسے نقطھ تک نھیں پھنچ سکتا جھاں پر وه دین سے بے نیاز ھو۔ دین نے تین شعبوں میں انسان کےلئے لائحھ عمل پیش کیا ھے اور یھ تین طرح کے رابطوں کو صحیح کرنے کےلئے آیا ھے۔

الف) انسان کا اپنے ساتھه رابطھ۔

ب) انسان کا دوسروں کے ساتھه رابطھ۔

ج) انسان کا خدا کے ساتھه رابطھ۔

اس لحاظ سے دین آخرت کی طرف توجھ کرنے کے ساتھه ساتھه دنیا کی جانب بھی توجھ کرتا ھے۔ اسلام ایک ایسی دنیا کو آباد کرنا چاھتا ھے جس میں آخرت بھی آباد ھوجائے اور یھ چیز دنیاوی اخلاق کے عھدے سے باھر ھے ۔ دین دل کی طرف بھی توجھ کرتا ھے اور عقل کی طرف بھی۔ سائنس، کس طرح ایک ایسے انسان کی سعادت کے بارے میں ایک جامع دستور العمل پیش کرسکتی ھے، جب کھ وه انسانی وجود کے ابعاد کو پوری طرح سے نھیں پھچان سکی ھے۔

اگرچھ انسانی علوم کار آمد ھیں لیکن یھ علوم اکیلے ھی کسی مناسب طریقھ کار کو تشکیل دینے میں ھماری مدد نھیں کرسکتے ھیں اور ھر طرح کے مذھب فلسفھ اور نظام تشکیل دینے سے عاجز ھیں جبکھ انسان کو ھر چیز سے پھلے دستور العمل اور مذھب کی ضرورت ھے اور اس کے بعد طریقھ کار کی ، اسلام نے طریقھ کار کو تشکیل دینا خود انسان کے اوپر چھوڑا ھے۔ اور دین ایسے امور کو بیان کرتا ھے جنھیں علم اکیلا سنبھالنے پر قادر نھیں۔

ٹیکنالوجی کی ترقی سے دین کی قانون گزاری اور اس کا دستور وسیع تر ھوجاتا ھے اور نئے موضوعات کے انکشاف سے ھوشمند اسلامی فقھاء ، نئے موضوعات کے احکام کو فقھ کے بے نیاز منابع سے استنباط کرتے ھیں۔ اسلامی ثقافت میں اجتھاد کے وسیع دائرے کے ھوتے ھوئے اسلامی احکام کے زمانه اور ماڈرن انسان کی ضرورتوں کے مطابق ھونے میں کسی طرح کے شک و شبھھ کی گنجائش نھیں ھے۔

دوسری جانب اگر یھ بات صحیح ھوتی کھ علم اور ٹیکنالوجی کی ترقی انسان کو دین سے بے نیاز کردیتی ھے تو ظھور اسلام کے ایک صدی یا دو صدیوں کے کے بعد ھی ، انسان دین سےبے نیاز ھونے کو ثابت کردیتا ، اور اپنی عقل کے مطابق باقی راستھ طے کرلیتا ۔ جبکھ عصری تاریخ اس بات کے باطل ھونے کی واضح دلیل ھے۔ انسان کو نھ صرف دین سے بے نیازی کا احساس نھیں ھے بلکھ رنسانس (Renaissance ) (یورپ کی نشأۃ ثانیھ ۱۴ سے ۱۶ صدی عیسوی )  کے بعد دین سے مقابله کرنے میں اور اس سلسلے میں بھت زیاده تلخیاں اٹھا کر آج کے دور میں ھر لحظھ دین سے نزدیک تر ھوتا جارھا ھے کیونکھ وه اس کی ضرورت کا احساس کررھا ھے۔

اس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے  رجوع کریں۔

۱۔ دین اسلام کی خاتمیت کے اسرار، سوال نمبر ۳۸۶۔

۲۔ دین اور تغیر ، سوال نمبر ۸

۳۔ اسلام اور ایک دستور کی ضرورت ، سوال نمبر ۱۶۔

۴۔ اسلام اور نظریھ اندیشھ مدون۔ سوال نمبر ۱۷۔

۵۔ علم اور دین کا آپسی تقابل ، سوال ۲۱۰۔

۶۔ ولایت اور دیانت ص ۵۶، ۱۳۔ موسسھ فرھنگی خانھ خرد۔

۷۔ ھادوی تھرانی ، مھدی ، باورھا و پرسشھا ، مجموع کتاب، موسسھ فرھنگی خانھ خرد۔

۸۔ ھادوی تھرانی ، مھدی ، مبانی کلامی اجتھاد ، مجموع کتاب موسسھ فرھنگی خانھ خرد۔ 1۴



[1]  سوره بقره / ۲۳۹

تبصرے
Loading...