دین سے بھاگنے والے افراد کی کس طرح راھنمائی کی جاسکتی ھے؟

سب سےبھترین طریقھ جو  ایسے افراد کو بتایا جاسکتا ھے وه یوں ھے:

۱۔ اسے سمجھائیں کھ جو نعمتیں خدا نے ھمیں عطا کی ھیں ۔ انسان کی اپنی خلقت سے لے کر دوسری نعمتیں، جو ھمارے اختیار میں ھیں۔ کیا ھمارے ساتھه یھ خدا کی  محبت کی نشانیاں نھیں ھیں۔ پس ھمیں خدا سے دوری کرنے کی کیا ضرورت ھے؟

اگر کبھی خداوند متعال ھم سے یھ نعمتیں چھین لے تو کیا ھم خود یا کوئی اور آدمی ان نعمتوں کو واپس لاسکتا ھے۔

اس کے علاوه کیا انبیاء اور دین کا مقصد اس کے علاوه کچھه اور ھے کھ انسان سعادت اور خوش بختی تک پھنچ جائے۔ ، ماھرین نفسانیات کے نزدیک یھ بات قطعی اور مسلم ھے کھ اکثر روحانی اور ذھنی بیماریاں من جملھ ارادے کا ضعیف ھونا غیر مذھبی افراد کے درمیان اورجن لوگوں کو معنوی امور سے  کوئی رابطھ نھیں ھے۔ زیاده دیکھی جاتی ھے۔ کتاب” انسان موجود ناشناختھ” کے مصنف “آلیکس کارل” اپنے ایک مقالھ میں لکھتے ھیں ” انسان دعا، نماز کے ساتھه اپنے اندر ایک غیر معمولی طاقت پیدا  کرسکتا ھے ۔” میں نے اپنے فن طبابت میں بھت سے ایسے نا امید بیماروں کو دیکھا ھے جو دعا کی طاقت سے ٹھیک ھوگئے ھیں۔ دعا کے ذریعے اپنی محدود طاقت کو لامحدود طاقت سے ملا کر زیاده کیا جاسکتا ھے ” [1] نتیجھ یھ کھ ، کیا یھ عاقلانھ بات ھے کھ انسان اپنی سعادت اور خوش بختی سے دور چلا جائے؟ کیا سعادت سے دوری وھی پستی کی طرف جانا اور مجبور  ھونا نھیں؟

۲۔ اگر دین سے دوری کا عامل روح کا گناھوں اور معصیت سے آلوده ھونا ھے تو  جو طریقے علماء اخلاق نے بیان کئے ھیں (جیسے مشارطھ (عھدو پیمان) ، مراقبھ ، اور محاسبھ ) ان کے ذریعے اپنی روح کو پاک کرلے ، یعنی اپنے ساتھه عھد  کرے کھ گناه نھ کرنے ، اپنے کاموں میں خبردار ( مراقب ) رھنے اور اپنے کاموں کا حساب کرنے اور اپنی خطاؤں کو کم کرنے اور آخر میں انھیں چھوڑنے کی کوشش کرے گی ، کیوں کھ جو خدا کی معصیت کے ذریعے کسی کام کے پیچھے ھو تو جس چیز سے وه ھاتھه دھوبیٹھتا ھے وه زیاده ھے اس چیز کی بھ نسبت جسے وه حاصل کرتا ھے۔ اور جس سے وه دوری کرتا تھا اس میں جلدی ھی گرفتار ھوتا ھے۔ [2]

۳۔ اگر اس کی دین سے دوری کا سبب اس کا گھریلو ماحول ، غلط دوست ھیں تو  اسے یھ سوچنا چاھئے اور عاقلانھ فیصلھ کرنا چاھئے کھ جو دوست انسان کو خدا سے دور کرے وه انسان کی  خیر اور صلاح نھیں چاھتا ۔

۴۔ اگر کسی شخص کی دین سے دوری اس لئے ھے کھ وه دینی دستور کو مشکل اور پابند  کرنے کا سبب سمجھتا ھے تو اُس سے اِس سلسلے میں یھ کھنا مناسب کھ دین ھماری خیر اور صلاح کے بارے میں بات کرتا ھے۔ چونکھ ھم ان دستور و احکام کی حکمت کو نھیں جانتے ھیں۔ لھذا انھیں مشکل اور پابند بنانے والے سمجھتے ھیں جیسے کوئی ماں باپ اپنے بیٹے کو خطرنات کھیل سے روکتا ھے۔ اگرچھ یھ کھیل بچے کو پابند بناتا ھے اور مشکل نظر آتا ھے لیکن حقیقت میں اس کا نفع اور صلاح اسی میں ھے۔

۵۔ اگر وه ضد اور اپنے گھروالوں کے سلوک کے سبب ، دین سے دور ھوا ھے تو ان کے گھر والوں کو چاھئے کھ  نرمی اور مھربانی  سے  شوق دلا کر اسے دین کی طرف دعوت دیں، اور تعلقات کے توڑنے اور سختی سےپیش آنے اور آمرانھ باتوں سے انھیں پرھیز کرنا چاھئے۔

اس سلسلے میں مزید معلومات کیلئے رجوع کریں۔

۱۔ تنھائی ، لذت اور عشق، ،ظھیری ، علی اصغر۔

۲۔ پرسشھا اور پاسخ ھا۔ نھادی نمایندگی ولی فقیھ۔ ج ۹۔

۳۔ امام خمینی چھل حدیث۔

۴۔ میزان الحکمۃ ،

۵۔ حکمت و اندرزھا۔ مرتضی مطھری۔



[1]  کتاب تنھائی لذت اور عشق سے منقول ص ۲۳۔

[2]  میزان الحکمۃ ، ج ۴ ص ۱۸۸۴، ح ۶۵۵۳۔

تبصرے
Loading...