دوسرے سیاروں پر زندگی گزارنے کا کیا حکم ھے؟

دوسرے سیارات پر زندگی گزارنا ایک نیا موضوع ھے جو عصر حاضر میں ھی پیدا ھوا ھے اور دو لحاظ سے  لائق سوال ھے۔

۱۔ کیا دوسرے سیاروں پر زنده رھنا ممکن ھے؟ اس سوال کا جواب  علم نجوم اور علوم طبیعی کے دانشوروں کے ذمھ ھے۔

۲۔ جب دوسرے سیاروں پر زندگی کے امکانات ثابت ھوجائیں تو اس مسئلھ پر دوسرا سوال یه اٹھتا ھے کھ جو لوگ دوسرے سیاروں پر زندگی گزارتے ھیں ان کے فرائض کیا ھیں اور وه دینی احکام پر کس طرح عمل کرسکتے ھیں؟

اس سوال کا جواب، فقھاء اور مجتھدین اور اسلامی علوم کے دانشوروں کے ذمھ ھے جو آیات قرآنی، معتبر روایات اور اصول فقھ کے کلی قواعد کی روشنی میں اس سوال کا جواب دے سکتے ھیں۔ اور خوش قسمتی سے انھوں نے اس سلسلے میں اپنی ذمھ داری اچھی طرح سے نبھائی ھے۔

اسلام کے  کلی قواعد اور قوانین کے مطابق یھ حکم کرسکتے ھیں کھ ان ستاروں پر زندگی گزارنے میں کوئی اشکال نھیں ھے[1]۔ مگر یھ که فرد یا معاشره کیلئے کسی نقصان کا باعث بنے ، یا اور طرح کی مشکلات سامنے آئیں کھ اس صورت میں ان ھی کلی قوانین کے مطابق اس کا حکم تبدیل ھوتاھے۔

لیکن احکام پر کس طرح عمل کیا جائے۔ اس سلسلے میں یھ کھنا ضروری ھے کھ بعض مسائل جیسے قبلھ اور اوقاتِ پنجگانھ نماز کی پھچان وغیر کے سلسلے میں مراجع تقلید کے فتاوی سے استفاده کرنا چاھئے۔

نمونھ کے طورپر اس سلسلے میں ایک مرجع تقلید سے کئے گئے سوال کو ملاحظھ کیجئے۔

سوال : آجکل کے ترقی یافتھ دور میں انسان ۲۴ گھنٹوں کے اندر زمین کے گرد چند مرتبھ گھوم سکتا ھے۔ اس صورت میں نماز پنچگانھ کے بارے میں اس کا کیا فرض ھے؟

جواب: اگر کوئی راکٹ کے ذریعے زمین کے گرد چکر لگائے ، تو اسے چاھئے کھ پانچ نمازیں ۲۴ گھنٹوں میں بجا لائے۔ اور اس کا پیمانھ  زمین کے اوپر اس کا وطن ھوگا۔[2]

آخری بات یھ کھ اسلام ھمیشھ انسانی زندگی اور اس میں واقع تبدیلیوں کو کھلے ذھن اور مثبت نظر سے دیکھتا ھے۔ قرآنی آیات چاند اور سورج کو مسخر کرنے کی خبر دیتے ھیں۔ [3] اور یھ بات مسلم ھے کھ مسخر کا مطلب آسمان کی جانب ایک راکٹ کے بھیجنے سے کهیں زیاده ھے۔ قرآن مجید ، مچھلی کے پیٹ سے خبر دیتا ھے اگر یونس کو خدا نھیں بخشتا۔ تو قیامت تک اس میں زندگی گزارتے یھ چیز ایسی ھے کھ آج بھی انسان کا ذھن نھیں پھونچ پاتا ھے۔[4]

علوم کو حاصل کرنے میں ایرانیوں کی رفعتوں کے بارے میں رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے فرمودات بھت زیاده ھیں۔ ھم امید کرتے ھیں کھ انشاء اللھ وه جلدی ھی متحقق ھوں گی ، ایک روایت میں پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم فرماتے ھیں۔ اگر علم ، ثریا (پروین، وه سات ستارے جو باھم متصل واقع ھیں ) میں ھوگا اس مرد ( سلمان فارسی) کی قوم اسے حاصل کرے  گی۔ [5]



[1]  جیسے کھ اس مورد میں جھان حکم مجھول ھو ھم “قاعده اصالۃ البرائۃ ” جاری کرتے ھیں۔ حکیم ، سید محسن ، حقائق الاصول ، ج ۲ ص ۲۳۳۔

[2]  مکارم شیرازی ، استفتائات جدید۔ ج ۲ ص ۷۴۔

[3]  سوره ابراھیم / ۳۳، سوه نحل / ۱۲ سوره ابراھیم / ۳۲۔ سوره نحل / ۱۴۔

[4] ان کی داستان سوره صافات آیات نمبر ۱۴۸ ۔۔ ۱۳۹ میں آئی ھے۔

[5]  شیخ عباس قمی ، سفینۃ البحار، ج ۲ ص ۷۰۷۔

تبصرے
Loading...