داڑھی مونڈنے اور جسم کے بالوں کے مونڈنے کا کیا حکم ھے۔

صرف چھرے کے بالوں ( داڑھی ) [1] کو بلیڈ سے یا ریزر(اُسترا ) سے اس طرح صاف کرنا کھ دوسرے لوگ کھیں کھ اس کے چھرے پر داڑھی نھیں ھے احتیاط واجب کی بنا پر جائز نھیں ھے۔ [2] البتھ داڑھی کا بعض حصھ مونڈنا بھی پوری داڑھی مونڈنے کے حکم میں ھے۔ [3]

لھذا حلق ، گالوں ، گردن کے بالوں کو مونڈنا جنھیں داڑھی نھیں کھتے اور اس طرح بغلوں کے بالوں کو مذکوره آلات سے مونڈنے میں کوئی اشکال نھیں ھے۔

یھ بات قابل ذکر ھے کھ اسلام نے صفائی پر خاص تاکید کی ھے اور جسم کے فاضل بالوں کو مونڈنے پر تاکید کی گئی ھے ۔

یھاں پر حفظان صحت کے نکات کی جانب اشاره کرتے ھیں۔

۱۔ سر کے بالوں کو کاٹنا ، یا انھیں صفائی کے ساتھه رکھنا مستحب ھے۔ [4]

۲ ۔ مونچوں کو کاٹنا [5] یا ھونٹوں کے اوپر والے بالوں کا تراشنا [6]   ناک کے بالوں[7] اور بغل کے نیچے والے [8] بالوں کو مونڈنا مستحب ھے۔

۳۔ ٹانگوں کے درمیان بالوں کو کاٹنا اور شرمگاه کے بالوں کو مونڈنا خداوند متعال کی ذات اور روز جزا پر ایمان کی علامت میں سے ھے اور یھ رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی سنت ھے۔

۴۔ جسم کے زیریں حصوں کے بالوں کا مونڈنا ، پاکی اور دوسرے جسمانی اور ذھنی خصوصیات کا سبب بنتا ھے اور ان بالوں کا بڑھانا جسمانی اور روحانی نقصانات کا سبب بنتا ھے۔[9]



[1]  مردوں کے چھرے پر داڑھی حضرت آدم کی دعا کے بعد آئی جس میں انھوں نے عرض کیا ، پروردگارا میرے حسن اور خوبصورتی کو زیاده فرما اور خداوند متعال نے خطاب کیا کھ داڑھی کو قیامت تک تمھارے اور تمھارے فرزندوں کی زینت بنایا ھے۔

 حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم سے ایک روایت میں آیا ھے کھ اپنی داڑھیوں کو زیاده رکھو تاکھ یھودیوں اور کافروں کے مانند نھ ھوجاؤ۔

[2]  استفتائات حضرت امام خمینی ، ج ۲ (مکاسب محرمھ ) صفحھ ۳۰ ، سوال ۷۹، سوال ۳۱، صفحھ ۸۱ ، صفحھ ۳۲۔ صوال ۸۴۔

[3]  کیا فرنج کٹ ( صرف ٹھوڑی کی داڑھی ) رکھنا کافی ؟

حضرت آیۃ اللھ تبریزی (رح ) اور حضرت آیۃ اللھ مکارم شیرازی (حفظھ اللھ ) کے علاوه سب مراجع تقلید فرماتے ھیں : کافی نھیں ھے۔ بلکھ   بعض چھرے کی داڑھی کو مونڈنا پوری داڑھی کے مونڈنے کے حکم میں ھے۔ ا، استفتاءات، ج 2، مکاسب محرمه، س 84؛ آیت‏الله وحید، منهاج الصالحین، ج 3، م 43؛ آیت‏الله العظمی خامنه‏ای، اجوبة الاستفتاءات، س 1413؛ آیت‏الله سیستانی؛ Sistani.org، ریش تراش(داڑھی مونڈنا)، س 1 و 3؛ آیت‏الله صافی، جامع الاحکام، ج 2، س 1743؛ آیت‏الله بهجت، توضیح‏المسائل، متفرقه، س 4؛ آیت‏الله نوری، استفتاءات، ج 1، س 492 و 493 و آیت‏الله فاضل لنکرانی، جامع المسائل، ج 1، س 957 و 955.

 حضرت آیۃ اللھ تبریزی اور آیۃ اللھ مکارم شیرازی : اگر ٹھوڑی اور اس کے ارد گرد میں چھرے کے ایک چوتھائی حصھ میں مونڈا نھ جائے اس طرح کھ سامنے والے کھیں کھ اس نے داڑھی رکھی ھے کافی ھے۔ آیت ‏الله مکارم ، استفتائات ج ۲، ص ۷۵۱، اور آیۃ ‏الله تبریزی ، استفتائات س ۱۰۷۸۔ 

[4]  حلیۃ المتقین ، باب پنجم ، فصل سوم

[5]  روایات میں وارد ھوا ھے : مونچوں کو مونڈنا رسول اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی سنت ھے ، اور بڑی مونچھیں شیطان کا گھر ھے، اور مونچھوں کا کاٹنا رزق کے زیاده ھونے کا ، غم کے دور ھونے وسوسھ اور کوڑھ کی بیماری سے امان کا سبب ھے جو مونچوں کو نھ کاٹے وه ھم میں سے نھیں ھے۔

[6]   ناک کے بالوں کو کاٹنا چھرے کی خوبصورتی کا سبب ھے۔

[7]  بغلوں کے بالوں کو شیطان کی جگھ جانا گیا ھے، البتھ ان کے مونڈنے کے بارے میں آیا ھے کھ ان کو دوائی سے اٹھانا ان کے مونڈنے سے بھتر ھے اور مونڈنا نکالنے سے بھتر ھے۔

[8]   اس کا مونڈنا ایمان کی نشانیوںمیں سے ھے ۔

[9]  بدن کے بالوں کو کاٹنا بدن کی قوت بڑھ جانے اور پریشانی اور رنجیدگی دور ھونے کا سبب ھے اور بدن کی پاکی انبیاء کے اخلاق میں سے ھے۔

تبصرے
Loading...