خدا کی وحدانیت اور مہربانی کے ساتھ خیر وشر کا وجود کیسے موافق ہے؟

اس سوال کے جواب کی تشریح پیش کرنے کے لئے ہمیں مندرجہ ذیل نکات کی وضاحت کر نا ضروری ہے:

۱-یہ عالم اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس میں موجود مخلوقات ایک دوسرے سےالگ ا ور آزادنہیں ہیں، اس عالم کے تمام اجزاء کی اگر ہم تحقیق کریں تو معلوم ھو گا کہ یہ سب اجزاء ایک زنجیر کی کڑیوں کے  مانند آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور ان کا مجموعہ خلقت کا ایک خوبصورت نظام ہے، پھول کا یہ جو پودا کسی گل دان میں رکھا جاتا ہے، جو درخت باغ میں سرسبز ھوتا ہے، جو بچہ گہوارہ میں ھوا کرتا ہے اور تمام چیزیں جو ہمارے ارد گرد موجود ہیں، کیسے پیدا ھوئی ہیں؟ مثال کے طور پر کیا ایک پھول کا پودا، ہماری آبیاری کے بغیر سر سبز ھو سکتا ہے؟ پس اس پھول کے پودے کا زندہ اور سر سبز رہنا ہماری آبیاری پر منحصر ہے، اور بیج بوئے بغیر یا نہال لگائے بغیر ہر گز یہ پھول پیدا نہیں ھوتا – خود یہ پھول بھی ہوا میں موجود آکسیجن اور دوسری گیسوں سے استفادہ کرتا ہے اور اگر یہ گیسیں نہ ھوتیں تو یہ پھول اپنے وجود کوجاری نہیں رکھ سکتا ہے اور البتہ اس پھول کا وجود بھی بذات خود آب و ہوا کے بغییر میں موثر ہے- یعنی گیسوں کی باہمی نسبت میں تبدیلی پیدا کرتا ہے، اگر یہ پھول ہوا سے آکسیجن لیتا ہے ، اور ہوا میں آکسیجن گیس کم ھوتی ہے، اور جب کسی دوسری گیس کو لیتا ہے تو ہوا میں آکسیجن گیس بڑھتی ہے ، پس یہی پھول اپنے جوار میں موجود ہوا کے ساتھ رابطہ میں ہے اور ہوا اس پھول کے پودے سے جدا اور آزاد نہیں ہے – یہی رابطہ حیوانوں میں بھی پایا جاتا ہے – حتی کہ اگر ہم بےجان مخلوقات کو دیکھیں، تو ہم مشاہدہ کر تے ہیں کہ ہر مظہر اپنے سے پہلے کسی مظہر کے فعل و انفعال کے نتیجہ میں پیدا ھوا ہے اور وہ بھی بذات خود اپنے اطراف میں موجود مظاہر پر اثر انداز ھوتا ہے اور دوسرے مظاہر کے ظہور میں آنے کا مادہ بن جاتا ہے- سورج کی کرنیں پانی پر پڑتی ہیں، پانی بھاپ میں تبدیل ھوتا ہے اور بھاپ بادل میں تبدیل ھوتی ہے اور بادل پانی برساتے ہیں اور اس بارش سے زر خیز کھیتوں میں ہزاروں قسم کے پھول اور نعمتیں پیدا ھوتی ہیں، لیکن جو کھیت اس بارش کو جذب کرنے کی استعداد کو کھو چکے ھوں، وہ اس بارش کو تباہی مچانے والے سیلاب میں تبدیل کرتے ہیں- یہ نظام، کائنات پر حکم فرما ہے، ہم آہنگ، اثر انداز اور اثر پذیر نظام ایک ایسی چیز ہے، جس کے لئے فلسفیانہ برہان کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق اس قسم کے نظام کے ارتباط، خوبصورتی اور یگانگی کو پہچان سکتا ہے- البتہ جس قدر ہماری معلومات دقیق اور وسیع تر ھوں، ہم اس نظام کی ہم آہنگی اور خوبی کو زیادہ سمجھ سکتے ہیں، اس بنا پر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس کائنات میں کئ خدا موجود ہیں، مثال کے طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ پانی اور بارش کا ایک خدا ہے اور سیلاب و زلزلہ کا کوئی دوسرا خدا ہے- مگر سیلاب کیا ہے؟ البتہ اگر سیلاب و زلزلہ ایک نظام اور سورج کی گرمی اور روشنی اور گردش دوسرے نظام کی پیروی کرتے، تو ہم ایسی بات کو قبول کرتے-[1]

۲ – محبت اور رحمت الہی، جو اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ، انسان اور ہر مخلوق کی اس کے کمال تک راہنمائی کرے[2]، لیکن انسان کی ترقی اور کمال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہر جہت سے آرام و آسائش میں بسر کرتا ھو، بلکہ کمال تک پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو نا ہموار اور دشوار راہوں پر ڈالا جائے اور وہ مشکلات اور نا مناسب حالات سے مقابلہ کرے اور اس طرح کمال تک پہنچ جائے، بہ الفاظ دیگرایسے حالات میں انسان کی استعداد کی کلیاں کھلتی ہیں-

۳-عالم ہستی میں مطلق شر {یعنی وہ چیز جو ہرجہت سے بد صورت ھو اور اس میں کسی قسم کا خیر نہ ھو} موجود نہیں ہے بلکہ اگر کوئی چیز کسی لحاظ سے شر ھو، وہی چیز دوسرے لحاظ سے خیر ھوتی ہے، اور اس وجہ سے اس چیز کو بد صورت فرض نہیں کیا جاسکتا ہے ، ایک جراحی کا کام بعض لحاظ سے تکلیف دہ ھوتا ہے لیکن مجموعی طور پر ہر عقلمند انسان اس کام کو ایک صحیح اور نیک کام جانتا ہے-

۴-اس کائنات کی خلقت میں بظاہر بد صورت اور نا پسند امور میں ایک فلسفہ مضمر ہے کہ ہم یہاں پر اجمالی طور پر ان امور میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:[3]

الف} اگر نعمتیں، مساوی اور یکساں ھوتیں،تو وہ اپنی قدر و منزلت کھو دیتیں، اگر پوری زندگی میں بیماری نہ ھوتی، تو انسان  ہرگز تندرستی کی قدر نہ کرتا، بنیادی طور پر یکساں زندگی، تھکا دینے والی اور جان لیوا ھوتی ہے- عالم طبیعت کیوں اس قدر خوبصورت ہے؟ پہاڑوں پر اگے ھوئے جنگلوں کے مناظر، اور چھوٹے بڑے درختوں کے بیچ میں سے بہنے والی ندیاں کیوں اس قدر زیبا اور دلکش ہیں؟ ان کی ایک واضح دلیل ان کی عدم یکسانیت ہے-” نور” “ظلمت” کا نظام اورشب و روزکی رفت آمد، جس کا قرآن مجید نے بھی تکر کیا ہے، کا ایک اہم نتیجہ یکساں زندگی کو خاتمہ بخشنا ہے- مشکلات وناگوار حوادث کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ باقی زندگی کو روح و جان بخشتا ہے اور اسے شیرین اور قابل برداشت بناتاہے اور نعمتوں کی قدر و قیمت کو ظاہر کرتا ہے-

پس اگر چہ اس دنیا میں بعض چیزیں بظاہر بد صورت اور غیر ہم آہنگ نظر آتی ہیں، لیکن باطن میں زیبائی اور رحمت الہی کے علاوہ کچھ نہیں ہیں-

ب} اگر بظاہر اس شر اور بدصورتی میں سےبہت سی چیزیں نہ ہو تیں، تو انسان کبھی اپنے اطراف کی دنیا میں موجود امور فطرت کو پہچاننے کی ہمت نہیں کرتا ، فطرت کو پہچاننا، جس کا نتیجہ انسان اوراس کے خالق کو پہچانناہے، اس قدر گراں قیمت ا ور قابل قدر ہے کہ کائنات کی پوری فطرت اس کے مقابلے میں حقیر ہے، مثال کے طور پر ہیرے کے ایک دانہ کوحاصل کر نے کے لئےٹنوں وزن کی مٹی اور پتھروں کو ہٹانا پڑتا ہے-جو کچھ اس کائنات میں ہے، وہ سب اس چیز کی تمہید ہے کہ ایک ایسا انسان پیدا ہو جا ئے، جو انتخاب کر نے والا ہو اور اس کا کمال خود اس کے انتخاب سے حاصل ہونا چاہئے، یہ سب نقائص اور بد صورتیاں موجود ہو نی چاہئیں، تاکہ انسان کے کمال وترقی کے  حالات پیدا ہو جائیں-

پس اس کائنات کا وحدہ لاشریک پروردگارہے، جو رحمت والا اور مہربان ہے اور ہر مظہر اپنے وجودی ظرف میں زیبا اور خیر ہے –

 


[1] شناخت اسلام، شهید بهشتی و دیگران، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، هفتم، 1370طبع ہفتم، ۱۳۷۰ ھ ش، ص 55 – 86؛ معارف قرآن، استاد محمد تقی مصباح، قم، جامعه مدرسین، چاپ دوم 1374، ص 84 – 85 و ص 92 – 93 – 217؛ محاضرات فی الالهیات، استاد جعفر سبحانی ( به تلخیص علی ربانی گلپایگانی قم، جامعه مدرسین، طبع ششم 1418 ھ، ص 21؛ بدایه المعارف الالهیه فی شرح عقاید الامامیه، سید محسن خرازی، قم جامعه مدرسین، طبع اول، ص 37.

[2] کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، علامه حلی، به تحقیق علامه حسن حسن زاده آملی، قم، جامعه مدرسین،طبع  هشتم 1419ھ، ص 444 – 449؛ تقریب المعارف فی الکلام، شیخ تقی الدین ابی الصلاح حلبی، تحقیق رضا استادی، قم، جامعه مدرسین، 1363، ص 42 – 65 – 82؛ الذخیره فی الکلام، شریف المرتضی علم الهدی، به تحقیق سید احمد حسینی، قم، جامعه مدرسین، نوبت چاپ نامعلوم، تاریخ طبع 1411 ھ، ص 186.

[3] نجاه درس اصول عقاید برای جوانان، استاد ناصر مکارم شیرازی، قم مطبوعاتی هدف، طبع چهارم 1370، ص 93 – 107؛ مبانی تفکر شیعه، محمد رضا مظفر ترجمه دکتر جمال موسوی، تهران، کتابخانه بزرگ اسلامی نوبت و تاریخ چاپ نامعلوم، ص 43 – 49.

 

تبصرے
Loading...