حقیقتاً اسلام میں عقل وعقلمندی کی جگه کهاں پر هے؟

مطلب کو واضح کر نے کے لئے پهلے ضروری هے که دینی مسائل کے بارے میں بعض غلط فهمیوں کو دور کیا جائے –جیسے که یهاں پر بیان کیا گیا هے –اولاً : کهاں پر اور کس دینی کتاب میں آیا هے که بیٹے کا باپ کے هاتهوں قتل کیا جانا جائز هے؟ !

یه ایک غلط تصور هے – کسی بھی فقیه نے اس قسم کے حکم کا فتوی نهیں دیا هے –جس چیز کا فقها نے فتوی دیا هے وه یه هے که اگر کهیں ایسا واقعه رونما هوا اور ایک بیٹا اپنے باپ کے هاتهوں قتل هوا ، تو کیا اس فعل حرام کے لئے باپ سے قصاص لیا جائے گا یا نه ؟ یهاں پر فقهانے کها هے که باپ سے قصاص نهیں لیا جاسکتا هے- اس کے یه معنی نهیں هیں که باپ کے هاتهوں بیٹے کا قتل کیا جانا جائز هے اور جب چاهے اپنے بیٹے کو قتل کر سکتا هے –

ثانیاً: یه که بعض لوگ احکام کی بعض علتوں کو معقول نهیں جانتے هیں اور ان علتوں کو عقلی طور پر قبول نهیں کرتے هیں ، یه اس مسئله کے لئے کوئی مشکل نهیں هے، کیونکه جو عقل اسلام کے فلسفی اور کلامی اصطلاح میں مد نظر هے ، اس کی خاص خصوصیتیں هیں ، جن پر اپنی جگه پر بحث کی گئی هے- یه ضروری نهیں هے که احکام لا فلسفه حتماً هر شخص کے لئے قابل قبول هو! اس لئے یهاں پر عقل سے مراد عام اصطلاح کی عقل نهیں هے-

ثالثاً : بعض لوگوں کی طرف سے احکام کی بعض علتوں کو قبول نه کر نا، ان کے لئے دین سے خارج هو نے کا سبب نهیں بن سکتا هے – اس مقدمه کو بیان کر نے کے بعد هم کهتے هیں :

اصطلاح میں ، عقل ایک بسیط جوهر هے که لوگ اس کے ذریعه حقائق کو پاتے هیں – اس بناپر عقل حقیقت کو پانا هے – حقائق کو پانے کے علاوه ، عقل ،نفس ناطقه کی حفاظت کر نے والی اور اسے شرف بخشنے والی بھی هے[1]

فلاسفه کی اصطلاح میں عقل کی کئی قسمیں هیں : نظری عقل اور عملی عقل ، نظری عقل کا کام حقائق کو درک کر نا اور پهچاننا اور ان کے بارے مین فیصله کر نا هے [2]– اور عملی عقل وهی قوت هے جو انسان کے عمل و رفتار کا کنٹرول کرتی هے[3]– یا اس کاکام باید ونباید کو درک کر نا هے اور حقیقت میں عملی عقل زندگی کے علوم کی بنیاد هے اور عملی عقل میں اس امر کا فیصله کیا جاتا هے که یه کام کریں یا نه کریں؟[4]

حضرت امام صادق علیه السلام کی تعبیر میں ، عملی عقل انسان کی عبودیت کا مرکز اور خداوند متعال سے بهشت حاصل کر نے کا سر مایه هے: ” العقل ما عبد به الرحمن واکتسب به الجنان[5]-“

بهر حال، عقل ووحی کے مباحث میں عقل سے مراد ، وهی انسان کی قدرت ادراک هے که جو کلی امور کو درک کرتی هےً-

اسلام کے حیات بخش مکتب میں ، عقل کا مقام بلند هے- علامه طباطبائی اپنی تفسیر “المیزان” میں کهتے هیں : انسان کے وجود میں عقل ، شریف ترین طاقت هے[6]– خداوند متعال نے قرآن مجید میں تین سوسے زیاده مقامات پر انسان کو اس خدا داد طاقت سے استفاده کر نے کی تاکید فر مائی هے[7]– علامه طباطبائی کی نظر میں اسلام میں تعقل وتفکر کا مقام اس حد تک بلند وعظیم هے که خداوند متعال نے قرآن مجید میں ایک بار بھی اپنے بندوں کو نه سمجهنے یا آنکهیں بند کر کے کسی راه کو طے کر نے کا حکم نهیں دیا هے[8]

اس لحاظ سے اسلام وعقل کے در میان کوئی تضاد نهیں هے – البته بعض اوقات دین کے دائره میں دین کے قلمرو سے خارج کسی امر کو قراردینا یا عقلی استدلال کا صحیح شرائط ومقدمات سے فاقد هو نا یا عقل سے خاص معنی کے انتخاب کا فقدان همارے لئے یه نامناسب نتیجه اخذکر نے کا سبب بن جاتا هے –

نهج البلاغه میں امیرالمٶمنین حضرت علی علیه السلام کے نورانی کلام پر نظر ڈالنے سے ، انبیاء علهیم السلام کی رسالت کے بارے میں معلوم هو تا هے که عقل اور شرع نه صرف آپس میں تعارض اور ٹکراٶ نهیں رکهتی هیں بلکه آپس میں هم آهنگ هیں اور ایک دوسرے کی تائید کرتی هیں” —ویثیروا لهم دفائن العقول—[9]” “اور عقل کے خزانوں کواس کے لئےکهول دیتے هیں –”حضرت(ع) اس بیان میں ، انبیاء علیهم السلام کی بعثت کے بارے میں فر ماتے هیں که خداوند متعال نے انبیاء علیهم السلام کو لوگوں کی طرف بهیجدیا تاکه خوابیده عقلوں کو ان کے لئے بیدار کریں-

انسان کی عقل وفطرت، ایک خزانے کے مانند هیں ، جس میں تمام حقائق موجود هیں ، لهذا انبیاء علیهم السلام جو کچھـ کهتے هیں وه عقل و منطق کے مطابق هو تا هے- اصول فقه میں ” قاعده ملازمه” کے نام سے ایک اصطلاح هے که جس میں کها گیا هے: ” کل ما حکم به العقل حکم به الشرع-[10]” جس چیز کی عقل حکم کرتی هے، شرع بهی اس کا حکم کرتی هے- اس کے برعکس بھی صحیح هے، یعنی ” کل ما حکم به الشرع حکم به العقل-” ” جس چیز کی شرع حکم کرتی هے عقل بھی اس کا حکم کرتی هے –” اس لئے احکام کے مبانی میں سے ایک عقل هے – اس بنا پر انبیاء اور شارع کے احکام عقل کے خلاف نهیں هیں ، بلکه وهی عقل کی ثابت شده چیز هے جس سے شیطانی وسوسوں کے نتیجه میں انسان غفلت کر تا هے- انبیاء آئے هیں تاکه لوگوں کی عقل کے خزانوں اور تلاش کے بارے میں انهیں یاد دهانی کرائیں-

اصولی طور پر لوگوں کی حق و حقیقت کی دعوت کر نے کی انبیاء (ع) کی روش اور انسان کے صحیح استدلال و منطق کے ذریعه حاصل کئے جانے والے نتیجه کے طریقه کار میں کوئی فرق نهیں هے-فرق صرف اتنا هے که انبیاء علیهم السلام منبع غیب سے مدد حاصل کرتے تھے اور چشمه وحی کے آب زلال سے اپنی پیاس بجھاتے تھے – البته وه بزرگوار ، عالم بالا سے رابطه رکھنے کے باوجود خود کو تنزل کر کے لوگوں کے فهم و ادراک کی سطح پر گفتگو کرتے تھے اور لوگوں سے چاهتے تھے تا که اس فطری اور عام توانائی سے استفاده کر کے محکم اور منطقی استدلال ودلیل کا سهارا لیں – لهذا انبیاء علیهم السلام کا مقام اس سے پاک و مقدس تر هے که لوگوں کو بصیرت کے بغیر اندهی تقلید کر نے پر مجبور کریں- قرآن مجید میں اس سلسله میں ارشاد هے: ” آپ کهدیجئے که یهی میرا راسته هے که میں بصیرت کے ساتھـ خدا کی طرف دعوت دیتا هوں اور میرے ساتھـ میرا اتباع کر نے والا بھی هے[11]-“

اس لحاظ سے دین اور عقلمندی یا شریعت وحکمت که جن کا مقصد ، واضح اور طریقه کار ایک هی هے ، آپس میں کسی قسم کا اختلاف نهیں رکھتے هیں – حقیقی دین لوگوں کو دعوت دیتا هے تاکه عقلی دلالت کی بناپر عالم ماورائے فطرت کا یقین اور علم پیدا کریں – عقل ونقل ایک دوسرے کے پیچهے یعنی طول میں قرار پائے هیں– عقل انسانوں کی باطنی حجت هے جوانهیں کمال کی راه میں رهبری کرتی هے ، اور شریعت ظاهری حجت هے جو انسانوں کو آلودگیوں کے بهنور سے نجات دے کر انهیں انسانی کمال وسعادت کے ساحل کی طرف هدایت کرتی هے- جیسا که حضرت امام موسی کاظم علیه السلام فر ماتے هیں : ” خدا وند متعال نے لوگوں کے لئے دو حجتیں قراردی هیں : ظاهری حجت اور باطنی حجت ، لیکن ظاهری حجت خدا کے انبیاءاور ائمه اطهار علیهم السلام هیں اور باطنی حجت انسانوں کی عقل هے [12]–”

اس بناپر ممکن نهیں هے که ظاهری حجت اور باطنی حجت کے درمیان تعارض هو-حجت دلیل وراهنما کے معنی میں هے اور راهنما اس کو کهتے هیں جوراسته، مقصد اور اس کے آخر تک آگاه هو- حضرت امام موسی کاظم علیه السلام کی روایت کے مطابق خدائے واحد تک پهنچنے کے دوراهنما هیں : ایک ظاهری راهنما اور ایک باطنی راهنما – لیکن یه بات قابل ذکر هے که یه ظاهر و باطن کی دو حجتیں دو مستقل اور ایک دوسرے سے بے نیاز راستے نهیں هیں انسان اس وقت مقصد تک پهنچ سکتا هے جب ان دو راهنماٶں کے در میان انتهائی هم آهنگی هو-

حضرت امام حسین علیه السلام کی فر مائش کے مطابق عقل کا کمال حق کی پیروی میں هے [13]– اور قرآن مجید کے مطابق : ” خداوند متعال حق هے[14] اور حقیقت اسی سے هے [15]– لهذا حق کی پیروی میں ، عقل کمال کو پهنچتی هے اور حجت ظاهری کی اطاعت خدا کے احکام میں سے هے- قرآن مجید کا ارشاد هے : ” —الله کی اطاعت کرو رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو”[16]– اهم نکته یه هے که بعض اوقات بلند دینی حقائق ڈیکارٹ کی جزئی اور حساب لگانے والی عقل سے( ڈیکارٹ کے مطابق عقل کلی کا کوئی معنی نهیں هے اور وه اس کی طرف کوئی اشاره نهیں کرتا هے –اس کی پوری توجه حساب لگانے والی عقل اور دور اندیشی پر متمرکز هے) یا پریگما ٹیزم کے مکتب کی عقل سے ( پریگماٹیزم کے نظریه کے مطابق وه عقل فائده مند هے جو همارے تجرباتی مشکلات میں سے کسی مشکل کو حل کرسکے) اور یا کانٹ کے نظریه کے مطابق نظری عقل سے ( کانٹ کے مطابق نظری عقل مسائل کو حل کر نے میں ناتواں هے اور اس سلسله میں عقلی احکام عملی اقدار سے فاقد نهیں ) تعارض رکهتے هیں-

واضح هے که ایثار، جان نثاری ، شهادت ، انفاق، غیب پر ایمان اور اسلام کی هزاروں بنیادی حقیقتیں جزئی اور حساب لگانے والی عقل سے قابل تحلیل وبیان نهیں هیں – دوسری جانب سے عقل اور وهم کے درمیان فرق کر نا بھی ضروری هے ، کیونکه کبهی وهم ، عقل کی جگه لیتا هے – اسی طرح نقلی چیزیں اصلی چیزوں کی جگه لیتی هیں ، چنانچه آیه شریفه میں ارشاد هوا هے : ” وهم یحسبون انهم یحسنون صنعاً ، خیال کرتے تھے که وه نیک کام انجام دے رهے هیں[17] –” لیکن حقیقت میں ان کا تصور اور خیال بالکل وهم اور باطل پر مبنی تھا-

نتیجه کے طور پر عقل اور دین کی هم آهنگی اور ان کے در میان مقاصد، واضع اور طریقه کار کی یکسانیت کی وجه سے اسلام اور عقلی استدلالوں کے در میان تضاد کے باطل هو نے کے باوجود، اگر عقلی اصولوں کا کوئی قاعده دینی حقائق سے ، یااستدلال عقلی کے منطقی برهان سے مطابقت نه کرے، تو جاننا چاهئے که یاعقلی استدلال وبر هان کے مقدمات اور ضوابط کی هم نے رعایت نهیں کی هے یا دینی احکام کے بارے میں هماراتصور وهم پر مبنی تها-

لیکن اس بات کو مدنظر رکهنا چاهئے که اس کے عقائد (اصول) اور احکام (فروعات) میں ، بعض احکام و مسائل عقل سے بالاتر هو تے هیں اوراگرچه عقل ان کے ساتھـ کسی قسم کی مخالفت نهیں کرتی هے لیکن ان کی حقیقت تک نهیں پهنچتی اور انهیں نهیں سمجھـ سکتی هے جیسے بعض احکام کی حکمتیں اور معاد سے مربوط بحث کے جزئیات-

لیکن جومسائل آپ نے اپنے سوال میں بیان کئے یں وه عقلی اور منطقی ادله سے ثابت کئے جاسکتے هیں اور اس قسم کے مسائل میں عقل ووحی کے در میان کسی قسم کا تضاد نهیں پایا جاتا هے[18] ٠مثال کے طور پر ، اسلام میں سود خواری کا حرام هو نا، ایک خاص فلسفه پر مبنی هے اسلام منطقی دلائل کی بناپر اپنے اقتصادی نظام اور قاعده کے علاوه هر قسم کی منافع خوری کو مسترد کر تا هے ، اگر چه سر مایه داری کا اقتصاد ی نظام اسے ضروری بھی سمجهتا هو اور سر مایه داری کے لئے اسے مسلم حق جانتا هو- سر مایه داری کی طرف سے سود کو جائز بلکه ضروری جاننے کے عوامل میں سے ایک، ضرر کا مسئله هے[19]

لیکن اسلام نے، سود اور ضرر ونقصان کی دوسری صورتوں ، جیسے جوا کهیلنے اور شرط بندی کو حرام قرار دیکر ، حقیقت میں اس استدلال کی بنیاد کو مسترد کردیا هے اور خطر کو سود مند نهیں جاناهے – دوسری طرف سے سود خواری دولتمند وں اور فقیروں کے در میان فاصله کو زیاده کرتی هے اور اموال کی کثرت کا سبب بن جاتی هے اور سر انجام اس کا دباٶ معاشره کے غریب طبقه پر پڑتا هے[20]– لهذا ” سود یا ربا” نه صرف مشروع نهیں هے بلکه اس کے جائز هو نے کی کوئی عقلی اور منطقی دلیل موجود نهیں هے-

لیکن بعض احکام کے همارے خیال میں عقل سے تعارض اور مخالفت دکهائی دینے کی علت دوچیزوں میں هے:

اول یه که اسلام کے بهت سے بنیادی حقیقتیں جزئی اور حساب کر نے والی عقل کے ذریعه قابل تحلیل وبیان نهیں هیں-

دوسرے یه که عقل اور وهم کے در میان فرق کر نا ضروری هے اور جیسا که بیان کیا گیا ممکن هے وهم کے نتائج کا عقل کے نتائج سے مغالطه هو جائے –

نتیجه کے طور پر، چونکه عقلی برهان خدا کی حجت هے ، اس لئے جو شخص عقل کے سر مایه کے ساتھـ کتابوں کا مطالعه کرے گا اسے گو ناگون مقدس علوم ، روائی کتا بوں سے بهی اور عقلی برهان سے بھی حاصل هوں گے – البته اگر کوئی شخص ناقص استدلال یا تمثیل منطقی یا مغالطه کے طریقه سے مقدس کتابوں کا مطالعه کرے، تو چونکه بشریت کا غبار مقدس دینی محتوی کو اپنے لپیٹ میں لیتا هے اس لئے اسے غبار آلود کرتا هے-

جو یه سوال کرے که : کیا دین کے تمام کلی اور جزئی مسائل کا عقلی لحاظ سے دفاع کیا جاسکتا هے ؟ اس کے جواب میں کهنا چاهئے که: دین کو پهچاننے کے لئے عقل ضروری هے لیکن کافی نهیں هے- اس لحاظ سے عقل کے ذریعه دین کے جزئیات کی حمایت نهیں کی جاسکتی هے کیونکه جزئیات برهان عقلی کے دائرے میں قرار نهیں پاتے هیں ، خواه یه جزئیات فطرت سے مربوط هوں یا شریعت سے- دوسرے الفاظ میں ، جزئیات ، خواه علمی، عینی، حقیقی یا اعتباری هوں برهان عقلی کی پهنچ میں نهیں هیں اور جو چیز برهان عقلی کی پهنچ میں نه هو اس کی عقلی توجیه نهیں کی جاسکتی هے، لیکن کلّیات اور فطرت و شریعت کے کلی خطوط میں عقلی طور پر علت بیان کی جاسکتی هے-

وضاحت یه که، چونکه عقل بهت سے امور میں عاجز هوتی هے ، اس لئے اسے وحی کی ضرورت هوتی هے – عقل کی منطق یه هے که میں سمجھتا هوں که میں بهت سی چیزوں کو نهیں سمجهتا هوں اور مجهے وحی کی ضرورت هے[21]

مزید معلومات کے لئے ملاحظه هو:

الف : “تفکر در قرآن” تالیف علامه طباطبائی ، سید محمد حسین-

ب :”حکمت نظری وعملی در نهج البلاغه” تالیف : جوادی آملی عبدالله-

ج : ” شریعت در آئینه معرفت ” تالیف : جوادی آملی ، عبدالله ص٢٢٤-١٩٩-

د : “دین شناسی” تالیف جوادی آملی ، عبدالله ، ص ١٧٤- ١٧٠-

ھ : “دین شناسی” تالیف : مهدی هادوی تهرانی ، ص٢٨٤-٢٨٠-

ز : نشریه ” پر سمان” نمبر ١٢- مرداد ماه ١٣٨١هجری شمسی – مقاله-

” اسلام وعقل ، همسوئی یا تضاد” رضا نیا حمید رضا-



[1] – کرجی، علی، “اصطلاحات فلسفی وتفاوت آنها با یکدیگر ، ص١٧١- ١٧٢-

[2] – شهید مطهری ،” ده گفتار ص”٣٠- ٣١-

[3] – جوادی آملی ، عبدالله ، ” رحیق مختوم” ج ١ بخش اول ص ١٥٣-

[4] – شهید مطهری ،” ده گفتارص”،٣٠- ٣١-

[5] – کلینی ،”اصول کافی”،ج١،ص١١،حدیث ٣-

[6] – طبا طبائی ، محمد حسین ،المیزان،ج٣،ص٥٧-

[7] – طباطبائی ،محمد حسین،المیزان ،ج ٥،ص٢٥٥-

[8] – نفیسی،شادی، عقل گرایی در تفاسیر قرن چهاردهم ،ص١٩٤-١٩٥-

[9] – نهج البلاغه ،خطبه ١-

[10] – سبزواری، سید عبدالله علی ،تهذیب الاصول ،ج١ ،ص١٤٥; مظفر ، محمدرضا ،اصول الفقه ،ج١،ص٢١٧-

[11] – سوره یوسف، آیه ١٠٨-

[12] – ملاحظه هو :منتخب میزان الحکمۃ ، ری شری محمد، ص٣٥٨، روایت شماره٤٣٨٧-

[13] – ملاحظه هو: منتخب میزان الحکمۃ ، ص٣٥٩،روایت شماره ٤٤٠٧-

[14] – سوره لقمان ،آیه ٣٠-

[15] – سوره آل عمران ، آیه ٦٠-

[16] – سوره نساء ، آیه ٥٩-

[17] – سوره کهف، آیه ١٠٤-

[18] – آپ کے سوال میں ذکر کی گئی مصداقوں کے بارے میں اگر بیشتر معلومات حاصل کر نا چاهتے هو تو ایک الگ سوال میں اس کو بیان کیجئے تاکه تحقیق کے بعد اس کا جواب آپ کو ارسال کیا جائے گا-

[19] – ملا حظه هو: کتاب “مکتب و نظا م اقتصادی اسلام ” ، هادوی تهرانی ،ص١٨٠-

[20] – ایضاً ص ١٨٠- ١٨١-

[21] – جوادی آملی عبدالله ، دین شناسی ( سلسله بحث های فلسفه دین) ،صص ١٧٤- ١٢٧-

تبصرے
Loading...