حضرت نوح{ع} نے کس پرندہ کو خشکی پیدا کرنے کے لئے بھیجا؟

آیہ شریفہ: «وَ قیلَ یا أَرْضُ ابْلَعی‏ ماءَکِ وَ یا سَماءُ أَقْلِعی‏ وَ غیضَ الْماءُ وَ قُضِیَ الْأَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِیِّ وَ قیلَ بُعْداً لِلْقَوْمِ الظَّالِمین‏»،[1] کی تفسیر میں ، مفسرین نے حضرت نوح {ع} کی کشتی کے رکنے کے بعد واقع ھونے والے حوادث کے بارے میں اشارہ کیا ہے ، کہ ان حوادث میں سے خشکی کی تلاش میں کوے اور کبوتر کو بھیجنا ہے-

خداوند متعال نے حضرت نوح{ع} اور تمام حیوانوں اور کشتی پر موجود افراد کو یاد کیا اور ایک ہوا کو بھیجا- اور پانی رک گیا زمین کے چشمے اور آسمانی دروازے بند کئے گئے، آسمان سے اب بارش رک گئی اور زمین سے ابلنے والے پانی بھی رفتہ رفتہ زمین میں جذب ھوئے، اور ۱۵۰ دنوں کے بعد پانی میں کمی واقع ھوئی ساتویں مہینہ کی سترہویں تاریخ کو حضرت نوح {ع} کی کشتی جودی نامی پہاڑ پر رک گئی، اور دسویں مہینہ تک پانی کم ھوتا رہا یہاں تک کہ اس مہینہ کی پہلی دہائی کے دوران، پہاڑوں کی چوٹیاں پانی سے نمودار ھونے لگیں –

چالیس دنوں کے بعد ایسا ھوا کہ حضرت نوح {ع} نے وہ کھڑکی کھول دی جو انھوں نے کشتی میں بنائی تھی اور ایک کوے کو کشتی سے باہر بھیجدیا- کوا ہر طرف پرواز کرتا تھا لیکن حضرت نوح {ع} کے پاس واپس نہ لوٹا، یہاں تک کہ زمین خشک ھوئی اور پانی نیچے اترا، کوے کے بعد حضرت نوح {ع} نے کبوتر کو چھوڑا تاکہ دیکھ لے کہ پانی زمین پر کم ھوا ہے یا نہیں، چونکہ کبوتر کو کوئی خشک جگہ نہیں ملی تاکہ وہاں پر رکتا اس لئے مجبور ھوکر حضرت نوح {ع} کے پاس لوٹا، چونکہ پانی ابھی پوری زمین پر پھیلا ھوا تھا، حضرت نوح {ع} نے اپنے ہاتھ کو پھیلایا اورکبوتر کو پکڑ کر کشتی میں اپنے پاس لا یا – مزید سات دن کشتی میں رکے اور اس کے بعد پھر سے کبوتر کو چھوڑا، کبوتر عصر کے وقت حضرت نوح {ع} کے پاس لوٹا، جبکہ اس کی چونچ میں زیتون کا ایک سبز پتا تھا ، حضرت نوح { ع} سمجھ گئے کہ زمین پر پانی ختم ھوا ہے، پھر سات دن ٹھرے، پھر کبوتر کو چھوڑا اس بار کبوتر حضرت نوح کے پاس نہ لوٹا-[2]

اس بنا پر،معلوم ہوپا ہے کہ حضرت نوح {ع} نے خشکی کی تلاش میں کوے اور کبوتر کو بھیجا تھا-

 


[1]. هود، 44. ” اور قدرت کا حکم ھوا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل لے اور اے آسمان اپنے پانی کو روک لے- اور پھر پانی گھٹ گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھر گئی اور آواز آئی کہ ہلا کت قوم ظالمین کے لئے ہے “-.

[2] طباطبایى، سید محمد حسین، المیزان فى تفسیر القرآن، ج 10، ص 255، دفتر انتشارات اسلامى، قم، 1417 ھ ملاحظہ ھو: ابن کثیر دمشقى، اسماعیل بن عمرو، تفسیر القرآن العظیم، ج 4، ص 284، دار الکتب العلمیة، منشورات محمدعلى بیضون، بیروت، 1419 ھ ؛ طبرى، ابو جعفر محمد بن جریر، جامع البیان فى تفسیر القرآن، ج 12، ص 30، دار المعرفه، بیروت، 1412 ھ

 

تبصرے
Loading...