حضرت موسی {ع} کے معجزہ کے عنوان سے جس سانپ کا اعلان کہا گیا ہے، اس کے بارے میں قرآن مجید میں دو تعبیریں: ” ثعبان” یعنی بڑا سانپ اور “جان” یعنی چهوٹا سانپ، استعمال ہوئی ہیں- کیا یہ دو تعبیریں آپس میں متناقض نہیں ہیں؟

لغت میں “جان” پتلے اور تیز رفتار سانپ کو کہا جاتا ہے- ایک دوسری جگہ پر “جان” ایک غائب موجود کو کہتے ہیں- لہذا چهوٹے سانپوں کو “جان” کہا جاتا ہے- اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس قسم کے سانپ دکهائی دئے بغیر گهاس اور نالیوں میں سے گزرتے ہیں- اور لفظ ” ثعبان” بڑے سانپوں کے بارے میں استعمال  ہوتاہے- حضرت موسی {ع} کے معجزہ کے بارے میں قرآن مجید می دونوں الفاظ سے استفادہ کیا گیا ہے- شاید پہلی نظر میں، اس سانپ کی ” ثعبان” اور “جان” سے توصیف کرنا متعارض دکهائی دے اور اسی وجہ سے، مفسریں قرآن نے اس تعارض کے شبہہ کو دور کرنے کے لئے کچھ طریقے پیش کئے ہیں- مثال کے طور پر ایک تفسیر میں آیا ہے: سورہ نمل کی آیت نمبر ۱۰ اور سورہ قصص کی آیت نمبر۳۱ میں حضرت موسی {ع} کے عصا کی “جان” سے تعبیر کی گئی ہے، یہ حضرت موسی {ع} کی بعثت کے ابتدائی زمانہ سے متعلق ہے اور جہاں پر ” ثعبان” کہا گیا  ہے وہ  حضرت موسی {ع} کے فرعون سے ملاقات کے زمانہ سے متعلق ہے – گویا خداوند متعال ابتدا میں حضرت موسی {ع} کو اس معجزہ کے بارے میں تدریجی طور پر آشنا کررہا ہے اور پہلے مرحلہ میں سانپ کو چهوٹا اور بعد والے مرحلہ میں عظیم تر صورت میں ظاہر کرتا ہے-[1] اس توجیہ کی بنا پر، حضرت موسی {ع} کا معجزہ دو مختلف مواقع پر دو مختلف تعبیرات میں ظاہر ہوا ہے-

لیکن ایسا لگتا ہے کہ، اس قسم کی توجیہ کی ضرورت ہی نہیں تهی اور اگر تمام آیات، صرف ایک ہی واقعہ سے متعلق ہوتیں، پهر بهی ان کے درمیان تناقض نہیں ہے، اس طرح کہ:

سورہ اعراف اور شعرا کی آیات، جن میں ” ثعبان” کی تعبیر سے استفادہ کیا گیا ہے، ان میں “فاذاهی” کی عبارت سے بهی استفادہ کیا گیا ہے، یعنی حضرت موسی {ع} کا عصا اچانک ایک اژدها اور عظیم الجثہ سانپ میں تبدیل ہوا، لیکن سورہ نمل اور سورہ قصص میں موجود آیات میں لفظ  “جان” پایا جاتا ہے، اور ان میں “فاذاهی” کے جملہ سے استفادہ کیا گیا ہے اور یہ  بیان نہیں کیا گیا ہے کہ حضرت موسی{ع} کا عصا ایک چهوٹے اور تیز رفتار سانپ میں تبدیل ہوا، بلکہ اس کی جگہ پر “کانها” کی عبارت سے استفادہ کیا گیا ہے، یعنی جب وہ سانپ معجزہ کی صورت می اژدها کی شکل اختیار کرکے چلنے لگا “فلما راها تهتز” اس کی حرکت ایک تیز رفتار اور چهوٹے سانپ کی جیسی تهی- جبکہ بهاری اجسام کا تقاضا ہے کہ آہستہ حرکت کریں اور جس سانپ میں عظیم الجثہ اور تیز رفتار ہونے کی خصوصیتں پائی جاتی ہوں وہ ایک بڑا معجزہ شمارہو گا-[2]

 


[1] مكارم شيرازي، ناصر، تفسیر نمونه، ج 6،  ص 283،  دار الكتب الاسلامية.

[2] طبرسي، فضل بن الحسن، مجمع البيان، ج 3 و 4، ص 705 و 706 ، دار المعرفه، چ 8 .

 

تبصرے
Loading...