حضرت خضرعلیه السلام کے هاتھوں نوجوان کے قتل کئے جانے کی انسانی همدردی کے نقطه نظر سے کیا توجیه کی جاسکتی هے؟

مذکوره سوال کے جواب سے پهلے اس نکته کی طرف توجه کر نا ضروری هے که خدا وند متعال کے صفات کمالیه میں حکیم کی صفت بھی هے اور پروردگار عالم کی یه صفت تکوین وتشریع کی صورت میں ظاهر هوتی هے ،اگر چه ممکن هے کھ تمام انسان اس سے آگاه نه هو ںاور هستی کے راز ورموز کے ایک جزئی حصه کے بارے میں چند افراد هی آگاه هوں ـ جو افراداس رحمت وعنایت ،علم الهی ولدنی سے مستفید هوئے هیں،ان میں حضرت خضر علیه السلام هیں که جنهیں یه رحمت و علم الهی حاصل هو نے کے علاوه ان اسرار میں سے کچھـ حضرت موسی علیه السلام تک پهنچانے اور حکم الهی کو نافذ کر نے کی توفیق بھی حاصل هوئی –

حضرت خضر علیه السلام کے هاتھوں نوجوان کے قتل هو نے کے سلسله میں آیات و روایات سے حاصل هو نے والی بعض حکمتوں اور نکات کو بیان کر نے سے پهلے ،مندرجه ذیل مطلب کی طرف توجه دینا بعض ابھر نے والے سوالات کا مختصر جواب هو سکتا هے اور وه مطلب یه هے که :

اگرچه لفظ”غلام”کے مختلف معنی هیں ،جیسے نوکر،طفل،بچه ،مکمل مرد،تازه بالغ هوابچه و…،لیکن “سوره کهف کی آیت نمبر ٧٤اور٨٠”میں تازه بالغ نوجوان اور وه نوجوان جس کے بالائی ھونٹ پر تازه بال اگنے لگے هوں ( یعنی مسیں بھیگنے لگی ھوں ) مناسب ترین معنی هے –کیونکه یه معنی بعض آیات و روایات سے ساز گار لگتا هے-(٣)اس لحاظ سے کها جاسکتا هے که!جو شخص حضرت خضر علیه السلام کے هاتهوں قتل هوا وه ایک تازه بالغ نوجوان تھا نه کھ بچه یا طفل!

اب هم اس نکته کو مد نظر رکھتے هوئےاس حادثه کی حکمت پر جانچ پڑتال کرتے هیں:

نوجوان کا قتل،کسی بحث و گفتگو ،جھگڑے ،کشمکش ،غصه وغضب کی حالت پیدا هو نے یا نفسانی دباؤ خواهشات رونما هونےکے بعد انجام نهیں پایا هے ،بلکه یه مکمل طور پر پھل سے معلوم ایک قصد وعمد پر مبنی اقدام تھا اور حضرت خصر علیه السلام اس کام کو انجام دینے میں کسی قسم کے شک و شبهه سےدو چار نهیں هوئے اور انهوں نے اپنے باطنی علم الهی کی بنیاد پر عمل کیا هے-(٤)

نتیجه کے طور پریه حادثه،کوئی ایسا حادثه نهیں هے جو اتفاقیه طور پر رونما هوا هو- اصولی طور پر قرآن مجید کے معارف اور ائمه معصومین علیهم السلام کے نورانی کلمات کے مطابق اور فلسفیانه  نقطه نظر سے عالم هستی میں کسی اتفاقی بات کوئی وجود نهیں هے – یه قتل بندگان خدا میں سے ایک ایسے بندے کے هاتھوں انجام پایا هے جس پر خداوند متعال کی رحمت شامل حال اور خصوصی علم تھا،جیسا که خداوند متعال اس سلسله میں خود فر ماتا هے :”فوجدا عبدا من عبادنا آتینه رحمه من عندنا وعلمنه من لدنا علما”تو اس جگه پر همارے بندوں میں سے ایک ایسے بندے کو پایا جسے هم نے اپنی طرف سے رحمت عطا کی تھی اور اپنے علم خاص میں سے ایک خاص علم کی تعلیم دی تھی –”(٥)

اس لحاظ سے،حضرت خضر علیه السلام یا دستور و حکم الهی سے اس فرمان کو نافذ کر نے والے تھے(٦)یا فطری و تکوینی اسباب میں سے ایک سبب کے مقام پر اراده الهی کو عملی جامه پهنانے والےتهے-

دوسری جانب، اس نوجوان کے ماں باپ ایسے مومن تھے جن پر خدا وند متعال کی طرف سے مهر بانیاں اور و عنا یتیں نازل هوئی تھیں اور خداوند متعال اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر آگاه تھا کھ اس نوجوان کے زنده رهنے کی صورت میں اس کے توسط سے مستقبل میں رونما هو نے والے فتنه ،کفر اور انحراف سے اس کے والدین دوچار ھوں گے –اس لئے حضرت خضر علیه السلام کو اس جوان کو قتل کر نے کا حکم دیا اور اپنی اس عنایت سے ان(مقتول کے والدین)کو آخرت میں اپنی کرامت کے مقام پر منتقل فر مایا-(٧)

متعدد روایتوں سے معلوم ھوتا ھے ،خداوند متعال نے اراده فر مایاکه اس مقتول نوجوان کے والدین کے صبر و شکیبائی کے بد لے میں انهیں ایک ایسی دختر عنایت فر مائے که جس کی نسل سے ستر انبیاء نبوت پر فائز هو ں  اور یه ایک بهترین پاداش معاوضه اور رحمت هے جو خدا وند متعال نے انهیں عنایت کیا هے-(٨)

مذکوره نوجوان،کافر(یامرتدفطری)تھا که اس پر نور الهی کے اثر کر نے کی کوئی امید نظر نهیں آتی تھی –وه زنده رهنے کی صورت میں نه صرف زیاده سے زیاده ظلمت اور فساد میں مبتلا هوتا ،بلکه دوسروں کو بھی خاص کر اپنے والدین کو منحرف کر نے اور اذیت دینے کا سبب بن جاتا- لهذا اس کا قتل اس کے کفر یا ارتداد کے سبب تھا جس کا وه مرتکب هوا تھا اور اس میں پھر سے ایمان لانے،راه راست پر آنے اور کفر کو ترک کر نے … کی کوئی علامت دکھائی نهیں د یتی تھی (٩)اور حضرت خضر علیه السلام اپنے علم لدنی کے ذریعه اس سے آگاه تھے ،اگر چه حضرت موسی علیه السلام بظاهر اس قسم کا علم نهیں رکھتے تھے –(مسئله ارتداد صرف ایک نظریه کے عنوان سے قابل توجه هوسکتا هے)

دوسرے الفاظ میں ،جوان کے قتل هو نے میں کئی فائدے اور دور رس نتائج تھے ،جس سے معلوم هوتا هے که یه کام ایک منظم اور منصوبه بند کام تھا ،اور عالم هستی کے بھترین نظام کے حلقوں میں سے ایک حلقه اور حکمت و قدرت الهی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور عالم خلقت کے مخفی اسرار میں سے ایک راز کو فاش کر نے والا ایک منصوبه تھا –ان فوائد واسرار کے بارے میں درج ذیل مطالب کی طرف اشاره کیا جاسکتا هے:

اس مقتول نوجوان کے مومن ماں باپ ،ان خطرات سے محفوظ رهے جو ممکن تھا که وه اس بیٹے کے زنده رهنے کی صورت میں اس کی گمراهیوں کے مقابله میں جذبات اور احساسات کا شکار هو کر دوچار هوتے-

اس کے والدین نے قضاو قدر الهی کے سامنے صبر ورضا اور تسلیم کا جو مظاهر کیا اس سے وه ایک بڑے امتحان میں سر بلندی وسرخروئی کے ساتھـ کامیاب هوئے-

خداوند متعال نے اپنے اراده کے تحقق اور اس نوجوان کے والدین کو ایک بابر کت بیٹی عطا کر نے کی راه میں رکاوٹ بننے والے اس کافر نوجوان کی زندگی کو حضرت خضر علیه السلام کے هاتهوں ختم کرادیا ـ

اس حادثه کے واقع هو نے ،اور حضرت موسی علیه السلام کی خدا کے  ایک بنده صالح سے آشنائی اور همراهی نے حضرت موسی پر علوم اور اسرار الهی کا ایک دریچه کھول دیا اور وه نور الهی کی ایک کرن سے منور هو کر ، اذن الهی کے حدود کے اندر رشد و کمال کا مقا م حاصل کر نے میں کامیاب هوگئے  –(١٠)قرآن مجید اس سلسله میں فر ماتا هے :”موسی نے اس بندے سے کها که کیا میں آپ کے ساتھـ ره سکتا هوں که آپ مجھے اس علم میں سے کچھـ تعلیم کریں جو رهنمائی کا علم آپ کو عطا هوا هے -“(١)

حکم خدا نافذ هو نے اور نوجوان کے قتل هو نے سے اس جوان کا سیاه اعمال نامه بند هو گیا اور مستقبل میں ارتکاب جرائم کے اضا فه سے بچ گیا و…

دوسری عبارت میں اس نوجوان کے قتل هو نے سے ان تمام افراد کو فائده ملا جو اس حادثه سے کسی نه کسی طرح مربوط تھے ،یعنی خود (مقتول) جوان کے لئے بھی ،اس کے والدین کے لئے بھی ،حضرت خصر کے لئے بھی اور اس کے ساتھی کے لئے بھی فائده ملا –حاشیے:

 

١- ملاحظه هو سوال نمبر٨٦٥.اشاره:”ظالموں کے قلوب پر خداکی مهر اور چھاپ کا مفهوم”

٢- ملاحظه هو سوال نمبر ١٣٩،اشاره:”حضرت خضر علیه السلام کے هاتهوںجوان کا قتل هو نا.”

٣- معجم مقایس اللغه:الافصاح،ج١،ص١١،العین،ج٤،ص٤٤٢،فرهنگ بزرگ جامع نوین،ج٣،ص١١٣٧:مفردات راغب،اقربالموارد:فولادوند ،محمد مهدی،ترجمه قرآن کریم ،آیات ٧٤و٨٠.

٤- تفسیر صافی ،ج٢،ذیل آیه ،بحار الانوار،ج١٣،ص٢٨٤.

٥- کهف/٦٥

٦- تفسیر نور الثقلین،ج٣،ص٢٨٤،بحارالانوار،ج١٣،ص٢٨٨

٧- کهف/٨٠،علامه مجلسی ،بحارالانوار،ج١٣،ص٢٨٨

٨- تفسیر نورالثقلین،ج٣،ص٢٨٦،حدیث١٧٠تا١٧٣،بحارالانوار،ج١٣،ص٣١١،اصول کافی،ج٢،ص٨٣.

٩- تفسیر نور الثقلین،ج٣،ص٢٨٦،تفسیر صافی،ج٣،ص٢٥٥،تفسیر مجمع البیان وتفسیر عیاشی ،ذیل آیات مربوط به جریان حضرت خضروموسی علهیم السلام ،علل الشرایع.

١٠- ملاحطه هو سوال نمبر ١٥١ ،اشاره:”حضرت خضر علیه السلام سے حضرت موسی علیه السلام کا تعلیم حاصل کر نا.

0-     کهف/٦٦.

 

تبصرے
Loading...