حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں نے کن سے ازدواج کیا؟

یه سوال قدیم زمانه سے زیر بحث رها هے که حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں نے کن سے ازدواج کیا ؟ کیا انهوں نے اپنی بهنوں کے ساتھـ ازدواج کیا هے؟ کیا انهوں نے جنس ملک یا جن کی بیٹیوں سے شادی کی هے ؟ کیا انهوں نے دوسرے انسانوں سے شادی کی هے؟ اگر انهوں نے اپنی بهنوں سے شادی کی هو تو تمام ادیان وشرائع کے مطابق بھائی بهن کے در میان از دواج کے حرام هو نے کے پیش نظر اس ازدواج کی کیسے توجیه کی جاسکتی هے؟

اس سلسله میں اسلامی دانشوروں کے در میان دونظریئے پائے جاتے هیں اور هر نظریه کے بارے میں قرآن مجید اور احادیث سے کچھـ دلائل بیان کئے گئے هیں –یهاں پر هم دونوں نظریات کو اجمالی طور پر نقل کر تے هیں :

١- انهوں نے اپنی بهنوں کے ساتھـ شادی کی هے ـ چونکه اس زمانه (آغاز خلقت) میں خدا وند متعال کی طرف سے بھائی بهن کے در میان از دواج کے حرام هو نے کا قانون اعلان نهیں هوا تھا اور دوسری جانب سے انسانی نسل کی بقاء کے لئے اس کے علاوه کوئی اور طریقه نهیں تھا، اس لئے حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں میں بھائی بهن کے در میان شادی انجام پائی هے ، کیو نکه قانون نافذ کر نے کا حق خدا وند متعال کو هے اور قرآن مجید میں ارشاد هوا هے :” ان الحکم الا لله ” حکم صرف خدا کی طرف سے جاری هو تا هے-” [1]

علامه طباطبائی اس سلسله میں فرماتے هیں : حضرت آدم (ع) اور حوا(ع) کی خلقت کے بعد پهلے مرحله ازدواج ، حضرت آدم(ع) وحوا(ع) کے بلافصل فرزندوں میں بھائی اور بهن کے درمیان انجام پایا هے اور حضرت آدم علیه السلام کے بیٹوں نے ان کے بیٹوں سے شادی کی هے ، چونکه اس زمانه میں دنیا میں انسانی نسل انهی فرزندوں میں منحصر تھی— اس لئے اس میں کوئی حرج نهیں هے (اگر چه همارے زمانے میں یه مسئله تعجب خیز هے)

چونکه یه مسئله ، ایک شرعی مسئله هے اور شرع بھی صرف خداوند متعال کا کام هے، لهذا وه ایک دن کسی کام کو حلال اور دوسرے دن اسی کام کو حرام قرار دے سکتا هے-[2]

صاحب تفسیر نمونه کے مطابق اس نظریه کا قائل هو نا عجیب نهیں هے : “کوئی حرج نهیں هے که ضرورت کے پیش نظر عارضی طور پر اس قسم کا ازدواج اس زمانه میں کچھـ لوگوں کے لئے جائز اور مباح هو اور دوسرے لوگوں کے لئے عام طور پر ابدی حرام هو-“[3]

اس نظریه کے حامی اپنے لئے قرآن مجید کی آیات سے بھی دلیل لاتے هیں که خدا وند متعال کا ارشاد هے : ” (خداوند متعال نے) ان دونوں( ادم(غ) وحوا) سے زمین پر بهت سے مرد اور عورتیں پھیلائے-“[4]

اس کے علاوه مرحوم طبری کی کتاب ” احتجاج” میں امام سجاد علیه السلام سے نقل کی گئی ایک روایت میں اس مطلب کی تائید هوتی هے-[5]

٢- دوسرانظریه یه هے که چونکه حضرت آدم(ع) کے فرزندوں کا آپس میں ازدواج کر نا ممکن نهیں تھا ، کیو نکه محارم سے ازدواج کر نا ایک قبیح ، برا اور شرعاً حرام کام هے ، لهذا آدم کے بیٹوں نے جنسی بشر کی کچھـ ایسی بیٹوں سے شادی کی جو دوسری نسلوں سےتعلق رکھتی تھیں اور گزشته نسلوں سے زمین پر باقی رهی تھیں- جب بعد میں ان کے فرزند آپس میں چچیرے بھائی بن گئے تو ان کے در میان ازدواجی زندگی تشکیل پائی اس نظریه کی بھی بعض روایتیں تائید کرتی هیں ، کیونکه حضرت آدم (ع) کے فرزند زمین پر سب سے پهلے انسان نهیں تھے ، بلکه اس سے پهلے بھی کچھـ انسان زمین پر زندگی کرتے تھے – لیکن یه قول بظاهر قرآن مجید کی آیات سے مطابقت نهیں رکھتا هے، کیونکه قرآن مجید کی آیت کے مطابقانسانی نسل صرف ان دو(آدم(ع)و حوا) کے توسط سے وجود میں آئی هے –پس حقیقت میں اس قسم کی روایتیں قرآن مجید تناقص رکھتی هیں اور هم انھیں قبول نهیں کرسکتے هیں-

اس استدلال سے یه نتیجه اخذ کیا جاسکتا هے که قرآن مجید کی آیات کے مطابق هابیل وقابیل کے ملائکه یا جنات کی بیٹوں سے ازدواج کر نے کا نظریه بھی باطل هے ، کیو نکه اس آیت سے به ظاهر معلوم هوتا هے که انسان نسل صرف ان دونوں (آدم(ع) وحوا) کے ذریعه وجود میں آئی هے [6]، اور اگر ان دو کے علاوه ان کی نسل بقا میں کوئی اور دخالت کر تاتو کهنا چاهئے تھا که : ان دو اور ان کے علاوه کسی اور ذریعه سے—

اس سلسله میں علامه طباطبائی (رح) فر ماتے هیں : ” انسان کی موجوده نسل صرف حضرت آدم(ع) اور ان کی بیوی حوا سے مربوط هے اور ان دو کے علاوه ان کی نسل کے پھیلنے میں کسی اور کی مداخلت نهیں هے-[7]

اس لئے ، همیں ان روایات کو قبول کر نا چاهئے جو قرآن مجید کی آیات کے مطابق و موافق هوں اور اس کا ماحصل پهلا قول هے-



[1] – سوره یوسف،٤٠-

[2] – ترجمه المیزان،ج٤ص٢١٦-

[3] – ملا حظه هو: تفسیر نمونه ،ج٣،ص ٢٤٧-

[4] – سوره نساء،١،”وبث منهمارجالاًکثیراًونساءاً-“

[5] – الاحتجاج ،ج٢،ص٣١٤-

[6] – سوره نساء ،١،” وبث منهمارجالاً کثیراًو نساءاً-

[7] – ترجمه المیزان،ج٤،ص٢١٦-

تبصرے
Loading...