بہ مہربانی اویس قرنی کے سوانح حیات اور شخصیت بیان کیجئیے۔ کیا یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے جب سنا کہ پیغمبراکرم{ص} کے دندان مبارک شہید ہوئے ہیں، تو انہوں نے بھی اپنے دانت توڑ لیے؟ کیا پیغمبراکرم{ص} نے ان کے اس کام کی ستائش کی ہے؟

اویس قرنی کے بارے میں بیان کے گیے مطلب کے صحیح یا غلط ہونے پر بحث کرنے سے پہلے ہم ان کی سوانح حیات اور شخصیت پر چند حصوں میں مختصر روشنی ڈالیں گے:

الف} اویس بن عامر مرادی قرنی ، کی کنیت “ابو عمرو”[1] تھی۔ وہ تابعین[2] میں ایک بڑی شخصیت شمار ہوتے تھے اور ایک مشہور[3]باتقویٰ شخصیت تھے۔ ان کا زہد و تقویٰ اور نیک اخلاق زبان زد خاص و عام تھے۔

وہ پیغمبراسلام{ص} کے زمانہ میں ایمان لائے ہیں، لیکن آنحضرت{ص} کا دیدار کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور اپنی ماں کی اطاعت[4] کرتے ہوئے مدینہ جاکر واپس لوٹے۔ وہ اہل یمن تھے۔ لیکن خلیفہ دوم ، عمر بن خطاب کی خلافت کے دوران کوفہ میں سکونت اختیار کی[5]۔ وہ امیرالمومنین{ع} کے وفادار صحابی تھے، انہوں نے امیرالمومنین{ع} کی بیعت کر کے عہد کیا تھا کہ جان کی بازی لگا کر ولایت کا دفاع کریں گے اور کبھی میدان کارزار کی طرف پیٹھ نہیں دکھائیں گے[6]۔

نقل کیا گیا ہے کہ جب امیرالمومنین{ع} نے پہلی بار اویس قرنی کو دیکھا، تو ان کے نورانی چہرہ سے انہیں پہچان لیا اور فرمایا:  یقیناً تم اویس معلوم ہوتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: جی ہاں، میں اویس ہوں۔ حضرت{ع} نے فرمایا: یقیناً تم قرنی معلوم ہوتے ہو؟ کہا: جی ہاں، میں اویس قرنی ہوں[7]۔

ب} پیغمبراکرم{ص} کی نظر میں اویس قرنی کے مقام و منزلت کے بارے میں ہم ذیل میں چند احادیث کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

۱۔ رسول خدا{ص} اویس قرنی کو دیکھنے کے مشتاق تھے اور فرماتے تھے: ” قرنی کی طرف سے نسیم بہشت آرہی ہے، اے اویس قرنی ؛ میں تجھے دیکھنے کے لیے سخت مشتاق ہوں، آگاہ رہو، جو بھی اس سے ملاقات کرے گا، میرا سلام اس تک پہنچانا۔[8]

۲۔ ایک شخص نے پوچھا: اویس قرنی کون ہے؟ حضرت رسول اکرم{ص} نے فرمایا: وہ ایک گمنام شخص ہے اگر تم سے غایب ہو تو اس کی تلاش نہیں کرتے اور اگر تمہارے پاس ہوتا تو تم اہمیت نہیں دیتے، لیکن جان لو اس کی شفاعت سے {بڑی آبادی والے} دو قبیلوں ، “ربیعہ” اور “مضر” کے افراد بہشت میں داخل ہوں گے، اس نے مجھے نہیں دیکھا ہے، لیکن وہ مجھ پر ایمان لایا ہے۔ سرانجام وہ میرے خلیفہ اور شائستہ جانشین {علی بن ابیطالب} کی رکاب میں صفین میں شہادت پر فائز ہوگا۔[9]

۳۔ ایک روایت میں امیرالمومنین علی{ع} نے فرمایا ہے: ” رسول خدا{ص} نے مجھے خبر دی کہ میں آپ{ص} کی امت کے ایک مرد سے ملاقات کروں گا کہ اسے “اویس قرنی” کہتے ہیں۔ وہ خدا اور اس کے رسول کی پارٹی {حزب} سے ہے کہ اس کی موت خدا کی راہ میں شہادت ہے اور اس کی شفاعت سے “ربیعہ” اور “مضر” نامی دو قبیلوں کے افراد بہشت میں داخل ہوں گے۔[10]

ج] اویس کا زہد و تقویٰ زبان زد عام و خاص تھا۔ وہ امیرالمومنین علی{ع} کے ایک نمایاں صحابی تھے اور بلند مقام پر فائز تھے۔ فضل بن شاذان انہیں بعض باتقویٰ افراد سے بالاتر جانتے ہیں[11]۔

پیغمبرخدا{ص} نے اویس کے تقویٰ کے بارے میں فرمایا ہے: ” میری امت میں کچھ ایسے افراد ہیں، جو لباس کی عدم موجودگی کی وجہ سے مسجد میں حاضر نہیں ہو سکتے ہیں اور ان کا ایمان  لوگوں سے مدد طلب کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے، ان افراد میں سے اویس قرنی ہے۔[12]

وہ شب زندہ دار اور اہل عبادت تھے[13]۔

مورخین[14] میں مشہور ہے کہ اویس قرنی جنگ صفین میں امام علی{ع} کی رکاب میں شہادت پر فائز ہوئے[15]۔

البتہ یہ جو اویس قرنی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ، جب کفار نے رسول خدا{ص} کے دندان مبارک کو شہید کیا، تو یہ خبر سن کر اویس قرنی نے اپنے دانت توڑ لیے ہیں۔ اس قضیہ کے بارے میں اکثر منابع میں کچھ نہیں کہا گیا ہے اور بعض تاریخوں میں جس چیز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جب اویس قرنی نے سنا کہ کفار نے رسول خدا{ص} کے دندان مبارک میں سے ایک کو شہید کیا ہے ، تو انہوں نے اپنے تمام دانت ایک ایک کر کے توڑ لیے تاکہ رسول خدا{ص} کے شہید کیے گیے دانت سے موافقت کریں[16]۔ یہ روایت سند اور محتویٰ کے لحاظ سے مشکوک ہے۔

 

 


[1]. ذهبى،شمس الدين محمد بن احمد،‏تاریخ الاسلام،تحقيق: تدمرى، عمر عبد السلام، ج 3، ص 555، دار الكتاب العربى، بيروت، ط الثانية، 1413ھ؛ابن اثير الجزری،عز الدين بن الأثير أبو الحسن على بن محمد، اسد الغابة، ج 1، ص 179،دار الفكر،بيروت، 1409ق؛ تاریخ طبرى‏، أبو جعفر محمد بن جرير، الطبری، تحقيق: محمد أبو الفضل ابراهيم،  ج 11، ص 662، دار التراث، بيروت، ط الثانية، 1387ھ.

[2]. ابن اعثم‏ الكوفى، أبو محمد أحمد بن اعثم، ‏الفتوح،تحقيق: شيرى، على، ج 2، ص 544 و 545،دارالأضواء، بیروت، ط الأولى، 1411ھ؛ تاریخ الاسلام، ج 3، ص 555؛ سیرة اعلام النبلاء، ج 5، ص 34 به نقل از ناظم زاده قمی، سيد اصغر، اصحاب امام علی (ع)، ج 1، اویس قرنی؛اسد الغابة، ج 1، ص 179.

[3]. تاریخ الاسلام، ج 3، ص 555؛ اسد الغابة، ج 1، ص 179.

[4].ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی، الاصابة،تحقيق: عبد الموجود، عادل احمد و معوض، على محمد، ج 1، ص 359، دارالكتب العلمية، بیروت، ط الأولى، 1415ق؛ اصحاب امام علی (ع)، ج 1.

[5]. اسد الغابة، ج 1، 179؛ تاریخ الاسلام، ج 3، ص 556؛ الاصابة، ج 1، ص 359؛زركلى‏، خير الدين‏، الاعلام، ج 2، ص 32، دار العلم  للملايين، بیروت، ط الثامنة، 1989م؛ سیرة اعلام النبلاء، ج 5، ص 70 به نقل از کتاب اصحاب امام علی (ع)، ج 1.

[6]. ر.ک: شیخ مفید، نبرد جمل، ترجمه مهدوی دامغلنی، محمود، ص 59، نشر نی، تهران، طبع دوم، 1383ھ ش.

[7]. کشی، ابوعمرو، محمد بن عمر بن عبدالعزیز، رجال کشی، محقق/مصحح: دکتر مصطفوی، حسن، ص 98، ح 156، مؤسسه نشر دانشگاه مشهد، 1490ھ

[8]. ابن شاذان قمى، أبو الفضل شاذان بن جبرئيل‏، الفضائل، ص 107، نشر رضی، قم، طبع دوم، 1363ش؛ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج 42، ص 155، دار إحياء التراث العربي، بیروت، طبع دوم، 1403ق؛شيخ حرّ عاملى، محمد بن حسن‏، إثبات الهداة بالنصوص و المعجزات، ج 3، ص 46، ‏نشر اعلمی، بیروت، طبع اول، 1425ھ

[9]. الفضائل، ص 107؛بحارالانوار، ج 42، ص 155.

[10]. مفيد، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ج 1، ص 316، كنگرۀ شيخ مفيد، قم، طبع اول، 1413ق؛ طبرسى، فضل بن حسن‏، إعلام الورى بأعلام الهدى (ط – القدیمة)، ‏ص 170، نشر اسلامیة، تهران، طبع سوم، 1390ق؛ بحارالانوار، ج 42، ص 147.

[11]. رجال الكشی، ص 98؛ اصحاب امام علی (ع)، ج 1.

[12]. الاصابة، ج 1، ص 361؛ حلية الاولياء، ج 2، ص 84  و سير اعلام النبلاء، ج 5، ص 76 به نقل از  اصحاب امام علی (ع)، ج 1.

[13]. حلية الاولياء، ج 2، ص 87 و سير اعلام النبلاء، ج 5، ص 77.

[14]. غیر مشہور نظریہ ، یہ ہے کہ وہ جنگ دیلم میں شہید ہوئے ہیں اور ان کا مرقد کوہ اعلی تر قزوین میں ہے (مستوفى قزوینی‏، حمد الله بن ابى بكر بن احمد، تاریخ گزیده،تحقيق: نوايى، عبد الحسين ،‏ ص 630،امير كبير، تهران،طبع سوم، 1364ھ ش).

[15]. الاصابة، ج 1، ص 359؛ اسد الغابة، ج 1، ص 180؛ تاریخ الاسلام، ج 3، ص 556؛ تاریخ الطبری، ج 11، ص 662؛ تاریخ گزیده، ص 631؛ المنقری، نصر بن مزاحم‏، وقعة صفین،تحقيق: هارون، عبد السلام محمد، ص 324،المؤسسة العربية الحديثة، القاهرة، الطبعة الثانية، 1382، افست قم، منشورات مكتبة المرعشى النجفى، 1404ق؛ التميمی السمعانى، أبو سعيد عبد الكريم بن محمد بن منصور‏، الانساب، تحقيق: المعلمى اليمانى، عبد الرحمن بن يحيى،ج 10، ص 392،مجلس دائرة المعارف العثمانية، حیدر آباد، ط الأولى، 1382ھ؛ سبط بن جوزی، شرح حال و فضائل خاندان نبوت، ترجمه عطائی، محمد رضا، ص 115، نشر آستان قدس رضوی، مشهد، طبع اول، 1379ھ ش.

[16]. تاريخ گزيده، ص 630.

 

تبصرے
Loading...