اگر ایک مدت تک قبلھ نما پر اعتماد کرتے ھوئے ایک سمت نماز پڑھی بعد میں پتا چلا کھ قبلھ کی سمت غلط تھی ، اس صورت میں کیا کرنا چاھئے؟

مراجع معظم تقلید کے فتاوی کے مطابق، عام قبلھ نما اگر صحیح ھوں گے ، تو  قبلھ کو پھچاننے کیلئے اچھے وسیلے ھیں اور اس سے  حاصل شده گمان دوسرے طریقوں سے کم نھیں ھے بلکھ عام طورپر زیاده معتبرھے۔ [1]

حضرت آیۃ اللھ العظمی سید علی خامنھ ای ( مد ظلھ العالی ) قبلھ کو قبلھ نما سے پھچاننے کے بارے میں فرماتے ھیں: شاخص یا قبلھ نما پر اعتماد کرنا اگر مکلف کیلئے اطمینان کا باعث ھو تو صحیح ھے اور اسکے مطابق عمل کرنا کافی ھے۔ [2]

اگر قطب نما اطمینان کرنے کے قابل ھے اور وه گمان کا باعث بنتا ھے۔ اگر انسان کو کسی طرف قبلھ کا گمان یا یقین ھوا اور اس نے اپنے یقین یا گمان کے مطابق اس سمت نماز پڑھی۔ بعد میں پتا چلا کھ اس نے غلطی کی ھے اور قبلھ کسی اور سمت میں تھا تو اس کی دو صورتیں ھیں:

۱۔ اگر قبله سے حاصل شده انحراف ، دو طرف دائیں اور بائیں کے درمیان ھو تو اس صورت میں پڑھی گئی نمازیں سب صحیح ھیں۔ اگر چه ابھی نماز کا وقت باقی ھو۔ حتی کھ اگر نماز کے دوران بھی سمجھه لے کھ اس طرح کی غلطی ھوئی ھے، تو باقی نماز کو قبلھ کی صحیح سمت سے پڑھ کر جاری رکھے اور نماز کا اعاده کرنے کی ضرورت نھیں ھے۔

۲۔ اگر قبلھ سے حاصل شده انحراف ، دو طرف دائیں اور بائیں کے درمیان سے زیاده ھو۔ تو اس صورت میں اگر نماز کا وقت باقی ھے تو نماز کو دوباره پڑھے۔لیکن اگر نماز کا وقت گزر گیا ھے تو دوباره پڑھنے کی ضرورت نھیں ھے۔ بلکھ ادا شده نمازیں سب صحیح ھیں۔ حتی کھ وه نمازیں بھی جو قبلھ کی سمت پیٹھه کرکے پڑھی ھیں وه بھی صحیح ھیں ۔ لیکن احتیاط مستحب یھ ھے کھ انھیں قضا کرے۔ [3]

پس قبلھ نما سے قبلھ کو معین کرنے کا معتبر ھونا ، اگر نماز کا وقت گزرنے کے بعد سمجھے کھ جس قبلھ نما کے مطابق نماز پڑھی تھی  وه غلط تھا اور قبلھ کی سمت کو معین نھیں کرسکا تھا تو ان نمازوں کو دوباره پڑھنے کی ضرورت نھیں ھے اور نھ قضا کرنے کی ضرورت ھے۔



[1]  توضیح المسائل (المحشی للامام الخمینی ) ج۱، ص ۴۳۳، مسئله ۷۸۲۔

[2]  اجوبه الاستفتائات (بالفارسیۃ) ص ۷۴۔

[3]  وسیلۃ النجاۃ ( مع حواشی الامام الخمینی ) مساالھ ۴، ص ۱۲۹۔

تبصرے
Loading...