اولین و آخرین اور ملاء اعلی میں پیغمبر {ص} پر صلوات کے کیا معنی ہیں؟

اس سوال کے جواب کے سلسلہ میں ہم پہلے دعا میں ذکر ھوئی اصطلاحوں کے معنی بیان کرتے ہیں اور اس کے بعد نتیجہ پیش کرتے ہیں:
۱-اولین: لفظ” اولین” قرآن مجید میں ۳۲ بار دہرایا گیا ہے، اس سے مراد ان مخلوقات کا مجموعہ ہے جو زمانہ کے لحاظ سےپیغمبر اسلام {ص} کے ظہور سے پہلے تھے-
۲-آخرین: لفظ” آخرین” {خ پر کسرہ سے} بعد والی اور مستقبل کی نسلوں کے معنی میں ہے، یہ لفظ قرآن مجید میں ۹ بار دہرا گیا ہے- لیکن اس دعا میں اس سے مراد، وہ نسلیں ہیں، جو رسول خدا {ص] کے بعد آج تک آئی ہیں اور اس کے بعد مستقبل میں آئیں گی-
۳-ملاء اعلی: یہ لفظ، قرآن مجید میں عالم بالا کے ساکنوں” یعنی فرشتوں اور کروبیان” کے معنی میں ہے-
۴-مرسلین: انبیاء اور رسول {ص} کے معنی میں ہے –
مذکورہ بیان کے پیش نظر، چونکہ حضرت محمد {ص} سرور انبیاء {ع} عالم بالا کے ساکنوں کے افضل اور خلقت کی ابتداء سے انتہا تک کا نتیجہ ہیں، اس لئے انحضرت پر صلوات ان الفاظ میں ذکر ھوئی ہے، یہ صلوات، حضرت محمد {ص} کی نورانی حقیقت کی اولین، آخرین، فرشتوں اور انبیاء{ع} اور اہل بیت رسول{ع} کی ہمراہی بیان کرتی ہے، جو حضرت محمد{ص} کی وجہ سے اس فضیلت کے حامل ہیں-
نور محمد مصطفے{ص} کے دوسرے انبیاء {ع} پر مسبوق ھونا ایسے مطالب ہیں جن کی بہت سی روایتوں میں تاکید کی گئی ہے، ان میں سے بعض روایتوں کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
۱-“اول ما خلق اللہ نوری” [1] ،”خداوند متعال نے جس اولین خلقت کو پیدا کیا، وہ میرا نور تھا”-
۲-” کنت نبیاً و آدم بین الماء والطین”-[2] “میں اس وقت نبی تھا، جب آدم پانی اور مٹی میں تھا”
۳-” ان اللہ خلقنی من نور و خلق ذلک النور قبل آدم بالفی الف سنۃ”[3] خداوند متعال نے مجھے آدم سے بیس لاکھ سال قبل ایک نور سے پیدا کیا ہے”-
ان روایات کے مطابق، اگر چہ آنحضرت {ص} جسمانی خلقت کے لحاظ سے آخری پیغمبر{ص} ہیں لیکن نوری حقیقت کے لحاظ سے، اولین مخلوقات اور حضرت حق کے نزدیک ترین مخلوق ہیں-
ابن فارض کے بقول:
” وانی وان کنت ابن آدم صورۃ فلی منہ معنی شاھد بابوتی”-[4]
ترجمہ:
” اگرچہ میں عالم صورت میں آدم {ع} کی اولاد ھوں لیکن میرے کچھ معنی ہیں جو میرے آبا و اجداد کی بہ نسبت دلالت رکھتے ہیں”-
” فی الآخرین” عبارت کے بارے میں بھی، جو آخرین کے درمیان پیغمبر {ص} پر صلوات کا تقاضا کرتی ہے، قابل بیان ہے کہ مذکورہ مباحث کے مطابق آنحضرت {ص} کے وجود کی حقیقت آپ {ص} کی رحلت کے بعد والے زمانہ پر بھی مشتمل ہے اور قرآن مجید میں بھی یہ بحث، آنحضرت {ص} کی شہادت و شاہد ھونے کے مفاہیم کے عنوان سے ذکر کی گئی ہے-
اسی طرح بہت سی رواتوں میں آنحضرت {ص} کے ائمہ اطہار {ع} کے ساتھ نورانی وحدت کا ذکر کیا گیا ہے، جو بذات خود آنحضرت {ص} کی رحلت کے بعد آپ {ص} کی حیات اور باطنی حضور کی گواہ ہیں- اس سلسلہ میں حضرت علی {ع} فرماتے ہیں: « أَوَّلُنَا مُحَمَّدٌ وَ آخِرُنَا مُحَمَّدٌ وَ أَوْسَطُنَا مُحَمَّدٌ وَ كُلُّنَا مُحَمَّدٌ….»[5] .
” یعنی ہم سب کی ابتداء وانتہا، نور مقدس و حقیقت واحد محمدیہ {ص} ہے کہ یہ نور کبھی نابود نہیں ھوگا اور ہمیشہ موجود رہے گا”-
تبصرے
Loading...