امام اور خلیفه میں کیا فرق هے؟

سوال سے ظاهر هے که پیغمبر صلّی الله علیه وآله کے جانشین کے عنوان سے امام و خلیفه کے فرق کو پوچھا گیا هے لهذا ظاهر هے که کلامی اور اعتقادی زاویه نگاه سے اس مسئله کو دیکھا جانا ضروری هے نه که عرفانی لحاظ سے۔ البته اختصار کے طور پر کها جاسکتا هے که عرفانی نقطه نظر سے خلافت وه شئے هے جو حدوث و بقا کے اعتبار سے استخلاف کا آئینه هے اور خلیفه وه هے جو اپنے عهده کے آغاز و انجام میں مستخلف عنه کا آئینه هو اور کسی صورت میں اس قبله سے منحرف نه هو۔ بے شک خلیفه وه شخص هے جو کسی کی جانشینی کرتا هے یعنی هر خلیفه مستخلف عنه کی خلافت کا بوﺟﮭ اٹھائے هے اور اسے مستخلف عنه کے صفات سے متصف اور احکام الهی کو نافذ کرنے والا هونا چاهئے۔ الهی خلافت کمال وجودی کی قسم میں هے اور ایک تشکیکی مقوله هے یعنی کسی میں کم هے کسی میں زیاده اور اس کے اعلی درجات کو انسان کامل مثلا انبیاء و اولیاء میں دیکھا جاسکتا هے اور اس سے کم درجه پرهیزگار انسان میں۔[1]

اس لئے خود لفظ خلافت اور جانشینی میں یه معنی پوشیده هیں که خلیفه میں مستخلف عنه کے ظهور کو هی خلافت کهتے هیں اور خلیفه وه هے جس کی شخصیت مستخلف عنه سے وابسته هو اور اس سے هٹ کر اس کا کوئی تصور نه هو۔

مسئله کی کلامی تحقیق

لغت میں امام کے معنی قائد اور پیشوا کے هیں۔ اور امامت بھی پیشوائی اور رهبری کے معنی میں هے۔ لیکن علم کلام کی اصطلاح کے طور پر متکلمین نے اس کی بهت سی تعریفیں کی هیں اور اکثر نے اس کو دینی و دنیوی امور میں معاشره کی عمومی قیادت کے معنی میں لیا هے۔ لهذا امام یعنی جس کی رفتار و گفتار دوسروں کے لئے نمونه اور آئیڈیل هو اور وه معاشره کی قیادت کو سنبھالے، چاهے یه قیادت رسول الله صلّی الله علیه وآله کی جانشینی کے طور پر هو یا اصالتا و استقلالا اس مقام کو حاصل کرے۔

قرآن میں لفظ امام ایک وسیع معنی میں هے جس کے تحت بهت سے انبیاء آجاتے هیں۔ ابن منظور کے بقول خود پیغمبر اسلام صلّی الله علیه وآله [امام الائمه][2] هیں کیونکه قیادت کے عالی ترین عهده پر فائز هیں اور آپ کی رهبری اصالتاً هے نه که کسی کی جانشینی کے طور پر۔ جبکه مسئله خلافت میں قیادت کا موضوع ایک اور هی صورت اپنالیتا هے اور قیادت کو پیغمبر اکرم صلّی الله علیه وآله کی جانشینی کے طور پر دیکھا جاتا هے۔ اس لحاظ سے ﮐﭼﮭ دانشمندوں نے امامت کو [خلافۃ عن الرسول] کے تحت لاکر سمجھا هے۔

لغت میں خلیفه، جانشین او قائم مقام کے معنی میں آیا هے۔ در حقیقت اس سے نیابت کے معنی کا استفاده هوتا هے۔ اس لحاظ سے جس روایت میں رسول الله صلّی الله علیه وآله نے اپنے خلفاء و جانشین کے بارے میں فرمایا [میرے بعد باره ائمه هیں جن میں سب سے پهلے علی ابن ابی طالب علیه السلام اور آخری حضرت مهدی علیه السلام هیں یه سب میرے بعد میرے خلیفه، وصی اور ولی هیں اور میری امت پر الله کی حجت هیں][3] اس حدیث میں آپ نے اپنے جانشینوں کا خاص طور سے تذکره فرمایا هے، ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا که الله میرے خلفاء پر رحم فرمائے کها گیا :یا رسول الله صلّی الله علیه وآله آپ کے خلفاء کون هیں تو فرمایا جو لوگ میرے بعد آئیں گے اور میری حدیث اور سنت کی روایت کریں گے][4] اس حدیث میں عام عنوان سے اپنے جانشینوں کا تعارف کرایا هے اور یهاں راویان سے مراد زمانه غیبت کے فقهاء هیں۔ اس بنیاد پر خلیفه رسول صلّی الله علیه وآله اس شخص کو کها جائے گا جو رسول صلّی الله علیه وآله کے بعد ان کی عدم موجودگی میں ان کے امور و فرائض کو انجام دے اور شریعت لانے کو چھوڑکر دوسرے کام انجام تک پهنچائے۔

اهل سنت کے اکثر دانشوروں نے خلافت و امامت کو ایک دوسرے کا مترادف مانا هے اور کها هے که خلافت و امامت کے ایک هی معنی هیں اور جهاں بھی ان میں ایک صدق هوتا هو دوسرا بھی صدق هوگا۔ مثلا ابن خلدون کا کهنا هے که خلافت یعنی دنیا کی سیاست اور دین کی حفاظت میں صاحب شریعت کی نیابت اور اسی اعتبار سے خلافت و امامت کها جاتا هے اور اس شخص کو خلیفه اور امام کهتے هیں جس کے پاس یه منصب هو۔[5]

یه دو لفظ اگرچه مترادف لفظوں کی طرح استعمال هوتے هیں لیکن ظاهرا دو الگ الگ معنی رکھتے هیں کیونکه معنی امامت کے تحقق میں قیادت شرط هے۔ امام اپنے کهے پر عمل کرے اور اپنی گفتار و رفتار میں لوگوں کی قیادت کرے۔ لیکن معنی خلافت کے تحقق میں صرف یهی کافی هے که خلیفه کے عنوان سے انسان پیغمبر صلّی الله علیه وآله کی جانشینی کے لئے معین کیا گیا هو ان کی عدم موجودگی میں ان کے کام انجام دے، حتی اگر خلیفه اپنے قول کے مطابق عمل نه کرے پھر بھی لغوی اعتبارسے اسے خلیفه کها جاسکتا هے۔

اس بنیاد پر امامت و خلافت مترادف نهیں هیں۔ ممکن هے یه معنی کسی ایک شخص میں جمع هوجائیں مثلا اگر پیغمبر اکرم صلّی الله علیه وآله کسی ایسے ممتاز شخص جو دین کے احکام و دستورات پر عمل کرتا هے اور عملی اعتبار سے لوگوں کا پیشوا هو مثلا حضرت علی علیه السلام کو اپنا جانشین قرار دیں اور قوانین شریعت اور دین کی حفاظت نیز اجتماعی اور سیاسی باگ ڈور اس کے سپرد کردیں تو ایسا شخص حقیقتا امام تو هے هی، اس کے علاوه دینی منصوبوں کو آگے بڑھانے اور احکام الهی کو کو نافذ کرنے میں خلیفه بھی هے۔

کبھی ممکن هے که کوئی امام تو هو لیکن خلیفه نه هو جیسے جناب ابراهیم علیه السلام۔ مراد یه هے که جناب ابراهیم علیه السلام بالمعنی الخاص رسول اکرم صلّی الله علیه وآله کے خلیفه و جانشین نهیں تھے یعنی ایسا نهیں تھا که وه (حضرت علی علیه السلام کی طرح) امام بھی هوں اور خلیفه بھی، البته خلیفۃ الله تھے کیونکه تمام انبیاء الهی زمین پر الله کے خلیفه هیں۔ کبھی ایسا بھی هوتا هے که خلافت صادق آتی هے لیکن امامت صادق نهیں آتی، یعنی ممکن هے که کوئی خلیفه و جانشین هو لیکن امام نه هو؛ مثلا اگر رسول صلّی الله علیه وآله نے کسی کو اپنا جانشین قرار دیا هے اور کچھ کاموں کو اس کے سپرد کردیا هے که وه آپ کی عدم موجودگی میں انجام دے ایسے شخص کو لغوی اعتبار سے خلیفه رسول صلّی الله علیه وآله کها جاسکتا هے، لیکن تمام شئون میں امام اور پیشوائے مطلق نهیں کها جاسکتا۔

اسی طرح اگر ملت کے لوگ اپنے درمیان سے کسی کا انتخاب کرلیں اور پیغمبر کے کسی کام کو اس کے حوالے کردیں تو ممکن هے که وه اس کو اپنے خیال کے مطابق خلیفه کهنے لگیں اور لغوی اعتبار سے اس میں کوئی حرج بھی نهیں هے، لیکن امامت مطلق اور حقیقی قیادت اس کے لئے صدق نهیں کرے گی۔

قرآن کریم کی نگاه میں امامت کا ایک خاص مقام و مرتبه هے اور قرآن نے اسے انسانی کمال و تکامل کا آخری مرحله قرار دیا هے جس تک صرف ﮐﭼﮭ لوگ هی پهنچے هیں؛ جیساکه ارشاد هوتا هے که: [(یاد کیجئے) جب الله نے ابراهیم علیه السلام کو مختلف کلمات کے ذریعه آزمایا اور وه بھی اس امتحان میں کامیاب رهے تو الله نے فرمایا: میں نے تم لوگوں کو امام قرار دیا۔[6] یقینا یه مقام جو جناب ابراهیم علیه السلام کو دیا گیا یه سب سے بڑا اور اعلی مقام تھا جس کے لئےجناب ابراهیم علیه السلام کو اتنے امتحانات سے گذرنا پڑا تب جاکر الله کی نظر میں اس کی لیاقت پیدا هوئی۔ لهذا امامت کا منصب نبوت کے منصب سے بھی بالاتر هے البته ﮐﭼﮭ جگھوں پر مثلا انبیاء اولوالعزم میں امامت اور نبوت کا منصب جمع هوگیا هے۔

اهل سنت کے برخلاف شیعوں کا عقیده هے که امامت یعنی پیغمبر صلّی الله علیه وآله کی جانشینی بھی نبوت کی طرح سے ایک انتصابی منصب هے نه که انتخابی، اور اس کا اهل الله کی طرف سے معین هوتا هے۔ لهذا امام وحی کے علاوه تمام شؤون میں پیغمبر صلّی الله علیه وآله کا هم گام و هم وزن هے۔ لیکن اهل سنت جانشینی پیغمبر صلّی الله علیه وآله کو ایک اجتماعی منصب و موهبت سمجھتے هیں (نه که منصب الهی) جو که عوام کی طرف سے خلیفه کو عطا هوتا هے اور خلیفه انتخاب کے ذریعه اس منصب تک پهنچتا هے۔

شیعوں کی نگاه میں ایسا منصب اس وقت جائز هوگا جب الله کی طرف سے هو اور جو اصالتاً اس منصب کا اهل هو وه احکام و معارف اسلامی کے بیان کرنے میں معصوم اور گناهوں سے پاک هوگا۔

اس طرح تین مسئلوں میں تشیع اور تسنن کا اختلاف واضح هوجاتا هے:

۱۔ امامت کا منصب انتصابی هونا

۲۔ علم امام کا علم خدادادی هونا اور امام کا خطا سے پاک هونا

۳۔ امام کی عصمت

البته معصوم هونے کا مطلب امام هونا نهیں هے کیونکه شیعه عقیده کےمطابق حضرت فاطمه زهراعلیها السلام بھی معصوم هیں اگرچه امام نهیں تھیں، جیساکه جناب مریم علیها السلام بھی معصوم تھیں۔

بعض اوقات ﮐﭼﮭ لوگ ایسی بحثوں پر نکته چینی کرتے هیں اور کهتے هیں که خلافت اور رسول الله صلّی الله علیه وآله کی جانشینی کا مسئله ایک تاریخی مسئله تھا اور ماضی سے متعلق هے، لهذا آج اس بحث سےکیا فائده هے؟

شیعه نقطه نگاه سے امامت کے عقیده کے ﮐﭼﮭ آثار و ثمرات هیں جو که خلافت کے عقیده سے حاصل نهیں هوسکتے۔

اولا: امامت اصول دین میں هے اور نبوت کا استمرار هے کیونکه شیعه کی نظر میں امامت در حقیقت نبی اکرم صلّی الله علیه وآله کے تبلیغی و هدایتی فرائض کا استمرار هے؛ اس طرح دنیا کے انجام تاریخ تک دین زنده هے۔

ثانیا: طرز حکومت جیسی اهم بحثوں کی اسی بحث پر بنیاد رکھی گئی هے۔ قرآن و احادیث میں سیکڑوں احکام ایسے هیں جو حاکم و زمامدار سے متعلق هیں۔ اگر امامت ایک انتصابی عهده هے تو ان احکام کے نفاذ کو ایسے انسان کے سپرد کرنا چاهئے جسے الله کی طرف سے ذمه داری دی گئی هو۔

ثالثا: اصول و معارف کی توضیح و تشریح اور فروع دین کے احکام کا بیان نیز لوگوں کی هدایت[7] اس کلامی بحث کا ایک نتیجه هیں جس کا امام ذمه دار هے۔

یه اهداف صرف ایسے برگزیده قائدین کے سائے میں حاصل هوسکتے هیں جن کی شخصیت ایسی هو که دین الهی کی تشریح و توضیح کا حق ادا کرسکیں اور یه عقیده امامت کے زیر سایه حاصل هوسکتا هے۔



[1] جوادی آملی ، عندالله ، تفسیر تسنیم ، ج۳ ،ص۵۶۔

[2] ابن منظور لسان العرب،ج۱۴،ص۲۹،لفظ: ام۔

[3] “الائمۃ بعدی اثنی عشر اولھم علی بن ابی طالب (ع) و آخر ھم القائم (ع)، فھم خلفائی و اوصیائی و حجج الله علی امتی بعدی ۔۔۔”، شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ج ۴ ، ص ۱۸۰۔

[4] اللھم ارحم خلفائی قیل یا رسول الله و من خلفاءک ؟ قال: الذی یأتون من بعدی یروون حدیثی و سنتیّ “، ایضا ، ص ۴۲۰ ۔

[5] ابن خلدون، مقدمه، ص ۱۹۱۔

[6] ” و اذ ابتلی ابراھیم ربه بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماما۔۔۔”،بقره، ۱۲۴۔

[7] هدایت باطنی ایسی چیز هے جو شیعه عقیده کے مطابق، امام ع کے خصوصیات میں سے هے اور یه خصوصیت خلیفه میں نهیں پائی جاتی۔

تبصرے
Loading...