اسلام کی نظر میں قصاص کا فلسفہ کیا ہے؟

اسلام کےاحکام سزا میں ایک حکم قصاص ہے ، لغت میں قصاص کے معنی “کسی چیز کے اثر کے تلاش کرنے کے ہیں”[1] اور اصطلاح میں “جرم کے اثر کو ایسے تلاش کرنا کہ قصاص کرلینے  والا ویسی ہی سزا مجرم کو دے جرم مجرم نے انجام دیا ہے”۔ [2]

قصاص ایک قدیم انسانی قانونی ہے جو اس کے زمان ابلاغ سے لیکر ہمارے زمانے  تک موجود ہے کتاب تفسیر نمونہ کے مولف نے سورہ بقرہ کی آیت شریفہ ۱۷۹ کے ذیل میں فلسفہ قصاص کو بیان فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ :” جاھل عربوں کی رسم یہ تھی کہ اگر ان کے قبیلے کا کوئی فرد مارا جاتا تھا  تو وہ یہ فیصلہ کرتے تھے کہ جھاں تک ہوسکے وہ قاتل کے قبیلے کے افراد کو مارڈالیں اور یہ فکر اتنی وسعت پاچکی تھی کہ وہ ایک فرد کے مرنے کے ساتھ قاتل کے پورے قبیلے کو ختم کردیتے تھے ، آیہ شریفہ نازل ہوئی جس کے ذریعے قصاص کا باانصاف حکم بیان ہوا ہے[3]۔  کیوںکہ یہ حالت وسیع طور پر انتقامی کیفیت اور طولانی لڑائیوں کا سبب بنتی تھی۔

لیکن  اسلام نے قانون قصاص کو انتقامی قتل کا جانشین بنایا  ، اسلام  ایک طرف اسے گلی کوچوں کی انتقامی کاروائیوں کے نکال کر عدالت اور قاضی کے دائرہ میں لایا اور اس طرح قصاص  کو ایک غیر قانوںی کام سے ایک ایسے عمل میں تبدیل کیا کہ جرم کی پھچان ، مجرم اور جرم کے حدود کیلئے ایک عدالت قائم ہوجائے تا کہ ہر طرح کی سزا اسی کی نظارت میں عدل و اںصاف کے ساتھ دی جائے۔ اسے انتقامی صورت حال سے نکال کر قصاص کا نام دیا ، اوراس زمانے میں جن غلط قوانین نے سماج کو گھیررکھا تھا انہیں ختم کردیا۔ ایک شخص کے مقابلے میں کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا انتقام لینا تھا اور ایسا اندھا انتقام کہ جو مجرم اور قاتل کے گھرانے تک ہی محدود نہیں رہتا تھا ، جبکہ قرآن  مجید بیان کرتا ہے :” اور ہم نے توریت میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جان کا بدلہ جان اور آنکھ کا بدلہ آنکھ اور ناک کا بدلہ ناک اور کان کا بدلہ کان اور دانت کا بدلہ دانت ہے اور زخموں کا بھی بدلہ لیا جائے گا اب اگر کوئی شخص معاف کردے تو یہ اس کے گناہوں کا بھی کفارہ ہوجائے گا اور جو بھی خدا کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کرے گا وہ ظالموں میں سے شمار ہوگا  [4]

اگر تمھارا ایک شخص مار ڈالا گیا ، تو تمھیں بھی اس کے مقابلے میں ایک ہی آدمی سے جو مجرم اور قصور وار ہے  قصاص کرلینا چاھیئے  اور اگر مقتول کا گھرانہ راضی ہوگیا تو اس کو بخش دیا جائے گا یا اس سے  “دیہ” حاصل کیا جائے گا۔ آج تک قصاص کے اس حکم کے بدلے کوئی بھتر حکم جاگزین نھیں ہوا ہے جو مقتولین کے پسماندگان کو راضی کرسکے ۔ اس طرح مجرم بہی مساوی طور پر سزا دیکھے تاکہ اس کے لئے اور دوسروں کے لئے عبرت کا سبق بن جائے۔ اور لوگ آسانی سے قتل اور خون  نہ بہائیں، یا دوسرے لوگوں کو مارنے کے بعد چند سال جیل میں کاٹ کر اور دوبارہ آزاد ہو کر لوگوں کو خطرے میں نہ ڈالیں۔

“اسلام ہر موضوع میں مسائل کو حقیقت کے ساتھ دیکھتا ہے اور اس مسئلے کے مختلف پھلووں کو جانچ لیتا ہے بے گناھوں کے خون کے مسئلے میں بھی حق مطلب کو بغیر کسی شدت یا سھل انگاری کے بیان کرتا ہے، نہ کہ یہودیت کے منحرف دین کی طرح صرف قصاص پر اکتفاء کرتا ہے اور نہ ہی عیسائیت کی طرح صرف بخشش اور عفو اور دیہ لیںے کی نصیحت کرتا ہے، کیوںکہ  صرف عفو کرنا جرات کا سبب بنتا ہے اور صرف قصاص شدت پسندی اور انتقام جویی کا باعث[5] ۔ (بلکہ اسلام قصاص بھی اور عفوو بخشش اور دیہ کو بھی منظور کرتا ہے تاکہ اعتدال برقرار رہے)

قصاص کے تشریع کی سب سے اہم دلیل قرآن مجید میں سماج کی حفاظت کو جانا گیا ہے خداوند متعال نے سورہ بقرہ میں قصاص کے فلسفے کے بارے میں فرمایا ہے :” صاحبانِ عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے کہ شاید تم اس طرح متقی بن جاؤ” [6]

یعنی قصاص کا مقصد موت کے گھاٹ اتارنا ںہیں ہے بلکہ مقصد حیات ہے ، اس کا مقصد ،صرف امور کی ترمیم اور فرد یا سماج کو اپنی پہلی حالت پر لوٹا دینا ہے، اگر کوئی بغیر دلیل کے سماج کے قانونی ارکان کے بغیر قتل کا اقدام کرے تو سماجی حیات خطرے میں پڑتی ہے اور قصاص سماج اور فرد کی حیات کی ضمانت ہے۔

کبھی بعض افراد حکم قصاص پر اشکال کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ قصاص اس بات کا  سبب بنتا ہے کہ ایک اور آدمی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، جبکہ انسانی رحمت اور رافت اس بات کی متقاضی ہے کہ کسی جان کا قصاص نہ ہوجائے۔

اس کے جواب میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ، ہاں ، لیکن ہر طرح کی رافت اور رحمت پسندیدہ اور با مصلحت نہیں ہے اور ہر طرح کا رحم کرنا بھی فضیلت نہیں جانا جائے گا ، کیوںکہ کسی مجرم اور قسی القلب ( جس کیلئے لوگوں کو قتل کردینا آسان کام ہے(  پر رحم کرنا اور ایسے فرد پر جو نافرمان ہے اور جو دوسروں کے مال اور جان اور عزت پر حملہ کرتا ہے، اس پر رحم کرنا صالح افراد پر ستم کرنے کے برابر ہے، اگر ہم مطلق طور پر اور بغیر کسی قید و شرط کے رحم کرنے  عمل کریں تو نظام میں فساد پیدا ہوگا اور انسانیت ہلاکت میں پڑ جائے گی اور انسانی فضائل تباہ ہوجائیں گے۔ [7]

شھید مطھری اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں: اس طرح کے مارنے کو آپ مارنا اور مرنا اور مار ڈالنا نہ کہیں  اس کو حیات اور زندگی سمجھیں ، لیکن اس فرد کی حیات ، بلکہ سماج کی حیات ، یعنی ایک مجرم کے قصاص سے ، آپ نے سماج  کے افراد کی حیات کو محفوظ کردیا ، اگر آپ قاتل کو نہیں روکیں گے تو کل وہ ایک اور آدمی کو مار ڈالے گا ، کل ایسے دسیوں آدمی نکلیں گے جو دسیوں آدمیوں کو مار ڈالیں گے ،  اس کو آپ سماج کے افراد کا کم  ہونا مت جاںیں ، یعنی قصاص کے معنی انسان کے ساتھ دشمنی کا ںہیں ہے ، یہ انسان کے ساتھ دوستی کرنے کا نام ہے” [8]

پس اگر انسان اخلاقی کمال کے مراتب تک پھنچ گیا، قصاص یعنی امور کی ترمیم اور انفرادی اور اجتماعی حیات کی فراھمی اور دوسرے اسلوب سے ایک انسان کا کم ہونا ترجیح رکھتا ہے ، کیونکہ مقصد موت کے گھات اتارنا نہیں ہے بلکہ مقصد حیات ہے اور خداوند متعال اپنے سارے بندوں کی نسبت رحمۃ للعالمین ہے اسی لئے آیہ شریفہ متفکر افراد اور انسانوں کے ذھنوں کو خطاب کرتی ہے نہ کہ احساسات اور عواطف کے ساتھ ، اور ارشاد ہے ” قصاص تمھارے لئے حیات اور زندگی ہے اے صاحبان عقل “

پاک وپاکیزہ اور صحت مند و سالم سماجی حیات ، عمومی ، آرام ، محفوظ، اور متقابل حقوق اور ذمہ داریوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور عمومی آرام اور حفاظت، سماجی حیات کے اصول اور بنیاری ارکان کی حفاظت سے جڑے ہوئے ہیں، ایک استقرائی نظر اور حصر پر تاکید کرنے کے بغیر سماجی حیات کے اصلی عناصر ، دین ، جان ، مال ، احترام، انسانی عزت ، انسانی عقل پر مشتمل ہے ، یہ اصول جو امام غزالی کے بعد ہمارے علماء اور فقھاء کی توجہ کا مرکز بںے  واقعی طور پر ایک صحت مند سماج کی بنیادوں کو تشکیل دیتے ہیں، اور جو اجزاء اور مجموعے اس کے ذیل میں موجود ہیں وہ سماج کی سبھی معتبر اور اہم مصلحتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔[9]

مندرجہ بالا مطالب کو مد نظر رکھ کر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اسلام کے احکام سزا کا مقصد یا اس کا اہم ترین ھدف  دینی اور سماجی نظام کی حفاظت ہے اور یہ بلند مقصد صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اصلاح اور تربیت کے ذریعے یا سزاوں کے ڈر سے ایسے اعمال کا مرتکب نہ ہو جن سے اجتماعی نظام کو نقصان پھنچتا ہے۔

 


[1]  ابن منظور ، لسان العرب ، ج ۱۱، ص ۱۹۰۔

[2]   و المراد بہ ھنا استبقاء اثر الجنایۃ من قتل او قطع اور ضرب اور جرح ، فکان المتقص یتبع اثر الجانی ، فیفعل مثلہ” نجفی، محمد حسین، جواھر الکلام  محقق ، قوچانی ، عباس ج ۴۳ ص ۷  دار الاحیاء الثراث  العربی ، بیروت، چھاپ ھفتم

[3]  مکارم ، ناصر تفسیر نمونہ، ج ۱ ، س ۶۰۳ تھران ، دار الکتب الاسلامیۃ ، ۱۳۷۴ ھ ۔ش ۔

[4] :” وَ كَتَبْنَا عَلَيهْم فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَ الْعَينْ‏َ بِالْعَينْ‏ِ وَ الْأَنفَ بِالْأَنفِ وَ الْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنّ‏ِ وَ الْجُرُوحَ قِصَاصٌ  فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّه

[5]  تفسیر نمونہ ج ۱،س ۶۰۷۔

[6]  سورہ بقرہ ۱۷۹۔

[7]  علامہ طباطبائی ، محمد حسین، تفسیر المیزان ، ترجمہ موسوی ہمدانی ، سید محمد باقر ، ج ۱ س ۶۶۷ ، قم ، دفتر انتشارات جامعہ مدرسین ۔

[8]  مطھری  مرتضی ، مجموعہ آثار ، ج ۲۲ ص ۷۴۹ ، تھران  انتشارات صدرا

[9] خسرو شاھی  ، قدرت اللہ  فلسفہ قصاص از دیدگاہ اسلام ، ص ۱۹۸ قم بوستان کتاب، طبع اول ۱۳۸۰

 

تبصرے
Loading...