اسلام اور عیسائیت کی باهمی گفتگو میں کسی طرح کی چنوتی موجود ھے؟

اس سوال کے جواب کے لئے مناسب ھے کھ استاد ھادوی تھرانی، کی تقریر( جو اس سلسلے میں پیش کی گئی ھے) کو ملاحظھ کریں۔

موجوده عیسوی صدی میں دیندای کی جانب رجحان بڑھ گیا ھے ، جب کھ گزشتھ صدی میں دین کو علیحده رکھنے کے لئے کافی کوششیں کی گئی تھیں۔ لیکن ان کوششوں کی مسلسل ناکامی اور بعض دینی تحریکوں کا زنده ھونا ( جن میں سر فھوست  انقلاب اسلامی ھے جو جمھوی اسلامی ایران کی شکل میں سامنے آیا ) سبب بن گیا کھ موجوده انسان  نئی تبدیلیوں کا تجربھ کرے اور تحول پا ئے اور ایک ملحد انسان جس کا بے دینی پر سخت اصرار ھے، سے  ایک دین دوست انسان میں تبدیل ھوجائے اور معنویت و حقیقت کی راه اختیارکر لے۔

اسی طرح سب ادیان یا بعض ادیان کے درمیان باهمی گفتگو کا رجحان بڑھ گیا ھے اور اسی سلسلے میں متعدد کانفرنسیں بلائی گئیں، جیسے دینی رھبروں کی عالمی انجمن کی کانفرنس ۲۰۰۲ میں تھائی لینڈ میں ، اور عالمی ادیان کی پارلیمنٹ  ۲۰۰۳ میں “سپین” میں ، دنیا میں ادیان کی عالمی کانفرنس قزاقستان میں ۲۰۰۳ میں اور آخر پر جنگ اور صلح کے بارے میں ابراھیمی ادیان کی کانفرنس ۲۰۰۶ میں ایٹلی میں منعقد ھوئی ۔

لیکن ان سب کوششوں کے باوجود ادیان کے درمیان گفتگو خصوصا اسلام اور مسیحیت، جو ابراھیمی ادیان کے آخری دو دین ھیں کے درمیان فایده مند گفتگو کو  مختلف چنوتیوں  کا سامنا  ھے، جن میں سے یھاں پر بعض کی جانب اشاره کیا جاتا ھے۔

۱۔ اِن دو دینوں میں اُن مشترک نقاط کی طرف حقیقی توجھ نھ ھونا جن مشترک نقاط کی طرف قرآن کریم اشاره کرتا ھے ” تم ان سے کھدو! اے اھل کتاب تم ایسی بات پر تو آؤ جو ھمارے اور تمھارے درمیان یکسان ھے کھ خدا کے سوا کسی کی عبادت نھ کریں اور کسی کو اس کا شریک نھ بنائیں اور خدا کے سوا ھم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نھ بنائے” [1]

اسلام اور عیسائیت میں عقیده اور اخلاق کے باب میں  بھت سے مشترک نقاط موجود ھیں۔ اسی طرح ان دو ادیان کے درمیان عالمی معاشرے کو چلانے  اور عالمی صلح اور امن تک پھنچنے کیلئے وسیع طور پر باهمی تعاون ممکن ھوسکتا ھے۔ یھ تعاون ایک طرف ” توحید” کےدائرے میں، بنیادی رکن کے طور پر، اور دوسری جانب ایک دین کی دوسرے دین پر برتری اور سیادت کے دعوؤں کے بغیر ھونا چاھئے جبکھ یھ دونوں خصوصیتیں ھماری آجکل کی دنیا میں کھو گئی ھیں۔

توحید، کی طرف سے غفلت برتی گئی ھے اور  کمزور ممالک پر طاقتور ممالک کے حملوں کا سلسلھ ایک معمول بن گیا ھے اور یھ بات ایران کی صلح آمیر ایٹمی توانائی کے سلسلے میں واضح طور پر مشاھده میںٓاتی ھے ۔

۲۔ ان دو ادیان کے درمیان فایده مند گفتگو کے نتائج سے ناواقفیت؛ کیونکھ ان دو ادیان کے درمیان گفتگو کو  صحیح اور مضبوط بنیادوں پر سمجھنے، اور علمی اور عملی صلاحیتوں کو قیاسی طورپر عقیده اور اخلاق کے مختلف شعبوں میں تحقیق کرنے کے ذریعے سےھی  وسعت دی جاسکتی ھے

اس علمی تعاون کا مقصد ، ان دو دینوں کے ماننے والوں کے درمیان مؤثر تعاون اور پُرامن بقاے باھمی کے لئے مثبت اور واضح تجاویز تک پھنچنے اور فکری ، اقتصادی جنگ کی آگ کو بجھانے، نیز ترقی اور انسانی صلاحتیوں کو عملی جامھ پھنانے کے لئے ایک پر سکون ماحول قائم کرنا ھے۔

۳۔ وه قدیمی فکر، جو ھر طرح کی تجدید نظر کے بغیر ، دوسرے دین کے بارے میں، حاکم ھے۔ یھ قدیمی فکر دوسرے دین کے بارے میں ایسے مطالعات اور تحقیقات پر مبنی ھے جو  معتبر دلائل و منابع سے خالی ھے، یا غلط بیانات کی بنیاد پر ھے ۔ اور اکثر موارد میں اس فکر کا نتیجھ دوسرے دین کے بارے میں سوء ظن ، اور غلط فیصلے ھوتے ھیں۔

۴۔ ایک اور چنوتی ، عالمی طاقتیں ھیں جو ادیان کی ٹکر کا سبب بنتی ھیں ۔ ان عالمی طاقتوں کے سربراه اپنے فوائد جنگ میں پاتے ھیں۔ یھ بات واضح ھے کھ جنگ کی جڑیں مضبوط ھونی چاهئیں، اور یھ مضبوط جڑیں عقیدے کے اختلاف میں موجود ھوتی ھیں ، اسی لئے وه ان اختلافات کو گهرا کرنے کی  کوشش میں ھوتے ھیں۔ جو توھین آمیز خاکے ڈنمارک میں دیکھنے کو ملے وه اسی عالمی سازش کا نتیجھ تھے اور اس کے علاوه ڈنمارک کے واقعات کی اور کوئی وجھ نھیں تھی۔ وه جھالت جس نے کائنات کی سب سے بڑی شخصیت حضرت محمد صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی توھین کی صورت میں شکل پائی انھوں نے ڈنمارک کا ھی اس جرم کے ظاھر کرنے  کے لئے اس لئے انتخاب کیا کیوں کھ اس ملک کے قومی جھنڈے پر صلیب کی علامت تھی ، وه اچھی طرح جانتے تھے کھ مسلمانوں کا رد عمل اس ملک کےقومی پرچم کو جلانے کی صورت میں ظاھر ھوگا اور اس طرح صلیب کی توھین سے تفسیر کرکےعیسائیوں کے رد عمل کو ابھارا جاسکے گا۔ جو ملاقات میں نے آٹھه مھینے پھلے واٹیکن کے پوپ بنڈیکٹ سے کی اس میں اس نکتے کی جانب اشاره کیا اور اس سے  یھ چاھا کھ اس شیطانی نقشے کی جانب توجھ کرے اور اپنے پیروکاروں پر واضح کرے کھ ملک کا جھنڈا جلانا صلیب کی بے حرمتی نھیں ھے بلکھ اس ملک کی حکومت کے خلاف ایک سیاسی تحریک ھے جس ملک میں حضرت رسالتماب صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی توھین کی گئی۔ انھیں سازشوں میں سے ایک سازش ۱۱ ستمبر کا واقعھ ھے۔ آج ھم بھت سےایسے قوانین اور دلائل سے جان گئے ھین کھ یھ ایک سازش تھی ، بین الاقوامی تجارت کی دو عمارتیں جھازوں اور میزائلوں کے حملوں سے خراب ھوئییں جس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف جنگ کے دائرے کو وسیع کرنا تھا اور صلیبی جنگوں کو زنده کرنا تھا۔ بالکل جس طرح اس وقت کے امریکی صدر نے اس بات کی جانب اشاره کیا۔

میری نظر سے یھ جو کام آخری دنوں پوپ نے انجام دیا اسی ادیان کے خلاف عالمی سازش کا ایک نتیجھ ھے۔ اس نے اپنی آٹھه مھینے پھلے کی تقریر [2] بلکھ اس تقریر سے ٹھیک ایک مھینے پھلے کی تقریر جس میں اُس نے ادیان خصوصا اسلام اور عیسائیت کے درمیان گفتگو کی اھمیت پر تاکید کی  اور ” اسسنیری ” شھر میں  اسلام اور عیسائیت کے درمیان کانفرنس کی قرارداد پیش کی۔ پس کس طرح وه ان موضوعات سے غافل رھا ھے اور ایسی باتیں کی ھیں جو اس کی شان سے دور ھے۔

۵۔ ان دو دینوں کے حقایق سے لاعلمی کی چنوتیاں، اس موضوع کے لئے بھت زیاده مثالیں موجود ھیں ، اور شاید ان میں سے اھم وھی پوپ کی تقریر ھو جن میں بعض کی جانب اشاره کرتا ھوں:

الف ) “جھاد” جو کھ ایک اسلامی اصطلاح ھے ، اور مقدس جنگ جو کھ عیسائی تاریخ میں واقع ھوئی ھے ان دو کو آپس  میں مخلوط کرنا اور ملانا، پوپ کھتا ھے:

” شھنشاه نے جھاد یا مقدس جنگ کے موضوع کا آغاز کیا”۔ جب کھ جھاد ھدایت کی رکاوٹوں کو ھٹانے اور خداوند کی عبادت کو آسان بنانے کا نام ھے۔ جھاد ان لوگوں کے ساتھه جنگ کا نام ھے جو خداوند متعال کی عبادت کے مقابلے میں کھڑے ھوتے ھیں اور اس کے بندوں کو اس کی پھچان اور اس تک ھدایت پانے میں رکاوٹ بنتے ھیں یھ وھی جھاد اصغر ھے ، کبھی جھاد سے مراد اپنے نفس کو پھچاننا اور اس کی اصلاح کرنا ھے۔ جس کو نفس کے ساتھه جھاد کرنے کا نام دیا گیا ھے، جبکھ مقدس جنگ ، اپنی حقیقت میں ، غیر عیسائی پر مسلط ھونے اور مجبورا انھیں مسیحی بنانے کا نام ھے ۔

اگر لبنان، ایران اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں اَرمَنِیُوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں گے،توان کے محققین اس حقیقت کا اعتراف کرتے ھیں کھ عیسائیوں نے ان کے دین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ھے جبکھ مسلمانوں نے اس سلسلے میں ایک قدم بھی نھیں اٹھایا ھے۔

ب) قرآن کی تاریخ اور ٓایات کی شان نزول سے عدم واقفیت۔

وه کھتا ھے:” بے شک شھنشاه جانتا تھا کھ قرآن کے دوسرے سوره ( سوره بقره ) کی آیت ۲۵۶ بیان کرتی ھے کھ ” دین میں کسی طرح کی زبردستی نھیں ھے۔۔۔۔” اوریھ سوره قرآن مجید کے پھلے سوروں میں سے ھے اور اس زمانے سے متعلق ھے کھ حضرت محمد کی کوئی حکومت نھیں تھی اور وه اکیلے تھے۔۔۔۔” ۔

جبکھ یھ آیت مدنی آیات میں سے ھے اور اس وقت نازل ھوئی جب پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم طاقت رکھتے تھے اور اُن کو کوئی بھی خطره نھیں تھا۔ بلکھ اس آیت کے ذیل میں ایسی  روایات وارد ھوئی ھیں جو بیان کرتی ھیں کھ :

“مسلمانوں کا ایک آدمی بعض عیسائی تاجروں کی تبلیغات کے ذریعے، جو مدینھ منوره آتے تھے اور لوگوں کو عیسائی دین کی جانب دعوت دیتے تھے ، عیسائی ھوا، اس کا باپ آنحضرت(ص) کی خدمت میں شرفیاب ھوا اور آنحضرت(ص) سے چاھا کھ اُس کے  فرزند کو دین اسلام میں لوٹنے کے لئے مجبور کیا جائے۔ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے ، ایسا کرنے سے روکا۔ اس کے بعد یھ آیت نازل ھوئی ھے۔

اس آیت میں اس بات کی دلیل بھی موجود ھے، جو بیان کرتی ھے کھ یھ آیت ابتدائی دور سے متعلق نھیں ھے کیونکھ آیت کے آگے ارشاد ھے  ” کھ ھدایت کا راستھ گمراھی سے الگ ھوچکا ھے ” ۔  واضح  رھے کھ یھ مضمون رسالت کے آخری دور میں نازل ھوا ھے نھ کھ ابتدائی دور میں۔

۳۔ پوپ تقریر کے دوسرے حصے میں کھتا ھے ” شھنشاه  نے دفعتاََ گفتگو کرنے والے کی جانب اپنا رخ کیا اور ۔۔۔۔ ” ھمارے لئے اصلی سوال ، دین اور شدت  پسندی کے درمیان عمومی طور پر کیا رابطھ ھے۔ اور آگے بڑھ کر کھتا ھے : ” محمد ( ص) کونسی نئی چیز لائے ھیں، مجھے دکھاؤ؟ جبکھ تم پستی اور بے انسانی کے علاوه کچھه نھیں دیکھو گے، مثال کے طور پر اس کا فرمان: کھ تلوار کے ذریعے دین کو پھیلاؤ”

پوپ کی اس بات میں کسی طرح کا انصاف دکھائی نھیں دیتا بعض ھم عصر عیسائیوں نے حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ کی رسالت کے بارے میں کتابیں لکھی ھیں۔  جو یھ ثابت کرتی ھیں کھ ایک مسیحی فرد خود مسیحی ھونے کے ساتھه ساتھه رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے نور سے بھتر استفاده کرسکتا ھے اور آنحضرت(ص) کی سیرت سے بھره مند ھوسکتا ھے۔

اسلامی تاریخ پر ایک طائرانھ نظر ڈالنے سے یھ ثابت ھوتا ھے کھ اسلام اورمسلمانوں نے بھت سے علوم، معارف اور نئے اور بلند اقدار انسانی معاشره کو ھدیھ کئے۔

اسلام نے الھی معارف اور توحید کو ترقی دی۔ ایک لاثانی فلسفھ کی بنیاد ڈالی ، یھ فلسفھ ملاصدرا کی حکمت متعالیھ ( Transcendental Philosophy ) کی صورت ظاھر ھوا ھے۔  اس نے  دنیا کے فلسفیانھ فکر میں ایک روح پھونک دی ھے۔  اسلام میں اخلاقی اقدار کی کونپلیں پھوٹیں اور عرفان، اسلام میں ھی پروان چڑھ کر مکمل  ھوا اور نفسانی اور روحانی سلوک کے ارتقا کا سبب بنا۔ شریعت ، قانون اور مکمل نظام جو انسانی حیات کے مختلف شعبوں میں اسلام نے بیان کیا ھے وه اسلام میں ایک بلند مقام کا حامل ھے۔

اسلام نے دنیا او آخرت کے درمیان قربت پیدا کرکے سیاست ، اقتصاد ، اور تربیت کے مختلف شعبوں میں بلند معنوی مفاھیم کو پیش کیا ۔

مسلمانوں نے انسانی تمدن کی تاریخ میں اھم کردار ادا کیا ، بھت سی ایجادات ان کے ذریعے ھی ھوئی اور اکثر علوم کی بنیادیں بھی انھوں نے ھی  ڈالیں۔ جیسے کمسٹری، فزیکس۔  طب اور ڈٓاکٹری کے ارتقا میں انھوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔

اسلام کا سنھری دور ان واضح اور روشن موارد سے بھر ھوا ھے۔ پس کس طرح پوپ ان سب امور سےغافل ھوکر گزشتھ لوگوں کی باتوں کو جو جھالت یا تجاھل پر مبنی ھے دھراتا ھے۔

۴۔ وه کھتا ھے ” شھنشاه نے مفصل طورپر بیان کیا کھ کس طرح دین ، انتھا پسند اور سختی کرنے کے ذریعے پھیلا جو عقل کے منافی ھے”

وه ان مسائل کو اس طرح بیان کرتا ھے، جیسے دین  اسلام،  انتھا پسندی اور سختی کرنے کی بنیادوںپر پھیلا ھے۔ جب کھ یھ رومانی چرچ کا طریقھ رھا ھے جو اس چرچ کی تاریخ سے واضح ھے ۔

لیکن اسلام علم ، معرفت ، اراده اور اختیار کا دین ھے خداوند متعال لوگوں کو علم کی جانب دعوت دے کر شوق دلاتا ھے اور فرماتا ھے ” جو لوگ جانتے ھیں اور جو لوگ نھیں جانتے ھیں کیا وه برابر ھیں ” [3]

حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی رسالت کا آغاز قرائت سے ھوا ، “پڑھ لو اپنے خدا کے نام سے جس نے خلق کیا۔ ” [4]

” پڑھ لو کھ تمھارا پروردگار بڑا کریم ھے جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی اسی نے انسان کو وه باتیں بتائیں جن کو وه جانتا ھی نھیں تھا” [5]

اور خوشخبری دیدو جو بات کو جی لگا کر سنتے ھیں اور پھر اس میں سے اچھی بات پر عمل کرتے ھیں ” [6] ” اپنے پروردگار کی راه پر حکمت اور اچھی اچھی نصیحت کے ذریعھ سے بلاؤ اور بحث اور مباحثھ کرو بھی تو اس طریقھ سے جو (لوگوں کے نزدیک) سب سے اچھا ھو۔ اس میں شک نھیں کھ جو لوگ خدا کی راه سے بھٹک گئے ان کو تمھارا پروردگار خوب جانتا ھے اور ھدایت یافتھ لوگوں سے بھی خوب واقف ھے” [7]

دین اسلام ، حکمت ، نیک موعظھ ، عقل اور منطق کا دین ھے۔

وه ( پوپ) شھنشاه کی دوسری عبارت کو نقل کرتا ھے ” اس طرح کی انتھا پسندی اور سختی ذات خدا اور روح کی طبیعت کے مخالف ھے ، خداوند خون کو پسند نھیں کرتا ھے اور غیر عقلی کام ، خدا کی طبیعت کے مخالف ھے ایمان روح کا ثمر ھے نھ کھ جسد کا “

یھ قول عیسائیت خصوصا کیتھولک عیسائیت سے زیاده مناسب ھے۔

۵۔ وه کھتا ھے ” اسلامی عقیدے میں خداوند کی مشیت مطلق نھیں ھے اور خدا کے اراده کی یھ تفسیر نھ ھماری تعلیمات سے سازگار ھے اور نھ ھی عقل کے موافق ھے ” وه اس کے لئے ابن حزم کے کلام کی جانب اشاره کرتا ھے جس نے اس کی تفسیر میں کھا ھے ” کھ خداوند پر واجب نھیں، کھ وه اپنے کلمھ اور گفتار سے تمسک کرے ، اور کوئی چیز اس کو مجبور نھیں کرتی ، کھ وه ھمیں حقیقت سمجھادے ، اور انسان اگر چاھے تو وه بتوں کی عبادت کرسکتا ھے”

پوپ کا یھ کلام ، سب سے بڑی دلیل ھے کھ اس نے اسلامی ثقافت، لغت ، فلسفیانھ اور  کلامی منبع کی جانب رجوع نھیں کیا ھے۔ اسلامی فلسفھ کے منابع واضح کرتے ھیں کھ خداوند متعال کی مشیت مطلق ھے اور خدا کا ذاتی اراده بعینھ اس کا علم اور اس کی ذات ھے۔

لیکن اس کا اراده فعلی، اُس کے افعال میں ظاھر ھوتا ھے اور جو وه ابن حزم کے کلام کو شاھد کے طور پر پیش کرتا ھے، شاید کم علمی کی سبب سے ھے۔ کیونکھ ابن حزم کا نظریھ ایک مھجور اور متروک نظریھ ھے جس کا آج کے دور میں کوئی بھی پیروکار نھیں۔ اھل بیت علیھم السلام کے مذھب میں کھ جو آجکل ایک زنده مذھب ھے۔ اس میں علم ، عقل اور اراده کا کردار واضح طور پر بیاں ھوا ھے۔ قرآن مجید نے بھی ایمان میں اراده کے کردار کی جانب اشاره کیا ھے اور فرمایا ھے ” باوجودیکھ ان کے دل کو ان معجزات کا یقین تھا پھر بھی ان لوگوں نے سرکشی اور تکبر سے ان کو نھیں مانا ” [8]

یقین کے ساتھه انکارکرنے کا مطلب یھ ھے کھ  اراده، ایمان میں اھم کردار رکھتا ھے۔ فلسفیانھ اور کلام اسلام کے ابحاث سے یھ ثابت کیا جا سکتا ھے کھ علم بھی لازمی طورپر ایمان تک نھیں لے جاتا۔

لیکن ابن حزم کا کلام جو لزوم کو خدا سے نفی کرتا ھے وه حسن و قبح کے انکار کرنے پر مبنی ھے، جب کھ شیعھ فلاسفھ حسن و قبح کو ثابت کرتےھیں، اگرچھ اشاعره اس سے انکار کرتے ھیں۔

گفتگو کا ایک منطق اور محدوده ھوتا ھے۔

گفتگو کی منطق دو عناصرپر مشتمل ھے:

۱۔ مخاطب کے قول کو صحیح اور حقیقت پر مبنی ھونے کا احتمال دیں۔

۲۔ اپنے اندرون میں اشکال اور خلل کو ممکن جانیں۔

لیکن گفتگو کا محدوده ؛ که جس کو علمِ ھرمنٹیک میں افق یعنی (Horizon)  جانا گیا ھے یعنی بحث کا وه حصھ جس میں دونوں مشترک ھیں۔

اس منطق اور محدوده پر عمل کرنے کے بغیر فائده مند گفتگو تک پھنچنا ممکن نھیں ھے۔



[1]  آل عمران / ۶۴۔

[2]  جنگ و صلح کے عنوان سے ادیان ابراھمی کی کانفرنس کے دوران ان سے ایک ملاقات میں۔

[3]  سوره زمر / ۹

[4]  سوره علق / ۱

[5] سوره علق / ۳، ۴

[6]  سوره زمر / ۱۸۔

[7]  سوره نحل / ۱۲۵۔

[8]  سوره نمل / ۱۴

تبصرے
Loading...