اسلامی روایات کے مطابق روح کی ماہیت کیا ہے اور قرآن مجید میں اس سلسلہ میں کیوں وضاحت نہیں کی گئی ہے؟

۔ مقدمہ:

ادیان، حکمت، فلسفہ اور عرفان میںایک اہم اور بنیادی بحث، انسانی اور عالمی جہت سے روح کی پہچان ہے۔ روح کی ماہیت کے بارے میں اسلامی متکلمین اور فلاسفہ نے مختلف اقوال بیان کیے ہیں اور آیات و روایات میں بھی اس سلسلہ مِں اجمالی طور پر کچھ مطالب بیان کیے گیے ہیں، لیکن قرآن مجید کے معنی میں {جس میں زیادہ تر ملائکہ سے بالاتر حقیقت کی طرف اشارہ ہے} کلی طور پر روح کی حقیقت ظاہری علوم اور دانشوروں کے افکار کی پہنچ سے بالاتر ہے اور اس کے لیے کشفی معرفت کی ضرورت ہے، جیسا کہ کہا گیا ہے کہ معرفت نفس ہی معرفت رب ہے اور وہی روح کی حقیقت کی شناخت ہے[1]۔

۲۔ روح سے کیا مراد ہے؟

قابل ذکر ہے کہ مختلف علوم میں لفظ “روح” سے مراد مختلف ہے اور یہ لفظ ہر علم میں، خواہ قدیم علوم میں، خواہ جدید علوم میں، خاص اصطلاحی معنی رکھتا ہے اور قرآن مجید کی اصطلاح میں بھی اس کے خاص معنی ہیں کہ مختلف تعبیرات کے ضمن میں اس کا استفادہ کیا گیا ہے من جملہ لفظ “الروح”[2] مطلق طور پر “روحی”[3] “روح منه”[4]، “روح الامین”[5]، “روح القدس”[6] وغیرہ۔

۳۔ سورہ اسراء کی آیت نمبر ۸۵ میں روح:

قرآن مجید کی آیات مِں سے ایک آیت، جس میں روح کی ماہیت کے بارے میں اجمالی اشارہ کیا گیا ہے، وہ سورہ اسراء کی آیت نمبر۸۵ ہے کہ ارشاد ہوتا ہے:”یسألونک عن الروح قل الروح من امر ربی و ما اوتیتم من العلم الا قلیلاً” پیغمبر؛ یہ آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دیجئیے کہ یہ میرے پروردگار کا ایک امر ہے اور تمہیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔”

اس آیہ شریفہ میں “روح” سے مراد کون سی روح ہے، اس سلسلہ مِں پہلے چند احتمالات پیش کیے جاتے ہیں،من جملہ: روح حیوانی، روح انسانی {نفس ناطقہ} ، روح القدس یا جبرئیل اور روح، ملائکہ سے برتر مخلوق کے معنی میں۔ لیکن جو کچھ مسلم ہے وہ یہ ہے کہ اس سے مراد علم طب میں بیان کی جانے والی روح حیوانی نہیں ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس روح کی پہچان علوم کی دست رس سے دور نہیں ہے۔

اسی طرح اس روح سے مراد جبرئیل بھی نہیں ہیں، کیونکہ مذکورہ آیت کے علاوہ قرآن مجید کی دوسری متعدد آیات میں لفظ “روح” کو دہرایا گیا ہے اور اس قرینہ کے پیش نظر کہ اس لفظ کو ملائکہ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے {الملائکۃ و الروح} اس لیے مسلم طور پر یہ ملائکہ کے علاوہ ہے اور بعض روایتوں کی صراحت کے مطابق اس تمایز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ علامہ طباطبائی، یسئلونک عن الروح والی آیت میں روح کی کیفیت کے بارے میں کہتے ہیں: ” روح بظاہر جبرئیل اور غیر جبرئیل کے علاوہ ایک بہت ہی وسیع تر مخلوق ہے۔”

یہآن پر ہم بعض ان روایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، جو روح کے، ملائکہ اور جبرئیل کے علاوہ ہونے کی دلیل پیش کرتی ہیں:

۱۔ اتی رجل امیر المومنین (ع) یسأله عن الروح الیس هو جبرئیل فقال له امیر المومنین (ع): جبرئیل من الملائکه و الروح غیر جبرئیل[7]؛ ایک شخص نے حضرت علی{ع} کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا: کیا روح وہی جبرئیل ہیں؟ حضرت {ع} نے جواب میں فرمایا: جبرئیل مالئکہ میں سے ہیں اور روح جبرئیل کے علاوہ ہے۔”

۲۔ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (ع ) عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ يَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي قَالَ خَلْقٌ أَعْظَمُ مِنْ جَبْرَئِيلَ وَ مِيكَائِيلَ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ هُوَ مَعَ الْأَئِمَّةِ وَ هُوَ مِنَ الْمَلَكُوتِ”؛[8]۔ ابی بصیر نے امام صادق{ع} سے خداوندمتعال کے اس قول: ” یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی” کے بارے میں سوال کیا۔ حضرت{ع} نے جواب میں فرمایا: ” یہ جبرئیل اور میکائیل سے عظیم تر ایک مخلوق ہے، جو رسول خدا{ص} کے ہمراہ تھی اور ائمہ اطہار{ع} کے ساتھ ہے اور عالم ملکوت میں سے ہے۔”

اس کے باوجود ہم بعض آیات میں دیکھتے ہیں کہ جبرئیل کو روح الامین کے طور پر متعارف کیا گیا ہے، لیکن ان دو مطالب کی وجہ جمع ، علامہ طباطبائی کے اشارہ کے مطابق، قرآن مجید کے اشاروں سے قابل استنباط ہے اور وہ یہ کہ جبرئیل اور ملائکہ روح کو اپنے تنزل و ترقی کے سلسلہ میں حمل و نقل کرنے والے ہیں اور اس کا ساتھ دیتے ہیں اور اسی لحاظ سے روح ایک صورت میں ملائکہ اور جبرئیل کی لازم و ملزوم ہے اور ایک صورت میں ان سے الگ ہے[9]۔

۴۔ قرآن مجید اور سورہ اسراء کی آیت ۸۵ میں روح کی ماہیت:

اس روح کی ماہیت اور حقیقت کے بارے میں، خداوندمتعال نے مذکورہ آیہ شریفہ میں اجمالی طور پر بیان فرمایا ہے: ” قل الروح من امر ربی”۔ ” کہدیجئیے کہ روح میرے پروردگار کا ایک امر ہے۔” امر الہٰی کی ماہیت ہمارے لیے ظاہر ہونے کے لیے بعض آیات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے، من جملہ آیہ شریفہ: ” انما امره اذا اراد شیئاً ان یقول له کن فیکون[10]”  اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شئے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کر لے کہ ہو جا اور وہ شئے ہو جاتی ہے۔

علامہ طباطبائی نے تفسیرالمیزان میں اس آیہ شریفہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ روح امر الہٰی کی ایک قسم ہے اور ذات الہٰی کے فصل کے بارے میں مخصوص ہے،اسی لحاظ سے روح بھی امر الہٰی کی ایک قسم ہے اس لیے اس کا زمان و مکان اور کسی دوسری مادی چیز سے موازنہ نہیں کیا جاتا ہے[11]۔

اس روح کی قرآن مجید میں مختلف تعبیروں سے توصیف کی گئی ہے، اول یہ کہ اسے الگ اور مطلق طور پر ذکر کیا گیا ہے،جیسے مذکورہ آیت میں، اس کے علاوہ کبھی ملائکہ کے ہمراہ ذکر کیا گیا ہے اور کبھی وہ حقیقت ہے جو عام انسانوں میں پھونکی جاتی ہے اور کبھی وہ حقیقت ہے جو مومنین کی ہمراہی اور ان کی تائید کرتی ہے اور کبھی ایک ایسی حقیقت ہے جس کے ساتھ انبیاء کا رابطہ ہے۔

۵۔ روح کی ماہیت کے بارے میں کیوں زیادہ وضاحت نہیں کی گئی ہے؟

روح کی ماہیت کے بارے میں صرف اسی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ روح ایک مجرد حقیقت ہے اور امر الہٰی کی ایک قسم ہے اور جو امر خداوندمتعال سے منسوب ہو، وہ زمان و مکان اور دوسری مادی خصوصیات سے بالاتر ہوتا ہے۔ لیکن اس امر الہٰی کی کیفیت اور مراتب کو سمجھنے کے لیے شہودی علم کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ علم اسرار مکاشفہ شمار ہوتا ہے اور چونکہ اکثر لوگ اس قسم کے ادراک سے عاری ہوتے ہیں، لہٰذا اس سلسلہ مِن بات کرنا عقل کے لیے قابل حیرت و تعجب ہوتا ہے اور شائد ضلالت کا سبب بھی ہو۔ اس بنا پر قرآن مجید میں روح کی پہچان کے بارے میں زیادہ تفصیلات بیان نہیں ہوئی ہیں۔

اس لحاظ سے یہ خیال نہیں کرنا چاہئیے کہ خود پیغمبر{ص} بھی اس علم سے بہرہ مند نہیں تھے، اسی طرح روح کی ماہیت کو پہچاننا کشف و یقین کی منزل میں ہے اور یہ عارفوں کا مقام ہوتا ہے اور جو لوگ اس علم سے محروم ہیں ان کے لیے اس کا بیان کرنا عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں دیتا ہے[12]۔

لیکن جملہ: ” وما اوتیتم من العلم الاقلیلا” کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ اس مسئلہ سے علماء نے بظاہر استفادہ کیا ہے وہ مشتے از خروارے ہے اور روح کی حقیقت ایک بالاتر امر ہے اور اسے حاصل کرنا کشفی علوم کے علاوہ ممکن نہیں ہے۔

۶۔ مذکورہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ، چونکہ روح، زمان و مکان اور دوسری مادی خصوصیات سے بالاتر ایک حقیقت ہے، اس لیے حس کے ذریعہ قابل ادراک ہے اور بظاہر دیکھنے کے قابل نہیں ہے، اگرچہ معصومین{ع} کے لیے روح کی حقیقت کے سلسلہ میں مکاشفہ اور شہود قلبی ممکن ہے اور شاید عرفا بھی اجمالی طور پر اس شہود سے مستفید ہوں اور روح کے مجرد ہونے سے اس کی کوئی منافات نہیں ہے، اس طرح روح کے بعض اثرات اور تمثیلیں { نہ کہ ذاتی طور پر خود روح} لطیف جسم کے قالب میں آشکار ہوسکتی ہیں اور مثالی صورت میں، من جملہ عالم برزخ کے مثالی بدن میں قابل مکاشفہ ہیں، جو دنیوی جسم کے مشابہ ہوتا ہے لیکن لطافت و نورانیت کے لحاظ  سے مثالی جسم دنیوی جسم سے بالاتر ہوتا ہے۔

قابل ذکر بات ہے کہ بعض علوم کی اصطلاحات میں اور بعض روایتوں کی تعبیرات میں اسی مثالی جسم کو روح کہا گیا ہے، کیونکہ یہ جسم روح کو مادی جسم سے جدا ہونے کے بعد اٹھانے والا ہوتا ہے اور کافی حد تک روح کے اثرات کو آشکار کر سکتا ہے۔ یہ مثالی جسم ، مجرد محض نہیں ہوتا ہے اس لیے مثالی حالت میں قابل دید و مکاشفہ ہے۔ دوسری جانب، اس کا روح کی حقیقت، جو خدا سے منسوب ہے اور امر الہٰی کی ایک قسم ہے، سے موازنہ نہیں کرنا چاہئیے ، کیونکہ عالم ہستی میں روح کا مقام ان امور سے بالاتر ہے اور اسرار الہٰی میں شمار ہوتا ہے۔

 

 

 


[1] احمد بن محمد حسین اردکانی، مرآت الاکوان(تحریر شرح هدایه ملاصدرا)، ص37،  ناشر، میراث مکتوب.

[2]الاسراء، 85؛ غافر، 15.

[3]الحج، 29؛ صاد، 72.

[4]المجادله، 22؛ النساء،171.

[6]بقره، 87و 253؛ مائده، 110؛ نحل 102.

[7]کلینی، کافی، ج 1، ص 274، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1365ھ ش.

[8]کافی،ج1، ص273.

[9]طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان، موسوی همدانی، سید محمد باقر، ج 13، ص 171- 172، جامعه مدرسین، قم، 1374.

[11]المیزان، ج 1، ص 528- 529.

[12]مرآت الاکوان(تحریر شرح هدایه ملاصدرا)، ص36.

تبصرے
Loading...