آیہ شریفہ، سماعون للکذب اکالون للسحت، کیسے رشوت کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے؟

آیہ شریفہ، سماعون للکذب اکالون للسحت، کیسے رشوت کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے؟

اسلامی فقہ میں ، رشوت کے حرام ہونے کو اجمالی طور پر قبول کیا گیا ہے۔

“سماعون للکذب اکالون للسحت” [1] قرآن مجید کی مختلف آیات میں سے ایک ایسی آیہ شریفہ ہے جس سے رشوت کے حرام ہونے  کے سلسلہ میں پر  مفسرین اور فقہاء نے استناد کیا ہے۔  “یہ جھوٹ کے سننے والے اور حرام کے کھانے والے ہیں” ۔

یہ آیہ شریفہ یہودی علماء کی توصیف میں نازل ہوئی ہے جن کی ایک خصوصیت رشوت خواری تھی ، “سحت” سے مراد رشوت ہے ۔ یہودی علماء لوگوں سے رشوت لے کر خدا کے حکم کو بدل دیتے تھے[2]

“سُحت” کا لفظ (سین پر ضمہ کے ساتھ) سحت (سین پر فتحہ) سے لیا گیا ہے جو ختم ہونے ، تباہ ہونے کے معنی میں استعمال ہوا ہے[3] اورحرام، عذا ب اور نابودی کو اپنے ساتھ لانے اور برکت نہ رکھنے اور مروت اور غیرت کو سلب کرنے کے لحاظ سے “سحت” جانا جاتا [4]ہے۔ پس سحت کے معنی یوں ہیں کہ ہر وہ چیز جس کا کمانا حلال نہیں ہے[5]  یعنی  وہ حرام ہے۔

اس آیہ شریفہ کے ذیل میں ائمہ اطہار (ع) سے منقول روایات میں “سحت” کے مختلف معانی کو مد نظر رکھا گیا ہے[6] کہ جس کا اہم مصداق رشوت ہے۔

حضرت امام صادق (ٰع) سے “سحت” کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا : “سحت” حکم صادر کرنے میں رشوت لینے کے معنی میں ہے[7] ایک اور حدیث میں حکم صادر کرنے میں رشوت لینا ، خداوند متعال کے انکار کرنے کے برابر ہے۔[8]

کیونکہ حکم صادر کرنے میں رشوت لینے میں  بہت سے مفاسد موجود ہیں  اور جو بھی رشوت حق کو ضایع کرنے اور باطل کو حق جاننے کے لیے لی جائے وہ  مفاسد،  جیسے جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا ، اور مستحقوں سے مال لے کر اسے غیر مستحق کو دینا ، جھوٹی گواہی کو سننا اور بے غیرتی وغیرہ کو مشتمل ہے اور چونکہ یہ مفاسد اور برے کام رشوت میں موجود ہیں اس لئے پیغمبر اکرم (ص)  اور ائمہ اطھار (ع( نے رشوت کو “سحت” کا سب سے اہم مصداق قرار دیا ہے۔[9]

یہ واضح ہے کہ مذکورہ آیہ شریفہ “سحت” کی حرمت اور اس کے  ذریعے کاروبار  کرنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے[10] اس کے  علاوہ رشوت  کا  حرام ہونا  جو “سحت” کے اہم مصادیق  میں سے ہے بھی اس آیہ شریفہ کی رو سے ہے۔

مفسروں نے اس آیہ کی تفسیر میں “سحت” کے معنی رشوت لئے ہیں نمونہ کے طور پر علامہ طباطبائی نے اس آیہ شریفہ کے ذیل میں “سحت” کے معنی پر بحث کی ہے اورلکھا ہے ” اکالون للسحت” یعنی دین کو تباہ کرنے والی چیزوں کو کھاتے ہیں اور پیغمبر اکرم )ص(  نے فرمایا: جو گوشت سحت اور حرام سے بن جائے وہ جہنم کی ہے اور رشوت کا نام بھی “سحت” رکھا گیا ہے پس جوبھی مال حرام طریقے  سے حاصل ہوجائے،  وہ سحت ہے اور آیہ کا سیاق یہ سمجھاتا ہے کہ سحت وہی رشوت ہے۔[11]

جس اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اگر رشوت دینے والا ایک باطل مقصد رکھتا ہے تو اس نے حرام کام کیا اور اگر ایک حق کو زندہ کرنے کے لیے رشوت دیتا ہے اور وہ حق صرف رشوت دینے کے ذریعے ہی حاصل ہوتا ہے تو اس نے حرام کام انجام نہیں دیا ہے۔ لیکن رشوت لینے والے نے حرام کام انجام دیا ہے چاہے وہ حق پر حکم کرے یا باطل پر رشوت دینے والے کے حق میں حکم دے یا اس کے خلاف۔ [12]

ماخذ

[2] طباطبايى، سيد محمد حسين، المیزان فی تفسیر القرآن، ج 5، ص 341، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع پنجم، 1417ھ.

[3] قرشى، سيد على اكبر، قاموس قرآن، ج 3، ص 237، دار الكتب الإسلامية، تهران، طبع ششم، 1371ش؛ مهیار، رضا، فرهنگ ابجدی فارسی – عربی، ص 72، بی جا و بی تا؛ جزرى، ابن اثير، مبارك بن محمد،‌النهایة فی غریب الحدیث و الاثر، ج 2، ص 345، مؤسسه مطبوعاتى اسماعيليان،قم، طبع اول، بی تا.‌

[4] طريحى، فخر الدين، مجمع البحرین، ج 2، ص 204، تحقيق: سيد احمد حسينی، كتابفروشى مرتضوی، تهران، طبع سوم، 1375ش؛ ابن منظور، محمد Aبن مكرم، لسان العرب، ج 2، ص 41، نشر دار صادر، بیروت، طبع سوم، 1414ھ.

[5]. مجمع البحرین، ج 2، ص 204؛ لسان العرب، ج 2، ص 41؛ حلّى، مقداد بن عبد اللّٰه سيورى‌،کنزالعرفان فی فقه القرآن، ج 2، ص 12، قم، طبع اول، بی تا.

[6] پیغمبر اکرم(ص) سے منقول ان موارد کو سحت کے مصادیق میں سے جانا گیا ہے ، مردار کی قیمت ، کتا، شراب ،زناکار عورت کا مہریہ ، حکم صادر کرنے میں رشوت ، کاھن کی اجرت  (شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، ج 4، ص 363، انتشارات جامعه مدرسین، قم، 1413ھ).

[7] عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع): قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ السُّحْتِ فَقَالَ: الرِّشَا فِي الْحُكْمِ (کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج 5، ص 127، دار الکتب الاسلامیة، تهران، 1365ھ۔ش).

[8] الکافی، ج 5، ص 127.

[9] کنزالعرفان فی فقه القرآن، ج 2، ص 12.

[10] كاظمی، فاضل، جواد بن سعد اسدى‌،مسالک الافهام الی آیات الاحکام، ج 3، ص 9، بی جا و بی تا.

[11] المیزان فی تفسیر القرآن، ج 5، ص 341.

[12] کنزالعرفان فی فقه القرآن، ج 2، ص 13

تبصرے
Loading...