کان فیما وعظ لقمان ابنہ، انہ قال لہ: : یابنی اجعل فی ایامک ولیالیک نصیبا لک فی طلب العلم، فانک لن تجد تضییعا مثل ترکہ

      امام صادق فرماتے ہیں :

      کان فیما وعظ لقمان ابنہ، انہ قال لہ: : یابنی اجعل فی ایامک ولیالیک نصیبا لک فی طلب العلم، فانک لن تجد تضییعا مثل ترکہ

      لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کویہ نصحیت بھی کی تھی کہ پیارے بیٹے اپنی رات اوردن میں ایک حصہ علم کے لئے مخصوص کرو کیونکہ علم حاصل نہ کرناسب سے بڑا نقصان ہے [16]۔

      آئمہ نے بھی اس حق کی پوری پوری حفاظت وحراست کی ہے اوراسلام نے تحصیل علم کوہرمسلمان مرد اورعورت کافریضہ قراردیاہے اوروالدین کافریضہ صرف خود علم حاصل کرنانہیں ہے بلکہ اولاد کواس کاحکم دینابھی ضروری ہے اسی لئے حضرت علی والدین پرزوردیتے ہوئے فرماتے ہیں :

      مروا اولادکم بطلب العلم  [17]۔

      ”اپنے بچوں کوطلب علم کاحکم دو“۔

      اورچونکہ بچپن میں علم پتھرپرنقش ہوتاہے لذا ترجیحی بنیاد پرتحصیل علم کے لئے اس کے بچپن سے خوب استفادہ کیاجاسکتاہے بالخصوص آج کادورجوعلمی انقلاب، تعلیمی ترقی اورتحقیق ومہارت کازمانہ ہے۔

      مکتب اہل بیت نے تعلم قرآن کوخاص ترجیح دی ہے اسی طرح مسائل حلال وحرام کے حاصل کرنے کوبھی خاص اہمیت دی ہے کیونکہ یہی علم مسلمان کوفرائض کی ادائیگی کے قابل بناتاہے چنانچہ حضرت علی اپنے فرزند امام حسن کواپنی وصیت میںفرماتے ہیں :

      ابتداتک بتعلیم کتاب اللہ عزوجل وتاویلہ وشرائع الاسلام واحکامہ، وحلالہ وحرامہ، لااجاو ذلک بک الی غیرہ [18]۔

      میں نے سب سے پہلے کتاب خدا،اس کی تاویل،شریعت اسلام، اس کے احکام اورحلال وحرام کی تعلیم دی اوراس سے تجاوزنہیں کیا۔

      اورامام صادق سے جب کسی نے کہا، میراایک بیٹاہے میں چاہتاہوں کہ وہ فقط آپ سے حلال وحرام کے متعلق سوال کرے اوردوسرے قسم کے سوال سے پرہیز کرے توآپنے فرمایا:

      وھل یسال الناس عن شی ٴ افضل من الحلال والحرام [19]۔

      آیاحلال وحرام کے متعلق سوال کرنے سے بھی بہترکوئی سوال ہے؟

      اس سے بڑھ کرسنت نبویہ فقط قرآن اورفقہ جیسے علوم دینیہ کی تعلیم ہی کوبچوں کے لئے ضرورت قرارنہیں دیتی بلکہ خاص قسم کے دیگرحیات بخش علوم کے حاصل کرنے پربھی زور دیتی ہے جیسے کتابت، تیراکی اوتیراندازی، اس سلسلہ میں بعض روایات ملاحظہ کریں۔ پیغمبر فرماتے ہیں :

من حق الولد علی والدہ ثلاثة : یحسن اسمہ، ویعلمہ الکتابة ویزوجہ اذا بلغ [20]۔

      ”بیٹے کاباپ پرحق ہے کہ اسے کتابت،تیراکی اورتیراندازی کی تعلیم دے اوراسے فقط پاکیزہ کھاناکھلائے“ [21]۔

      یہاں پرایک بڑا اہم اوربنیادی نکتہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی افکارکوانحراف سے بچانے کے لئے انہیں آل محمد کے علوم ومعارف اوران کی احادیث کی تعلیم دیناضروری ہے۔ اسی نکتہ کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے حضرت علی  فرماتے ہیں :

      علموا صبیانکم من علمناماینفغھم اللہ بہ لاتغلب علیھم المرجئة برایھا۔

      ”اپنے بچوں کوہمارے علوم ومعارف کی تعلیم دو کیونکہ اللہ تعالی انہی کے ذریعے انہیں نفع دے گاکہیں ان پرمرجئہ اپنے نظریات مسلط نہ کردیں“ [22]۔

      امام صادق فرماتے ہیں :

      باردوا احداثکم بالحدیث قبل ان یسبقکم الیھم المرجئة

      اپنے نوجوانوں کوحدیث کی تعلیم دینے میں جلدی کروقبل اس کے کہ مرجئہ تم پرسبقت کرجائیں [23]۔

      چونکہ مرجئہ کاگروہ اس دورمیں ظالمین کے لئے کام کرتاتھا اوران کے لئے نجات کی رسی کودرازکرنے میں مصروف تھا کیونکہ یہ لوگ ظالم کے خلاف قیام سے منع کرتے تھے اوراس کے حساب وکتاب کوروزقیامت پرچھوڑتے تھے اورگناہان کبیرہ کے ارتکاب کرنے والے فاسق کوبھی مومن شمارکرتے تھے اس لئے آئمہ نے نئی نسل کوان گمراہ کن اورمنحرف افکارسے بچانے کے لئے لازم قراردیاہے کہ انہیں صاف وشفاف چشموں سے پھوٹنے والی اسلامی افکارکی تعلیم دی جائے۔

۴:عدل ومساوات کاحق:

      بچوں بالخصوص لڑکے اورلڑکی کے درمیان امتیازی سلوک سگے بہن بھائیوں کے درمیان بھی جدائی کے بیج بودیتاہے اوران کے رشتہ اخوت کوتارتارکردیتاہے کیونکہ بڑی حساس طبیعت کے حامل اوراسکے جذبات بڑے نازک ہوتے ہیں جب وہ محسوس کرتاہے کہ اس کاوالداس کے بھائی کوزیادہ اہمیت دیتاہے تواس کے سینے میں بھائی کے خلاف کینہ پیداہوجاتاہے۔

      والدین یاان میں سے ایک کاکسی وجہ سے اپنے کسی ایک بچے پرزیادہ مہربان ہونااوراس سے زیادہ محبت کرنافطری سی بات ہے لیکن دوسروں کے سامنے اسے زیادہ اہمیت دے کریااسے زیادہ تحفے وتحائف دے کراس کااظہارکرناان میں حزن وملال کے گہرے احساسات کاموجب بنتاہے اوربعض اوقات اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں لذا بچوں کے درمیان عدل ومساوات کرناگویاآفات کے سامنے بندباندھنا اورافراد خانہ کے درمیان معمولی خلش کوروکنا ورنہ ان کے درمیان حسد اورکینے کے جذبات بھڑک اٹھیں گے۔

      حضرت یوسف کاقصہ بھی اولاد کے درمیان عدل ومساوات قائم کرنے کادرس دیتا ہے علامات نبوت کی وجہ سے حضرت یوسف اپنے والدگرامی حضرت یعقوب کے زیادہ قریب تھے اورآپ انہیں دوسرے بچوں پرترجیح دیتے تھے اس چیزنے آپ کے بھائیوں میں بغض وکینے کے جذبات کوبھڑکادیا اوران میں آہستہ آہستہ اس کی نشانیاں ظاہرہونے لگیں یہی وجہ ہے کہ جب حضرت یوسف نے اپنی رفعت اوربلندی پرمبنی خواب حضرت یعقوب کوسنائے تھے توآپ نے حضرت یوسف کوڈراتے ہوئے فرمایاتھا :

      یابنی لاتقصص رؤیاک علی اخوتک فیکیدوا لک کیدا ۔

      ”اے میرے بیٹے اپنا خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرناورنہ وہ تیرے خلاف کوئی مکرکریں گے“[24] ۔

      آئمہ  بھی اس ناقابل فراموش درس سے استفادہ کرنے کاحکم دیتے ہیں اور اسے اپنانصب العین قراردیتے ہیں مسعدة بن صدقة امام صادق سے روایت کرتے ہیں کہ امام باقر نے فرمایا :

      واللہ انی لاصانع بعض ولدی، واجلسہ علی فخذی، واکثرلہ المحبة،واکثرلہ الشکر،وان الحق لغیرہ من ولدی ولکن محافظة علیہ منہ ومن غیرہ، لئلایصنعوا بہ مافعل بیوسف واخوتہ…

      ”قسم بخدا میں ایک بچے کے ساتھ اس کے باوجود کہ حق دوسرے کاہے زیادہ محبت کرتاہوں، اس سے نرمی کرتاہوں تاکہ وہ دوسروں سے محفوظ رہے اوراس کے ساتھ وہ کچھ نہ کریں جوحضرت یوسف کے ساتھ کیاگیاتھا“ [25]۔

      پیغمبر  اکرم کی متعدد احادیث میں والدین کویہ سنہری نصیحت کی گئی ہے اوراولاد ووالدین کے ایک دوسرے پرحقوق بیان کئے گئے ہیں۔

      فرماتے ہیں : ان لھم علیک من الحق ان تعدل بینھم، کماان لک علیھم من الحق ان یبروک [26]۔

      ۱۔ ”تیرے اوپران کاحق یہ ہے کہ توان کے درمیان عدل قائم کرے اوران پرتیرا حق یہ ہے کہ وہ تیرے ساتھ حسن سلوک کریں“۔

      نیزفرماتے ہیں :

      اعدلوا بین اولادکم فی النحل۔ای العطاء۔ کما تحبون ان یعدلوا بینکم فی البرواللطف [27]۔

      اپنے بچوں کے درمیان عطاوبخشش میں عدل کروجیسے تم چاہتے ہوکہ وہ حسن سلوک اورمہربانی کرنے میں تمہارے درمیان عدل کریں“۔

      ان احادیث میں آیک دقیق نکتہ یہ ہے کہ حقوق باہمی اورطرفینی ہیں جس طرح باپ کاحق ہے حسن سلوک اسی طرح اس کافریضہ ہے عدل ومساوات اور مزید دقت نظرپیغمبر کی اس حدیث میں ملتی ہے:

      ان اللہ تعالی یحب ان تعدلوا بین اولادکم حتی فی القبل ۔

      اللہ تعالی کویہ پسندہے کہ تم بچوں کے درمیان عدل کرو حتی کہ بوسہ لینے میں بھی“۔

      یہ صحیح ہے کہ اسلامی نقطہ نظرسے والدین کے بارے میں حسن سلوک کاقانون ہے نہ عدل وبرابری کایعنی اگرباپ بیٹے کومحروم رکھے توبیٹے کے لئے اسے محروم رکھناجائزنہیں ہے یااگرباپ اس کااحترا نہ کرے توبیٹے کے لئے روا نہیں ہے کہ اس کااحترام نہ کرے کیونکہ بیٹاباپ کی ایک فرع ہے اوراس کی زندگی باپ ہی کی مرہون منت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ والدین کوبھی بچوں کے ساتھ عدل ومساوات کابرتاؤکرناچاہئے اوریہ فقط مہرومحبت اوررحمت جیسے روحانی اورمعنوی امورہی میں نہیں ہے بلکہ مادی امورمیں بھی ضروری ہے پیغمبر والدین کونصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ساووا بین اولادکم فی العطیہ فلوکنت مفضلا احدا لفضلت النساء  [28]۔

      عنایت اوربخشش کے لحاظ سے بچوں کے درمیان مساوات قائم کرواوراگرمیں کسی کوترجیح دیتا توعورتوں کودیتا۔

 

تبصرے
Loading...