ولایت فقیہ نہ ہو تو

آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی نے ایک نشست  میں مدرسۂ فیضیہ میں ولایت فقیہ کی علمی تشریح کی پانچویں سلسلہ وار نشست میں شریک علماء، فضلاء اور طلبہ سے خطاب میں ولایت فقیہ کی بحث پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: ہمارا نظام ولایت فقیہ کے مسئلے سے پیوستہ ہے اور اگر ولایت فقیہ کو آئین سے حذف کیا جائے تو نظام اسلامی نام کی کوئی چیز باقی ہی نہ رہ سکے گی۔

انھوں نے کہا کہ اس طرح کی بحثوں کا اہتمام نہ کیا جائے تو بعض لوگ گمان کریں گے کہ اسلام نے معاشرے کے انتظام اور معاشرتی مسائل کے بارے میں کوئی حکم بیان ہی نہیں کیا ہے اور اس مسئلے کی تشریح و وضاحت اس طرح کے شبہات کو دور کرنے میں مدد دیتی ہے۔

انھوں نے کہا: ولایت فقیہ کی علمی اور عملی تشریح کے لئے کوشش، اور ولایت فقیہ کی علمی اور عملی تشریح درحقیقت اسلام کے تحفظ اور دنیا میں اس کی بقاء کے لئے کوشش ہے اور ولایت فقیہ کو کمزور کرنے کی ہر کوشش اسلامی نظام کی جڑوں پر کلہاڑا چلانے کے مترادف ہے۔

آیت اللہ مصباح یزدی ـ جو حوزات و جامعات کے اعلی پائے کے استاد ہیں ـ نے ولایت فقیہ کے متداول معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ولایت کے لئے متعدد معانی ذکر ہوئے ہیں اور جو ذہن کے بہت قریب ہے وہ یہ ہے کہ اس کے معنی “حکومت” کی ہیں۔

انھوں نے معاشرے کے لئے قوانین و ضوابط کے نفاذ کی خاطر ایک ادارے اور منتظم کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: نظم و قانون میں خلل پڑنے اور معاشرے میں انارکی پھیلنے کا سد باب کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے کی ضرورت ہے اور قانون نافذ کرنے والا یہ مرجع، حکومت ہے جو قانون بنائے اور قانون نافذ کرے۔

آیت اللہ مصباح یزدی نے کہا: بعض شبہہ افکن اور موضوع کو پیچیدہ والے افراد ولایت کے معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ولایت سے مراد “تکوینی ولایت”(1) ہے جبکہ ایسا نہیں ہے جبکہ ولی فقیہ کو اختیار حاصل ہے کہ حکومتی حکم (حکمِ حکومتی) اور حکم ولایتی صادر کرے اور عوام پر بھی فرض ہے کہ ولی فقیہ کی اطاعت کریں۔

انھوں نے کہا: ولایت فقیہ سے مراد یہ ہے کہ جس زمانے میں امامِ معصوم علیہ السلام کی حکومت عملاً میسر نہ ہو اور امام معصوم علیہ السلام عوام کی دسترس سے باہر ہیں؛ خداوند متعال نے ولایت فقیہ کو اضطراری  متبادل کے عنوان سے متعین فرمایا ہے تا کہ عوام محروم نہ ہوں، معاشرے کا نظام محفوظ رہے اور اس کے مصالح و مفادات کی حفاظت کی جاسکے۔  

نشست کے اختتام پر آیت اللہ مصباح نے حاضرین کے سوالات کا جواب دیا۔

………………

[1]- ولايت تكويني عالم خلقت میں تصرف اور نفوذ کی قوت سے عبارت ہے۔ یہ ولایت بنیادی طور پر خداوند متعال کے لئے ہے اور قرآنی آیات سے ثابت ہے کہ ذیل کے امور میں تکوینی ولایت اللہ تعالی کے لئے مختص ہے جو کائنات کا مدبر و منتظم ہے۔ سورہ یونس کی آیت 4 میں ارشاد باری تعالی ہے: ” إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الأَمْرَ…” ترجمہ: تمہارا پروردگار وہی ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز (یا چھ مراحل) میں خلق فرمایا اور عرش پر مستولی اور مسلط ہوگیا اور امر خلق کو حسن تدبیر سے چلاتا ہے۔ اور سورہ بقرہ کی آیت 255 میں ارشاد ہوتا ہے کہ “وَلاَ يَؤُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ”؛ ترجمہ: آسمانوں اور زمین کی نگہداشت اللہ کے لئے دشوار نہیں ہے۔

انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی تکوینی ولایت:

قرآنی آیات اور معصومین علیہم السلام کی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اللہ کے اذن اور لطف خاص کی بنا پر انسان اور کائنات پر ولايت تكويني حاصل ہے؛ اللہ تعالی سورہ انبیاء کی آیت 81 میں ارشاد فرماتا ہے: “وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ”؛ ترجمہ: ہم نے سلیمان (ع) کے لئے تیز رفتار ہوائیں مسخر کردیں اور یہ ہوائیں ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھیں جس کو ہم نے برکت دی تھی اور ہم ہرچیز پر دانا اور توانا ہیں۔

سورہ القمر کی آیات 1 اور 2 میں ارشاد ہوتا ہے: “اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ * وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ”؛ ترجمہ: قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند دو ٹكڑے ہوگيا * يہ لوگ اگر اللہ كى كوئي نشانى ديكھيں تو منہ موڑ ليتے ہيں اور كہتے ہيں كہ يہ تو ايك سلسلہ وار جادو ہے۔

ان آیات شریفہ اور دیگر آیات میں اعجاز کی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و وسلم کے حکم پر اور آپ (ص) کے معجزے کے نتیجے میں چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے اور اس سے کائنات پر رسول اللہ (ص) کی ولایت تکوینی اور کائنات میں آپ (ص) کا تصرف ثابت ہوا کیونکہ چاند آپ (ع) کے حکم سے ہی دو ٹکڑے ہوگیا۔

قرآن میں علی علیہ السلام کی ولایت تکوینی

قرآن کریم نے انبیاء علیہم السلام کے علاوہ اولیاء علیہم السلام کے لئے بهی تصرفات اور معجزات کی تصدیق فرمائی ہے تا ہم یہ تصرف اور ولایت اللہ ہی کے ارادے کا تسلسل ہے اور اسی کے اذن سے عطا ہوا ہے۔

علی علیہ السلام کے لئے ولایت تکوینی سورہ رعد کی آیت 43 سے ثابت ہے جہاں ارشاد باری تعالی ہے:

“وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَسْتَ مُرْسَلًا قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ”؛ ترجمہ: اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ آپ پیغمبر نہیں ہیں، فرما دیجئے: (میری رسالت پر) میرے اور تمہارے درمیان اﷲ بطورِ گواہ کافی ہے اور وہ شخص بھی جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔

یہاں اس شخصیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت پر گواہ قرار دیا گیا ہے جس کے پاس کتاب کا علم ہے اور یہ شخصیت احادیث و روایات کی روشنی میں علی علیہ السلام کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ اس کی تأئید کے لئے صحیح شیعہ روایات کے علاوہ 20 روایتیں اہل سنت کے منابع سے نقل ہوئی ہیں جو کتاب ینابیع المودہ ـ حنفی قندوزی ـ میں مذکور ہیں۔

امام علی علیہ السلام کی ولایت تکوینی گیارہ اماموں کو بھی منتقل ہوئی چنانچہ یہ ولایت اللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ علیہم السلام کے لئے ہے اور ولی فقیہ کو یہ ولایت ـ یعنی امور کائنات میں تصرف کا حق ـ حاصل نہیں ہے۔ اور جو لوگ ولایت فقیہ کو ولایت تکوینی سے تعبیر کرتے ہیں ان کا مقصد صرف ولایت فقیہ کو متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش ہے۔

تبصرے
Loading...