والدین کے حقوق مکتب آل محمدمیں

سوم  :  والدین کے حقوق مکتب آل محمدمیں

      آئمہ نے قرآن کریم کی ان توجہات اور پیغمبر کے ان فکری اور تربیتی اقوال وافعال کو ایک نئی روح بخشی ہے اور انہیں ایک نیا ولولہ عطا کیا ہے کیونکہ سب میدانوں میں امت کی تعمیر و ترقی کا بوجھ انہیں کے کندھے پے رہا ہے بالخصوص ظالم و جابر حکام کے تمام مراکز پر تسلط پانے کے بعد کہ جس کی وجہ سے امت انتشار و افتراق کا شکار ہوگئی تھی۔

      اورآئمہ نے پوری قوت کے ساتھ کجی کودرست کرنے اورامت کوتعمیروترقی کی راہ پرگامزن کرنے کے لئے کوشش کی چنانچہ اس سلسلے میں آپ نے والدین کے حقوق کے باب میں کئی محوروں پرکام کیاکہ جسے مندرجہ ذیل صورت میں بیان کیا جاسکتاہے۔

۱۔آیات قرانیہ کی تفسیر

      واضح رہے کہ یہ اہل بیت ہی ہیں جن کے گھرقرآن نازل ہوااورانہیں کوپیغمبر نے قران کاساتھی بتایاہے اوریہی قرآن ناطق ہیں کہ جوصرف حق کہتے ہیں اورحقوق کی ادائیگی پرزوردیتے ہیں۔

      امام صادق  نے اس آیت شریفہ :

      وقضی ربک الاتعبدواالاایاہ وبالوالدین احسانا [12]۔

      ”میں لفظ احسان کی تشریح کرتے ہوئے فرمایاہے احسان یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ حسن سلوک کرواوراپنی ضرورت کی چیزحاصل کرنے کے لئے انہیں سوال کرنے کی زحمت نہ دواگرچہ وہ غنی ہی کیوں نہ ہو“ [13] ۔

امایبلغن عندک الکبراحدھمااوکلاھماتقل لھمااف ولاتنھرھما [14]۔

      کے متعلق فرمایاہے : ”اگروہ تجھ پرسختی کریں توانہیں اف تک نہ کہواورانہیں سختی سے نہ جھڑکو“ [15]۔

      اوراس آیت کریمہ:

      وقل لھماقولاکریما[16]  ۔

      ”اگروہ تجھے ماریں توان سے فقط یہ کہواللہ آپ کومعاف کرے“ [17]۔

      نیزفرماتے ہیں : ”نافرمانی کاسب سے پہلادرجہ اف کہناہے اوراگراس سے بھی نیچے کوئی درجہ ہوتاتواللہ تعالی اس سے بھی منع فرماتا“ [18]۔

      اوراللہ تعالی کے اس فرمان :

      واخفض لھماجناح الذل من الرحمة وقل رب ارحمھماکماربیانی صغیرا [19]۔

      ”ان کی طرف آنکھ بھرکے یعنی گھورکے نہ دیکھومگررحمت ورقت کے ساتھ، ان کی آوازپراپنی آوازاوران کے ہاتھ پراپنے ہاتھ کوبلندنہ کرواوراپناقدم ان کے قدم سے آگے نہ بڑھنے دو“ [20]۔

      اوراس آیت شریفہ :

      ان اشکرلی والوایک الی المصیر ۔کے متعلق امام رضا فرماتے ہیں :[21]

      ”اللہ تعالی نے انسان کواپنے اوروالدین کاشکراداکرنے کاحکم دیاہے اورجس نے والدین کاشکرادانہیں کیاگویااس نے اللہ کاشکربھی ادانہیں کیا“[22]

۲: اخلاقی فضاقائم کرنا

      آئمہ کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ امت میں اخلاقی نظم وضبط زندہ وتابندہ رہے تاکہ اسلامی معاشرہ سالم رہ سکے اورلوگ پریشانی اوربے چینی کے تاریک گڑہوں میں گرنے سے محفوظ رہیں اسی لئے آپ زوردیتے تھے کہ اولاوالدین کے ساتھ اپنے معاملات میں اخلاقی پہلوکے اعتبارسے اس طرح متمسک رہے کہ یہ اس کی فطرت ثانیہ بن جائے چنانچہ امام علی فرماتے ہیں :

      برالوالدین من اکرم الطباع۔

      ”والدین سے حسن سلوک شریف ترین طبیعتوں کاشیوہ ہے“ [23]۔

      اوران کے پوتے امام ہادی فرماتے ہیں :

      العقوق ثکل من لم یثکل۔

      ”والدین کی نافرمانی ایک ایسابوجھ ہے کہ جسے انسان اٹھانے سے قاصر ہے“[24]

۳:حکم شرعی کابیان کرنا

      اہل بیت نے حقوق والدین کے سلسلے میں فقط قرآنی ارشادات اوراخلاقی اقدار کو اجاگرکرنے پراکتفانہیں کی بلکہ اس دائمی مسئلے کاحکم شرعی بھی بیان کیاہے چنانچہ امام علی فرماتے ہیں :

      برالوالدین اکبرفریضة [25]۔

      اورامام باقرفرماتے ہیں :

      ثلاث لم یجعل اللہ عزوجل لاحدفیھن رخصة اداء الامانة الی البروالفاجر، والوفاء بالعھد للبروالفاجر،وبرالوالدین برین کانااوفاجرین۔

      ”تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے سلسلے میں اللہ تعالی نے کسی کورخصت نہیں دی ہرنیک وبدکوامانت کاواپس کرنا،ہرصالح وفاجرکے عہدکوپوراکرنااوروالدین سے حسن سلوک کرناہے وہ نیک ہوں یابرے“[26] ۔

      یہ بات قابل ذکرہے کہ اسلام نے حقوق والدین کودین واسلام کے ساتھ مربوط نہیں کیابلہ ہرحال میں حقوق والدین کی رعایت لازم قراردی ہے امام رضا  فرماتے ہیں :

      برالوالدین واجب وان کانامشرکین، ولاطاعة لھمافی معصیة الخالق ۔

      ”والدین کے ساتھ نیکی کرناواجب ہے اگرچہ وہ مشرک ہوں البتہ خالق کی مصیت میں ان کی اطاعت واجب نہیں ہے ۔[27]

      اورآپ نے صرف حکم شرعی کوبیان نہیں کیابلکہ اس کے فلسفے کوبھی بیان کیاہے فرماتے ہیں :

      حرم اللہ عقوق الوالدین لمافیہ من الخروج من التوفیق لطاعة اللہ عزوجل والتوقیر للوالدین وتجنب النعمة وابطال الشکر،ومایدعومن ذلک الی قلة النسل وانقطاعہ، لمافی العقوق من قلة توقیرالوالدین، والعرفان بحقھما، وقطع الارحام والزھد من الوالدین فی الوالد، وترک التربیة بعلة ترک الوالدبرھما۔

      ”خداتعالی نے والدین کی نافرمانی کواس لئے حرام کیاہے کہ اس کے ذریعہ سے اطاعت خداوندی اوراحترام والدین کی توفیق انسان سے سلب ہوجاتی ہے انسان شکرکوباطل کردیتاہے اورکفران نعمت کاارتکاب کربیٹھتاہے اورنسل کے کوتاہ یااس کے سلسلہ کے منقطع ہوجانے کے خطرے سے دوچارہوجاتاہے کیونکہ نافرمانی کے نتیجے میں والدین کااحترام اوران کے حق کی معرفت کم ہوجاتی ہے اورصلہ رحمی کاسلسلہ بھی منقطع ہوجاتاہے والدین کواولاد سے نفرت ہوجاتی ہے اوراولادکے عدم حسن سلوک کی وجہ سے والدین بھی تربیت کرناچھوڑدیتے ہیں [28]۔

      اس حدیث میں غورکرنے سے حقوق والدین کے سلسلے میں اس سے زیادہ عمیق اورباریک ترفلسفہ نظرآتاہے وہ یہ کہ یہ مسئلہ صرف معنوی پہلوکاحامل نہیں ہے بلکہ اجتماعی اعتبارسے اس کے بڑے گہرے اثرات ہیں بالخصوص نسل انسانی کوختم ہونے سے بچانے کاذریعہ اس سے وابستہ ہے۔

      اوراس مسئلہ کے دیگرمنفی اثرات بھی ہیں جب والدین یہ سمجھ رہے ہوں کہ اولاد ان کی عزت خاک میں ملاتی جارہی ہے، اولاد ان کے حقوق کی پروانہیں کررہی تومعاشرے کی یہ اجتماعی سوچ بن جائیگی کہ باپ بننایاکم ازاکم ان کی تربیت کے لئے کوشش کرنایک گھاٹے کاسوداہے۔ اوراس کے ناپسندیدہ نتائج ابھرکرسامنے آئیں گے اوریہ چیزقلت یاانقطاع نسل کاسبب بنے گی جیساکہ امام نے اس کی طرف اشارہ کیاہے جس کامعمولی اثریہ ہوگاکہ لوگ اولاد کی تربیت کواہمیت نہیں دیں گے اوردونوں صورتوں میں معاشرے کانقصان ایک امرلازم ہے۔اوراس کے برعکس اگروالدین یہ سمجھیں کہ اولاد کی طرف سے ان کی عزت وتوقیرکی جارہی ہے تووہ بھی اولاد کی تربیت پرزیادہ سے زیادہ توجہ دیں گے۔

      آج کے دورمیں اس کی بدترین مثال مغربی معاشروں میں رونماہونے والی صورت حال ہے کہ جہاں پرخاندانی جدائیوں کی وجہ سے پیداہونے والی بے راہ روی کے بھیانک نتائج ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔ بیٹا والدین کی سرپرستی قبول نہیں کرتااوران کے حقوق اداکرنے سے گریزکرتاہے اورہمہ وقت لذات کے پرموج سمندرمیں غرق رہتاہے اوراسی کانتیجہ ہے جائزنسل کاکم ہونا بچوں کی تربیت کافقدان اوربچوں کوتربیت کے لئے آموزش وپرورش کے مراکزکے حوالے کرنااوریہ معاشرتی مرض اس قدر بڑھتاجارہاہے کہ اولادکی بہ نسبت جانوروں بالخصوص کتوں کی تربیت پرزیادہ زوردیا جارہاہے اگراولادکی سرکشی اوروالدین سے بے توجہی کایہ سلسلہ جاری رہاتواس کانتیجہ انقطاع نسل یاکم ازکم قلت نسل تک جاپہنچے گاجومغربی معاشروں کوجہنم کے کنارے پر لاکھڑا کرے گا۔

۴:والدین کے حقوقکی حدبندی

      حقوق کے بارے میں مکتب اہل بیت  کی نظردیگرقانونی اورتمدنی مکاتب فکرسے زیادہ وسیع ہے اوراس کی توجہ معنوی اورروحانی حقوق پرزیادہ ہے کیونکہ اسے دوسرے ابعادپرترجیح حاصل ہے۔

      لیکن اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ مادی حقوق کونظرانداز کردیاجائے بلکہ ان کے بارے میں بھی مکتب اہل بیت کی نظر بڑی گہری اوروسیع ہے اسلام معنوی پہلو کومادی پہلوپرترجیح دیتاہے اس لئے آئمہ کی اکثراحادیث اوروصیتیں معنوی حقوق کی رعایت کرنے پرزیادہ زوردیتی ہیں جیسے والدین کی اطاعت کرنا،ان کاشکرادا کرنا اوران کے ساتھ اخلاص سے پیش آنا۔ امیرالمومنین نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :

      ان للولد علی الوالد حقا… ان یطیعہ فی کل شیء الافی معصیة اللہ سبحانہ [29]۔

      ”بیٹے کے ذمے باپ کاحق یہ ہے کہ ہرکام میں اس کی اطاعت کرے سوائے اللہ کی معصیت کے۔

      اورآپ ہی کے لخت جگرامام صادق فرماتے ہیں :

      یجب للوالدین علی الوالد ثلاثة اشیاء : شکرھما علی کل حال، وطاعتھما فیمایامرانہ وینھیانہ عنہ فی غیرمعصیة اللہ، ونصیحتھما فی السر والعلانیة [30]۔

      ”بیٹے پروالدین کے تین حقوق ہیں ہرحال میں ان کاشکراداکرے امرونہی میں انکی اطاعت کرے سوائے اللہ کی معصیت کے اورظاہروباطن میں ان کے لئے اخلاص کااظہارکرے“۔

      امام زین العابدین اپنے رسالہ حقوق میں فرماتے ہیں :

      اماحق ابیک فان تعلم انہ اصلک، وانہ لولاہ لم تکن، فمھما رایت فی نفسک ممایعجبک، فاعلم ان اباک اصل النعمة علیک فیہ، فاحمد اللہ واشکرہ علی قدرذلک، ولاقوة الاباللہ [31]۔

      ”بہرحال تیرے باپ کاحق یہ ہے کہ تجھے معلوم ہوناچاہئے کہ تیری اصل وہی ہے اگروہ نہ ہوتاتوتیرا وجود نہ ہوتاجب بھی تجھے کوئی چیزبھی معلوم ہو، تویہ بات یاد رہے کہ اس نعمت میں بھی اصل تیرا باپ ہے پس اللہ کی حمدوثناء کر اوراس کے سوا کوئی طاقت نہیں ہے“۔

      اورماں کے حق کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :

      اماامک فان تعلم انھا حملتک حیث لایحتمل احد احدا، واعطتک من ثمرة قلبھا مالایعطی احد احدا، ووقتک بجمیع جوارحھا،ولم تبال ان تجوع و تطعمک، وتعطش وتسقیک، وتعری وتکسوک، وتضحی وتظلک وتھجرالنوم لاجلک، ووقتک الحر والبرد، لتکون لھا، فانک لاتطیق شکرھا الا بعون اللہ وتوفیقہ [32]۔

      ”اورتیری ماں کاحق یہ ہے کہ تجھے کبھی نہیں بھولناچاہئے کہ اس نے تجھے اس وقت اٹھایاہے جب کوئی کسی کونہیں اٹھاتا اوراس نے اپنے دل کاایساپھل کھلایا جوکوئی نہیں کھلاتا اوراس نے سارے اعضاکے ساتھ تیری حفاظت کی وہ خود بھوکی رہی لیکن تجھے کھلایا، خود پیاسی رہی لیکن تجھے پلایا، خود عریاں رہی لیکن تجھے پہنایاخود دھوپ میں رہی لیکن تجھے سائے میں بٹھایا، تیرے آرام کی خاطراپنی پسند کی پروا کئے بغیراس نے تجھے سردی اورگرمی سے بچایایہ سب کس لئے کیا تاکہ تواس کابن جائے پس تواللہ کی مدد اورتوفیق کے بغیراس کاشکربھی ادانہیں کرسکتا۔

      یوں صاف وشستہ اورالہامی زبان کے ساتھ امام نے حقوق والدین کومختلف ابواب میں بیان کیاہے۔ اورامام موسی کاظم  اپنے جدامجد پیغمبر  سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے بیٹے پرباپ کے حق کے بارے میں سوال کیاتوآپ نے فرمایا:

      لایسمیہ باسمہ، ولایمش بین یدیہ، ولایجلس قبلہ، ولایستسب لہ [33]۔

      ”یہ کہ اسے نام کے ساتھ نہ پکاے۔ اس سے آگے نہ چلے، کسی بھی نشست میں اس پرسبقت نہ کرے اوراسے گالیاں دینے کاسبب نہ بنے“۔

      اگرآپ اس مذکورہ عبارت میں غورکریں توآپ کوحقوق والدین کے بارے میں ایک انتہائی عمیق فکردیکھنے کوملے گی اورشایداس کارازیہ ہے کہ ان قانونی حقوق کے بارے میں فکری اورروحانی تربیت ہی اولادکوان معاشرتی امراض سے بچاسکتی ہے یہ جن کے نتیجے میں ایک چھوٹے سے خاندان کاشیرازہ بکھرجاتاہے اوراس کے مہلک اثرات کاعکس بڑے معاشرے پربھی پڑتاہے۔

      اس بات کی طرف بھی اشارہ کرناضروری ہے کہ حقوق معنویہ پرتوجہ مرکوز کرنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ والدین کے مادی حقوق کوبالکل نظرانداز کردیاجائے مثلاتنگدستی اوربڑھاپے کے عالم میں ان کے اخراجات پورے نہ کئے جائیں بلکہ ہرچیز اپنے قواعد وضوابط اورحدود وقیود کے مطابق لازم ہے، لگتاہے اس وقت کے عام لوگوں کی رائے یہ تھی کہ باپ کوبیٹے کے اموال میں پوراپورا اختیارہوتاہے اوراس کے لئے پیغمبر کی اس حدیث ”تواورتیرا مال تیرے باپ کے لئے ہے اس شخص کی شکایت کے جواب میں کہ جس نے پیغمبر کے پاس آکرکہا تھا کہ میرے باپ نے میری اس میراث پربھی قبضہ کرلیاہے جومجھے میری ماں کی طرف سے ملی تھی“ کے اسباب وعلل بیان کرکے بہت سارے اذہان سے اس غلط فکرکونکال دیاہے اورآپ نے واضح کردیاکہ نبی کایہ قول اس وقت کے لئے تھا جب باپ تنگ دست تھا اورضرورت کے ہاتھوں مجبورہوچکاتھا لہذا یہ حکم اسی واقعہ کے ساتھ مخصوص ہے چنانچہ ملاحظہ ہو حسین ابن ابوالعلاکی یہ روایت ابوالعلاکہتے ہیں میں نے امام صادق سے عرض کیاباپ کے لئے اپنے بیٹے کے مال میںسے کس حد تک جائزہے؟ توآپ نے فرمایا جب مجبور ہوتواپنی خوراک کے مطابق استفادہ کرے اورفضول خرچی نہ کرے ابوالعلا کہتے ہیں میں نے امام سے کہا پیغمبر نے توایک شخص کے لئے یہ ارشاد فرمایاہے کہ تواورتیرا مال تیرے باپ کے لئے ہے اورباپ کوترجیح دی ہے؟ توامام نے واقعہ نقل کیاکہ ایک شخص اپنے باپ کے ہمراہ پیغمبر کی خدمت میں حاضرہوا اوریہ شکایت کی کہ میرے باپ نے مجھ سے میری ماں کی طرف سے ملنے والی میراث چھین لی ہے اورباپ نے پیغمبر  کوبتایا کہ میں نے اس مال کواپنی اوراس کی ذات پرصرف کیاہے اس وقت پیغمبر نے یہ ارشاد فرمایاتھا کہ اے شخص تواورتیرامال تیرے باپ کے لئے ہیں اورظاہرہے جب باپ کے پاس کچھ تھا نہیں توکیا پیغمبر  بیٹے کی خاطرباپ کوقید کردیتے [34]۔

تبصرے
Loading...