مہدی موعود کا عقیدہ

اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے متواتر احادیث نقل ہوئی ہیں. مہدی موعود (عج) کے بارے میں کم ہی ایسی حدیث نقل ہوچکی ہوگی جس کی سطح حد تواتر سے نیچے ہو. اور متواتر حدیث شیعہ اور سنی مکاتب میں ناقابل انکار ہے. ابن خلدون نے ان احادیث کی صحت میں شک و تردد کیا ہے اور سنی علماء نے ہی اس کا یوں جواب دیا ہے: مسئلہ ایک حدیث یا دو حدیثوں کا نہیں ہے بلکہ مہدی موعود کے بارے میں منقولہ احادیث کا ایک مجموعہ نقل ہؤا ہے اور یہ مجموعہ 80 احادیث پر مشتمل ہے جنہیں سینکڑوں راویوں نے نقل کیا ہے؛ چنانچہ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ احادیث کا اتنا عظیم مجموعہ کیونکر جھٹلایا جاسکتا ہے؟ اگر یہ کام جائز تصور کیا جائے تو شریعت کی اساس ہی مخدوش اور قابل شک ہوسکتی ہے. [1]

بر صغیر كے مشهور سنی عالم دین «سیدحسین احمد مدنی» اپنی كتاب «الخلیفة المھدی فی احادیث الصحیحة» ـ صفحہ 6 اور 7 ـ پر لکھتے ہیں: علامه ابن خلدون … محدث نہیں تھے اس لئے اس باب میں ان کی بات علماء حدیث اور ارباب جرح و تعدیل کے مقابلہ میں لائق قبول نہیں ہے. چنانچہ علامہ محمد بن جعفر الکتانی لکھتے ہیں: و لولا مخافة التطويل لاوردت ههنا ما وقفت عليه من احاديثه لاني رأيت الكثير من الناس في هذاالوقت يتشككون في امره و يقولون ما تري هل احادثه قطعية ام لا و كثير منهم يقف مع كلام ابن خلدون و يعتمده ـ مع انه ليس نن اهل هذا الميدان و الحق الرجوع في كل فنّ لاربابه.

(نظم المتناثر من الحديث المتواتر ص 146)

اگر کتاب کے دراز ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس موقع پر امام مہدی سے متعلق ان احادیث کو درج کرتا جن سے مجھے واقفیت ہے. کیونکہ اس وقت بہت سارے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں کہ انہیں امام مہدی کے امر میں تردد ہے اور اس سلسلے مین وه یقینی معلومات کے متلاشی ہیں اور دیگر بہت سے لوگ ابن خلدون کے قول پر قائم اور اسی پر اعتماد کرتے ہیں جبکہ ابن خلدون اس میدان کے آدمی نہیں تھے اور حق تو یہ ہے کہ ہر فن میں اس فن کے ماہرین کی جانب رجوع کیا جائے”.

بعض سنی علماء نے مہدی موعود کے سلسلے میں مستقل کتابیں تألیف کی ہیں جن کی فہرست ، ان کی دستیاب کتابوں کے ناموں کے ہمراہ یہاں پیش کی جاتی ہے:

الف. ابونعیم اصفہانی (م 430ھـ.ق) «مناقب المهدی»، «نعت المهدی» و «الاربعین حدیثاً فی المهدی».

ب. جلال الدین سیوطی، «العرف الوردی فی اخبار المهدی» و «علامات المهدی».

ج. ابن حجر عسقلانی، کتاب «القول المختصر فی علامات المهدي».

د. «کنز العمال» کے مؤلف ملاعلی متقی ھندی،‌ «تلخیص البیان فی اخبار مهدی آخرالزمان».

ھـ. ملاعلی قاری ھندی، کتاب «المشرب الوردی فی اخبار المهدی».

و. حافظ ابوعبداللہ گنجی شافعی، کتاب «البیان فی اخبار صاحب الزمان».

ز. شیخ یوسف بن یحیی بن علی مقدسی شافعی، کتاب «عقد الدرر فی اخبار المهدی المنتظر».

ح. شیخ مرعی بن یوسف مقدسی: «فوائد الفکر فی الامام المنتظر» اور «مرآة الفکر فی المهدی المنتظر».

ط. حماد بن یعقوب رواحبی، کتاب «اخبار المہدی».

ی. شیخ جمال‌الدین دمشقی،‌کتاب «عقد الورد فی اخبار الامام المنتظر».

اس موضوع پر متعدد دیگر کتابیں بھی موجود ہیں جن میں پاک و ہند کے بعض سنی علماء اور ان کی تألیفات کا نام بھی لیا جاسکتا ہے جیسے:

1. الخلیفة المہدی فی احادیث الصحیحة – مرحوم سیدحسین مدنی – ناشر عالمی تحفظ ختم نبوت ملتان۔

2. الامام المهدی رضوان اللہ علیه و سلامه – مرحوم سیدمحمدبدرعالم مہاجر مدنی – مطبوعہ مکتبہ سید احمد شہید – لاھور – 1416 ہجری.

3. اسلام میں امام مهدی رضی اللہ عنه کا تصور – امام مہدی سے متعلق اہلسنت و الجماعت کا عقیدہ، نام و نسب، سیرت و حلیہ، علامات ظہور، مہدی صحیحین میں، امام مہدی سے متعلق احادیث واقعات کے تناظر میں، منکرین و مدعیان مہدویت، اکابر علماء کی آراء و فتاوی – حافظ محمد ظفر اقبال فاضل جامعۂ اشرفیہ مطبوعہ لاھور.

امام زمانہ (عج) کے وجود پر اہل سنت کا عقیدہ

امام زمانہ کا وجود تمام اہل تشیع کے نزدیک متفق علیہ ہے مگر اہل سنت کے درمیان اس سلسلے میں دو قسم کے عقائد ہیں:

1. ان میں اکثر کا عقیدہ ہے کہ امام زمانہ (عج) اس وقت موجود نہیں ہیں اور قیامت سے قبل متولد ہونگے.

2. بعض سنی علماء اس مسئلے میں اہل تشیع کے ساتھ ہم عقیدہ ہیں.[2]

ایک اختلاف رائے اس موضوع پر ہے کہ تمام اہل تشیع اور بعض اہل سنت کے علماء کے مطابق امام زمانہ (عج) امام حسین علیہ السلام کی ذریت سے ہیں مگر بعض سنی علماء کی رائے یہ ہے کہ آپ (عج) امام حسن مجتبی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں. اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اہل سنت کے منابع میں دو حدیثیں نقل ہوئی ہیں مگر جو حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ (عج) امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، زیادہ مشہور ہیں. بہرکیف بعض شیعہ اور سنی علماء‌ نے دوسری حدیث ـ جو امام زمانہ (عج)کو امام مجتبی علیہ السلام کی ذریت سے گردانتی ہے ـ کی توجیہ کی ہے.[3]

امام زمانہ (عج) کے وجود کے دلائل

کلی طور پر امام زمانہ (عج) کے وجود کو دو طریقوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے:

1. عقلی طریقہ:

ہر زمانی میں امام معصوم کی موجودگی کی ضرورت پر موجود عقلی دلیل ثابت کرتی ہے کہ امام زمانہ (عج) موجود ہیں کیونکہ یہ عقلی دلیل کسی خاص زمانے اور وقت کے لئے مخصوص نہیں ہے. بلکہ اس کا زمانہ رحلت رسول اللہ (ص) سے لے کر قیامت تک کے زمانوں پر محیط ہے. کیونکہ اس کا مضمون اس حقیقت پر مبنی ہے کہ جب تک مکلفین اور خدا کے احکام پر عمل کرنے پر مآمور بندگان خدا روئے زمین پر ہونگے ان کے لئے تمام زمانوں میں ایک معصوم امام کی موجودگی ضروری ہے.

بالفاظ دیگر: نظام خلقت کی معقول اور صحیح تفسیر ـ انسان کامل کی موجودگی کے بغیر ـ ممکن نہیں ہے اور یہ اس جسم کی مانند ہوگا جس میں روح نہیں ہے اور انسان کامل انسانوں اور بنی آدم کے گہوارہ حیات میں روح اور قلب کی مانند ہے؛ اسی رو سے روایات میں ہے کہ: اگر خدا کی حجت موجود نہ ہو زمیں اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل لے گی.[4]

امام علی ـ علیہ السلام ـ نے بھی فرمایا: « اللّهمَّ بلى لا تخلو الارض من قائم لِلّه بحجّةٍ: امّا ظاهراً مشهوراً و امّا خائفاً مَغموراً لئلا تبطُلَ حجج اللّه … بارخدایا! بےشک ایسا ہی ہے، زمین حق کے لئے قیام کرنے والے امام سے خالی نہیں رہتی؛ وہ یا تو آشکار و ظاہر اور معروف و مشہور ہوتا ہے یا خائف اور نہاں؛ تا کہ خدا کی روشن حجتیں اور دلیلیں (یعنى دین کے اصول و احکام اور انبیاء کی تعلیمات) نیست و نابود نہ ہوں..»[5]

2. نقلی طریقہ : اس سلسلے میں تین راستے قابل عمل ہیں:

الف. احادیث نبوی

احادیث نبوی میں بارہ اماموں کے نام و نشان پوری تصریح کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور امام مہدی آخر الزمان (عج) آخری امام ہیں. جو نبی اکرم (ص) کے کلام میں نام اور لقب کے ساتھ متعارف ہوئے ہیں جن کے القاب “مہدی” اور “حجت” ہیں اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے بلاواسطہ فرزند ہیں. پیشتر بھی ہم نے ان روایات کے دو نمونے پیش کئے؛ واضح و آشکار ہے کہ یہ روایات امام زمانہ (عج) کے وجود پر دلالت کرتی ہیں.

ب. تاریخی شواہد

وہ روایات جو امام زمانہ (عج) کی ولادت اور آپ (عج) کے بچپن کے ایام کے بارے میں نقل ہوئی ہیں اور ان روایات میں ان بزرگوں کے نام بھی مذکور ہیں جنہوں نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے گھر میں امام زمانہ (عج) کا دیدار کیا ہے. یہ روایات شیعہ کتب میں مسلمات و بدیہیات میں سے ہیں.

اب دیکھتے ہیں کہ اہل سنت کی علماء اس بارے میں کیا کہتے ہیں:

1. ابن صباغ مالکی کہتے ہیں: «ابو محمد الحسن (امام عسکری علیہ السلام) نے اپنی بعد حجت و قائم منتظر نامی فرزند چھوڑا. امام عسکری (ع) اپنے اس فرزند کی ولادت کو پوشیدہ اور مستور رکھتے تھے؛ کیونکہ ان کے دور کے حالات بہت ہے دشوار تھے اور سلطان کی جانب سے اپنے فرزند کی سلامتی سے فکرمند تھے».[6]

2. خواجہ محمد پارسا کتاب «فصل الخطاب» میں لکھتے ہیں: «ائمة اہل بیت، میں سے ایک ابومحمدحسن عسکری ہیں جو روز جمعہ 6 ربیع الاول سنہ 231 ہجری کو دنیا میں آئے اور اپنے والد [کی شہادت کے بعد] چھ سال تک زندہ رہے اور آپ (ع) نے اپنی بعد ایک ہی فرزند چھوڑا جس کی کنیت ابوالقاسم اور القاب قائم، حجت، مہدی اور صاحب‌الزمان تھے. ان کا یوم ولادت 15 شعبان المعظم سنہ 255 ہجری تھا، ان کی والدہ ام ولد تھیں جن کا نام «نرجس» تھا. والد کی شہادت کے وقت ان کی عمر پانچ برس تھی اور اب تک نظروں سے غائب ہیں». اس کے بعد انہوں نے امام زمانہ (عج) کی ولادت کے حوالے سے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی پھوپھی حکیمہ خاتون کا تذکرہ بیان کیا ہے. [7]

3. ابن حجر ہیثمی شافعی، نے اپنی کتاب «الصواعق المحرقہ» میں لکھا ہے: «ابومحمدحسن عسکری، سے ابوالقاسم الحجة کے سوا کوئی فرزند باقی نہیں رہا جن کی عمر والد کی وفات کی وقت پانچ سال تھی مگر خدا نے اس کو حکمت کی تعلیم دی. اس بات کی دلیل یہ ہے کہ انہیں «القائم المنتظر» کا نام دیا جاتا ہے. اسی وجہ سے وہ مستور اور غائب ہیں». [8]

4. حافظ سلیمان حنفی کہتے ہیں: «محققین اور موثقین کے نزدیک معلوم خبر یہ ہے کہ قائم علیہ السلام کی ولادت 15 شعبان سنہ 255 ہجری کی شب کو شہر سامرا میں ہوئی ہے». [9]

ج. ایام غیبت میں امام زمانہ (عج) کے ساته ملاقاتوں کی حکایتیں

اولاً: غیبت صغری کے دوران امام زمانہ (عج) کے چار نائبین خاص آپ (عج) کی خدمت مبن شرفیاب ہؤا کرتے تھے.

ثانیاً: امام زمانہ (عج) کی غیبت کے طول ایام میں متعدد شیعہ خواص کو آپ (عج) کے حضور شرفیاب ہونے کی توفیق نصیب ہوئی ہے؛ گو کہ ان کی اکثریت لمحۂ دیدار میں اس حقیقت کا ادراک نہیں کرسکے ہیں کہ وہ حالت شرفیابی میں ہیں اور امام (عج) کو نہیں پہچان سکے ہیں مگر دیدار یار تمام ہوتے ہوئے روشن دلائل و شواہد کی روشنی میں اس حقیقت سے آگاہ ہوگئے ہیں. ان ملاقاتوں کی تفصیل تاریخ اور عقائد کی کتابوں میں بیان ہوئی ہے. [10]

غیبت صغری اور غیبت کبری

امام زمانہ (عج) کی غیبت کا دور آپ (عج) کی ولادت با سعادت کی ابتداء ہی سے شروع ہؤا اور جب تک آپ کے والد بزرگوار حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام بقید حیات تھے، کئی شیعہ اکابرین مختلف مناسبتوں سے آپ (عج) کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور ان ملاقاتوں کا فلسفہ یہ تھا کہ کہیں شیعیان اہل بیت (ع) سلسلہ امامت کے حوالے سے شک و تردد کا شکار نہ ہوں؛ مگر اسی وقت بھی امام زمانہ (عج) جس کی طرح کہ اپنی دشمنوں سے اوجھل تھے پیروان اہل بیت کی نظروں سے بھی اوجھل تھے او صرف چار نائبین خاص غیبت صغری کے دور میں آپ (عج) سے ملتے رہتے تھے. یہ دور جو امام عسکری کی شہادت (سنہ 260 ہجری) سے سنہ 329 ہجری تک تقریباً ستر برسوں پر محیط تھا، غیبت صغری کا دور کہلاتا ہے.

اس کے بعد غیبت کبری کا دور شروع ہؤا جو اب تک جاری ہے اور اس دور کے خاتمے کا علم صرف خداوند قدوس کے پاس ہے. نیابت خاصہ اور نائبین خاص کا دور 329 ہجری کو ختم ہؤا اور اس کے بعد نائبین عام کا دور شروع ہؤا اور عادل و پرہیزگار فقہاء امام زمانہ (عج) کے نائبین عام کہلاتے ہیں جو معاشروں کی قیادت کرتے ہیں اور احکام الہی بیان کرتے ہیں.

نائبین خاص کون ہیں؟

غیبت صغری کے ستر سال کے دور میں امام زمانہ (عج) کے نائبین خاص چار تھے:

1. عثمان بن سعید

عثمان بن سعید امام زمانہ (عج) کی نیابت خاصہ کا منصب سنبھالنے سے قبل امام ہادی اور امام حسن عسکری ـ علیہما السلام ـ کی وکالت و نیابت کے عہدیدار تھے اور ان دو اماموں کے نزدیک بہت قابل اکرام و احترام تھے؛ حتی کہ ان دو اماموں نے ان کے بارے میں فرمایا: «وہ جو بھی کہیں ہمارے نزدیک مقبول اور پسندیدہ ہے». [11]

2. محمدبن عثمان ـ نائب اول کے فرزند

وہ بھی پیشتر امام حسن عسکری علیہ السلام کے نائب اور وکیل تھے اور امام عسکری علیہ نے ہی انہیں امام عصر کا نائب خاص مقرر فرمایا. [12]

3. حسین ‌بن روح نوبختی

وہ جلیل القدر شخصیت کے مالک تھے اور امام عصر (عج) کے فرمان پر محمد بن عثمان نے انہیں نائب خاص مقرر کیا اور 23 سال تک نیابت کے فرائض نبھانے کے بعد سنہ 326 ہجری کو انتقال کر گئے.

مشہور شیعہ متکلم ابوسہل نوبختی نے ان کی شجاعت، استقامت اور استواری کے بارے میں فرمایا:‌ «اگر دشمن قینچی کے ذریعے ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کرتے وہ انہیں امام زمانہ (عج) کی قیامگاہ کے بارے میں بتانے کے لئے آمادہ نہ ہوتے». [13]

4. علی‌بن محمد سمری

ان کے انتقال سے چند ہی روز قبل امام زمانہ (عج) کے ناحیۂ مقدس سے ایک توقیع صادر ہوئی [خط موصول ہؤا] جس میں تاکید ہوئی تھی کہ علی بن محمد سمرہ چھ روز بعد دنیا سے رخصت ہوں گے اور ان کے انتقال کے بعد نیابت خاصہ کے دور کا خاتمہ ہوگا اور غیبت کبری کا آغاز ہوگا اور جس روز تک خدا کی مشیت کا تفاضا ہوگا یہ غیبت جاری رہے گی. امام زمانہ کی غیبت کبری اور طول غیبت کے بارے میں احادیث بکثرت وارد ہوئی ہیں. [14]

وہ اکابر اور خواص شیعہ میں سے تھے؛ حسین بن روح نے امام زمانہ (عج) کے فرمان پر انہیں نائب خاص مقرر کیا. ان کی مدت نیابت تین سال رہی اور سنہ 329 ہجری میں دنیائے فانی سے کوچ کرگئے.

شیخ صدوق ابک روابت میں امیرالمؤمنبن علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا: «ہمارے قائم کے لئے ایک طویل غیبت ہے. ان ایام میں شیعیان اہل بیت (ع) حیرت زدہ ہوکر انہیں ڈھونڈیں گے مگر انہیں نہ پاسکیں گے. اس دور میں جو شخص اپنے ایمان پر استوار رہے گا اور غیبت کے طویل ہونے سے دلگیر و بےچین نہ ہوگا وہ روز قیامت میرے پاس ہوگا».

دو غیبتیں کیوں؟

اگر غیبت کا کوئی سابقہ نہ ہوتا اور شیعیان اہل بیت (ع) اس کے لئے پہلے سے تیار نہ ہوتے اور اچانک غیبت کبری واقع ہوتی تو عین ممکن تھا کہ وہ امام عصر (عج) کے سلسلے میں شک و تردد کا شکار ہوجاتے. ائمۂ طاہرین علیہم السلام نے ـ اولّاً ـ پہلے سے ہی لوگوں کو سب کچھ بتا دیا تھا تا کہ وہ اس عظیم واقعے سے پہلے ہی اس سے آگاہ اور اس کے وقوع کے لئے تیار ہوجائیں.

ثانیاً: امام ہادی اور عسکری ـ علیہما السلام ـ کے دور سے عملی طور پر غیبت کے مسئلے کا تجربہ کیا گیا. چنانچہ مسعودی اپنی کتاب «اثبات الوصیہ» میں لکھتے ہیں: «روایت ہوئی ہے کہ امام ابوالحسن الہادی ـ علیہ السلام ـ اکابرین اور خواص شیعہ کے سوا عام لوگوں سے مخفی ہوکر رہتے تھے؛ اور حتی کہ امام حسن عسکری علیہ السلام شیعہ اکابرین کے ساتھ پردے کی پشت سے بات چیت کیا کرتے تھے البتہ عام ملاقاتوں کے اوقات میں ظاہر ہوکر سب کے سامنے آیا کرتے تھے. اس عمل کا فلسفہ یہی تھا کہ آپ (ع) لوگوں کو امام زمانہ (عج) کی غیبت سے مأنوس کرنا چاہتے تھے».

یہیں سے غیبت صغری کا فلسفہ بھی سمجھ میں آتا ہے اور وہ یہ کہ غیبت صغری اس لئے تھی کہ شیعیان اہل بیت (ع) کو طویل غیبت کے لئے آمادہ کیا جاسکے. [15]

 

کیفیت غیبت

امام عصر (عج) کی غیبت کی کیفیت کے بارے میں دو نظریئے ہیں:

1. امام عصر(عج) لوگوں کے بیچ ہی رہتے ہیں مگر لوگ ان کا جسم نہیں دیکھتے. یہ نظریہ بعض احادیث سے بھی ثابت ہے؛ چنانچہ ریان بن صلت روایت کرتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:

«لَا یُری جِسْمُهُ وَ لَا یُسمّی بِاسْمِهِ»

ان کا جسم نہیں دیکھا جاتا اور ان کا نام نہیں لیا جاتا.

امام صادق ـ علیہ السلام ـ ہی سے روایت ہے:

«یغیبُ عَنْکمْ شَخْصُهُ وَ لَا یحِلٌ لَکمْ تَسْمِیتُهُ»

ان کا جسم تم سے اوجھل ہوگا اور ان کا نام لینا جائز نہ ہوگا.

اور فرماتے ہیں:‌

«یفْقَدُ النّاسُ اِمَامَهُمْ فَیشْهَدُ المَوْسِمِ فَیراهُمُ وَ لَا یرَوْنَهُ»

لوگ اپنے امام کو نہ پائیں گے تاہم ان کے امام حج کے مراسمات میں شرکت کریں گے وہ لوگوں کو دیکھتے ہیں مگر لوگ انہیں نہیں دیکھتے.

اس نظریئے کے مطابق بعض مواقع پر امام کی اپنی صوابدید اور خدا کے اذن سے بعض لوگ آپ (عج) کے جسم کا مشاہدہ کرسکتے ہیں.

2. امام عصر(عج) لوگوں کے بیچ حاضر ہیں اور عام لوگوں کی مانند زندگی گذارتے ہیں مگر لوگ آپ (عج) کو نہیں جانتے اگرچہ ان کے وجود مبارک کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں. یہ نظریہ بھی بعض روایات سے ثابت ہے.

شیخ طوسی(رہ) امام عصر (عج) کے دوسرے نائب محمدبن عثمان سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:‌ خدا کی قسم اس امر کے مالک [امام زمانہ (عج)] ہر سال موسم حج میں حاضر ہوتے ہیں اور لوگوں کو دیکھتے ہیں اور انہیں پہچانتے ہیں اور لوگ بھی آپ (عج) کو دیکھتے ہیں مگر پہچانتے نہیں۔ [16] یہ نظریہ امام عصر (عج) کی طرف سے صادر ہونے والی توقیع شریف میں بھی مذکور ہے. [17]

محمدبن‌عثمان سے سے دریافت کیا گیا کہ امام عصر (عج) کا نام لینا کیوں حرام قرار دیا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: جب بھی آپ (عج) کا نام لیا جاتا ہے دشمن آپ (عج) کی جستجو میں نکل جاتے ہیں. [18] اگر لوگ امام (عج) کے وجود کا مشاہدہ نہ کرسکیں تو ایسی صورت میں آپ (عج) کا نام لینے سے دشمن آپ (عج) کے وجود سے آگاہ ہوسکیں گے اور اگر ان کے وجود کو دیکھ لیں اور آپ (عج) کا نام زبان پر لائیں تو یہ امر آپ (عج) کی شناخت کا باعث بنے گا. [19]

تا ہم ان دو نظریات میں منافات نہیں ہے اور مختلف حالات میں مختلف مصلحتوں کے تحت امام (عج) کی غیبت دونوں صورتوں میں ہوسکتی ہے.

________________________________________

[1] . تلخيص الالهيات، ص 567، بحواله كتاب بين يدي الساعه، ص 123 و 125، تأليف داكتر عبدالباقي.

[2] . نجم الثاقب، باب چهارم.

[3] . وهي.

[4] . لَوْ بقيت الارض بغير امام، لَساخَتْ، (امام صادق ـ عليه السلام ـ ).

[5] . لو ان الامام رفع من الارض ساعةً لَماجَتْ باهلها كما يموج البحر باهله (امام باقر ـ عليه السلام ـ)، اصول كافي، ج 1، باب ان الارض لا تخلو.

[6] . الفصول المهمة، ص 290.

[7] . ينابع المودة، ص 451.

[8] . وهي ، 452.

[9] . وهي.

[10] . كمال‌الدين و تمام النعمه شيخ صدوق ـ كتاب الغيبه شيخ طوسي ـ بحارالانوار علامه مجلسي، ج 52 ـ النجم الثاقب ميرزا حسين نوري طبرسي – منتهي الآمال شيخ عباس قمي و ديگر كتب.

[11] . بحار الانوار، ج 51، ص 344.

[12] . وهي ص 347.

[13] . بحار الانوار، ج 51، ص 359.

[14] . متنخب الاثر، باب 27.

[15] . المهدي، تأليف سيد صدرالدين صدر، ص 183ـ181.

[16] . كتاب الغيبه، ص 221.

[17] . وهي، ص 222.

[18] . وهي، ص 219.

[19] . تاريخ الغيبه، تأليف سيد محمد صدر، ص 36ـ31.

 

 

تبصرے
Loading...