معاشرہ كيا ہے؟

 

انسانوں پر مشتمل وہ جماعت جو خاص قوانين، خاص آداب و رسوم اور خاص نظام كي حامل ہو اور انہي خصوصيات كے باعث ايك دوسرے سے منسلك اور ايك ساتھ زندگي گذارتي ہو، معاشرہ تشكيل ديتي ہے ۔ ايك ساتھ زندگي گذارنے كا صرف يہ مطلب نہيں كہ انسانوں كي كوئي جماعت كسي علاقے ميں باہم مشترك زندگي گذارنے اور ايك ہي آب وہوا اور ايك جيسي غذا سے يكساں استفادہ كرے ۔ يوں تو ايك باغ كے درخت بھي ايك دوسرے كے ساتھ پہلو بہ پہلو زندگي بسر كرتے ہيں اور ايك ہي آب و ہوا اور ايك جيسي غذا سے استفادہ كرتے ہيں ۔ يہي حال ايك ہي گلے كے ہر جانور كا بھي ہوتا ہے جو ايك دوسرے كے ساتھ مل كر چرتے ہيں اور باہم مل كر نقل مكاني بھي كرتے ہيں ليكن ان ميں سے كوئي بھي اجتماعي اور مدني زندگي نہيں ركھتا، نہ معاشرہ تشكيل ديتا ہے ۔ 

انسان كي زندگي اجتماعي يا معاشرتي اس معني ميں ہے كہ وہ ايك ”اجتماعي ماہيت“ كي حامل ہے ۔ ايك طرف تو اس كے مفادات، اس كے تعلقات اس كے كام كاج ”اجتماعي ماہيت“ ركھتے ہيں اور اپنے رسم و رواج كے دائرے ميں تقسيم كار، تقسيم مفادات اور ايك دوسرے كي مدد كے بغير اس كا گذارہ نہيں، دوسري طرف كچھ ايسے افكار، نظريات اور مزاج بھي لوگوں پر حاكم ہيں جو انہيں وحدت و يگانگت بخشتے ہيں ۔ دوسرے لفظوں ميں معاشرہ انسانوں كے اس مجموعے كا نام ہے جو ضروتوں كے جبري سلسلے ميں اور عقائد نظريات اور خواہشات كے زير اثر ايك دوسرے ميں مدغم ہيں اور مشترك زندگي گذار رہے ہيں ۔ 

مشترك معاشرتي ضرورتوں اور زندگي سے متعلق خصوصي تعلقات نے نوع انساني كو اس طرح ايك دوسرے سے منسلك كر ديا ہے اور زندگي كو اس طرح وحدت اور يكتائي بخشي ہے جيسے حالت سفر ميں كسي گاڑي يا جہاز كے مسافر ہوا كرتے ہيں جو ايك مقصد كي سمت آگے بڑھتے ہيں، ايك ساتھ منزل پر پہنچتے ہيں يا ايك ساتھ رہ جاتے ہيں، ايك ساتھ خطرے ميں گھرتے ہيں اور ان سب كي تقدير ايك جيسي ہو جاتي ہے ۔ 

رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے امر بالمعروف اور نہي عن المنكر كا فلسفہ بيان كرتے ہوئے كتني اچھي مثال پيش كى، فرمايا: 

”چند لوگ ايك بحري جہاز ميں سوار ہوئے، جہاز سمندر كا سينہ چيرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا، ہر مسافر اپني نشست پر بيٹھا تھا ۔ اتنے ميں ايك شخص اس عذر سے كہ جس جگہ وہ بيٹھا ہے اس كي اپني جگہ ہے اور وہ اپني جگہ جو چاہے سو كرے، كسي چيز سے اس جگہ سوراخ كرنے لگا ۔ اگر تمام مسافر وہيں اس كا ہاتھ پكڑ ليتے اور اسے اس كام سے باز ركھتے تو نہ خود غرق ہوتے اور نہ اسے غرق ہونے ديتے ۔“ 

كيا انسان مدني الطبع ہے؟

يہ سوال بہت پرانا ہے كہ انسان كي اجتماعي زندگي كن عوامل كے زير اثر وجود ميں آئي ہے ۔ كيا انسان اجتماعي طبيعت ليكر وجود ميں آيا ہے يعني طبعاً اس كي تخليق ”كل“ كے ايك حصے كے طور پر كي گئي ہے اور اس كے وجود ميں اپنے ”كل“ سے وابستہ ہونے كا رجحان موجود ہے يا اس كي تخليق اجتماعي طبيعت پر نہيں ہوئى، بيروني جبر و اضطرار نے اسے اجتماعي زندگي بسر كرنے پر مجبور كر ديا ہے؟ يعني كيا انسان طبع اولي كے مطابق آزاد رہنا چاہتا ہے اور ان

پاپنديوں كو قبول نہيں كرنا چاہتا جو اجتماعي زندگي كا لازمہ ہيں ليكن تجربے نے اسے بتا ديا ہے كہ وہ تنہا زندگي نہيں گذار سكتا لہٰذا بحالت مجبوري اس نے اجتماعي زندگي كي پاپنديوں كو گلے لگا ليا ہے؟ يا يہ كہ انسان اجتماعي ميلان لے كر پيدا نہيں ہوا، ليكن جو چيز اسے اجتماعي زندگي پر آمادہ كرتي ہے ۔ وہ اضطرار نہيں ہے يا كم از كم تنہا اضطرار نہيں ہے بلكہ انسان اپني فطري عقل كے فيصلے اور محاسبے كي طاقت سے اس نتيجے پر پہنچا ہے كہ وہ مشاركت، تعاون اور اجتماعي زندگي كے ذريعے ہي خلقت كے انعامات سے بہتر استفادہ كر سكتا ہے اور اسي لئے اس نے اس ”شركت“ كو ”انتخاب“ كيا ہے؟ پس مسئلے كي تين صورتيں ہيں: 

1۔ كيا انسان كي اجتماعي زندگي طبيعي ہے؟ يا 

2۔ اضطراري ہے؟ يا 

3۔ پھر انتخاب شدہ ہے ۔ 

#۔ پہلے نظريے كے مطابق نوع بشر كي اجتماعي زندگى، عورت اور مرد كي گھريلو زندگي كي طرح ہے كہ زوجين ميں سے ہر ايك آغاز خلقت سے”كل“ كا ايك حصہ بن كر آيا ہے اور دونوں كي سرنوشت ميں اپنے”كل“ سے ملحق ہونے كا رجحان موجود ہے۔ 

#۔ دوسرے نظريے كے مطابق اجتماعي زندگي كي مثال ايسے دو ملكوں كے تعاون اور باہمي سمجھوتے كي سي ہے جو وہ مشترك دشمن كے مقابلے ميں اپنے آپ كو ناتواں محسوس كرتے ہوئے اس راہ كو اختيار كر ليتے ہيں ۔ 

#۔ تيسرے نظريے كے مطابق اجتماعي زندگي ان دو سرمايہ داروں كي ايك كمپني كي طرح ہے جو زيادہ منافع كمانے كے لئے ايك تجارتى، زرعي يا صنعتي يونٹ قائم كرتے ہيں ۔ 

پہلے نظريے كے مطابق اصلي سبب انسان كي اندروني طبيعت ہے ۔ دوسرے نظريے كے مطابق انساني وجود سے باہر ايك بيروني عنصر اس ميں كارفرما ہے اور تيسرے نظريے كے مطابق اصلي سبب انسان كي عقلي قوت اور اس كي حساب كتاب كي صلاحيت ہے ۔ 

پہلے نظريے كي بنياد پرا جتماعي ہونا ايك كلي اور عمومي مقصد ہے اور انسان بالطبع اس كي سمت رواں ہے ۔ دوسرے نظريے كي بنياد پر ايك اتفاق اور حادثاتي امر ہے اور فلسفے كي اصطلاح ميں ”غايت اولي“ نہيں ”غايت ثانوي“ ہے اور تيسرے نظريے كے مطابق اس كي غايت فطري نہيں بلكہ فكري ہے ۔ 

قرآن كريم كي آيتوں سے يہ بات سامنے آتي ہے كہ انسان كے اجتماعي ہونے كو اس كي خلقت ميں ركھ ديا گيا ہے ۔ سورہ حجرات ميں ارشاد ہوتا ہے: 

يا ايھا الناس انا خلقنكم من ذكر و انثي و جعلنا كم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اكرمكم عنداللہ اتقكم (حجرات ۔13) 

”اے انسانو! ہم نے تمہاري تخليق مرد اور عورت سے كي ہے اور تمہيں قوموں اور قبيلوں ميں بانٹ ديا تاكہ تمہارے درميان شناخت كي راہ نكل سكے (نہ يہ كہ اس كے ذريعے تم ايك دوسرے پر فخر و مباہات كرنے لگو) بے شك اللہ كے نزديك وہي زيادہ لائق تكريم ہے، جو تم ميں سے زيادہ پرہيز گار ہے ۔“ 

اس آيہ كريمہ ميں ايك اخلاقي حكم ديتے ہوئے انسان كي خاص خلقت كے اجتماعي فلسفے كي طرف بھي اشارہ كيا گيا ہے كہ انسان كو اس طرح سے پيدا كيا گيا ہے كہ وہ مختلف قوموں اور مختلف قبيلوں كي صورت اختيار كرے ۔ قوموں اور قبيلوں كے ساتھ منسوب ہونے كي وجہ سے ايك دوسرے كي شناخت ممكن ہو جاتي ہے، جو اجتماعي زندگي كا جزو لاينفك ہے يعني يہ نسبتيں جو ايك طرف سے وجہ اشتراك اور دوسري طرف سے اختراق بشر كا سبب ہيں، نہ ہوتيں تو ايك دوسرے كي شناخت ناممكن تھي اور اس صورت ميں ايك دوسرے كے ساتھ باہمي تعلقات پر مبني اجتماعي زندگي كا وجود غير ممكن تھا ۔ يہ اور ايسے ديگر امور مثلاً رنگ، شكل اور قد پر مبني اختلاف در اصل وہ پہچان ہے جو ہر شخص كو اس كي شناخت كي بنياد فراہم كرتي ہے ۔ بالفرض اگر ہر كوئي ايك ہي رنگ، ايك ہي شكل اور ايك ہي قالب ميں ڈھلا ہوتا اور اگر ان كے درميان كوئي باہم اور كوئي انتساب نہ ہوتا تو تمام افراد كسي كارخانے ميں ڈھلي ہوئي ايك شكل كي جنس كي طرح ہوتے اور ان كے درميان تميز مشكل ہوتي اور بالآخر يہي نتيجہ نكلتا كہ روابط، تبادلہ خيال، كام اور صنعتوں كے مبادلے كي بنياد پر قائم انسان كي اجتماعي زندگي ناممكن ہوجاتي ۔ پس قوموں اور قبيلوں كے ساتھ منسوب ہونے كي غايت اور حكمت طبيعي ہے اور وہ ہے لوگوں كا ايك دوسرے سے مختلف ہونا اور ان كے درميان شناخت كي صورت كا پيدا ہونا جو اجتماعي زندگي كا جزو لاينفك ہے نہ يہ ہے كہ اس بنياد پر ہم اپني بڑائى، برتري اور تفاخر كا اظہار كريں جب كہ شرف و كرامت كي بنياد تو تقويٰ ہے ۔ 

سورہ فرقان كي آيت 54 ميں ارشاد ہوتا ہے: 

وھو الذي خلق من الماء بشرا فجعلہ نسبا و صھرا 

”تمہارا رب وہ ہے جس نے پاني سے بشر كي تخليق كي اور پھر اسے نسلي رشتے (نسبي رابطے) والا قرار ديا ۔“ 

اس آيہ كريمہ ميں بھي نسبي اور سببي روابط كو جو افراد كو ايك دوسرے سے ملانے اور ان ميں پہچان كي علامت بننے كا سبب ہيں، ايك ايسے عنوان سے پيش كيا گيا ہے كہ يہ اصل خلقت كي غايت كلي اور حكمت ہے ۔ 

سورہ مبارك زخرف كي آيت 22 ميں ارشاد ہوتا ہے: 

لھم يقسمون رحمۃ ربك نحن قسمنا بينھم معيشتھم في الحيوۃ الدنيا ورفعنا بعضھم فوق بعض درجات ليتخذ بعضھم بعضا سخريا ورحمۃ ربك خير مما يجمعون 

”كيا يہ لوگ تيرے رب كي رحمت كو تقسيم كرتے ہيں؟ (كيا خلق سے متعلق امور انہيں سونپ ديئے گئے ہيں كہ جسے چاہيں ديں اور جسے چاہيں نہ ديں) ہم نے (استعداد پر مبني) وسائل اور ذرائع معاش كو دنياوي زندگي ميں ان كے درميان بانٹ ديا ہے اور بعض كو بعض پر صلاحيتوں اور وسائل كے اعتبار سے برتري دي ہے تاكہ اس ذريعے سے بعض، بعض كو مسخر كريں (اور اس طرح طبيعي طور پر ہر ايك سے دوسرے كي تسخير ہو) اور يقينا تيرے پروردگار كي رحمت (نعمت نبوت) اس چيز سے بہتر ہے جسے وہ جمع كر رہے ہيں ۔“ 

ہم نے ”الٰہي تصور كائنات“ ميں توحيد پر گفتگو كرتے ہوئے اس آيہ مباركہ كا مقصود واضح كيا تھا جسے يہاں ہم تكرار نہيں كريں گے ۔ تاہم بطور خلاصہ عرض كريں گے كہ اس آيت سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان سب كے سب يكساں صلاحيت اور يكساں وسائل كے ساتھ خلق نہيں كئے گئے اور اگر ايسا ہوتا تو ہر كوئي وہي كچھ ركھتا جو دوسرے كے پاس ہے، ہر كوئي اسي چيز سے محروم ہوتا جس سے دوسرا محروم ہوتا ۔ اس كا لازمي نتيجہ يہي ہوتا كہ كوئي متوازي احتياج، كوئي باہمي تعلق يا متبادل خدمت كي راہ نہ نكلتي ۔ اللہ تعاليٰ نے نوع بشر كو صلاحيتوں، جسمانى، روحانى، عقلي اور جذباتي وسائل كے اعتبار سے مختلف خلق كيا ہے ۔ بعض كو بعض خوبيوں ميں دوسروں پر درجے كے اعتبار سے برتري دي ہے ۔ پھر ان دوسروں كو كسي اور خوبي ميں بعض پر سبقت بخشي ہے ۔ اس طرح سب كو بالطبع ايك دوسرے كا محتاج اور ايك دوسرے سے ربط باہم كا طلب گار بنا ديا ہے اور اس طرح ايك مربوط اجتماعي زندگي كي بنياد فراہم كي ہے ۔يہ آيہ كريمہ اس بات پر بھي دلالت كرتي ہے كہ انسان كي معاشرتي زندگي نري معاہداتي (انتخاب شدہ) يا اضطراري و مسلط كردہ (Imposed) نہيں بلكہ طبيعي ہے ۔ 

كيا معاشرے كا وجود اصيل اور عيني ہے؟

معاشرہ افراد كے مجموع سے مركب ہے ۔ افراد نہ ہوں تو معاشرہ بھي نہيں ہوتا ۔ اب ہم اس بات كا جائزہ ليں گے كہ معاشرے كي افراد كي تركيب كس طرح كي ہے؟ اس سلسلے ميں كئي نظريات قابل ذكر ہيں ۔ مثلاً: 

الف) معاشرے ميں افراد كي تركيب اعتباري ہے، يعني حقيقت ميں كوئي تركيب عمل ميں نہيں آئى، حقيقي تركيب تو اس صورت ميں وقوع پذير ہوتي ہے جب كچھ امور ايك دوسرے پر اپنا رنگ جمائيں اور ايك دوسرے پر اثرات مرتب كريں ۔ اثر گذاري اور اثر پذيري كا عمل ہو، عمل اور رد عمل كے نتيجے ميں ايك نئي چيز اپني خاص خوبيوں كے ساتھ وجود ميں آئے، جيسے كيميائي تركيبيں ہوتيں ہيں، مثلاً آكسيجن اور ہائيڈروجن كے خاص انداز سے باہم ملنے سے پاني معرض وجود ميں آتا ہے ۔ پاني ايك بالكل نئي چيز ہوتي ہے جس كي ماہيت بھي نئي اور خواص و آثار بھي اپنے ہي ہوتے ہيں ۔ حقيقي تركيب كا لازمہ يہ ہے كہ اجزاء ايك دوسرے ميں مدغم ہوكر اپنے خواص و آثار كھو ديں اور ”مركب“ كے وجود ميں حل ہوجائيں ۔ 

انسان اپني اجتماعي زندگي ميں ہرگز يوں ايك دوسرے كے ساتھ مدغم نہيں ہوتا اور لوگ معاشرے ميں ”انسان الكل“ كي حيثيت سے حل نہيں ہوتے ۔ يہي وجہ ہے كہ معاشرہ كوئي اصيل، عيني اور حقيقي وجود نہيں ركھتا بلكہ اس كا وجود اعتباري اور انتزاعي ہوتا ہے ۔ اصيل عيني اور حقيقي وجود ركھنے والي چيز فرد ہے اور بس ۔ لہٰذا انساني زندگي اگرچہ معاشرے ميں ايك اجتماعي شكل اور اجتماعي ماہيت كي حامل ہے ليكن معاشرے كے افراد معاشرے كے عنوان سے ايك حقيقي مركب كي صورت اختيار نہيں كرتے ۔ 

ب) معاشرہ طبيعي مركبات كي طرح حقيقي مركب نہيں ہے ليكن صناعي مركب ضرور ہے ۔ صناعي مركب اگرچہ طبيعي نہيں ہے ليكن مركب حقيقي ہي كي ايك قسم ہے ۔ صناعي مركب كي مثال ايك مرتبط الاجزاء مشين كي سي ہے ۔ طبيعي مركب ميں اجزاء ايك تو اپني ہويت كھو كر كل ميں جذب ہوجاتے ہيں، دوسرے ان كا اپنا جداگانہ اثر بھي بالتبع اور بالجبر جاتا رہتا ہے، ليكن صناعي مركب ميں ان كي ہويت باقي رہتي ہے ليكن جداگانہ اثر باقي نہيں رہتا۔ اجزاء ايك خاص تركيب كے ساتھ ايك دوسرے سے مربوط ہوجاتے ہيں اور ان كے اثرات بھي آپس ميں پيوستگي اختيار كر ليتے ہيں ۔ اس كے نتيجے ميں ايسے اثرات مرتب ہوتے ہيں، جو عليحدہ حيثيت ميں اجزاء كے مجموعي آثار نہيں ہوتے ۔ مثلاً ايك گاڑي سامان يا افراد كو ايك معين رفتار سے ايك جگہ سے دوسري جگہ لے جاتي ہے حالانكہ يہ كام اس كا كوئي ايك جزو نہيں كر سكتا اور نہ اس كے اجزاء جب جدا جدا تھے تو مربوط ہونے سے پہلے مجموعي طور پر ايسا كر سكتے تھے ۔ موٹر گاڑي كي تركيب ميں اجزاء كے درميان جبري ارتباط اور جبري تعاون كار فرما ہے ليكن ہويت كل ميں ہويت اجزاء كے جذب كا يہ مقام نہيں بلكہ يہاں كل ، جزو سے ہٹ كر كوئي مقام نہيں ركھتا، كل اجزاء كے مجموعے اور ان كے درميان ايك خاص رابطے سے عبارت ہے ۔ 

معاشرہ بھي يوں ہي ہے ۔ معاشرہ بنيادي اور فرعي شعبوں اور پہلوؤں سے تشكيل پاتا ہے ۔ يہ شعبے اور وہ افراد جو ان شعبوں سے وابستہ ہيں سب ايك دوسرے سے وابستہ ہيں اور سب ايك دوسرے ميں پيوستہ ہيں ۔ ثقافتى، مذہبى، اقتصادى، سياسى، عدالتي يا تربيتي غرض جس شعبے ميں بھي كوئي تغير و تبديل ہو، اس كا اثر دوسرے شعبوں پر پڑتا ہے ۔ اجتماعي زندگي يوں معرض وجود ميں آتي ہے جيسے ايك پوري گاڑي ہوتي ہے بغير اس كے كہ معاشرے يا شعبوں كے افراد معاشرے كي اجتماعي شكل ميں اپني ہويت و حيثيت كھو ديں ۔ 

ج) معاشرہ طبيعي مركبات جيسا ہي ايك حقيقي مركب ہے، ليكن يہ قلبي تعلقات، افكار، عواطف ارادوں اور چاہتوں كي تركيب سے بنتا ہے يعني يہ تمدني تركيب ہے، جسموں اور بدنوں كي تركيب نہيں، جس طرح مادي عناصر ايك دوسرے پر اثرات قائم كر كے ايك نئي چيز ظہور ميں لانے كي بنياد فراہم كرتے ہيں اور يہ اصطلاح اہل فلسفہ مادہ كے اجزاء كا ايك دوسرے ميں اور ايك دوسرے پر تاثير و تاثر اور عمل اور رد عمل قائم كر كے ايك نئي شكل كي استعداد حاصل كرتے ہيں اور اس ترتيب سے ايك نيا مركب ظہور ميں آتا ہے اور اجزاء ايك نئي ہويت كے ساتھ اپني زندگي كو جاري ركھتے ہيں، اسي طرح انسان بھي فطري اور عالم طبيعت سے حاصل كي ہوئي دولت كے ساتھ معاشرتي زندگي ميں قدم ركھتا ہے اور روحانى طور پر ايك دوسرے ميں مدغم ہوجاتا ہے اور اس طرح وہ ايك جديد روحانى ہويت كے ساتھ گويا اجتماعي حيات كي صورت پاتا ہے اور يہ تركيب خود اپنے طور پر ايك طرح كي طبيعي تركيب ہے كہ جس كے لئے كوئي مثل و نظير ڈھونڈنا مشكل ہے ۔ يہ تركيب اس اعتبار سے كہ اجزاء ايك دوسرے پر عيني اثرات مرتب كرتے ہيں اور ايك دوسرے كے عيني تغير كا سبب بنتے ہيں اور ايك نئي ہويت اختيار كرتے ہيں ۔ ايك طبيعي اور عيني تركيب ہے، ليكن اس اعتبار سے كہ ”كل“ اور مركب ايك ”حقيقي اكائي“ كے عنوان سے وجود پذير نہيں، يہ ديگر طبيعي مركبات سے مختلف ہے يعني باقي تمام طبيعي مركبات ميں تركيب، تركيب حقيقي اس لئے ہے كہ ان ميں اجزاء ايك دوسرے پر حقيقي اثرات قائم كرتے ہيں اور افراد كي ہويت كچھ اورطرح كي ہويت ہوجاتي ہے نيز خود مركب ايك حقيقي ”اكائي“ ہوتا ہے يعني يہاں خالصتاً يگانہ ہويت موجود ہے اور كثرت اجزاء نے وحدت كل كي صورت اختيار كر لي ہے۔ جب كہ افراد اور معاشرے كي تركيب، حقيقي تركيب اس لئے ہے كہ يہ اثر اندازي اور اثر پذيري اور عمل و رد عمل واقعي طور پر رونما ہوتے ہيں اور اجزائے مركب يعني معاشرے كے افراد نئي صورت اور نئي ہويت سے ہمكنار ہوتے ہيں، ليكن كسي طرح بھي كثرت وحدت ميں نہيں بدلتي اور ايك حقيقي اكائي كے طور پر ”انسان الكل“ وجود ميں نہيں آتا كہ كثرتيں اس ميں حل ہوجائيں بلكہ ”انسان الكل“ افراد كا مجموعہ ہي ہوتا ہے جو اعتباري اور انتزاعي وجود ركھتا ہے ۔ 

د) معاشرہ، طبيعي مركبات سے بالاتر ايك حقيقي مركب ہے، طبيعي مركبات ميں اجزاء تركيب سے پہلے ازخود ہويت و آثار كے حامل ہوتے ہيں اور ايك دوسرے ميں اور ايك دوسرے پر تاثير و تاثر اور عمل اور رد عمل كے نتيجے ميں نئي چيز كے پيدا ہونے كي بنياد فراہم ہوتي ہے ليكن افراد اجتماعي وجود سے پہلے كے مرحلے ميں انساني ہويت كے حامل نہيں ہوتے، خالي برتن ہوتے ہيں كہ جن ميں اجتماعي روح كے حصول كي استعداد موجود ہوتي ہے، اجتماعي وجود سے قطع نظر انسان، حيوان محض ہے اور اس ميں صرف استعداد انسانيت موجود ہے ۔ انسان كي انسانيت يعني اس كي خودى، اس كا تفكر، اس كے عواطف واحسانات، اس كے ميلانات، اس كا فكري رجحان اور وہ چاہت جو انسانيت سے متعلق ہوتي ہے، اجتماعي روح كے پرتو ميں ابھرتي ہے ۔ يہ اجتماعي روح ہے جو اس خالي برتن كو پُر كرتي ہے اور كسي شخص كو شخصيت عطا كرتي ہے ۔ اجتماعي روح ہميشہ انسان كے ساتھ رہي ہے اور آئندہ بھي اخلاق، مذہب، سائنس، فلسفہ اور آرٹ سے متعلق تجليوں كے ساتھ اس كے آثار ہميشہ باقي رہيں گے ۔ افراد كا ايك دوسرے پر روحانى اور معنوي اثرات مرتب كرنا نيز ايك دوسرے پر ايسا ہي عمل و رد عمل قائم كرنا اجتماعي روح كے ذريعے اور اس كے پرتو ميں ہوتا ہے، نہ اس سے مقدم ہوتا ہے نہ اس سے پہلے والے مرحلے ميں، درحقيقت انسان كي عمر انيات اس كي نفسيات پر سبقت ركھتي ہے اور يہ پچھلے نظريئے كے برخلاف ہے كہ جو انسان كے لئے اجتماعي وجود سے پہلے اس كي نفسيات كے ہونے كا قائل ہے اور اس كي عمرانيات كو اس كي نفسيات كے بعد دوسرے مرحلے ميں لاتا ہے ۔ 

زير بحث نظريے كے مطابق اگر انسان اجتماعي وجود نہ ركھتا اور اگر اس كي عمرانيات نہ ہوتي تو وہ كوئي انفرادي انساني نفسيات بھي نہ ركھتا ۔ پہلا نظريہ خالص انفرادي اصليت كا نظريہ ہے، اس لئے كہ اس نظريہ كے مطابق معاشرہ نہ كسي حقيقي وجود كا حامل ہے اور نہ ہي اس كا كوئي قانون اور رسم و رواج ہے اور نہ ہي اس كي كوئي سرنوشت ہے اور نہ ہي كوئي شناخت ہے ۔ صرف افراد ميں جو وجود عيني ركھتے ہيں وہي موضوع شناخت بنتے ہيں ۔ ہر فرد كي تقدير دوسرے سے مختلف ہوتي ہے ۔ 

دوسرا نظريہ بھي انفرادي اصليت كا نظريہ ہے ۔ يہ نظريہ معاشرے كے لئے ايك كل اور تركيب افراد كے لئے ايك حقيقي تركيب كے عنوان سے اصليت اور غيبت كا قائل نہيں ليكن يہ افراد كے رابطہ كو ايك فزيكل رابطے كي مانند ايك طرح كا حقيقي اور عيني رابطہ بناتا ہے ۔ اس نظريے كے مطابق معاشرہ باوجود اس كے كہ افراد سے ہٹ كر كوئي جداگانہ وجود نہيں ركھتا اور صرف افراد ہي نہيں جو وجود عيني و حقيقي ركھتے ہيں ليكن اس اعتبار سے كہ افراد اور معاشرے كے اجزاء ايك كارخانے اور ايك مشينري كے اجزاء كي طرح ايك دوسرے كے ساتھ جڑے ہوئے ہيں ۔ افراد بھي ايك مشترك تقدير ركھتے ہيں اور معاشرہ يعني يہ مرتبط الاجزاء مجموعہ اسي علت و معلول كے خاص ميكانياتي نظام كے باعث جو اس كے اجزاء كے درميان موجود ہے، اپنے اجزاء كي شناخت سے ايك الگ شناخت ركھتا ہے ۔ ليكن تيسرا نظريہ فرد اور معاشرہ، دونوں كو اصالت ديتا ہے اس اعتبار سے كہ وہ معاشرے كے اجزاء كے وجود (يعني افراد) كو معاشرے ميں حل شدہ نہيں جانتا اور معاشرے كے لئے كيميائي مركبات كي طرح الگ سے كسي وجود كا قائل نہيں۔يہ انفرادي افراد كا نظريہ ہے ليكن اس اعتبار سے كہ يہاں اس نظريے كے مطابق تركيب افراد روحانى، فكري اور عاطفي مسائل كي رو سے كيميائي تركيب جيسي ہے كہ جہاں افراد معاشرے ميں ايك نئي ہويت اختيار كرتے ہيں اور وہي ہويت معاشرے كي بھي ہے، ہر چند كہ معاشرہ يگانہ ہويت كا حامل نہيں ۔ يہ نظريہ اجتماعي اصليت كا نظريہ ہے، اس نظريہ كي بناء پر اجزاء كے تاثير اور تاثير كے زير اثر ايك زندہ اور نئي حقيقت رونما ہوتي ہے اور نئي روح، نيا شعور، نيا ضمير، نيا ارادہ اور نئي چاہت ظہور ميں آگئي ہے ۔ يہ اس شعور، اس ارادے، اس ضمير اور اس فكر كے علاوہ جو افراد كو انفرادي طور پر حاصل ہے اور اسے افراد كے اس شعور اور وجدان پر غلبہ حاصل ہے ۔ 

اب رہا چوتھا نظريہ تو يہ خالص اجتماعي اصليت كا نظريہ ہے، اس نظريے كے مطابق جو كچھ بھي ہے، اجتماعي روح، اجتماعي ضمير، اجتماعي شعور، اجتماعي ارادہ، اجتماعي چاہت اور اجتماعي خودي ہي ہے ۔ انفرادي ضمير، اجتماعي شعور و ضمير كا ايك مظہر ہے اور بس ۔ 

قرآن مجيد كي آيتيں تيسرے نظريے كي تائيد كرتي ہيں ۔ جيسا كہ ہم پہلے عرض كر چكے ہيں قرآن سائنس يا فلسفے كي كتاب كي طرح مسائل كو پيش نہيں كرتا بلكہ اس كا انداز كچھ اور ہے ۔ وہ معاشرہ اور فرد سے متعلق مسائل كو اس طرح سامنے لاتا ہے كہ جس سے تيسرے نظريے كي تائيد ہوتي ہے ۔ 

قرآن تمام امتوں (تمام معاشروں) كے لئے مشترك سرنوشت، مشترك نامہ عمل، فہم و شعور، عمل اور اطاعت و عصيان كا قائل ہے ۔ 1 

ظاہر ہے اگر امت وجود عيني نہ ركھتي ہو تو سرنوشت، فہم و شعور اور اطاعت و عصيان كي گفتگو بے معني ہوجاتي ہے ۔ يہ دلالت كرتي ہے كہ قرآن ايك طرح كي حيات كا قائل ہے كہ جو اجتماعي حيات ہے ۔ اجتماعي حيات محض ايك تشبيہ و تمثيل نہيں بلكہ ايك حقيقت ہے، بالكل اسي طرح جس طرح اجتماعي موت ايك حقيقت ہے ۔ 

سورہ اعراف كي چونتيسويں آيت ميں ارشاد ہوتا ہے: 

ولكل امۃ اجل فاذا جاء اجلھم لا يستاخرون ساعۃ ولا يستقدمون 

”ہر امت (ہر معاشرہ) كي ايك مدت معياد ہے، اسے موت سے ہمكنار ہونا ہے پس جب ان كا آخري وقت آتا ہے تو اس ميں نہ ايك گھڑي آگے ہوتي ہے اور نہ ايك گھڑي پيچھے ۔“ 

اس آيت ميں ايك حيات اور ايك ايسي زندگي كي گفتگو ہے جس كا ايك آخري لمحہ ہے اور اس ميں كوئي تبديلي نہيں ہوتى، ايك گھڑي آگے نہ پيچھے، يہ حيات افراد سے نہيں امت سے متعلق ہے اور ظاہر ہے كہ افراد امت نہ ايك ساتھ اور نہ ہي ايك لمحے ميں مرتے ہيں بلكہ ان كي موت متفرق اور متفاوت ہوتي ہے ۔ 

سورہ مباركہ جاثيہ كي اٹھائيسويں آيت ميں ارشاد ہوتا ہے: 

كل امۃ تدعي الي كتابھا 

”ہر امت اور ہر معاشرے كو اس كے اپنے ہاتھ سے لكھي جانے والي كتاب كي سمت پڑتال كے لئے بلايا جائے گا ۔“ 

پس معلوم ہوتا ہے كہ نہ صرف افراد كے اپنے مخصوص اعمال نامے اور كتابيں ہيں بلكہ معاشرے بھي اس اعتبار سے كہ زندہ، باشعور، مكلف اور قابل خطاب ہيں اور ارادہ و اختيار بھي ان كے پاس ہے ۔ نامہ عمل ركھتے ہيں اور انہيں بھي نامہ عمل كي طرف بلايا جائے گا ۔ 

سورہ انعام كي ايك سو آٹھويں آيت ميں ارشاد ہوتا ہے: 

زينا لكل امۃ عملھم 

”ہم نے ہر امت كے عمل كو ان كے لئے زينت بنا ديا ہے ۔“ 

يہ آيت اس بات كو ثابت كرتي ہے كہ ايك امت اپنا ايك شعور، اپنا ايك معيار اور اپنا ايك طرز تفكر ركھتي ہے اور اس كا فہم و شعور و ادراك خصوصيت كے ساتھ اس سے وابستہ ہوتا ہے ۔ ہر امت (كم از كم عملي ادراكات سے متعلق مسائل ميں) اپنے مخصوص معيار كے مطابق فيصلہ كرتي ہے ۔ ہر امت كے ادراك كا ايك خاص ذوق اور سليقہ ہوتا ہے بہت سے ايسے امور ہيں جو ايك امت كي نگاہ ميں اچھے اور دوسري كي نگاہ ميں برے ہوتے ہيں ۔ يہ امت كا معاشرتي ماحول اور اس كي معاشرتي فضاء ہے جو افراد كے ادراك سے متعلق سليقے كو ايسا بناتي ہے ۔ 

سورہ مومن كي پانچويں آيت ميں ارشاد ہوتا ہے: 

وھمت كل امۃ برسولھم لياخذ وہ وجادلوا بالباطل ليدحضوا بہ الحق فاخذتھم فكيف كان عقاب 

”اور ہر امت نے اپنے پيغمبر كو گرفتار كرنے كا عزم كيا اور ناحق خود اس سے جھگڑتے رہے تاكہ حق زائل ہو جائے اور جب انہوں نے ايسا كيا تو ميں نے انہيں اپني گرفت ميں لے ليا ۔ پس ميرا عذاب كيسا رہا؟ “ 

اس آيت ميں ايك ناشائستہ اجتماعي عزم و ارادہ كے بارے ميں گفتگو ہے ۔ يہاں بات حق سے بيكار جھگڑے كے لئے اجتماعي ارادہ سے متعلق كي گئي ہے ۔ گفتگو يہ ہے كہ اس نوعيت كے اجتماعي عزم و آہنگ كي سزا عمومي اور اجتماعي عذاب ہے ۔ قرآن كريم ميں بعض مقامات پر ديكھا گيا ہے كہ معاشرے كے كسي ايك فرد كے كسي كام كر پورے معاشرے كي طرف نسبت دي گئي ہے يا كسي نسل كے كسي عمل كو بعد كي نسلوں سے منسوب كيا گيا ہے ۔ 2 

اس وقت ہو سكتا ہے جب معاشرے كے افراد، اجتماعي سوچ اور اجتماعي ارادہ ركھتے ہوں ۔ اصطلاحاً كہہ سكتے ہيں كہ اجتماعي روح كے حامل ہوں ۔ مثلاً قوم ثمود كے واقعہ ميں حضرت صالح عليہ السلام كي اونٹني كو كاٹنے كے عمل كو پوري قوم سے نسبت دي گئي ہے جب كہ اسے كاٹنے والا ايك شخص تھا ۔ قرآن كے الفاظ ميں ”فعقروھا“ يعني پوري قوم نے اس اونٹني كو كاٹا ۔ قرآن اس جرم ميں پوري قوم كو ملوث جانتا ہے اور سب كو عذاب كا مستحق قرار ديتا ہے اور كہتا ہے: 

فدمدم عليھم ربھم 

نہج البلاغہ كے خطبوں ميں سے ايك خطبے ميں حضرت علي عليہ السلام اس مطلب كي وضاحت ميں ارشاد فرماتے ہيں: 

ايھا الناس انما يجمع الناس الرضا والسخط 

”اے لوگو! بتحقيق وہ چيز جو سب كو اپنے گرد جمع كرتي ہے، انہيں رشتہ اتحاد ميں منسلك كرتي ہے اور انہيں ايك ہي سرنوشت عطا كرتي ہے، خوشنودي اور غضب ہے ۔“ 

جب كبھي لوگ اجتماعي صورت ميں كسي فعل پر خوشي يا ناخوشي كا اظہار كريں خواہ وہ فعل فرد واحد نے كيوں نہ انجام ديا ہو ۔ پوري قوم ايك ہي حكم اور ايك ہي انجام كي حامل ہو گي ۔ 

وانما عقر ناقۃ ثمود رجل واحد فعمھم اللہ بالعذاب لما عموہ بالرضا، فقال فعقروھا فاصبحوا نادمين 

”يعني خداوند عالم نے اپنے عذاب كو اجتماعي صورت ميں پوري قوم ثمود پر نازل كيا ۔ اس لئے ثمود كي پوري قوم اس ايك فرد كے فيصلے پر راضي تھي اور جب يہ فيصلہ مرحلہ عمل ميں آيا تو درحقيقت تمام لوگوں كا فيصلہ تھا ۔“ 

خداوند عالم نے اپنے كلام ميں اونٹني كو مارنے كے عمل كو باوجود اس كے ايك شخص كے ہاتھوں انجام پايا تھا، پوري قوم كي طرف نسبت دي اور كہا پوري قوم نے مار ڈالا ، يہ نہيں كہا كہ اس قوم كے ايك فرد نے يہ عمل انجام ديا ۔ 

يہاں ايك نكتے كا تذكرہ مناسب ہے اور وہ يہ كہ كسي گناہ پر اظہار رضامندي اگر صرف رضامندي كي حد تك رہے اور عملاً اس گناہ ميں شركت شمار نہ ہوتا ہو تو گناہ نہيں كہلاتا، مثلاً كوئي شخص عمل گناہ انجام دے اور دوسرے كو اس فعل كے بارے ميں فعل سے پہلے يا بعد ميں آگاہي ہو جائے اور وہ اس سے خوش ہو يہاں تك كہ اگر خوشنودي عزم و ارادہ كے مرحلے ميں بھي داخل ہو جائے اور اس پر عمل نہ ہو، تب بھي گناہ نہيں ہے ۔ 

خوشنودي كو اس وقت گناہ كہا جائے گا جب يہ ايك فرد كے گناہ كرنے كے ارادے اور عمل ميں ايك طرح كي شركت شمار كي جائے اور ايك طرح سے اس كے ارادے اور عمل ميں موثر سمجھي جائے ۔ اجتماعي گناہوں كي يہي صورت ہے ۔ 

معاشرتي ماحول اور اجتماعي روح كسي گناہ كے واقع ہونے پر راضي ہو كر اس گناہ كے ارتكاب كا ارادہ كرتي ہے ۔ معاشرے ميں سے ايك فرد كي جس كي رضايت سب كي رضايت كا ايك حصہ ہوتي ہے اور جس كا ارادہ سب كے ارادے كا ايك جزو ہوتا ہے، اس گناہ كا مرتكب ہوتا ہے ۔ يہ وہ موقع ہوتا ہے جب ايك فرد كا گناہ پورے معاشرے كا گناہ كہلاتا ہے ۔ نہج البلاغہ كے خطبے ميں حضرت علي عليہ السلام نے آيت قرآن كے مقصود كي طرف اشارہ كرتے ہوئے اسي حقيقت كو اجاگر كيا ہے وگرنہ محض ايك شخص كي اپني حد تك خوشنودي يا محض اپني حد تك ناراضگي سي طرح بھي گناہگار كے عمل اور ارادے ميں شركت نہيں كہلا سكتي ۔ 

قرآن كہيں كہيں كسي نسل كے كام كو بعد كي نسلوں سے نسبت ديتا ہے، جيسے قوم اسرائيل كے گذشتہ كاموں كو جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے زمانے كے لوگوں سے نسبت دي اور كہا ہے كہ يہ لوگ اس لئے ذلت و مسكنت كا استحقاق ركھتے ہيں كہ انہوں نے ناحق پيغمبروں كو قتل كيا ۔ يہ بات اس لئے ہے كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے زمانے كے لوگ قرآن كي نظر ميں گذشتہ لوگوں كا ہي تسلسل ہيں بلكہ اجتماعي روح كے اعتبار سے عين وہي لوگ ہيں جن كا سلسلہ اب بھي باقي ہے ۔ يہ بات جو كہي جاتي ہے كہ ”انسانيت زندوں سے زيادہ مردوں سے بني ہے“ اس كا مفہوم يہ ہے كہ بشريت كے عناصر كي تشكيل ميں ہميشہ زندوں سے زيادہ مردوں كا عمل دخل رہ ہے اور يہ گفتگو بھي كہ ”زندہ پر مردوں كي پہلے سے كہيں زيادہ حكمراني ہے“ اسي مذكورہ مفہوم كي حامل ہے ۔ 

تفسير الميزان ميں اس بحث كے بعد كہ جب كوئي معاشرہ ايك واحد سوچ اورايك واحد روح كا حامل ہوتا ہے تو ايك فرد جيسا ہوجاتا ہے اس كے افراد انساني اعضائے وجود بن جاتے ہيں جو ذات اور عمل كے اعتبار سے انسان كي حيثيت ميں گم ہو جاتے ہيں ۔ ان كي راحت اور تكليف عيناً انسان كي راحت اور تكليف بن جاتي ہے اور ان كي سعادت و شقاوت بھي عيناً انسان كي سعادت و شقاوت قرار پاتي ہے ۔ اس كے بعد مرقوم ہے: 

”قرآن نے ان قوموں اور ان معاشروں كے بارے ميں جو مذہبى يا قومي تعصبات كي بنياد پر ايك واحد اجتماعي سوچ كے حامل تھے اس طرح فيصلہ كيا ہے كہ بعد ميں آنے والے طبقات اور نسلوں كو پہلے آنے والي نسلوں كے اعمال كي وجہ سے قابل مواخذہ قرار ديا ہے اور حاضرين كو غائبين كے اعمال كي بنياد پر مورد عتاب و ملامت قرار ديا ہے، ايسے موقع پر جب لوگ اجتماع فكر اور اجتماعي جذبات كے حامل ہوں تو صحيح فيصلہ اس كے علاوہ كچھ اور نہيں ہو سكتا ۔ 3 

معاشرہ اور اس كے قوانين و سنن

معاشرہ اگرحقيقي وجود كا حامل ہو تو لازمي طور پر اپنے سے متعلق خاص قوانين و سنن كا حامل ہوگا، اگر ہم معاشرے كي ماہيت كے بارے ميں جس پر ہم ابھي بحث كر چكے ہيں، پہلے نظريے سے متفق ہوں اور معاشرے كے عيني وجود كو تسليم نہ كريں تو ہم نے لازمي طور پر معاشرے كو قانون اور سنن سے عاري جانا ہے اور اگر دوسرے نظريے كو مانتے ہيں اور معاشرے كو صنعتي اور مشيني تركيب جيسا تسليم كرتے ہيں تو اس ميں معاشرہ قانون اور سنن كا حامل ہے، ليكن يہ قانون اور سنن صرف معاشرے كے اجزاء كے درميان ميكانياتي اثرات ہي كي حد تك رہے گے اور ايسے معاشرے ميں كسي قسم كي زندگي يا اس كے مخصوص اثرات مشاہدہ نہيں كئے جا سكيں گے، اگر ہم تيسرے نظريے كو مانتے ہيں تو سب سے پہلے معاشرہ اس اعتبار سے كہ وہ انفرادي حيات سے الگ ايك خاص طرح كي حيات كا حامل ہے، ہرچند كہ اس اجتماعي حيات كا اپنا الگ كوئي وجود نہيں بلكہ افراد نے بكھر كر انہيں ميں حلول كر گيا ہے، اپنے افراد اجزاء سے الگ قوانين و آداب كا حامل ہے اور اس كي شناخت ضروري ہے، پھر يہ كہ معاشرے كے اجزاء جو افراد سے عبارت ہيں ، مشيني نظريے كے برخلاف اپني ہويت كے استقلال كو اگرچہ نسبي طور پر كيوں نہ ہو كھر كر اعضاء كي صورت اختيار كر ليتے ہيں ۔ ليكن اس كے ساتھ ساتھ افراد كا نسبي استقلال محفوظ رہتا ہے كيونكہ انفرادي حيات، انفرادي فطرت اور طبيعت سے فرد كا اكتساب، اجتماعي حيات ميں حل نہيں ہوتا اور حقيقتاً اس نظريے كے مطابق انسان دو حيات دو روح اور دو ”ميں“ كے ساتھ زندگي بسر كرتا ہے، ايك اس كي فطري ”ميں“ روح اور حيات ہے جو طبيعت كے جوہري حركات سے وجود ميں آتي ہے اور دوسرے وہ اجتماعي ”ميں“ روح اور حيات ہے جو اجتماعي زندگي سے وجود پذير ہو كر انفرادي ”ميں“ حلول كرتي ہے ۔ پس اس اعتبار سے انسان پر نفسيات كے قوانين كے ساتھ عمراني سنن بھي حكم فرما ہيں ۔ چوتھے نظريے كے مطابق صرف ايك نوعيت كا قانون اور ايك نوعيت كي سنن انسان پر حاكم ہيں اور وہ اجتماعي سنن ہيں اور بس ۔ 

علمائے اسلام ميں غالباً عبد الرحمن ابن خلدون وہ پہلا شخص ہے جس نے تاريخ پر اپنے مشہور و معروف مقدمے ميں صراحت كے ساتھ معاشرے پر حاكم قوانين و آداب كو انفرادي قوانين و آداب سے الگ پيش كيا ہے اور معاشرے كے لئے ”حيثيت“، ”طبيعت“ اور واقعيت كا قائل ہوا ہے، جديد علماء و حكماء ميں اٹھارويں صدي كا فرانسيسي دانشور ”مونٹيسكيو“ وہ پہلا شخص ہے جس نے معاشروں پر حاكم سنن كو دريافت كرنے كي كوشش كي ہے ۔ ريمون آرون، ”مونٹيسكيو“ كے بارے ميں لكھتا ہے: 

”اس كا مقصد تاريخ كو معقول صورت دينا ہے ۔ وہ چاہتا ہے تاريخ كے پيش كردہ واقعات كو رد كرے ۔ ہاں! تاريخ كے پيش كردہ واقعات تقريباً لامحدود تقديسي عادات، افكار، قوانين، آداب و رسوم اور معاشرتي شعبوں كي شكل ميں اس كے سامنے آتے ہيں اور يہي مختلف واقعات جو ظاہراً ہم آہنگ ہوتے ہيں اس كي تحقيق كا نقطہ آغاز بنتے ہيں۔ تحقيق كے آخر ميں كسي شعور نظم كو واقعات كے ان نامربوط سلسلوں كا جاگزيں ہونا چاہيے ۔ مونٹيسكيو ”ميكس ويبر“ كي طرح نامربوط واقعات سے گذرنا چاہتا ہے تاكہ كسي شعوري نظم كو حاصل كر سكے، ہاں يہي طريقہ عالم عمرانيات كا طريقہ ہے ۔“ 

اس بيان كا خلاصہ يہ ہے كہ اجتماعي واقعات كي ان ناہم آہنگيوں كے درپردہ جو انہيں ايك دوسرے سے اجنبي بنا ديتي ہيں ۔ عمرانيات كا ماہر ايك ايسي وحدت ڈھونڈ نكالتا ہے كہ يہ تمام ناہم آہنگياں اس وحدت كا مظہر بن جاتي ہيں ۔ اسي طرح اس بارے ميں كہ مشابہ اسباب كے عمل دخل سے مشابہ اجتماعي واقعات رونما ہوئے ہيں ۔ ”روميوں كے عروج و زوال كے اسباب سے متعلق ملاحظات“ نامي كتاب كا يہ اقتباس پيش كيا جاتا ہے: 

”دنيا ميں اتفاق يا حادثہ حكم نہيں ہے ۔ اس نكتے كو روميوں سے پوچھا جا سكتا ہے كيونكہ جب تك فرماں روائي ميں ان كا پروگرام منظم رہا، فتح و نصرت انہيں نصيب ہوتي رہى، ليكن جب انہوں نے اپنے پروگرام ميں تبديلي پيدا كي تو مسلسل پستيوں كي طرف گئے ۔ ہر سركاري نظام ميں چكھ علل و اسباب خواہ اخلاقي ہوں يا جسمانى كا عمل دخل ہوتا ہے، جو اس نظام كو سربلندي عطا كرتے ہيں يا پھر تباہي و بربادي كي دلدل ميں دھكيل ديتے ہيں۔ واقعات انہيں اسباب كے زير اثر ہوتے ہيں۔ اگر كوئي معركہ يعني خاص ملت كسي حكومت كي بساط الٹ دے تو يقينا اس ميں ايسے كلي اسباب كار فرما ہيں، جو وجہ معركہ بن كر اس حكومت كا تختہ الٹ ديتے ہيں۔ مختصر يہ كہ كوئي حقيقي بنياد ہے جو تمام جزوي اتفاقات كا سبب بنتي ہے ۔“ 

قرآن كريم اس بات كي تصريح كرتا ہے كہ قوميں اور معاشرے اس اعتبار سے كہ قوم اور معاشرہ ہيں (صرف معاشرے كے افراد نہيں) قوانين و سنن اور ان قوانين و سنن كي بنياد پر عروج و زوال ركھتے ہيں ۔ معاشرے كے مشترك انجام ركھنے سے مراد يہ ہے كہ وہ قوانين و سنن كا حامل ہے ۔ 

قرآن حكيم ميں بني اسرائيل كے بارے ميں ارشاد ہوتا ہے: 

وقضينا الي بني اسرائيل في الكتاب لتفسدن في الارض مرتين ولتعلن علوا كبيرا فاذا جاء وعد اولھما بعثنا عليكم عبادا لنا اولي بأس شديد فجاسوا خلال الديار و كان وعدا مفعولا، ثم رددنا لكم الكرۃ عليھم وامددناكم باموال و بنين و جعلناكم اكثر نفيراً ۔۔۔ إن احسنتم أحسنتم لأنفسكم وان اساتم فلھا، فاذا جاء وعد الاخرۃ ليسوءا وجوھكم وليدخلوا المسجد كما دخلوہ اول مرۃ وليتبروا ما علوا تتبيرا عسي ربكم ان يرحمكم وان عدتم عدنا و جعلنا جھنم للكافرين حصيرا (سورہ بني اسرائيل، آيت4 تا8) 

”اور ہم نے (آسماني كتابوں ميں سے) ايك كتاب ميں بني اسرائيل كو يہ حكم ديا كہ تم ضرور بالضرور زمين ميں دو مرتبہ فساد اور بڑي سركشي كرو گے، پھر جب پہلي سركشي سے متعلق وقت انتقام آئے گا، تو ہم بڑے جنگ آور اور زور آزما لوگوں كو تمہارے خلاف اٹھائيں گے جو تمہارے گھروں ميں گھس آئيں گے اور يہ وعدہ پورا ہو كر رہے گا ۔ پھر ہم تمہيں (تمہاري برائيوں سے پشيماني اور صحيح راستے كي طرف لوٹ آنے كے باعث) ان پر دوبارہ غلبہ ديں گے اور مال اور افراد سے تمہاري مدد كريں گے اور تعداد ميں تمہيں ان سے بڑھا ديں گے پس كلي طور پر اگر تم نيكي كرو گے تو وہ تمہاري اپني ذات كے لئے ہوگا اور اگر بدي سے ہمكنار ہو گے تو اس ميں بھي تمہاري اپني ذات متاثر ہوگي (يعني ہمارا طريقہ اور ہمارا قانون اپني جگہ مستحكم اور اٹل ہے كہ كچھ شرائط ہيں جن ميں ہم لوگوں كو قوت و قدر و عزت و استقلال عطا كرتے ہيں اور كچھ شرائط ايسي ہيں جن ميں دوسروں كے ہاتھوں انہيں ذليل و خوار ہونا پڑتا ہے) پھر جب (برائي اور تباہي كي طرف بازگشت كے نتيجے ) تم سے تمہارے دوسرے انتقام كي باري آئے گي تو (ہم دوسرے صاحبان قوت و طاقت كو تم پر مسلط كر ديں گے) تاكہ وہ تمہارا چہرہ بگاڑ ديں اور اسي طرح مسجد ميں گھس آئيں جس طرح پہلے گھس آئے تھے اور جس چيز پر غلبہ حاصل كريں اسے سختي سے مٹا ديں۔ (اگر تم راہ راست كي طرف لوٹ آئے تو) اميد ہے كہ خدا پھر اپني رحمت كو تمہارے شامل حال كر دے اور اگر تم نے پھر وہي كيا اور برائي كي طرف لوٹ آئے تو ہم بھي وہي كريں گے اور پھر سے دشمن اور عذاب معين كرديں گے ۔“ 

يہ آخري جملہ 

وان عدتم عدنا 

”تم جس قدر تباہي كي طرف لوٹو گے ہم اسي قدر دشمن كے ہاتھوں تمہيں ذليل كريں گے ۔“ 

اس توجہ كے ساتھ كہ مخاطب فرد نہيں قوم و ملت ہے، يہ معاشروں پر محيط قوانين كي كليت اور ان كے اٹل ہونے كو ظاہر كرتا ہے ۔ 

جبر يا اختيار؟

جو بنيادي مسائل اہل دانش كے درميان خاص طور پر موجودہ صدي ميں زير غور ہيں، ان ميں ايك مسئلہ معاشرے كے مقابل فرد كے جبر يا اختيار كا ہے، بعبارت ديگر يہاں اجتماعي روح كے مقابل انفرادي روح كے جبر و اختيار كي گفتگو ہے، اگر ہم معاشرے كي تركيب كے مسئلے ميں پہلے نظريہ كو مانتے ہيں اور معاشرے كي تركيب كو خالص اعتباري جانتے ہيں اور مكمل انفرادي اصليت پر ہمارا عقيدہ ہے تو ا س ميں اجتماعي جبر كي گنجائش نہيں كيوں كہ يہاں سوائے فرد و طاقت اور انفرادي طاقت كے علاوہ اجتماعي قوت نامي كوئي شے موجود نہيں جو فرد كو اپنے احكامات كے زير اثر لائے اور جس سے معاشرتي جبر كا خيال پيدا ہو، اب اگر كوئي جب رونما ہوتا ہے تو اس كا تعلق اجتماعي جبر كے حاميوں كي رائے كے برخلاف معاشرے سے نہيں فرد يا افراد سے ہے ۔ ليكن اگر ہم چوتھے نظريہ كو مانتے ہيں اور فرد كو انساني حيثيت كے اعتبار سے ايك خام مادہ اور ايك خالي برتن كي طرح تصور كرتے ہيں اور فرد كي تمام انساني حيثيت اس كي عقل اور اس كے ارادے كو كہ جو اس كے اپنے اختيار ميں ہے، اجتماعي عقل اور اجتماعي ارادے كا پرتو جانتے ہيں اور يہ عقيدہ ركھتے ہيں كہ اجتماعي روح جو اپنے اجتماعي مقاصد كے حصول كے لئے اپني اكائي ميں ايك انفرادي فريب بن كر ظاہر ہوتي ہے، خلاصہ يہ كہ اگر ہم صرف اور صرف اجتماعي اصليت كے قائل بن كر سوچيں تو پھر اجتماعي امور ميں فرد كي آزادي اور اس كے اختيار كا تصور باقي نہيں رہتا ۔ 

فرانس كا مشہور عمراني ماہر ”ايمل ڈوركم“ اس حد تك اجتماعي اصليت كا قائل ہے كہ كہتا ہے: 

”معاشرتي امور در حقيقت ان امور كے برخلاف جن كا تعلق كھانے پينے اور سونے جيسے امور سے ہے، جو انسان كے حيواني اور حياتياتي (بائيولوجيكل) پہلو سے ہيں، كسي فرد كے فكر و ارادے سے حاصل نہيں ہوتے بلكہ معاشرہ انہيں وجود ميں لاتا ہے اور اس كي تين خصلتيں ہيں:بيروني ہونا، جبري ہونا اور عمومي ہونا ۔ بيروني اس اعتبار سے ہيں كہ فرد كے وجود سے باہر يعني معاشرے سے فرد پر لاگو ہوتے ہيں اور اس سے پہلے كہ فرد وجود ميں آئے، يہ معاشرے ميں موجود ہوتے ہيں اور وہ انہيں معاشرے كے زير اثر قبول كرتا ہے ۔ آداب، اخلاق اور معاشرتي رسميں، مذہب اور ان جيسي چيزيں معاشرے سے اسے ملتي ہيں اور اس اعتبار سے جبري ہيں كہ وہ خود كو فرد پر ٹھونستي ہيں اور فرد كے ضمير، اس كے احساسات اس كے فيصلوں اور اس كے افكار و عواطف كو اپني شكل اور اپنے رنگ ميں ڈھال ليتي ہيں اور جبري ہونا عموميت كي دليل ہے۔“ 

ليكن اگر ہم تيسرے نظريے كو اپناتے ہيں يعني فرد كو بھي اصليت ديتے ہيں اور معاشرے كو بھي اگرچہ معاشرے كي طاقت افراد كي طاقت پر غلبہ ركھتي ہے تو اس صورت ميں ضروري نہيں ہے كہ افراد انساني مسائل اور سماجي امور ميں مجبور قرار پائيں ۔ 

”ڈوركم“ كا نظريہ جبر اس بات سے وجود ميں آيا ہے كہ طبيعت كے صفحے پر جوہري تكامل سے وجود ميں آنے والي انساني فطرت كي اصالت سے غفلت برتي گئي ہے، يہ فطرت انسان كو ايك خاص طرح كي حريت، امكان اور آزادي عطا كرتي ہے جس كے باعث وہ معاشرے كي طرف سے ڈھونسي جانے والي پاپنديوں كي مخالفت كے قابل ہوجاتا ہے ۔ يہي وجہ ہے كہ فرد اور معاشرے كے درميان ايك طرح كا ”امر بين الامرين“ حكم فرما ہے ۔ 

قرآن كريم جہاں معاشرے كے لئے طبيعت، حيثيت، عينيت، توانائى، حيات، موت، اجل، ضمير اور اطاعت و عصيان كا قائل ہے، وہاں صريحاً فرد كو امكاني طور پر معاشرے كے احكام سے حكم عدولي كرنے ميں آزاد اور توانا جانتا ہے ۔ قرآن نے اس مسئلے ميں جس چيز كو بنياد بناتا ہے اس كا نام ”فطرة اللہ“ ركھا ہے ۔ سورہ نساء كي آيت97 ميں اس گروہ كي نسبت جو مكہ كے معاشرے ميں اپنے آپ كو ”مستضعف“ و ناتواں جانتا تھا اور فطري ذمہ داري سے دستبرداري كے لئے اسي ناتواني كو عذر بناتا تھا اور درحقيقت خود كو معاشرے كے مقابل مجبور پيش كرتا تھا: 

”ان كا عذر كسي طرح بھي قابل قبول نہيں اس لئے كہ كم از كم وہ يہ تو كر سكتے تھے كہ اپنے آپ كو اس معاشرتي ماحول سے نكال كر دوسرے معاشرتي ماحول ميں منقل كر ديتے ۔“ 

پھر دوسري جگہ ارشاد ہوتا ہے: 

يا ايھا الذين آمنوا عليكم انفسكم لا يضركم من ضل اذا اھتديتم. (سورہ مائدہ، آيت ۔105) 

”اے صاحبان ايمان! تم خود اپنے نفوس كي حفاظت كے ذمہ دار ہو، ہرگز دوسروں كي گمراہي (لازمي طور پر) تمہاري گمراہي كا سبب نہ بنے ۔“ 

”ذر“ سے متعلق مشہور آيت جس كا اشارہ انساني فطرت كي طرف ہے ۔ اس گفتگو كے بعد كہ خداوند عالم نے توحيد كے عہد كو انسان كے وجود اور اس كي ذات ميں سمو ديا ہے، گوش گذار كيا گيا ہے اور يہ اس لئے ہے تاكہ تم بعد ميں يہ نہ كہہ سكو كہ ہمارے باپ دادا مشرك تھے اور ہمارے پاس كوئي چارہ كار نہيں تھا، ہم مجبور تھے كہ اپنے باپ دادا كي سنت پر باقي رہيں، اس الٰہي فطرت كے بعد اب كسي جبر يا مجبوري كي گنجائش باقي نہيں رہتي ۔ 

قرآني تعليمات سراسر مسئوليت اور ذمہ داري كي اساس پر قائم ہيں ۔ اپني اور معاشرے كي ذمہ دارى، امر بالمعروف اور نہي عن المنكر معاشرے كي برائيوں اور بدعنوانيوں كے خلاف فرد كے قيام كا حكم نامہ ہے ۔ قرآن مجيد كے بيشتر قصص و حكايات برائي كے اجتماعي ماحول كے مقابل فرد كے سينہ سپر ہونے سے عبارت ہيں، جناب نوح عليہ السلام، جناب ابراہيم عليہ السلام، جناب موسيٰ عليہ السلام ، جناب عيسيٰ عليہ السلام، رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم، اصحاب كہف اور مومن آل فرعون وغيرہ سب كے سب اسي حيثيت كے حامي ہيں ۔ 

معاشرے اور معاشرتي ماحول ميں افراد پر جبر كے واہمہ كي بنياد اس تصور پر ہے، حقيقي تركيب كے لئے لازمي ہے كہ اجزاء ايك دوسرے ميں مدغم ہوجائيں اور كثرت ”كل“ كي اكائي ميں جذب ہو جائے اور ايك نئي حقيقت سامنے آئے (اور اس واہم كي بنياد يہ تصور بھي ہے كہ) ياتو فرد كي حيثيت اس كي آزادي اور استقلال كو مانا جائے اور تركيب كے حقيقي اور عيني ہونے كو رد كيا جائے جيسا كہ پہلے اور دوسرے نظريے ميں معاشرے يا فرد كي اصالت كا ذكر آيا ہے، يا پھر ”ڈوركم“ كي طرح تركيب كي اصالت اور معاشرے كي عينيت كو تسليم كيا جائے اور فرد كي حيثيت، استقلال اور آزادي كو ٹھكرا ديا جائے كيوں كہ ان دونوں كي يكجائي ناممكن ہے اور چونكہ عمرانيات اپنے تمام دلائل كي رو سے معاشرے كي عينيت كو تسليم كرتي ہے، لہٰذا فرد سے متعلق گفتگو كو مسترد سمجھا جائے ۔ 

سچ تو يہ ہے كہ فلسفي نقطہ نظر سے تمام حقيقي تركيبوں كو يكساں نوعيت كي نہيں سمجھنا چاہيے، عالم طبيعت كے نچلے درجات يعني جمادات اور حيات سے عاري موجودات ميں كہ جن ميں بااصطلاح اہل فلسفہ صرف ايك بسيط قوت كار فرما ہے اور جو بہ تعبير فلاسفہ ”عليٰ وتيرہ واحدہ“ پر قائم ہيں، اجزاء اور قوي ايك دوسرے ميں مكمل طور پر مدغم ہوجاتے ہيں اور ان كا وجود ”وجود كل“ ميں مكمل طور پر حل ہوجاتا ہے، جيسے پاني كي تركيب ميں آكسيجن اور ہائيڈروجن ليكن تركيب درجات ميں جس قدر بلند ہوگى، اجزاء كل كي نسبت اتنے ہي زيادہ نسبي استقلال كے حامل ہوں گے اور عين وحدت كے ساتھ ايك طرح كي كثرت اور عين كثرت كے ساتھ وحدت كا ظہور ہوگا اور يہي كچھ انسان ميں ہم ديكھتے ہيں كہ وہ عين وحدت كے ساتھ ايك عجيب كثرت كا حامل ہے كہ جہاں صرف يہي نہيں كہ اس كے اندر كي طاقتيں اپني كثرت كو ايك حد تك محفوظ ركھتي ہيں بلكہ ان ميں ايك طرح كا تضاد اور دائمي كشمكش برقرار رہتي ہے ۔ معاشرہ عالم طبيعت كے بلند ترين موجودات ميں سے ہے اور اس كو تركيب ميں لانے والے اجزاء كا نسبي استقلال اس سے كہيں بلند تر ہے۔ 

پس اس اعتبار سے كہ افراد بشر ايك معاشرے كے اجزاء ہيں، اپنے طبيعي اور انفرادي وجود ميں معاشرے سے زيادہ فطري عقل اور ارادے كے مالك ہيں نيز يہ كہ چونكہ عالم طبيعت كے اعليٰ مراتب كي ترتيب ميں اجزاء كا نسبي استقلال محفوظ رہتا ہے اس لئے انساني افراد يعني انفرادي روح معاشرے يعني اجتماعي روح كے مقابلے ميں مجبور اور مسلوب الاختيار نہيں ہوتي ۔ 

1. ملاحظہ ہو تفسير الميزان، جلد 4۔ ص۔102. 

2. جيسے سورہ بقرہ كي آيت: 79، فويل للذين يكتبون الكتاب بايديھم ثم يقولون ھذا من عنداللہ ۔۔۔ فويل لھم مما كتبت ايديھم وويل مما يكسبون، اسي طرح آل عمران كي 112، آيت: ضرب عليھم الذلۃ اينما ثقفوا الابحبل من اللہ وحبل من الناس وباؤا بعض من اللہ وضربت عليھم الذلۃ والمسكنۃ ذلك بانھم كانوا يكفرون بايات اللہ ويقتلون الانبيا بغير حق ذلك بما عصوا كانوا يعتدون 

3.تفسير الميزان، جلد4، ص112. 

 

 

تبصرے
Loading...