مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں

تقریباً روزانہ ہی بیت المقدس کی مظلومیت کی خبر مسلمان ضرورپڑھتے ہونگے۔مسجد اقصیٰ کیمسلسل بے حرمتی کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس قسم کی سانحاتی خبریں سنتے سنتے مسلمان تھک سے گئے ہیں ان کے تعلق سے اب ان کے دلوں میں اضطراب موجزن نہیں ہوتا۔وہ اس دور کے مسلمان جن کو اسلام اوراسلامی معاشرہ سے قلبی لگاؤ تو ہے لیکن اس کے تحفظ اور دفاع کے لئے کچھ کرنے سے قاصرہیں۔وہ پریشان ہیں کہ کھاؤں کہاں کی مار بچاؤں کہاں کی چوٹ۔مستقل طور پرمسلمانوں اور اسلام پر منصوبہ بند حملے ہو رہے ہیں۔قرآن مجید کی بے حرمتی ہو رہی ہے اسلام کا مذاق اڑایاجارہا ہے اوراس کو دہشت گردی کا مذہب قرار دیاجارہاہے۔پیغمبر اسلام کی توہین کی جارہی ہے۔ہر سمت سے نوکیلے تیر چلائے جارہے ہیں۔حجاب،داڑھی ،مسجد کے میناروں کے خلاف نام نہاد مہذب قوموں کی طرف سے شرمناک مہم چلائی جارہی ہے۔مسلمان آہ بھر کرخاموش ہوجاتے ہیں تھوڑی دیر کے لئے بھڑکتے ہیں پھر چندثانئیے میںسمجھ جاتے ہیں۔بے چارے کر بھی کیا سکتے ہیں مجبور ولاچار ہیں۔ان کی مجبوری اور بے وزنی کا یہ عالم ہے کہ دنیا میں ان کی تعداد ڈیڑھ ارب ہے پانچ درجن خود مختار مملکتیں ہیں مادی وسائل سے مالا مال ہیں لیکن بے بس اورمجبور ہیں اتنے بے بس اور مجبور کہ ایک چھوٹا ساغاصب ملک اسرائیل ان پر غالب اور ان کو انگلیوں پر نچا رہاہے۔عام مسلمان بے چارے بھی کیا کرسکتے ہیں ان کو اپنے ذاتی مشاغل اور مسائل سے فرصت نہیں ملتی۔اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے وہ کبھی مسلم حکمرانوں کو برابھلا کہتے ہیں ان کی ایمانی غیرت کو للکارتے ہیں پھر مسلم لیڈروں کو کوسنے لگتے ہیں اورسمجھتے ہیںکہ ان کی ذمہ د اری ختم ہو گئی۔وہ سوچتے ہیں ہم اتنی دوربیٹھ کر مسجد اقصیٰ کاتحفظ کیسے کر سکتے ہیں۔ہم ہندوستانی مسلمانوں کابھی عجیب حال ہے جذباتی مسائل میں ہم خوب دلچسپی لیتے ہیں شورشرابہ اوراحتجاجی مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کے تعلق سے ہماری ایمانی غیرت ابل پڑتی ہے اورہم اپنے جذبات کا خوب خوب مظاہرہ کرتے ہیںلیکن یہ خبر سننے کے بعد کہ مسجد اقصیٰ خطرے میںہے ہماری خاموشی نہیں ٹوٹتی۔ایک خبیث پادری قرآن مجید کو جلانے کامنصوبہ بنارہا ہے تواس کے تعلق سے ہم صرف دعا کے قائل ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ اس مردودپادری کو برباد کردے!

مسلمانوں کی بے حسی لاتعلقی اورانتشار کافائدہ اٹھاتے ہوئے انتہا پسند یہودیوں نے مسجد اقصیٰ اورمسجد صخریٰ کو بم سے اڑاکرشہید کرنے کا منصوبہ بنالیاہے۔فلسطینی علمائ دنیا بھر کے علمائ اسلام مسلمانوں کوباربارآگاہ کر رہے ہیں لیکن اس باربار کی آگاہی پر کان دھرنے کے لئے مسلمان تیار نہیں۔وشوہندوپریشداورسنگھ پریوار کے جنونی انتہاپسندوں کی طرح اسرائیلی ربی بھی اعلان کر رہے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کی جگہ پر ہی ٹمپل ماؤنٹ (ہیکل سلیمانی)تعمیرہو کررہے گا۔روزانہ خبریں نشر ہو رہی ہے کہ مسجد اقصیٰ میں مسلمانوںکے داخلے پرپابندی عائد کی جارہی ہے۔بیت المقدس کوفوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیاگیاہے۔القدس کے قانون سازکونسل کے فلسطین ارکان پارلیمنٹ کو شہر بدرکیاجارہا ہے اور بیت المقدس میںمکانات کی مسماری اوریہودی کالونیوں کی تعمیراورغزہ پٹی کی حصار بندی اس امت کونہیںجگاسکتی تو کس قسم کا صورپھونکا جائے کہ یہ غفلت شعار اْمہ جاگ جائے،حرکت میںآجائے اورمسجد اقصیٰ اوربیت المقدس کے تحفظ کے لئے بے خطر کودپڑے۔اسلام کی ایک مقدس ترین مسجد ناپاک یہودیوں کے نرغے میں ہے صرف فلسطین مجاہدین اسکے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔عرب شیوخ،امرائ سلاطین،مسلم ممالک کے غیورصدوراورہندوستان کے مجاہدین آزادی اور دیوبندی،بریلوی،اہل حدیث،شیعہ سنی سب کے سب کیوں خاموش ہیں اور ایک رسمی بے روح بیان دے کر اپنے دینی فرائض سے دستبردار کیوں ہو گئے۔تازہ خبر کے مطابق فلسطینیوں کورمضان میں مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے یروشلم میں داخل ہونے کی عام اجازت نہیں ہوگی۔یہ اعلان اسرائیلی پولس نے کیا ہے۔اسرائیلی پولس نے کہا ہے کہ عرب اردن کے فلسطینی مجاہدین کو رمضان میں مسجد اقصیٰ میںنماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔صرف ٠٥سال سے زائد عمر کے مردوں اور 45برس سے زیادہ عمر کی خواتین کو اس کی اجازت ہوگی۔ ایک غاصب اورسرکش قوم نے مسلمانوں کو اپنی مسجد میں عبادت سے رو ک دیا اس سے بڑاظلم کیا ہوگا۔اسرائیل کاپْر فریب استدلال یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے علاقے میں حالات پرامن رکھنے کے لئے یہ پابندیاں ناگریزہے۔واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967کی جنگ میںمشرقی یروشلم پرقبضہ کیاتھا۔اس کے بعداسے اسرائیل میںضم کردیاگیااور وہاں یہودی نوآبادیات کاسلسلہ شروع ہوا۔آج وہاں 20لاکھ یہودیوں کے مکانات ہیں۔اس شہر پر کنٹرول اسرائیلی فلسطینی تنازعہ کاانتہائی حساس اورمخدوش پہلو ہے۔فلسطینی مشرقی یروشلم کو مستقبل کے آزاد فلسطین کی راجدھانی بنانا چاہتے ہیںجب کہ اسرائیل اس شہر کو اپنی دارالحکومت کے طور پردیکھتاہے۔یروشلم سنٹرفارسوشل اکنامکس رائٹس کے ڈائریکٹرزیادحموری کاکہنا ہے کہ اسرائیل 20ہزار فلسطینیوںکو یروشلم بدرکرنا چاہتاہے۔اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ فلسطینی شہر میں رہنے کا کوئی قانونی جواز نہیں رکھتے۔ایک غاصب اسرائیل کایہ دعویٰ اور یہ دبدبہ صرف مسلمانوں کی نا اتفاقی اورکمزوریوں کانتیجہ ہے ورنہ دنیا کے سارے مسلمان زور سے آواز بلند کریں تو اسرائیل پرلرزہ طاری ہوجائے۔بیت المقدس کمیٹی کے عہدہ دار عبداللہ ابوجرنوع نے بہت پہلے خبردارکیا تھا کہ بیت المقدس کویہودیانے اورمسجد اقصیٰ پرمکمل کنٹرول کی اسرائیلی مہم عروج پرپہنچ چکی ہے۔انہوں نے مسلم حکمرانوں کی خاموشی کو شدید تنقیدکانشانہ بناتے ہوئے کہاتھا کہ مسلمانوں کی خاموشی کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کے خلاف اسرائیلی جارحیت بڑھ رہی ہے اور یہودی اس خاموشی کافائدہ اٹھاتے ہوئے مسجد اقصیٰ اور اسلامی مقدس مقامات پراپناپنجہ گاڑتاچلاجارہاہے۔

مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لئے اپیلوں کاسلسلہ جاری ہے۔مسلم دنیا کی سب سے بڑی منظم تنظیم ”اسلامی کانفرنس”کے جنرل سکریٹری اکمل الدین احسان اوگلو نے عالم اسلام پرزوردیا ہے کہ وہ بیت المقدس کی آزادی کے لئے اپنی جگہ کوششیں تیزکریں کیونکہ اسرائیل کی طرف سے مسلمانوںکے اس تاریخی مقدس مقام کی شناخت مٹانے کی سازشیں کی جارہی ہیں جن کی روک تھام پوری امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔رمضان المبارک کی آمد کے تعلق سے عالم اسلام کے نام اپنے خصوصی پیغام میں انہوںنے اسلامی کانفرنس کے رکن ممالک پرزوردیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے لئے آگے آئیں تا کہ انہیں اسرائیلی مظالم سے نجات دلائی جا سکے۔انہوں نے امت مسلمہ کے ایک ایک فرد سے اپیل کی ہے کہ وہ ماہ رمضان المبارک میں بیت المقدس کی اپنی ذمہ داریوں کو فراموش نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ فلسطین میں اسرائیل مسلسل مظالم ڈھارہا ہے اوراپنی ریاستی دہشت گردی کامرتکب ہو رہاہے۔بیت المقدس کو مسلمانوں کے بجائے یہودی شہر میں تبدیل کر رہاہے۔القدس کے فلسطینی شہریوں کو حق حکومت سے محروم کیا جارہاہے ان کی املاک غصب کرکے انہیںشہر بدرکرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں’مکانات مسمارکئے جارہے ہیں’تاریخ اسلامی کے مقدس مقامات کو یہودیت میں تبدیل کیاجارہاہے۔ایسے میں عالم اسلام کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ادھر رابطہ عالم اسلامی نے مقبوضہ بیت المقدس کویہودیانے، اس کی اسلامی شناخت ختم کرنے اورمساجد کو یہودی آثار قرار دینے جیسی مذموم اسرائیلی کارروائیوں کی شدید مذمت کی ہے۔اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل کاغزہ کے ”تباہی’بھوک”ظالمانہ محاصرے نے تمام بین الاقوامی معاہدوں کے ساتھ اخلاقی معیارات کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔اقوام متحدہ ‘یونیسکواوردیگر عالمی تنظیموں اور امن وسلامتی پریقین رکھنے والے ملکوں سے اسرائیل کو مسجد اقصیٰ کے انہدام جیسے مجرمانہ اقدام سے روکنے کامطالبہ کیاگیاہے۔

اس سنگین صورت حال میں مسلمانوں کی محض زبانی ہمدردی،مذہبی ذمہ داریوں سے تجاہل اورملی حمیت وغیرت سے صرف نظر اچھی علامت نہیںہے۔کیا ہم اس رمضان المبارک کے مہینے میںان مظلوم اورستم رسیدہ فلسطینیوں کے اورغزہ پٹی کے مجبورومحصورانسانوں کے لئے دعا بھی نہیںکر سکتے ‘اخلاقی حمایت بھی ممکن نہیںہے؟کیاہم اجتماعی طور ٠٢کروڑ ہندوستانی مسلمان امریکہ اورمغربی طاقت پردباؤنہیں ڈال سکتے کہ وہ اسرائیل کو لگام دے اوراس کی بیجاپشت پناہی سے دستبردارہوجائے۔مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے

لیے ہم ایک کمیٹی بھی تشکیل نہیں دے سکتے؟توپھر ہم کیاکرسکتے ہیں؟آخر مسجد اقصیٰ کے تحفظ کی ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہوتی ہے کہ نہیں؟ 

تبصرے
Loading...