مثالی معاشرے کے بنیادی ارکان۔

ایک چھوٹے سے چھوٹے اجتماع اور جماعت سے لیکر ایک معاشرے اور سوسائٹی تک کی بنیاد کے کچھ اصول، مبنی اور ارکان ہوتے ہیں اور انہی اصول اور ارکان کو ملحوظ نظر رکھتے ہوے اس معاشرے کے دوسرے سارے امور انجام پاتے ہیں مکتب نہج البلاغہ میں تشکیل پائے جانے والا مثالی معاشرہ بھی کچھ اہم اصول اورارکان کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے امام علی (ص)نے ہر جگہ ان ارکان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انسان کو اپنے مثالی معاشرے کی حقیقت سے آشنا کرایا ہے مقالہ کی طوالت سےپرہیز کرتے ہوے یہاں صرف سب اہم اور بنیادی ارکان کی جانب اشارہ کریں گے۔

توحید:

اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی سماج میں رائج سکولر اور لیبرل نظام کی بنیاد غیردینی ہے اور مغربی دانشور اپنے ماڈل سماج کے بنیادی رکن کو انسان محوری(humemism)قرار دیتے ہیں لیکن مکتب نہج البلاغہ کے مثالی معاشرے کے اندر توحید مرکزی کردار ادا کرتی ہے یہ مختلف شکلوں میں رائج انسان پرستی اور بت پرستی سے دور توحید پرستی کا معاشرہ ہے توحید دوسرے سارے اصول اور ارکان کے لئےسرچشمہ کی حیثیت رکھتی ہے اگر توحید نہ ہو تودوسرے سارے ارکان اور خصوصیات بے معنی ہوجاتے ہیں یہاں ہر چیز پہ انسان کی نہیں بلکہ خدا کی نظارت ہے‘‘لا حکم الاّ الله’’ جلوہ نما ہےہر فعل و عمل میں توحید کا نظارہ کیاجاتا ہے ‘‘مارأیت شیئا و رایت الله قبله و معه و فیه’’ ‘‘ اسی لئے ایسے معاشرے میں پروش پانے والی نسل سے خطاب ہوتے ہیں: 

(فَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذي أَنْتُمْ بِعَيْنِهِ، وَ نَوَاصيكُمْ بِيَدِهِ، وَ تَقَلُّبُكُمْ في قَبْضَتِهِ، إِنْ أَسْرَرْتُمْ عَلِمَهُ، وَ إِنْ أَعْلَنْتُمْ كَتَبَه) ”اس اللہ سے ڈرو کہ تم جس کی نظروں کے سامنے ہو اور جس کے ہاتھ میں تمہاری پیشانیوں کے بال اور جس کے قبضہ قدرت میں تمہار ا اٹھنابیٹھنا او ر چلنا پھرنا ہےاگر تم کوئی بات مخفی رکھو گے تو وہ اس کو جان لے گا اور ظاہر کرو گے تو اسے لکھ لے گا “

نقطه ادوار عالم لا اله 

انتهای کار عالم لا اله

چرخ را از زور او گردندگی 

مهر را پابندگی رخشندگی

جس طرح قرآن مجید توحید کے محور پر مومنین اور مسلمین کوایک مثالی معاشرہ تشکیل دے کے عدالت الہی قائم کرنے پر زود دیتا ہے بالکل ویسے ہی نہج البلاغہ بھی ایک خدا، ایک معبود، ایک خالق کی جانب دعوت دے کے، حقیتقت میں سارے معبود کی نفی اورمثالی معاشرے میں حائل سارے موانع کو دور کرنا چاہتا ہے۔

قرآن کریم کی نگاہ میں بعثت انبیاء کا فلسفہ خدا اور توحید کی بنیاد پر لوگوں کو دعوت دینا اور قوموں کے درمیان تفرقہ اور جدائی ڈالنے والے زمانے کے سامراجی اور استعماری طاقتوں، سے مقابلہ کرنا مقصود ہے۔

(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ )(نحل ٣٦)”اور بیشک ہم نے ہر امت کے لئے ایک رسول بھیجا تا کہ خدا کی عبادت کریں اور طاغوت سے دوری اختیار کریں “ 

نیز امام علی (ص)نہج البلاغہ میں اسی فلسفہ اور حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَبَعَثَ اللهُ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ لِيُخْرِجَ عِبَادَهُ مِنْ عِبَادَةِ الاَْوْثَانِ إِلَى عِبَادَتِهِ، وَمِنْ طَاعَةِ الشَّيْطَانِ إِلَى طَاعَتِهِ، بِقُرْآن قَدْ بَيَّنَهُ وَأَحْكَمَهُ، لِيَعْلَمَ الْعِبَادُ رَبَّهُمْ إِذْ جَهِلُوهُ) ”پروردگار عالم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا بتاکہ آپ لوگوں کوبت پرستی سے نکال کر عبادت الہی کی منزل کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمان کی اطاعت کرائیں اس قرآن کے ذریعہ سے جسے واضح اور محکم قرار دیا ہے تاکہ بندے خدا کو نہیں پہچانتے ہیں تو پہچان لیں “

آپ اہل رائے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں مشترکہ عقیدہ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے مثالی معاشرے کے اس اہم رکن اور مبنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”سب کا خدا ایک ، نبی ایک اور کتاب ایک ہے“ یعنی جب معاشرے پر توحید پرستی حاکم ہو تو اختلاف معنی ہی نہیں رکھتا۔

ایک اور جگہ لشکر شام کے بنیادی عقاید کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہیں توحید کے مبنی پر اتحاد اور یکجہتی استوار کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ کیونکی عقیدہ توحید کی بناپر ہی مثالی معاشرے میں سالمیت پیدا ہوسکتی ہے۔ 

یہ فرمایشات اسی بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عملی اور نظریاتی میدان امام علی(ص) کے مثالی معاشرے کا سب سے بنیادی رکن توحید ہی ہے یہ معاشرہ توحید پرستوں کا معاشرہ ہےنہ کہ انسان پرستوں کا ۔

نہاد زندگی میں ابتدا لا، انتہا لا 

پیام موت ہے جب لاہوا الاّ سے بیگانہ

قرآن:

اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک صالح اور نیک معاشرے کی سعادت اور ترقی کے لئے ایک صالح قانون کا ہونا بھی ضروری ہے نہج البلاغہ کی دنیا میں صالح قانون قرآن ہے جو امام علی(ص) کے مثالی معاشرے کا دوسرا اہم رکن قرارپایا ہے آپ نے قریب بیس سے زیادہ خطبوں میں تعلیمات قرآن کوعملی جامہ پہنانے پر تاکید کی ہے آپ کا مثالی معاشرہ قرآن کے اصول اور قوانین پر استوار ہےامام کی فرمایشات کے مطابق انسان اور انسانی معاشرے کا سب سے بہترین ھادی قرآن ہے ایک ایسا نور ہے جو کبھی خاموش ہونے والا نہیں ہےمعاشرے کی ساری بیماریوں کا علاج اس میں پوشیدہ ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس پر عمل کریں۔

(وَعَلَيْكُمْ بِكِتَابِ اللهِ، فَإِنَّهُ الْحَبْلُ الْمَتِينُ، وَالنُّورُ الْمُبِينُ، وَالشِّفَاءُ النَّافِعُ…) ”اور تم پر لازم ہے کہ کتاب خدا پر عمل کرو کہ یہی مضبوط ریسمان اور روشن نور اور مفید علاج ہے…“

آپ خطبہ نمبر(198) میں تفصیل سے قرآن کی حقیقت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کا رھرو کبھی گمراہ نہیں ہوگا انسان کے ایمان کی اصل قرآن ہی ہے یہ اسلام کا مضبوط ستون ہے گویا مثالی معاشرے کی استواری کے لئے ہر طرح کا علم و برہان اور ہدایت اس میں پائی جاتی ہے معاشرے کے معیشتی، قضایی، عبادی، سیاسی وغیرہ امور کو انجام دینے کے واسطے قرآن ہی سب سے بہترین ھادی ہے اسی لئے مکتوب نمبر(47)میں اپنی آخری وصیت میں یہی فرماتے ہیں کہ ‘‘ الله الله فی القرآن لایسبقکم بالعمل به غیرکم’’ ‘‘دیکھو اللہ سے ڈرو قرآن کے بارے میں اس پر عمل کرنے میں دوسرے لوگ تم سے آگے نہ نکل جائیں’’

اسي قرآن میں مثالی معاشرے کے امور کو تنظیم کرنے کی معلومات موجود ہے ماضی سے عبرت اور مستقبل میں آئیڈئیل سوسائٹی کو بہتر سے بہتر بنانے کے فرامین پائے جاتے ہیں

(أَلاَ إِنَّ فِيهِ عِلْمَ مَا يَأْتي، وَالْحَدِيثَ عَنِ الْمَاضِي، وَدَوَاءَ دَائِكُمْ، وَنَظْمَ مَا بَيْنَكُمْ) ” اس میں مستقبل کا علم ہے اور ماضی کی داستان ہے تمہارے درد کی دوا ہے اور تمہارے امور کی تنظیم کا سامان ہے“

آپ(ع) لوگوں سے بیعت لےتے وقت اس بات کہ جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اسلامی حکومت میں تشکیل پائے جانے والا مثالی معاشرہ قرآن کے اصول اور قوانین پر استوار ہوگا ۔

(و اعلموا أنّي إنْ أجَبْتُكُمْ رَكِبْتُ بكم ما أعْلَمُ، و لَمْ أُصْغ ِإلي قولِ القائل و عَتْب ِالعاتبِ) ”تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اگر میں تمہاری اس خواہش کو مان لوں تو تمہیں اس راستے پر لے چلوں گا۔ جو میرے علم میں ہے اور اس کے متعلق کسی کہنے والے کی بات اور کسی ملامت کرنے والے کی شرزنش پر کان نہیں دھروں گا۔“

اور اپنے علم کے مطابق عمل کرنے سے مراد تعلیمات قرآن اور رسول اکرم(ص) کی پاکیزہ سیرت کے مطابق عمل کرنا ہے چنانچہ آپ قرآن ناطق بھی ہیں اور وارث علم پیغمبر بھی۔(ادعوکم الی کتاب الله و سنة نبية۔۔۔) ”میں تمہیں کتاب خدا اور اسکے نبی کی سنت کی جانب دعوت دیتا ہوں“

پس امام علی(ع) کے خوبصورت اور پاکیزہ شہر اور بے مثال معاشرے میں قرآن حاکم ہے قرآن کے اصول اور قوانین نافذ ہیں لہذا اسکی تشکیل کے نظری اور عملی میدان میں قرآن پاک کا ایک اہم اور بنیادی کردارہےاسی لئے یہ معاشرہ اور وں کے مقابلے میں زیادہ پائیدا اور استوار ہےکیونکہ اس کے ارکان ابدی اور مستحکم ہیں۔

ملـــت از آئين حق گيرد نظام 

از نظام محکـــمي خيزد دوام

از يـک آئــــيني مسلم زنده است 

پـــــيکر ملت ز قرآن زنـده است

گر تو مي خواهي مسلمان زيــستن 

نيست ممــــکن جز به قرآن زيستن

سیرت پیغمبر (ص)

مکتب امام علی(ع) کے مثالی معاشرے اور آئیڈیل سوسائٹی کا تصور رسول پاک(ص) کی سیرت طیبہ کے بغیر ناممکن ہے آنحضور(ص)کی سیرت طیبہ کو نظریاتی اور عملی میادین میں اجرا کرنا امام کے مثالی معاشرے کے اہم ترین ارکان میں سے ہے دوسرے الفاظ میں کہا جائے کہ امام علی(ع) کا مثالی معاشرہ رسالت مآب(ص)کی سیرت کا عملی نمونہ ہے کیونکہ پیغمبراکرم(ص) اپنی پوری زندگی انہی دو مذکورہ رکن (توحید اور قرآن ) کو لوگوں کی زندگی میں نافذ کرنا چاہتے تھےپس آئیڈئیل سوسائٹی کے قیام کے لئے آپ توحید کا پیغام اور انسانیت ساز آئین لے کے بشریت کے پاس آئے تھے امام علی(ع) خطبہ نمبر(۱۶۰)میں اس بات کی جانب واضح الفاظ میں اشارہ کرتے ہیں کہ آنحضور(ص) کی زندگی مکمل طور سے نمونہ عمل ہے اسی لئے بیعت کے وقت لوگوں سے اس بات کا تعہد لیتے ہیں کہ میرے سارے امور کا مبنی اور محور قرآن اور آنحضور(ص) کی پاکیزہ اور مثالی سیرت رہے گی۔

(اَدعوکم الی کتاب الله و سنه نبية) ‘‘میں تمہیں کتاب خدا اور اسکے نبی کی سنت کی جانب دعوت دیتا ہوں’’

کیونکہ توحید کے بعد یہی دین کے اہم ستون میں حساب ہوتی ہےآپ شہادت سے پہلے اس حقیقت کی جانب اشارہ فرماتے ہیں کہ اگر معاشرے کو زندہ اور نورانی اور سعادتمند بنانا چاہتے ہو تو ان دونوں چراغوں کو روشن رکھنا ہوگا۔ 

(أَمَّا وَصِيَّتِي: فَاللهَ لاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً، وَمُحَمَّداً فَلاَ تُضَيِّعُوا سُنَّتَهُ، أَقِيمُوا هذَيْن الْعَمُودَيْنِ، وَأَوْقِدُوا هذَيْنِ الْمِصْبَاحَيْنِ) ”میری وصیت یہ ہے کہ کسی کو اللہ کا شریک قرار نہ دینا اور پیغمبر کی سنت کو ضائع نہ کرنا کہ یہی دونوں دین کے ستون ہیں انہیں کو قائم کرو اور انہیں دونوں چراغوں کو روشن رکھو“

آپ کی نظر میں سیرت نبوی (ص)سب سے زیادہ ہدایت یافتہ اور مضبوط سیرت ہے اگر اسے معاشرے کےبنیادی امور میں جگہ دی جائے تو مثالی معاشرے کی تشکیل بھی یقینی ہوجاتی ہے۔

(اقتدوا بهدی نبیکم فانه اصدق الهدی و استنو بسنة فانها اهدی السنن) ”اپنے نبی کی ہدایت کی اقتدا کرو کیونکہ وہ سب سے مصدق ہدایت ہے اورآپکی سنت اور سیرت پر عمل کرو کیونکہ وہ سب سے زیادہ ہدایت یافتہ سنت اور سیرت ہے“

امام اس حقیقت سے پردہ ہٹاتے ہیں کہ بعثت سے پہلے لوگ اختلافات اور انتشار کے شکار تھے معاشرہ بدحالی میں مبتلا تھا لوگ جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارتے تھے لیکن آنحضور(ص) کی ذات مبارک کی برکت سے وہ تفرقہ اور اختلافات کی گمراہی سے نجات پاکے اتحاد کی نورانی ہدایت اور سعادت سے بہرہ مند ہوجاتے ہیں اور اس زمانے کے سب سے برے معاشرے کو دنیا کے سب سے اعلی اقدار رکھنے والے انسانی اور مثالی معاشرے میں تبدیل کرتے ہیں جو رہتی دنیا تک آنے والی ہر نسل کے لئے نمونہ عمل بن کے رہ گیا۔ 

(وَ اهْلُ الاَرْضِ يَوْمَئِذٍ مِلَلٌ مُتَفَرِّقَهٌ وَ اهْواءٌ مُنَتِشرَهٌ وَ طَرائِقُ مُتشَتِّتَهٌ بَيْنَ مُشْبِّهٍ لِلّهِ بِخَلْقِهِ اوْ مُلْحِدٍ فِى اسْمِهِ اوْ مُشِيرٍ الى غَيْرِهِ، فَهَداهُمْ بِهِ مِنَ الضَّلالَهِ وَ انْقَذَهُمْ بِمَكانِهِ مِنَ الْجَهالَهِ) ”اس وقت اہل زمین مختلف مذاہب ، منتشر خواہشات اور مختلف راستوں پر گامزن تھے۔ کوئی خدا کو مخلوقات کی شبیہ بتا رہا تھا ۔ کوئی اس کے ناموں کو بگاڑ رہا تھا۔ اور کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا۔ مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے نجات دی اور جہالت سے باہر نکال لیا“

آپ (ع)کی نظر میں آنحضور(ص) نےنہ صرف ایک صالح اور مثالی معاشرے کی تشکیل کے اصول و ضوابط لوگوں تک پہنچائے بلکہ عملی جد وجہد کے ذریعہ اسکی سنگ بنیاد بھی رکھی۔

(فَصَدَعَ بَمَا أُمِرَ بِهِ، وَبَلَّغَ رِسَالَةِ رَبِّهِ، فَلَمَّ اللهُ بِهِ الصَّدْعَ، وَرَتَقَ بِهِ الْفَتْقَ، وَأَلَّفَ بِهِ بَيْنَ ذَوِي الاَْرْحَامِ، بَعْدَ الْعَدَاوَةِ الْوَاغِرَةِ فِي الصُّدُورِ، والضَّغَائِنِ الْقَادِحَةِ فِي الْقُلُوبِ) ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اوامر الہیہ کو واضح انداز سے پیش کردیا اوراس کے پیغامات کو پہونچادیا ۔ اللہ نے آپ کے ذریعہ انتشار کو مجتمع کیا۔ شگاف کو بھردیا اور قرابتداروں کے افتراق کو انس میں تبدیل کردیا حالانکہ ان کے درمیان سخت قسم کی عداوت اور دلو ںمیں بھڑک اٹھنے والے کینے موجود تھے“

از رسالت درجهان تکوين مـــــــا 

از رسالت دين ما آئين مـــــــا

از رسالت صد هزارمــــا يک است 

جزو مـــا از جزومالاينفک است

از رســالت همنوا گشتيم مـــــــا 

هم‌نفس، هم‌مدعـــــا گشتيم ما

آن که شان او است يهدي من يريد 

از رسالت حلقه گرد ما کشيد

لیکن پیغمبر اکرم(ع) کی پاکیز ہ سیرت کو سمجھنے اور مثالی معاشرے میں اجرا کرنے کے لئے ہم اہلبیت رسول(ع) کے در کے محتاج ہیں اگر صحیح معنوں میں ہمیں سیرت نبوی کو سمجھنا ہوگا تو اہلبیت کی جانب رجوع کرنا ہوگا کیونکہ وہیں حقیقی دین کے مالک ہیں حق اور حقیقت کا صحیح پیغام انہیں کے پاس موجود ہیں۔

(نَحْنُ الشِّعَارُوَالاَْصْحَابُ، وَالْخَزَنَةُ وَالاَْبْوَابُ، وَلاَ تُؤْتَى الْبُيُوتُ إِلاَّ مِنْ أَبْوَابِهَا، فَمَنْ أَتَاهَا مِنْ غَيْرِ أَبْوَابِهَا سُمِّيَ سَارِقاً فِيهِمْ كَرَائِمُ الْقُرْآنِ، وَهُمْ كُنُوزُ الرَّحْمنِ، إِنْ نَطَقُوا صَدَقُوا، وَإِنْ صَمَتُوا لَمْ يُسْبَقُوا) ”در حقیقت ہم اہلبیت ہی دین کے نشا ن اور اس کے ساتھی ، اس کے احکام کے خزانہ دار اور اس کے دروازے ہیں اور ظاہر ہے کہ گھروں میں داخلہ دروازوں کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے ورنہ انسان چور کہلائے گا۔ انہیں اہلبیت کے بارے میں قرآن کریم کی عظیم آیات ہیں اور یہی رحمان کے خزانہ دار ہیں یہ جب بولتے ہیں تو سچ کہتے ہیں اور جب قدم آگے بڑھاتے ہیں تو کوئی ان پر سبقت نہیں لے جا سکتا ہے“

اسی طرح خطبہ نمبر (97) میں ان کے نقش قدم پر ہوبہو چلنے کا حکم دیتے ہیں ان کی راہ سے آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کو ہلاکت سے تعبیر کرتے ہیں پس ان فرمایشات کی بناپر مکتب نہج البلاغہ کے مثالی معاشرے میں آنحضرت(ص) کی پاکیزہ سیرت کو ایک مبنی اور رکنیت کی حیثیت سے ملحوظ نظر رکھنا ناقابل انکار حقیقت ہےلیکن اس سیرت طیبہ کو اجرا کرنے کے لئے ہمیں اہلبیت (ع) کی چوکھٹ پر سر تسلیم خم کئے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔

تبصرے
Loading...