رہبر انقلاب اسلام حضرت آیت اللہ العظمی سید علی حسینی خامنہ ای کی علمی زندگی

حضرت آيت اللہ سيد على حسینی خامنہ اى، مرحوم آیت اللہ حاج سید جواد حسینی خامنہ ای 16 اگست 1948 (سنہ 1358 ہجری) کو مشہد مقدس میں متولد ہوئے۔ آپ خاندان کے دوسرے فرزند تھے۔

والد سیدجواد خامنہ ای کی زندگی اکثر علماء اور علوم دینیہ کے مدرسین کی مانند بہت سادہ تھی اور ان کی زوجہ اور بیٹوں نے بھی قناعت اور سادہ زیست اور پارسائی کو ان ہی سے سیکھ لیا تھا۔
سادہ زندگی اور محرومیت کے ذائقے سے واقفیت 
امت کے رہبر و رئیس کی ایک اہم ترین شرط یہ ہے کہ اس نے غربت و محرومیت کا مزہ چکھ لیا ہو تاکہ محروم و مستضعف طبقوں کے دکھ درد کا بہتر ادراک کرسکے۔ رہبر انقلاب اسلامی بھی بچپن ہی سے ایک غریب مگر علمی و علم پرور خاندان میں پروان چڑھے ہیں۔ 
رہبر معظم اپنی زندگی کی ابتدائی یادوں اور اپنے خاندان کی معیشتی صورت حال کے بارے میں فرماتے ہیں: میرے والد بہت مشہور و معروف عالم دین تھے تا ہم بہت زیادہ پارسا اور تنہائی پسند تھے … ہماری زندگی بہت دشواری سے گذرتی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کبھی کبھار ہمارے گھر میں رات کا کھانا نہیں ہوتا تھا۔ ہماری والدہ ہمارے لئے بڑی محنت سے کھانا تیار کیا کرتی تھیں اور ہمارا کھانا “روٹی اور کشمش” سے عبارت ہوا کرتا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی سید جواد خامنہ ای کے گھر کے بارے میں فرماتے ہیں: میرا آبائی گھر، جس میں، میں پیدا ہوا، ایک 60 تا 70 میٹر مربع اور مشہد کے غریب نشین محلے میں واقع تھا۔ اس گھر میں ایک کمرہ تھا اور ایک سرداب جو بالکل تاریک تھا۔ جب میرے والد کے پاس کوئی مہمان آتا (اور میرے والد چونکہ عالم دین تھے اور لوگوں کا ان کی طرف رجوع رہتا تھا چنانچہ مہمانوں کا آنا معمول کی بات تھی) تو ہم سب کو سرداب میں جانا پڑتا اور مہمان کی واپسی تک ہمیں وہیں رہنا پڑتا تھا۔ اس کے بعد والد کے مریدین نے گھر کے ساتھ مختصر سی زمین خرید کر گھر سے ملادی اور ہمارے گھر کے کمروں کی تعداد تین ہوگئی۔ 
ابتدائی تعلیم
سید علی ابھی چار سال کے ہی تھے کہ اپنے بڑے بھائی سید محمد کے ہمراہ مکتب خانے کے سپرد کردیئے گئے۔ اس کے بعد دو بھائیوں نے تازہ تأسیس شدہ دینی مدرسے “دارالتعلیم دیانتی” میں داخلہ لیا اور دونوں نے پرائمری تعلیم کے مراحل وہیں طے کئے۔ 
حوزہ علميہ میں 
سید علی نے پرائمری تعلیم کی ساتھ ساتھ صرف، نحو اور زبان و ادبیات عرب سیکھنے کا آغاز بھی کردیا تھا۔ آپ اس کے بعد نئے مدرسے سے فارغ ہوکر حوزہ علمیہ میں حصول علم میں مصروف ہوئے۔ 
آپ خود حوزہ علمیہ اور علماء دین کے راستے پر گامزن ہونے کے محرکات کے بارے میں فرماتے ہیں: اس نورانی راستے کے انتخاب میں میرے لئے سب سے پہلا محرک میرے والد صاحب تھے جو خود عالم دین تھے اور میری والدہ بھی دینی تعلیم سے زیادہ محبت کرتی تھیں اور انھوں نے بھی میری حوصلہ افزائی کی۔ 
آپ نے “جامع المقدمات” میں مؤلفہ متعدد کتب کے علاوہ سیوطی، مغنی اللبیب جیسی ادبی کتب مدرسہ سلیمان خان اور مدرسہ نواب کے اساتذہ کے حضور مکمل کرلیں جبکہ والد ماجد بھی ان کے درس و بحث پر نگرانی کرتے رہتے تھے۔ 
آپ نے اصول الفقہ کی کتاب “معالم الدین” اسی دور میں پڑھ لی اور پھر “شرائع الاسلام” اور “لمعہ دمشقیہ” جیسی فقہی کتب اپنے والد ماجد اور آفا میرزا مدرس یزدی کے حضور پڑھ لیں اور اصول الفقہ میں “رسائل” اور فقہ میں “مکاسب” مرحوم حاج شیخ ہاشم قزوینی اور فقہ و اصول کی سطح کی دیگر کتابیں اپنے والد ماجد سے پڑھ لیں۔ 
عجب یہ کہ آپ نے مقدمات اور سطح کے تمام دروس ساڑھے پانچ سال میں مکمل کئے۔ 
انقلاب اسلامی کے رہبر بزرگوار نے منطق و فلسفہ کے ضمن میں “منظومہ سبزواری” عارف سالک حضرت آیت اللہ میرزا جواد تہرانی اور حاج شیخ رضا ایسی کے حضور مکمل کرلی۔ 
حوزہ علمیہ نجف اشرف
رہبر انقلاب اسلامی نے اٹھارہ سال کی عمر میں فقہ و اصول کا درس خارج مشہد مقدس میں ہی مرحوم حضرت آیت اللہ العظمی سیدعلی میلانی کے حضور شروع کردیا تھا۔ آپ نے اسی زمانے میں 1957 کو عتبات عالیات کی زیارت کی نیت سے عراق کا سفر اختیار کیا اور مراجع عالی قدر آیات عظام “سید محسن حکیم”، “سیدمحمود شاہرودی”، “میرزا باقر زنجانی”، “سید یحیی یزدی” اور “میرزا حسن بجنوردی” کے درس خارج میں شریک ہوئے۔ آپ کو حوزہ علمیہ کا تدریسی نظام پسند آیا اور نجف اشرف میں قیام کا عزم کیا چنانچہ آپ نے اپنے والد ماجد کو اپنے عزم سے آگاہ کیا مگر والد نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا چنانچہ آپ نے مراجع تقلید کے دروس میں کچھ عرصہ شرکت کرنے کے بعد ایران اور مشہد مقدس کی طرف واپسی کا سفر اختیار کیا۔ 
حوزہ علمیہ قم 
حوزہ نجف سے واپسی کے بعد کچھ ہی عرصہ مشہد میں حصول علم میں گذارا اور اس کے بعد حوزہ علمیہ قم تشریف لے آئے اور 1958 سے 1964 تک آیات عظام “سید حسین طباطبائی بروجردی”، “امام خمینی”، “شیخ مرتضی حائری یزدی” اور “علامہ سید محمد حسین طباطبائی” رحمۃاللہ علیہم سے فیض حاصل کیا۔ 
مشہد مقدس واپسی اور توفیق الہی
سنہ 1964 میں رہبر معظم نے والد کا ایک خط وصول کیا جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ: ” موتیا بند” کی بیماری کی وجہ سے ان کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو بہت صدمہ ہوا اور اب ان کے پاس دو ہی راستے تھے: یا قم میں رہ کر حصول علم جاری رکھنا یا مشہد جا کر والد ماجد کی خدمت کرنا؛ چنانچہ وہ متردد ہوئے کہ اب انہیں کیا کرنا چاہئے چنانچہ آپ نے مشہد واپسی کو اپنا فرض اولی سمجھا اور مشہد چلے گئے۔ 
رہبر انقلاب اس بارے میں فرماتے ہیں: “میں مشہد چلا گیا اور خداوند متعال نے مجھے بہت سی توفیقات عطا فرمائیں۔ بہر حال میں اپنے کام کی انجام دہی اور فرض کی ادائیگی کی نیت سے مشہد گیا تھا اگر بندہ کو زندگی میں کوئی توفیق اور کامیابی ملی ہے تو اس کا سرچشمہ والد ماجد بلکہ والدین سے نیکی اور احسان ہی ہے۔ 
آيت اللہ العظمی خامنہ اى دوراہے پر رکے نہیں بلکہ صحیح راستے کا انتخاب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ آپ کے کئی دوستوں اور رفقاء اور آپ کے ہم درس فضلاء افسوس کررہے تھے کہ آپ نے حوزہ علمیہ قم میں اپنی تعلیم کا سلسلہ کیوں ترک کیا؛ اگر قم میں رہتے تو مستقبل کیا سے کیا ہوجاتے …! مگر مستقبل نے ثابت کرکے دکھایا کہ ان کا فیصلہ درست تھا اور خدا کے دست تقدیر نے ان کے لئے بالکل مختلف مقدر کا تعین فرمایا جو ان کے دوستوں اور ہمدردوں کے حساب و کتاب کی نسبت کہیں زیادہ بہتر و برتر و والاتر تھا۔
کیا کوئی تصور کرسکتا تھا کہ وہ اس زمانے کا 25 سالہ نوجوان اور با صلاحیت عالم دین جو رضائے الہی کے حصول کی خاطر والدین کی خدمت کی غرض سے قم کو چھوڑ کر مشہد چلے گئے تھے 25 سال بعد 50 سال کی عمر میں ولایت امر کے عظیم منصب پر فائز ہوجائیں گے؟!۔ 
ہاں! وہ مشہد الرضا (ع) مشرف ہوئے تو بھی اپنا سلسلہ درس و تدریس کا جاری رکھا اور آیت اللہ العظمی میلانی جیسے علماء سے کسب فیض کرتے رہے حتی کہ نوجوانی کے ایام میں ہی آیت اللہ العظمی میلانی نے ان کو ایک مجتہد مسلم مانا۔ آپ نے اس دوران تعطیلات یا طاغوتی بادشاہت کی جیلوں میں اسیری کے ایام کے بعد تعلیم و تعلم کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا۔ 
1964 میں مشہد مقدس میں مستقل قیام کے آغاز سے ہی آپ نے اساتذہ کرام سے حصول فیض کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے خود بھی فقہ و اصول اور معارف و اخلاق کے مضامین پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا اور ساتھ ساتھ اپنے بوڑھے والدین کی حدمت سے بھی کبھی بھی غافل نہ ہوئے۔ 
رہبر انقلاب نے دینی طلباء کو پڑھانے کے علاوہ جامعات کے طلبہ کو بھی پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا اور حکومت وقت کے خلاف جدوجہد میں بھی بنیادی کردار ادا کرتی رہے اور اسی بنا پر کئی بار پابند سلاسل ہوئے اور کئی بار ملک کے دورافتادہ علاقوں میں جلاوطنی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے۔ 
مرجعیت 
حضرات آیات عظام امام خمینی، مرعشی نجفی، گلپائگانی، اراکی اور نجف اشرف میں آیت اللہ العظمی خوئی کے انتقال کے بعد پیروان اہل بیت (ع) کے پیروکاروں کی مرجعیت و قیادت کے لئے اسلام کے بزرگ علماء کی نئی نسل کا سامنے آنا ضروری اور بالکل فطری عمل تھا۔ 
ویسے تو امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کے انتقال پرملال کے بعد آیت اللہ العظمی خامنہ ای رہبر انقلاب اسلامی بنے تو امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کے بہت سے مقلدین نے آپ ہی کی تقلید اختیار کی لیکن 1992 میں ملک کے اندر اور باہر لاکھوں مؤمنین نے مراجع تقلید کے انتقال کے بعد رہبر انقلاب کی طرف رجوع کیا گو کہ رہبر انقلاب اسلامی اپنے زہد و پارسائی اور منکسرالمزاجی کی بنا پر مرجع تقلید کے عنوان سے متعارف نہیں ہونا چاہتے تھے مگر حوزہ علمیہ قم کے دو اہم اداروں نے آپ کی مرجعیت کا اعلان کیا۔ حضرات آیات عظام «فاضل لنکرانی»، «مشکینی»، «جوادی آملی»، «سید مہدی روحانی» اور تقریبا 80 کے قریب مراجع و مجتہدین نے ان دو اداروں کے ارکان کی حیثیت سے بھی اور انفرادی طور پر بھی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی مرجعیت کا اعلان کیا۔ 
درس خارج
حضرت امام خمینی اور آیت اللہ العظمی سید علی میلانی رحمۃاللہ علیہما سمیت متعدد مراجع تقلید اور بزرگان دین نے انقلاب کی کامیابی سے بھی کئی سال قبل رہبر انقلاب کی اجتہاد کی تصدیق کردی تھی عالم اسلام کی حقیقی قیادت کی ساتھ ساتھ آپ کا درس خارج کا سلسلہ جاری و ساری ہی اور تہران میں مقیم لاتعداد فضلاء سمیت قم کے کئی علماء اور طلباء بھی تہران جاکر رہیر معظم کے درس میں شرکت کرتے ہیں۔ 
رہبر انقلاب اسلامی کے آنلائن درس خارج سے استفادہ کرنے کے لئے درج ذیل لنک سے رجوع کیا جاسکتا:
http://farsi.khamenei.ir/page?id=7100
بعض تألیفات
ـ چہار كتاب اصلي علم رجال / دفتر نشر فرہنگ اسلامي؛ تہران / 1369۔  (علم رجال کی بنیادی چار کتابیں)
ـ طرح كلي انديشہ اسلامي در قرآن / دفترنشر فرہنگ اسلامي؛ تہران / 1375۔ (قرآن میں اسلامی فکر کا خاکہ)
ـ از ژرفاي نماز / دفتر نشر فرہنگ اسلامي / 1382 (نماز کی گہرائیوں سے)
ـ ولایت
ـ سابقہ تاريخى و اوضاع کنونى حوزہ علميہ مشہد (حوزه علمیہ مشہد کا تاریخی پس منظر اور موجودہ صورت حال)
ـ سيري در زندگي امام صادق (ع) (پیشوائے صادق) (امام صادق علیہ السلام کی زندگی پر ایک نگاہ)
ـ شخصيت سياسي امام رضا (ع) (امام رضا علیہ السلام کی سیاسی شخصیت)
ـ عنصر مبارزہ در زندگي ائمہ(ع) (ائمه علیهم السلام کی زندگی میں جدوجہد کا عنصر)
ـ گفتاري در باب صبر (صبر کے بارے میں ایک بیان)
ـ گفتاري در وحدت و تحزب (وحدت اور تحزب کے بارے میں ایک بیان)
ـ پژوہش در زندگي امام سجاد (ع) (امام سجاد علیہ السلام کی زندگی پر ایک تحقیق)
ـ درست فہمیدن دین (دین کا صحیح ادراک)
ـ روح توحید، نفی عبودیت غیر خدا (توحید کی روح، غیرالله کی بندگی کی نفی)
ـ ضرورت بازگشت بہ قرآن (قرآن کی طرف لوٹنے کی ضرورت)
ـ امام رضا (ع) و ولایتعہدی (امام رضا علیہ السلام اور ولیعہدی)
ـ كتاب الجہاد (مرجع و رہبر موصوف کا درس خارج)
ـ استفتائات (اردو، عربي، فارسی دری، فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں) / انتشارات الہدی؛ تہران / 1376۔ 
ـ ترجمہ تفسیر فی ظلال القرآن (دو جلد)
ـ زندگي نامہ ائمہ تشيع (غیرمطبوعه) (شیعہ ائمہ معصومین (ع) کے حالات زندگی)
رہبر معظم انقلاب کے بیانات سے تشکیل یافتہ کتب 
ـ دیدگاہہا / انتشارات تشیع؛ قم / 1362۔ (نظریات) 1983)
ـ ستودگان و ستایشگران / انتشارات سورہ مہر؛ تہران / 1383۔ (محمودین اور حامدین)
ـ هنر از دیدگاه آیت‌الله خامنه ای (فن (آرٹ) آیت الله خامنہ ای کی نظر میں)
ـ حدیث ولایت
ـ تهاجم فرهنگی (ثقافتی یلغار)
بعض تراجم 
ـ صلح امام حسن(ع) ، تألیف «راضی آل یاسین»۔ 
ـ آیندہ در قلمرو اسلام، تألیف «سید قطب»۔ (مستقبل اسلام کی عملداری میں)
ـ ادعانامہ علیہ تمدّن غرب، تألیف «سید قطب»۔ (مغربی تمدن پر دعوی)
ـ مسلمانان در نہضت آزادی ہندوستان، تألیف «عبدالمنعم نمری نصری»۔ (ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار)

تبصرے
Loading...