دور حاضر کی دینی تحریکیں

آخری دس سال کے دوران اسلامی دنیا،عالمی سطح پر سب سے زیادہ بے چینی کا شکار، خبروں میں پیش پیش رہی ہے اور یہ مسئلہ صرف ایران تک محدود نہیں رہا ہے اور نہ ہے، بلکہ پوری اسلامی دنیا کا یہی حال ہے۔ اگرچہ اس مدت میں ایران اسلام پسندی کا مرکز، بلکہ اس تحریک کا روح رواں اور جوش و خروش کا محوررہا ہے۔

آج کل جس چیز کو اسلام کے احیا اور اسلامی اصول پسندی سے تعبیر کیا جارہا ہے، اس وقت اسلامی دنیا کے آخری مغربی حصے یعنی ”تیونس”اورمراکش تک اور مشرق میں اس کے آخری حصہ یعنی انڈونیشیا اور مسلمان نشین بستیوں پر مشتمل فیلپاین تک پھیل چکی ہے۔ بے شک ان تمام اسلامی ممالک بلکہ مسلمان نشیں  ان ملکوں میں بھی جہاں وہ ملک کی آبادی کی نسبت اقلیت میں ہیں، اس سے قطع نظر کہ وہ مقامی باشندے  ہیں یا غیرمقامی مہاجر، اس نئی اسلامی لہرسے متاثر ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان کے اثر کو قبول کرنے کی کیفیت   اور میزان یکساں نہیں ہے ، حالات کے اعتبار سے ان میں فرق پایا جاتا ہے۔

البتہ یہ انقلابات اور بے چینیاں صرف ان آخری دس سالوںسے مخصوص نہیں ہیں۔ شایداسلامی دنیا میں موجودہ اضطراب اور بے چینی اس صدی کے دوران دنیا کے دوسرے حصوں کے مقابلہ میں کچھ زیادہ  اور نسبةً زیادہ سنجیدگی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ کم سے کم یہ تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ موجودہ ادیان کے درمیان ،اسلام جس نے ایک دین کی حیثیت سے اور ایک تہذیب اور تمدن کے عنوان سے ،ایک مستقل تہذیب اور تمدن خود خلق کی ہے اور اس کے حفاظت کی ذمہ داری بھی خود اپنے کاندھوں کے اوپر اٹھا رکھی ہے، دیگر تمام  ادیان سے کہیں زیادہ  اس دوران انقلابی ، ثابت قدم اور بر سر پیکار رہاہے۔ کسی بھی دوسرے دین نے اس حدتک نئی تہذیب و تمدن کی ہمہ گیر توسیع پسندی کے خلاف اپنا ردعمل نہیں دکھایا ہے۔ اگرچہ ممکن ہے کہ انہوں نے ایک زمانہ میں کچھ عرصہ کے لئے کسی مثبت یا منفی پہلو سے انقلابی اقدام اور مقابلہ سے کام لیا ہو، لیکن بالآخر یا تو انہوں نے اس تہذیب کے تسلط کو قبول کرلیا یا پھر اس ایک طرح کی مفاہمت کے ساتھ صلح آمیز زندگی بسر کرنے کے لئے جھک گئے۔ یعنی اپنے اصول اور معیارات کو نظر انداز کرتے ہوئے خود کو موجودہ حالات کے سانچے میں ڈھال لیا ۔ کیونکہ اس کے علاوہ اپنے تحفظ کے لئے ان کے پاس نہ تو کوئی اور چارۂ کار تھا اور نہ ہی وہ کسی اور طرح سے اپنی اولاد اور پیرووںکے انحراف کو روک سکتے تھے۔(١)

مختلف ادیان کے درمیان صرف اور صرف اسلام ایک ایسا دین تھاجو اپنے اصول و قوانین اور مذہبی حقائق پر ثابت قدم رہ کرنئی تہذیب وتمدن میں ضم نہیں ہوا اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر برابر سے مقابلہ کیا  اورکم سے کم اپنی سرزمینوں میں، اپنی حاکمیت اوربقا کی جنگ لڑتارہا۔ وہ حکمرانی جو نئی تہذیب و ثقافت اور اس کے علم بردار وں کے ذریعہ یا تو ناقابل قبول تھی یا پھر وہ اس کو محدود کردینا چاہتے تھے۔ اس آخری دہائی بلکہ صدی کے دوران اس دین کی استقامت اور مقابلہ آرائی کے واقعات اور کوششوں کی داستانیں ان کے سیاسی اور معاشرتی وجود کے تحقق اور مجاہدت و مقابلے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور یہ سب چیزیں خود اسی دین کی بدولت ہیں۔ اس دین کی اندرونی ساخت کچھ اس طرح کی ہے کہ وہ اپنے پیرووں کو خود اپنے آپ کو ثابت کرنے اور غیروں کو ٹھکرا دینے کی کوشش کرتے رہنے کی دعوت دیتا ہے۔ ایک مسلمان جب تک مسلمان ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دین کے اصول و قوانین کی پابندی کرے۔ یہ اس کے اعتقاد نیز اس کی اخروی فلاح و نجات اور دنیوی عزت و سربلندی کا لازمہ ہے۔ یہ ایک دینی اور اعتقادی ضرورت اور ایک ناقابل تبدیل فریضہ ہے۔ اگرچہ ممکن ہے کسی مختصر یا طویل زمانہ میں کسی سبب کے تحت مثلاً ضعف ایمان، یا پھر سماج اور معاشرہ کے نامناسب حالات کی بناپر اور عملی طور پر یہ فریضہ انجام نہ پائے لیکن ہمیشہ کے لئے اس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک اسلام ہے اور مسلمان باقی ہے، یہ فریضہ بھی رہے گا اور اس بات کا احتمال پایا جاتا ہے کہ یہ دین (یعنی دین اسلام) موجودہ حالات کے خلاف موقف اپنائے اور صورت حال کو اسلام سے ہماہنگ کرنے کے ارادہ سے حالات کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو۔

مختصر یہ کہ اس دین کا ہربیگانہ چیز سے مقابلہ اور پیکار خود اس کی ذات اور حقیقت کی طرف پلٹتا ہے۔ یہ مقابلہ آرائی کسی وقتی ابال یا جوش و جذبات کا نتیجہ اور مختصر مدت میں ختم ہوجانے والی چیز نہیں ہے۔ اگرچہ مجموعی طورپر بیرونی اسباب و عوامل اس کے وجود و ظہور، اور وجود و ظہور کی کیفیت میں اہم کردار رکھتے ہیں، لیکن اصل سبب خود اسی دین کے اندر موجود ہے بیرونی اسباب و عوامل صرف حالات کو سزاوار و ہموار کرتے ہیں۔ تاریخ اسلام ”سنت” و ”بدعت” کے درمیان ایک مسلسل اور کبھی ختم نہ ہونے والی جنگ کی تاریخ ہے۔ تاریخ اسلام سنت کو قائم کرنے اور بدعت کو ختم کرنے کی ایک مسلسل تلاش اور کوشش ہے۔(٢)

اب یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ اس بدعت کی شکل اور اس کے پہلو کیا ہیں۔ جب تک بدعت کا وجود رہے گا جنگ بھی جاری رہے گی اور یقینا بدعت کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے لہٰذا قدرتی طورپر یہ جنگ و مقابلہ بھی کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے، اگرچہ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ یہ مقابلہ گرماگرم سیاسی انداز کا نہ ہو۔ مبارزہ کی شکل کیا ہو درحقیقت حالات طئے کرتے ہیں۔ لیکن اس کو ایک اصول کے طور پر جاری رہنا دین طئے کرتا ہے۔(٣)

اسلام کی پوری تاریخ خصوصاً آخری صدی اور دہائی کے دوران شیعہ اور سنی دونوں فرقوں میں ہم نے اس طرح کی جہادی کوششوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ و استحکام اور اسلام کے علاوہ جو کچھ بھی ہے تمام چیزوں کو ٹھکرا دینے کے سلسلے میں شیعوں اور سنیوں دونوں نے برابر سے ایک ہی انداز اور ایک ہی جذبے کے تحت جدوجہد کی ہے۔ درحقیقت اس مقابلہ آرائی کی بازگشت خود اسلام کی طرف ہے اور یہ مقابلے دو طرح کے نہیں ہوسکتے یہی وجہ ہے ایران کی مانند مذہبی ملکوں کے مقابلے اور پیکار کی داستانیں دوسرے اسلامی ممالک مثلاً عراق، شام، مصر اور پاکستان وغیرہ کے واقعات سے بنیادی قسم کا فرق نہیں رکھتیں اور اسی لئے دور حاضر کی تاریخ نے ان داستانوں کو یکساں طورپر بیان کیا ہے۔(٤) لیکن ان سب کے باوجود قبول کرنا ہوگا کہ ان کے درمیان کچھ فرق بھی پائے جاتے ہیں اور اگر ان کی طرف توجہ نہ دی جائے تو بہت سی مشکلات اور غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اتحاد و یکجہتی کی کوششوں کی طرف موجودہ جھکاؤ اس بات سے مانع رہا ہے کہ ان فرقوں کو صحیح طور سے سمجھا اور جائزہ لیا جائے اور یہ ایک بڑی مشکل ہے جو صرف اسی صورت میں حل ہوسکتی ہے کہ جب پوری غیرجانبداری اور جرأت و دلیری کے ساتھ اس سے روبرو ہوا جائے۔

یہ فرق ایک طرف تو شیعہ نشین اور سنی نشین ممالک کے سیاسی، تاریخی، معاشرتی اور اقتصادی لحاظ سے مختلف حالات اور امتیازات سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسری طرف اس نے ان دونوں مکاتب فکر کے اعتقادی خصوصیات ہیں اور  ان خصوصیات نے معاشرتی مذہبی اور اعتقادی عمارت بنانے میں اپنے معتقدین کے درمیان جو کردار ادا کیا ہے ان سے تعلق رکھتا ہے۔ اور یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ان دونوں فرقوں کا اسلام اور دینی عقائد کے بارے میں سوچنے اور سمجھنے کا انداز دوطرح کا ہے۔ بلکہ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ دونوں اپنی اپنی دین فہمی اور عقائد کی روشنی میں پوری تاریخ کے دوران میں دو طرح کی مختلف خصوصیات سے متاثر ہوکر پروان چڑھے ہیں۔ دو الگ الگ ثقافتی، سیاسی اور معاشرتی ماحول میں زندگی بسر کی ہے ہیں لہٰذا ان کی نفسیات اور مذہبی شخصیت، افکار و نظریات اور مذہبی جذبات اور احساسات بھی دو طرح کے ہیں۔(٥)

اب چونکہ ان کے نظری عقائد کی خصوصیات کا تحقیقی جائزہ اسلامی تحریک کی موجودہ صورت حال کو ذرا گہرائی سے بہتر طورپر سمجھنے میں مدد کرسکتا ہے، ان دونوں (شیعہ اور اہل سنت) کے سیاسی افکار کی تحقیق بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے لہٰذا تمہید کے طور پر ہم اس کو بیان کررہے ہیں۔(٦)

شیعہ اور سنی حضرات کے سیاسی افکار کے سرچشمے

پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ اصو ل و اسباب، چاہے تاریخی ہوں، یا فقہی اور کلامی (شیعوں اور سنیوں کی اور مذہبی سیاسی سوجھ بوجھ کی تشکیل میں کس طرح موثر ہوئے ہیں اور کیوں اس طرح وجود میں آئے ہیں؟ اور اس طرز تفکر نے ان کی گذشتہ اور موجودہ دینی سیاسی تغیرات کی تاریخ پر کیا اثر ڈالے ہیں اور ڈال رہے ہیں؟ آیا ان دونوں کی سیاسی اور معاشرتی حتیٰ ثقافتی تبدیلیوں کا سفر جہاں دین و مذہب کے ساتھ آمیزش اور ٹکراؤ ہوا ہے، یکساں رہا ہے یا دونوں میں فرق پایا جاتا ہے اور اگر فرق رہا ہے تو یہ فرق کس حد تک سیاست اور دین کے دائرے میں دونوں کے نظریاتی بنیادوں اور دونوں کے باہمی رابطہ کی کیفیتوں سے متائثر رہا ہے؟ نیز یہ کہ اس فہم نے دونوں مذہب کے ماننے والوں کے معاشرتی اور معنوی ڈھانچہ پر کیا اثر ڈالا ہے؟

اس موضوع کی گہرائی کے ساتھ تحقیق صرف اس لئے اہم نہیں ہے کہ اس کی روشنی میں اہل تشیع اور اہل سنت کے ماضی کو بہتر طورپر سمجھا جاسکتا ہے بلکہ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس پر توجہ دیئے بغیر اسلامی تحریک کی موجودہ حالت کو صحیح طورپر سمجھا نہیں جاسکتا۔ اگرچہ ممکن ہے کہ موجودہ اسلامی تحریک، شیعہ اور سنی علاقوں میں یا کم سے کم بعض علاقوں میں یکساں طور پر احاطہ کئے ہوئے ہو ،لیکن اس سے اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ تحریک ایک ہی جیسے مقدمات اور بنیادی نظریات سے وجود میں آئی، پھولی پھلی اور آگے بڑھی ہے تو یہ غلط ہے۔ سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی حالات کی تاثیر نیز ان دونوں مذاہب کے پیرووں کے کم و بیش مشترکہ سامراجی تجربات اور تاریخی ماحول موجودہ حالات وجود میں لانے میں اس قدر قوی اور فیصلہ کن رہے ہیں کہ کسی متشکلہ امر کے آغاز میں ہی ان دونوں مکاتب کی اعتقادی خصوصیات اور سیاسی، مذہبی عمارت کی اہمیت کو دو طرح سے اسلامی تحریک کے عملی تعیین میں صاف طورپر پرکھا جاسکتا ہے۔

البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مختلف میدانوں منجملہ سیاسی افکار کے دائرے میں ان دونوں کے بہت سے مشترکات کو نظر اندار کردیا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دونوں میں باہمی شباہتوں بلکہ بہت سارے مشترکات کے باوجود باریک قسم کے اہم فرق پائے جاتے ہیں۔ ایسے فرق اور امتیازات جن کو آج کے پیچیدہ حالات نے اور زیادہ بہتر طورپر نمایاں کردیا ہے۔ ان باریک اور ذہن سے پھسل جانے والے فرقوں سے غیر جانبدارانہ صحیح واقفیت جس قدر گہری ہوگی اتنا ہی ایک دوسرے کی شناخت میں مددگار ہوگی اور باہمی مشکلات و بدگمانیوں کو زائل کردے گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان کو پیش کرکے ان کے بارے میں بحث کی جائے نہ یہ کہ ان کو پوشیدہ رکھا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ شیعہ اور سنی، خصوصاً سیاسی نظریات میں بالکل دو طرح کے مختلف مکاتب ہیں اور سیاسی و مذہبی تحریک، ان دونوں معاشروں میں دو طرح سے وجود میں آئی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہر ایک معاشرتی اور سیاسی تحریک خود اپنے حلقے میں موجود سماجی اور نفسیاتی حقیقتوں، تاریخی تجربوں اور اعتقادوں سے متاثر ہوتی ہے اب جبکہ یہ ثابت ہے کہ حقیقتیں مختلف ہیں تو فطری طورپر تحریک کو بھی متاثر کردیں گی۔ ایک شیعہ اور ایک سنی کے مذہبی نفسیات بھی مختلف ہیں اور ان دونوں کے دینی و معاشرتی ڈھانچہ میں بھی فرق پایا جاتا ہے اور جب ایسا ہے تو نتیجہ بھی خواہ مخواہ اس فرق سے ضرور متاثر ہوگا۔(٧)

بطور نمونہ ایران میں عام طورپر اہل سنت کے یہاں دینی اور سیاسی رہبری کا نہ ہونا عصر حاضر کی اسلامی تحریک میں ایک بڑی کمزوری سمجھی جاتی ہے۔ جبکہ یہ تنقیدی پہلو شیعوں اور سنیوں کے درمیان ایک بے جا موازنہ کی دین ہے اور ناقدین نے اس نکتہ کو نظر انداز کردیا ہے کہ یہ خصوصیات دونوں کی فقہی، کلامی عمارت، روایتی تاریخ نیز نفسیاتی اور معاشرتی ڈھانچہ سے متاثر ہے۔ ایسی بنیادیں اور ضرورتیں اصولی طورپر ًاہل سنت کے یہاں نہیں پائی جاتیں جبکہ شیعہ، شیعہ ہونے کی حیثیت سے، نہ یہ کہ وہ ایرانی ہے یا موجودہ زمانہ میں زندگی بسر کررہا ہے، اپنے دینی لزوم کے تحت، نہ صرف رہبری کو قبول کرتا ہے بلکہ خود رہبر تربیت کرتا رہا ہے اور یہ ضرورت اور لزوم اہل سنت کے یہاں نہیں ہے۔ نہ تو ان کے یہاں اس طرح کا کوئی نظریاتی سرچشمہ پایا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے یہاں کوئی تاریخی تجربہ رہا ہے؛ نہ تو ان کی معنوی اور مذہبی عمارت اس طرح کے ستون پر کھڑی اور بلند ہوئی ہے کہ وہ ہر مسئلہ میں اپنے مرجع دینی کی طرف رجوع کریں اور نہ ہی ان کے مذہبی معاشرہ کا ڈھانچہ اس طرح کا ہے کہ کسی ایسے شخص کو اپنے فیصلوں میں آخری نقطۂ اقتدار قرار دیں۔

مختلف نظریات

اس بحث کی اہمیت کے پیش نظر کہ جس کی یہ حامل ہے بہتر ہے ہم پہلے کتاب ”الفکر السیاسی الشیعی” کے مؤلف علامہ محمد جواد مغنیہ کی بصیرت افروز تنقید کا ایک حصہ یہاں پرنقل کردیں۔ علامہ موصوف اپنی کتاب ”الشیعہ و الحاکمون” میں تحریر فرماتے ہیں: ”جمہور اہل سنت حاکم جائر کی اطاعت اور اس کے ظلم و جور پر صبر کرنے کو واجب جانتے ہیںاور اس کے خلاف خروج کی اجازت نہیں دیتے، لیکن شیعہ ظلم اور برائی کے خلاف انقلاب اور مقابلے کو واجب جانتے ہیں۔ شیعیت اس مسئلہ میں سنیت کی مخالف ہے اور اس نے اس کا مقابلہ کیا ہے۔ اکثر اہل سنت کی نظر میں کسی ظالم و جابر حاکم کے خلاف خروج دین اور اسلام سے خروج ہے اور شیعوں کی نظر میں اس طرح کا خروج عین دین ہے اس کے برخلاف ظلم پر صبر کرنا دین سے خروج شمار ہوگا۔ اور اسی مقام پر احمد امین اور ان کی مانند دوسروں کے اس قول کی سچی اور صحیح علت سمجھ میں آتی ہے جو کہتے ہیں: ”شیعیت ہر اس فرد کے لئے جو اسلام کی نابودی کا درپے ہو ایک سائباں ہے” کیونکہ احمد امین اور ان کے بزرگوں کی نظر میں، اسلام ایک حاکم کے وجود میں، چاہے ظالم ہو یا عادل، مجسم ہوتا ہے لہٰذا ہر وہ شخص جو اس کے مقابلہ میں قیام کرے اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ لیکن شیعوں کی نظر میں خود حاکم ظالم ہے اور وہ اسلام سے خارج ہے… اسی بناپر یہ بات تعجب آور نہیں ہونی  چاہئے کہ وہ (احمد امین) ایک شیعہ کو اگر ”نابود کرنے والے” سے تعبیر کریں۔ ”جی ہاں! یقینا شیعہ گمراہی اور برائی کو نابود کرنے والے ہیں۔”

”یہ حسن بصری تھے جو کہا کرتے تھے: ”بنی امیہ کی اطاعت واجب ہے اگرچہ وہ ظلم و ستم ہی کیوں نہ کریں… خدا کی قسم ان کے ذریعہ جو بھلائی سامنے آئی ہے وہ ان کی برائی سے کہیں زیادہ ہے۔” اس کے بعد وہ اپنے بیان میں مزید اضافہ کرتے ہیں: ”شیعوں کے ائمہ، فقہا اور ادبا نے ہمیشہ حکام جور کے خلاف قیام کیا ہے اور ان کی مدد اور تعاون کو گناہ اور معصیت میں قرار دیا ہے۔ اس لئے کہ تشیع اپنی حقیقت اور ماہیت کے لحاظ سے باطل کے خلاف قیام اور استقامت کا حامی ہے اور وہ حق کی برقراری کے لئے ایثار کا حکم دیتا ہے اور یہ معقول نہیں ہے کہ صاحبان قوت و اقتدار اس بات سے غافل رہے ہوں، یہی سبب ہے کہ وہ حکام جور شیعوں کو آزار و اذیت میں مبتلا رکھتے تھے اور ہر جگہ ان کا پیچھا کیا کرتے تھے۔ انہوں نے علمائے سوء کو خرید لیا اور دونوں (حکام جور اور علمائے سوئ) نے مل کر طئے کرلیا کہ خدا و رسول کے مخلص مومنین اور ان کو قتل کردیں۔ یہ لوگ ان کے قتل کو مبارک سمجھتے اور ان کے خروج کے خلاف، اس دین سے کہ جس کی وہ تفسیر کرتے تھے، فتویٰ دیا کرتے تھے۔”(٨)

جواد مغنیہ کی یہ بات خود اپنے مذہب کے سلسلے میں شیعوں کے عمومی تصویر کو بیان کرتی ہے اور اسی طرح اہل سنت اور ان کے علمائے سوء کے بارے میں ان کے خیال کی ترجمان اور یہ بیان اگرچہ اپنی حدتک صحیح ہے لیکن یہ کامل اور مکمل نہیں ہے؛ حقیقت کا ایک حصہ ہے نہ کہ پوری حقیقت؛ دیکھنا ہوگا کہ کیوں یہ ایسے اور وہ ویسے ہیں؟ آیا یہ صورت صرف شخصی اور اخلاقی دلائل کا نتیجہ ہے یا مسئلہ اس سے زیادہ گہرا اور باریک ہے۔ ان دونوں مکاتب فکر کے مواقف کا جائزہ لینے کے لئے پہلے مرحلہ میں ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ انھوں نے اپنے اعتقادی، فکری، معاشرتی اور تاریخی فیصلوں میں کن بنیادوں پر عمل کیا ہے اور ان کے لزومات اور پابندیاں کیا رہی ہیں؟ کیونکہ وہ بہرحال اپنے اعتقادی، فقہی اور کلامی حدود سے باہر قدم نہیں نکال سکتے تھے۔ جو شخص اپنے اصول و ضوابط اور اعتقادی ذمہ داریوں کے تحت اپنے قدم اٹھاتاہے نہ فقط یہ کہ وہ شخص سرزنش کے قابل نہیں ہے، بلکہ اگر وہ اس کام کو اخلاص اور حسن نیت کے ساتھ انجام دے تو وہ قابل ستائش اور تعریف بھی ہے۔

اگر کوئی اعتراض اور تنقید بھی ہو تو اسے بھی آزادی کے ساتھ ہونا چاہئے نہ یہ کہ خاص اصول (قواعد) اور معیار کو قبول کرکے اس کی پابندی کی جائے اور اسی طرح اصول اور فرائض سے دست بردار ہوکر توقع رکھنا ایک بے محل اور بے جا توقع کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔

مغنیہ کے بیانات نقل کرنے کے بعد (نقاد) تنقید کرنے والا اس طرح تنقید کرتا ہے: ”بغیر اس کے ہم اس بارے میں تعصب سے کام لیں اور تعصب کی آگ بھڑکائیں استاد مغنیہ کی  قدر دانی اورشکریہ ادا کرتے ہوئے ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ ہم ان کے اس تجزیہ کی موافقت نہیں کرسکتے۔ ان کی احساساتی اور خاص روش پر توجہ کئے بغیر ایک عام انسان یہ احساس کرتا ہے کہ شیعہ اور اہل سنت کا حکام کے ساتھ سلوک اور برتاؤ بنیادی طورپر دو طرح کا رہا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرمۖ کی رحلت کے بعد یہ دونوں حکام کی حاکمیت کے تحت دو مختلف حالات میں زندگی بسر کیا کرتے تھے۔”

اس کے بعد وہ اس طرح اضافہ کرتا ہے”: وہ نظریات جو فقہائے عظام سے صادر ہوتے تھے وہ کوئی شخصی اور ذاتی مسئلہ نہیں تھا، بلکہ وہ عا م مسائل سے متعلق تھا کسی فقیہ سے صادر ہونے والا فتویٰ اس کی شخصیت اور ذات سے مخصوص نہیں تھا، بلکہ ان کے ماننے والے اور پیروی کرنے والوں، مریدوں اور مقلدوں کو بھی شامل ہوتا تھا۔ لہٰذا کسی بھی مسئلہ کی اس طرح تحقیق و تجزیہ نہیں کرنا چاہئے۔ ان کے بیان میں ایک بہت بڑا اشتباہ اور غلط فہمی ہوگئی ہے جس پر کوئی ایک بھی محقق ان کی موافقت نہیں کرسکتا، اگرچہ یہ نظریہ کچھ ایسے حقائق  اور مطالب پر بھی مشتمل ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہمیں اپنے موقف اور نظر یہ کے بیان میں شجاع اور صاف گو ہونا چاہئے، لیکن اس کے حدود اربعہ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ بیان میں صراحت صرف ایک وسیلہ کی حیثیت رکھتی ہے نہ یہ کہ یہی ہمارا اصلی مقصد ہے لہٰذا اس صورت میں ہم نے اپنے مقصد کو وسیلہ پر قربان کردیا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف موقف یہ ہے کہ ظالم حاکم سے متعلق شیعوں کا موقف یہ ہے جس کی بازگشت ایک عمیق اور گہرے معیار کی طرف ہوتی ہے اس کی بنیاد ائمہ معصومین٪ کا حکام کے ساتھ سلوک اور رویہ ہے اور شیعہ ان (ائمہ معصومین٪) کے تابع ہیں۔”(٩)

پھر بھی یہ مسئلہ کا ایک رخ ہے۔ اور اس کا دوسرا رخ خود عوام ہی کی طرف پلٹتا ہے۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ اہل سنت کی فقہی و کلامی عمار ت نیز اہل سنت کا اجماع اور تاریخی تجربہ ان کے علما کے متعلق ان کے سیاسی اور معاشرتی میدانوں میں ہمیشہ ان کے علما کی کارکردگی اور فعالیت میں رکاوٹ پیدا کی ہے۔ اور ایسا بھی ہے کہ اہل سنت کے علما کی ایسی محدودیت نے اس پوری تاریخ میں عوام کی سطح امید کو بھی محدود بنادیا ہے۔ ایک مذہبی عالم کے بارے میں ان کی فکر او رسوچ بھی شیعوں سے بہت زیادہ مختلف ہے اور شیعوں کا اپنے علما کے بارے میں سوچنے میں فرق کے ساتھ ساتھ ان (شیعہ و اہل سنت) کی (اپنے علما کے ساتھ) توقع بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔

اہل سنت کے درمیان ان کا مذہبی عالم وہ شخص ہے جو باتقویٰ انسان ہو اور اسی کے ساتھ ساتھ وہ  اسلامی علوم میں خاص مہارت کا بھی حامل ہے اور اسی لئے وہ اپنے دینی مسائل میں اس (عالم دین) کی طرف رجوع کرتے ہیں۔(١٠)

لیکن شیعہ نقطہ نظر سے ان کا عالم ان معیاروں سے کہیں اونچا ہے وہ لوگوں کے امن و امان کا مرکز اور ان کی پناہ گاہ ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ لوگ دینی مسائل میں اس کی طرف رجوع کرتے ہیں بلکہ اپنے ذاتی امور میں بھی اس کی طرف رجوع کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے سیاسی ، سماجی اور معاشر ہ کے مختلف مسائل میں بھی اس سے کسب تکلیف کرتے ہیں اور یہ ایسا کیوں ہے؟ اس فرق اور اختلاف کو فقط معاشرتی دائرہ میں تلاش نہیں کرنا چاہئے ۔ ایک طرح سے اس اختلاف کا اہم جز سماج اور معاشرہ ہے اور وہ اس کے اعتقادی اور نظری (Ideologic) اسباب کے تحت ہے ۔ شیعوں کے نزدیک اجتہاد کے دروازہ کا کھلا ہونا اور زندہ مجتہد کی تقلید کا واجب ہونا، بالکل درست اہل سنت کے برخلاف ہے، یہ اہم ترین دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے۔ اس کے لازم اور ضروری ہونے کا فطری اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں پر ضروری ہے کہ وہ لوگ ”اپنے جدید مسائل میں”(حوادث واقعہ) چاہے جس قسم کا نیا مسئلہ ہو اور وہ جس موضوع سے بھی متعلق ہو، دینی ضرورت کے تحت زندہ مجتہد کی طرف رجوع کریں اور اپنے جواب کو اس سے حاصل کریں اور اس کے ذاتی نظریہ کومعلوم کریں اس لئے کہ یہی (یعنی اس سے سوال کرنا) اور اس کی اطاعت کے واجب ہونے کے لئے معتبر اور قابل قبول ہے۔ اور ایک سنی عالم کی حیثیت ،فتویٰ نقل کرنے والے سے زیادہ نہیں ہے، (اس عالم سے چار مجتہدوں میں سے کسی ایک مجتہد کا نظریہ معلوم کرنا) اور وہ فتویٰ بھی ایسا فتویٰ جو ایک ہزار سال سے بھی زیادہ سابقہ رکھتا ہے۔ (اسی کے مقابلہ میں) ایک شیعہ عالم اپنی نظر بیان کرتا ہے یا کم از کم کسی زندہ مجتہد کے نظریہ کو بیان کرتا ہے۔ نفسیاتی اور ذاتی اعتبار سے بھی وہ شخص جو اجتہاد اور مقام فتویٰ تک پہونچ گیا ہو اور جس کی روحی اور ذاتی حیثیت جو زیادہ سے زیادہ نقل فتویٰ کے آخری مرحلہ تک پہنچ پائی ہو ان کا باہم مقایسہ نہیں کیا جاسکتا اور ان میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے، اسی طرح ان لوگوں کی ذہنی اور ذاتی سطح جو اپنا جواب پانے کے لئے دو مختلف عالموں سے رجوع کرتے ہیں۔ اگر یہ فرق ماضی میں اسلامی مراکز خصوصاً اسلامی ممالک کے مذہبی معاشرہ کے بند ہونے کے سبب اور معاشرتی ثقافتی اور اقتصادی حالات کے بدلاؤ میں سستی کی بناپر کھل کر سامنے آنے کا موقع نہیں تھا، آج اس فرق کے ظاہر کرنے کا موقع فراہم ہوگیا ہے۔

اس مقام پر نکتہ یہ ہے کہ یہ تفاوت اور فرق کوئی نئی بات نہیں ہے یہ ایسا فرق ہے کہ کم و بیش یہ دونوں مذہبوں کی ابتدا سے چلا آرہا ہے البتہ موجودہ دور میں پردۂ خفاء سے نکل کر سیاسی عرصہ میں معاشرتی تجلی حاصل کرلی ہے۔

اس سے قطع نظر کہ اہل سنت کے اپنے بہت سے ایسے امور ہیں جن میںوہ لوگ حاکم کو یہ حق دیتے ہیں  اور تمام امور میں اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں، لیکن شیعہ فقہ میں ان تمام امور میں فقیہ کی طرف رجوع کیا جاتاہے۔ یہ موضوع صرف سیاسی حیثیت کا حامل نہیں ہے۔ اس کی معاشرتی حیثیت بہ در جہ ہا بہت ہی قوی اور بہت ہی زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور ایسی صورت میں شیعہ عالم بھی اپنے کو ضروری اختیارات کا حامل سمجھتا ہے اور لوگ بھی اپنے تمام امور میں اس (مجتہد جامع الشرائط) کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ لہٰذا شیعہ عالم بھی اپنے آپ کو واجب الاتباع سمجھتا ہے اور لوگ بھی اس کی اطاعت کو ایک دینی فریضہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ ایسے مسائل اہل سنت کا معاشرہ اور ان کی تاریخ نے کبھی بھی ایسا تجربہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی وہ ایسے تجربہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور بہت بعید ہے کہ وہ (اہل سنت) آئندہ بھی اس بات کا تجربہ کرپائیں۔(١١)

دینی قیادت

دینی مرجعیت کا مفہوم اور مجتہد جامع الشرائط کی اطاعت کا واجب ہونا دقیق طورپر شیعہ فقہ اور علم کلام کے معیار سے وجود میں آیا ہے۔ یہ موازین اورمعیار جس طرح سے کہ مجتہدین کرام کو ان کے بلند و بالا مقام پر پہنچاتا ہے، لوگوں کو بھی ان (مجتہدین کرام) کی اطاعت پر آمادہ کرتا ہے۔ بات صرف اتنی سی نہیں ہے کہ شیعہ حضرات اپنے روز مرہ پیش آنے والے مسائل میں مجتہدین کرام کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر مذہب تشیع کی (شیعہ) بنا وٹ کچھ اس طرح ہے کہ وہ اس بات پر قادر ہیں کہ ایسے مجتہدین کی تربیت کرکے ان کو سماج کے واسطے پیش کریں۔ پھر بھی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ شیعہ علما اپنے ہم پلہ سنی علما کے مقابلہ میں جنگ طلب اور شجاع ترین رہے ہیں، بلکہ مسئلہ اس بات میں ہے کہ انھوں نے شیعوں کے نظری معیار کو مضبوط کر نے والی حتی ایسی خصوصیات کے موجد اور بانی ہیں۔(١٢)

ایک شیعہ عالم اپنے عقاید پر بھروسہ کرتے ہوئے بغیر کسی شک و شبہہ اور کسی خوف و ہراس ایک حکومت کے مقابلہ میں ایسے مقامات پر جہاں وہ ضروری سمجھے قیام کرے ہے اور لوگوں کو اس قیام کی طرف دعوت دے ۔ لیکن اس کے مقابلہ میں ایک سنی عالم اپنے عقاید کے کون سے حصوں پر تکیہ کرکے ایسا اقدام کرے۔ یہ صحیح ہے کہ سنی فقہ اور کلام میں بھی ظالم حاکم  اور باد شاہ کے مقابلہ استقامت جس کو وہ جائز یا پھر لزوم کا قائل ہو ایسے مقابلہ کے کچھ نمونے ملتے ہیں لیکن اولاً یہ نمونے معارضہ اور ٹکراؤ (یعنی اس کے مقابلہ میں مخالف قول) سے دوچار ہیں۔ یعنی بہت سے مقامات پر اہل سنت کے درمیان  بہت زیادہ مثالیں اوربہت ہی معتبرا قوال اس فکر کے مد مقابل موجود ہیں (اہل سنت کے نزدیک)۔(١٣)دوسرے یہ کہ کم از کم ہم یہ صراحت اور قاطعیت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ جو قطعی نصوص (یعنی قرآنی دلیلیں اور روایات ائمہ) شیعہ فقہ اور کلام میں موجود ہیں وہ سنی فقہ اور کلام میں ہرگز اس صراحت و قاطعیت کے ساتھ نہیں پائی جاتی ہیں اور اصل نکتہ یہی ہے۔ ایسے حالات میں کس طرح ایسے علما کے میدان میں آنے کی توقع کرسکتے ہیںجو اپنے اعتقادی و کلامی ا ور فقہی مسائل میں ذمہ داری کو قبول کرکے پابندی بھی کر یں  اور عین اسی عالم میں وہ ایسی جنگ طلب خصوصیات کے بھی مالک ہوں۔

اس نقطۂ نظر سے یہ مسئلہ شخصی اور ذاتی مسئلہ نہیں ہوگا اور صرف شیعہ اور سنی علما کی ذاتی خصلتوں پر ختم نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ یہ ان دو نوں کے فقہی اور کلامی ڈھانچہ کا لب لباب ہے جس کے سب ان کے عالموں اور  ماننے والوں کو اہم سیاسی مسائل میں اور اس کے مقابلہ میں اپنا اپنا مسلک اختیار کرنے میں ان لوگوںکی دو طرح سے پرورش اور تربیت کی ہے۔ فطری طورپر اس فکری اور نظری معیار کو اس پوری طولانی مدت میں معاشرتی اور سیاسی بنیادوں اور ان کے مذہبی رجحان کی عمارت کو اپنی خصوصیات کے مطابق مستحکم اور استوار کرکے عملی طورپر شیعہ حضرات اہل سنت و الجماعت اور ان دو مذہبوں کے علما کو دو مختلف تاریخی، معاشرتی، فکری اور اعتقادی میدان میں لاکر کھڑا کردیا ہے۔(١٤) اگر ہم یہ چاہیںکہ ان دونوں (شیعہ اور سنی) کے فرق کی طرف توجہ دیئے بغیر ان کے بارے میں ملاحظہ کرسکتے ہیں  تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی البتہ یہ ممکن ہے کہ اہل سنت کے فعال جوانوں کا ایک مذہبی اور دیندار گروہ احزاب اسلامی کے ایسے مجموعہ میں (اسلامی گروہ) جمع ہوکر کسی ایک شخص کو سیاسی اور مذہبی ریاست کی کرسی پر بٹھادیں لیکن یہ بہت سخت ہے کہ ایسا قدم اس لحاظ سے کہ دینی بنیاد اور اس کے لزوم سے عاری رہے اور اور ایسی توفیق حاصل کر کے اس کی بقاء کے ضامن ہو جائے اور ایسے سخت حقائق سے مقابلہ کرنے میں خود درہم برہم نہ ہو۔ اس سے قطع نظر ایسے محدود اقدام کو تمام معاشرہ اور سماج میں نفاذ نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ہر معاشرہ اپنی خصوصیات کے اعتبار سے ترقی کے راستہ پر گامزن ہوجاتا ہے نہ کہ کسی خاص گروہ کے منشا اور چاہت کی بنیاد پر کہ جس طرح وہ چاہیں معاشرہ کو اس ڈگر پر لگادیں۔(١٥) 
بہرحال یہاں پر ان اختلاف اور فرق کی کامل توضیح دینا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ بلکہ اس مقام پر اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ یہ دونوں مذہبوں کے حامل لوگ موجود ہیں اور ان دونوں مذہبوں کی جڑیں تاریخ کی گہرائیوں میں پائی جاتی ہیں۔ (ان کے بارے میں قضاوت کرنے سے پہلے) یہ لازم ہے کہ علمی اور بغیر کسی پیش داوری اور پہلے سے فیصلہ کئے ہوئے ان کو پہچانا جائے تاکہ ہم نتیجہ کے طورپر ایک دوسرے کی بہتر پہچان کرسکیں اور اپنے اپنے اعتقادی خصوصیات سے زیادہ ایک دوسرے سے توقع نہ رکھیںاور ہر ایک کی وسعت کا لحاظ رکھیں۔ اس لئے کہ ایسی مشکلیں خصوصاً ان آخری سالوں میں موجود رہی ہیں۔

یہ معلوم کرنے کے لئے کہ شیعہ حضرات اور اہل سنت کی سیاسی افکار کی موجودہ اسلامی تحریک پر کیا اثر پڑا ہے، اس تحریک کی خصوصیات کو واضح و آشکار ہو نی چاہئیں۔ البتہ اس بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے۔ بلا شک و شبہہ ان آخری دس سالوں کے دوران (١) بین الاقوامی سطح پر اس تحریک کے برابر (١)لوگوں کے افکار اور نظریات کی توجہ کا مرکز نہیں بن پایا اور اپنی طرف جذب نہیں کرپایا ہے۔ البتہ اس مقام پر تحلیل و تجزیہ یا تکرار مقصود نہیں ہے بلکہ موجودہ زمانہ میں تاریخی اور معاشرتی پس منظر میں پوری تیسری دنیا جس کا ایک حصہ اسلامی دنیا ہے اس کے بارے میں چھان بین مقصود ہے۔

اپنے موقف سے اوپر اُٹھ کر سوچنا اور جامع رویۂ نگاہ سے، موجودہ اسلامی تحریک دورجدید کی تاریخ کا پیش خیمہ (طلیعہ) ہے جو تقریباً تمام تیسری دنیا پر چھاگیا ہے۔ اگرچہ اس تاریخی دورہ ظہور کے نمونے تیسری دنیا میں یکساں طور پر نہیں ہیں، لیکن جزوی طورپر ساری دنیا میں یہ پایا جاتا ہے؛ اور اسلامی دنیا میں کچھ خاص اسباب کی بناپر زیادہ قدرت کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے۔ اگرچہ اسلامی دنیا میں بھی تاریخی حالات کے اعتبار سے اور دینی نفوذ کی گہرائی اور گیرائی کے تحت نیز اقتصادی تکنیکی و معاشرتی اور خلاقیت کے معیار کے اعتبار سے نیز سیاسی حجم کے بدلاؤ کے اعتبار سے، اس موج کی قدرت اور قوت مختلف ہے۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس کی وسعت ہر جگہ موجود ہے اور یہ تمام اشیا پر اثرانداز ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟

جس وقت سے تیسری دنیا کے ممالک عصر جدید میں وارد ہوئے ہیں، حالانکہ ان کے ورود کی کیفیت علاقوں کے اختلاف کے اعتبار سے بہت زیادہ مختلف تھی، ایک جدید تاریخی دور کا آغاز ہوگیا جو کم و بیش ٦٠ئ کی دہائی کے آخر میں اور ٧٠ئ کی دہائی کے شروع تک یہ (دور) باقی رہا۔ اس زمانہ کے بعد ایک دوسرا دور شروع ہوا، جو از کم تہذیب و ثقافت، یاسی اور معاشرتی لحاظ سے ان کی طرف جھکاؤ کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ جو اپنے پہلے والے دور سے بہت زیادہ اہم فرق کا حامل ہے۔ البتہ یہ فطری بات ہے کہ اس آخری دور میں تمام ممالک میں شروعات اور ابتدا کی تاریخ ایک نہیں ہے۔ تاریخی، اقتصادی اور سیاسی خصوصیات کے اعتبار سے ان تمام ممالک میں جلدی اور دیر سے بلکہ آخری دورہ میں شدت اور ضعف کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔  ٦٠ئ کی دہائی کے آغاز سے لے کر ٧٠ئکی دہائی کے آخر اور ٨٠ئ کی دہائی کے شروع تک عموماً تیسری دنیا کی حکومتوں میں موجودہ اضطراب اور بے چینیاں بالخصوص اسلامی دنیا میں اس دور جدید کی سیاسی علامتوں کے عنوان سے رونما ہوئی ہیں۔(١٦) جو یا تو یکسر اور کاملاً اس تاریخی دورہ کی تخلیق ہیں یا ان خصوصیات کی زیر اثر قرار پائی ہیں۔

جس وقت سے تیسری دنیا والوں نے اس جدید تاریخ اور تمدن کے ساتھ وارد ہوئے ہیں، اب چاہے استعمار کے راستہ کو اختیار کیا ہو اور چاہے زمانہ کے عمومی حالات اور فطری طور بغیر کسی سامراجی سیاست کو بروئے کار لائے ہوئے اس کام کو انجام دیا ہو، وہاں پر تاریخ کے نئے دور کا آغاز ہو جا تا ہے ۔وہ لوگ اس سے پہلے وہ اپنے گذشتہ طریقہ پر زندگی بسر کرتے تھے۔ اس طرح ان کی چین، جاپان سے لے کر ہندوستان، ایران، مصر اور تمام افریقی ممالک اس دور جدید کی لپیٹ میں آگئے اورجنوبی امریکہ کے ممالک کچھ تاریخی اسباب و عوامل اور ملکی آبادی کی بناپر ہماری اس بحث میں داخل نہیں ہیں۔ یعنی ہماری اس بحث سے خود بخود خارج ہوگئے ہیں۔ گفتگو ان ممالک کے اس گروہ کے بارے میں ہے جو خود اپنی ایک تاریخ اور مستقل تہذیب و تمدن کے حامل تھے اور اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کر رہے تھے اور اچانک اس نئی دنیا کے روبرو ہوئے تو ان میں تغیر اورتبدیلی پیدا ہوگئی اور اس طرح سے ان لوگوں نے ایک نئے دور میں قدم رکھ دیا۔بغیر اس کے کہ یہ تاریخی صانحہ جنوبی امریکہ کے مانند لوگوں کا جوق در جوق ہجرت کرنا، جو ثقافت اور تمدن کے لحاظ سے وہاں کے مقامی لوگوں سے بہت زیادہ فرق رکھتے تھے، اس کو قطع کردیا جائے اور طرح طرح کی تبدیلیاں ان پر تحمیل ہو جائیں۔( یعنی ان کے چاہت کے خلاف ان پر لاد دی جائیں)۔(١٧)

ان سرزمینوں پر اس موجود تغیر و تبدل اور تبدیلی سے پہلے ان کی اپنی ذاتی تاریخی وثقافتی خصوصیات ایک حدود اربعہ میں تھیں لیکن جس وقت سے اس (نئی تہذیب) سے روبرو ہوئے اور آہستہ آہستہ اپنے اندر گیرائی اور وسعت پیدا کرلی تو ایک نئے دور کا آغاز ہونا شروع ہوگیا۔ یہ دور کچھ خصوصیات کا مالک تھا جو ہماری بحث سے متعلق ہیں ان میں سے چند اہم خصوصیتوں کی طرف اشارہ کریں گے۔

شخصیات اور دانشوروں کی حکومت

اس دور کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ دانشور اور پڑھا لکھا طبقہ جن کے ہاتھوں میں زمام ِحکومت اور اقتدار تھا،وہ طبقہ جدید تہذیب و ثقافت سے اچھا خاصا متاثر تھا۔ باوجود اس کے کہ کبھی اس طبقہ (دانشور اور شخصیات) کی تاثیر بہت ہی عمیق اور گہری اور کبھی تاثیر قبول کرنے میں  والہانہ انداز اختیار کرلیتی اور اپنے آپ کو بھول جانے اور سرمست ہونے کی حد تک پہنچ دیتی تھی، اس کے بر خلاف عوام کی اکثریت نے ٦٠ ئ و ٧٠ئکی دہائی کی ابتدا میں، مختلف معاشرتی واقتصادی حالات کے تیزیا سست اور مدھم بدلاؤ کے اعتبار سے سماج کے بسیط اور محدود ہونے اور حسب منشا براہ راست پورے طور پر اس نئی تہذیب کے اثر کو قبول نہیں کیا تھا۔ وہ لوگ اپنے روایتی اور قدیمی ماحول پر خاص طرز پر اپنی قدیمی روایت جو ان کے پہلے والوں سے ان کو میراث کے طور پر ملی تھی اسی کے مطابق اپنی زندگی بسر کررہے تھے۔ ان کے مقدسات وہی قدیم مقدسات اور ان کے زندگی گذارنے کا طریقہ، ان کی چاہتیں اور ان کا مثالیہ کردار اور نمونہء عمل(Idial) سب کچھ قدیمی طور طریقہ پر تھیں۔ اگرچہ تہذیبِ نو کے بعض عناصر، چاہے ان دانشوروں، روشن فکر اور پڑھے لکھے طبقہ کے ذریعہ یاوہ لوگ اپنی زندگی میں روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرنے اور تکنیکی چیزوں (Technologic)کے روز افزوں دبائو کے تحت ان کی زندگی کا جز بن گئے تھے، لیکن وہ مجموعی حیثیت سے اتنی مقدار میں اثر انداز ہو کر حالات میں تبدیلی لانے پر قادر نہیں تھے۔ معاشرتی،مذہبی، ثقافتی اور اقتصادی بنیادیں یا تو بالکل ویسے ہی اپنی ہی قدیمی شکل میںباقی تھیںاوریا ان میں جدید انقلاب کی روشنی میںاس حد تک تبدیلی نہیں آئی تھی کہ ان کی قدیمی روایات،رسم و رواج اوران کی بنیادیںبالکل نابود ہوجائیں۔(١٨)

یہ تاریخ کا تیسرا موڑ یا دور تیسری دنیا اور اسی طرح اسلامی ممالک میں بھی دو اہم خصوصیات کاحامل ہے۔ایک تو وہی خصوصیت ہے جسے سابقاً بیان کیا گیا ہے۔ یعنی دانشور، روشن فکر اور پڑھے لکھے طبقہ میں گہری تاثیر اور جن کے ہاتھوں میں ان کے معاشرہ کی زمام حکومت تھی ان لوگوں کا جدید تہذیب سے بے حد متاثر ہونا اور کم و بیش اپنی قدیمی تہذیب اور روایات سے دور ہوجانا (البتہ افراد، حالات اور ان کے علاقوں کے اعتبار سے اس تاثیر میں فرق پایا جاتا تھا) مذہب و ثقافت اور قدیمی وراثتوں اور رسومات عوام الناس کے ذریعہ ہمیشہ باقی اور زندہ رہیں۔ دوسری خصوصیت یہ تھی کہ تمام معاشرہ پر جو نظام حاکم تھا اس پر بغیر کسی اختلاف اور نزاع کے قہر برساتے ہوئے اپنے مقدس نظام کو مصمم ارادہ والے نظام اور سماج کے کلی نظام پر تہذیب نو کو مسلط کردیا تھا، البتہ یہ تسلط اور قبضہ بھی ان دانشوروں کے ذریعہ وجود میں آیا۔ جو لوگ نئی تہذیب سے بہت زیادہ متاثر تھے یہ غلبہ اور اقتدار ایک طرف سے ان دانشوروں اور شخصیات کے پختہ اعتقاد راسخ سے متعلق تھا جو نئی تہذیب کی مطلق برتری کے معتقد اور قائل تھے۔(١٩) اور دوسری طرف سے ان عوام سے متعلق تھا جن کو ضمنی طور پر وہ عوام الناس اقرار کررہے تھے کہ اگر ایک خاص ماحول میں قدیمی روایات کے مطابق اپنے معاشرے میں زندگی بسر کررہے تھے، لیکن وہ ایک طرح سے اس نئی تہذیب کی بالادستی اور برتری کا یقین رکھ تے تھے۔ ایک ایسا اعتماد اور اطمینان کم سے کم واضح طور پر تہذیب کی بہ نسبت مخالفت کا اعلان نہ کرنے کے ذریعہ حاصل ہوا۔ اگر چہ بعض لوگوں نے خود جوش ، وقتی اور ناپائیدار مخالفت بھی کی جواس نئی تہذیب کے خلاف دیکھنے میں آئی ہیں، لیکن یہ مخالفتیں منظم نظام کے تحت، دائمی، پائیدار سوچے سمجھے نظام کے تحت نہیں تھیں۔بے شک اس دوران تہذیبِ نو کو تسلط بخشنے میں استعماری طاقتوں اور سامراج نے بھی بنیاد ی کر دار ادا کیا ہے۔(٢٠)

اجمالی طور پر اس تاریخی دور کی یہ فطرت عموماً تمام تیسری دنیا کے ممالک اور اسلامی دنیا کے ملکوں کی دور حاضر کی تاریخ بھی یہی رہی ہے۔ عوام الناس کی اکثریت اور ان سے متعلق تہذیب و ثقافت موجودہ پُرکار، فعّال، سیاسی، معاشرتی اورتہذیب تمدن کے ساتھ موجود رہی ہے۔ اس جدید تر طرز کے مالک دانشور اور نخبگان ہی حاکم مطلق تھے۔ ایک ایسی حاکمیت جو تاریخ جدید میں وارد ہونے سے پہلے جو کہ ظالمانہ حاکمیت کی اساس پر قائم تھی۔ صرف فرق یہ تھا کی یہ لوگ اپنی حکومت کو ظاہری طور پر نئی ) (Modernاور سنوارے ہوئے تھے اور اتفاقاً یہی ظاہری خوبصورتی، ان کی حکومت کی پائیداری میں زیادہ مددکررہی تھی۔ ان کا واحد ہدف اور مقصد یہ تھا کہ معاشرہ کواس سمت لے جائیں جو ان کے لئے اہمیت اور ان کی خصوصیات کی طرف رہنمائی کرتا تھا اور یہ تمام چیزیں ظاہری طور پر تمام لوگوں کی رضا مندی کے سبب انجام پاتا تھا کم از کم قدیم وراثتوں کے ورثہ داروں اور اس کی حفاظت کرنے والے محافظین کے سکوت اور خاموشی کی بنا پر انجام تک پہنچتا تھا۔(٢١)البتہ یہ ہرگز اس معنی میں نہیں تھا کہ تہذیب و ثقافت اور گزشتہ میراث یکسر فراموش کردی گئی تھیں اور نئی تہذیب کے دلدادہ اور جدت پسند دانشور حکام اس کی طرف توجہ نہیں کررہے تھے۔ ایسا ہرگز نہیں تھا بلکہ کبھی کبھی قدیم وراثتوں کی حفاظت کی تاکید بھی کی جاتی تھی۔ بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ نئے اور ان کے اہمیت کے حامل نظام اور تہذیب نو کی کیفیت پر غور و فکر کے بعد اس کے بارے میں خوب چھان بین اور قضاوت کی جاتی تھی۔ لہذا اس کی حقیقت سے بہت کم اور جو عام لوگوں کے درمیان موجود تھی، شباہت اور یکسانیت پائی جاتی تھی۔ گذشتہ زمانے کی ایسی تصویر اس کی ہویت و حقیقت، ضرورتوں، ان کے قلبی لگاؤ، مقاصد اور ثقافت، وہی معاشرہ پر حاکم ثقافت اور (نئی تہذیب کے علمبردار) حکام وقت یعنی دانشوروں کے ساتھ سازگار اورہم آہنگ تھیں۔(٢٢)

دقیق طور پر اسی کے تحت سبب عوام اپنی فعالیت کے اعتبار سے سیاسی اور معاشرتی زندگی میں فعال تھے۔ وہ لوگ ایسا وسیلہ تھے جو صاحبان قدرت اور معاشرہ کے جاہ طلب لوگوں کی خدمت میں آجاتے تھے، البتہ ہر دو فکریں جدیدیت کی علمبردار اور جدت پسندی کے عنوان سے سماج میں جانے جاتے تھے۔ اور عوام الناس اپنی کو ئی خاص نظر نہیں رکھتے تھے اورکبھی کبھی بے توجہی اور خوف و حراس کے ساتھ حوادث پر نظر رکھتے تھے نہ تو وہ لوگ عقلی اور فکری اعتبار سے اس حد تک پہنچے ہوئے تھے کہ وہ لوگ جدید اور نئے نظریات کو حاصل کرلیں اور نہ ہی اس بات کی قدرت رکھتے تھے کہ تہذیب نو سے مقابلہ کر یں اور ان کی بلا منازعہ نئی تہذیب تمدن اور اس کی دعوت دینے والوں اور ان کے حامیوں جو کہ اس کے معاشرہ پر حاکم تھے اس کے مقابلہ میں آواز اُٹھا سکیں۔ تمدن نو، اس کی دعوت دینے والوں اور ان کے حامیوں کے زرق برق نے لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کردیا تھا۔یہ بھی اسی کے سبب ہے اس تاریخی دورہ کے سیاسی، معاشرتی بدلاؤ، تغیرات اکثر ان حکام (داشمندوں اور مفکروں) کے ذریعہ جوکہ موجودہ حاکم نظام کے خلاف سوچتے ہیں اکثر حکام یاجدا گانہ سونچ رکھنے والے شخصیت حاکم نظام کے ذریعہ اپنی موجودگی کو ثابت کردیتے تھے، البتہ اس کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اس میں جوہری اور حقیقی فرق نہیں پایا جاتا تھا(یعنی بنیادی و اساسی مخالفت نہیں تھی) کیونکہ ہر دو طبقے صاحبان اقتدار (حاکم) اور چاہے ان کے سیاسی مخالف کہ ان میں کے اکثر سب کے سب طرز نو کی حامل شخصیات تھیں وہ لوگ Modernity) جدت پسندی اور جدید تمدن کو مثالیہ کردار بنانے میں باہم مشترک تھے۔ اختلاف یا تو قدرت کے حصول کے بارے میں یا انداز اور سلیقہ کے بارے میں تھا۔ بعد والے دورہ کے بالکل برخلاف جو تغیر اور تبدیلی کو نہ تو یہ گروہ ایسا تھا جو عملی طور پر جو وہ لوگ ہیں جو اس کو وجود بخشتے ہیں۔(٢٣) جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ اس دورہ کے سیاسی اور معاشرتی یہاں تک کہ فکری اور ثقافتی انقلاب مغرب پرست جدت پسند دانشوروں کے ذریعہ وجود میں آتا ہے۔ عام لوگ انقلابوں اور اپنی معاشرتی زندگی میں ایک کنارہ ہوجاتے ہیں اور لوگ یا لاپرواہی کے ساتھ دنیا کے حوادث کا نظارہ کرنے پر چُپّی سادھ لیتے ہیں یا ان کے ذریعہ اس نئی تہذیب کو مستحکم کیا جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ لوگ بہرحال اس سے متاثر اور اس کے تابع ہیں نہ یہ کہ وہ خود فعال، سر نوشت ساز اور صاحب ارادہ بھی نہیں ہیں۔ اس مدت میں بھی قدرت دانشوروں اور شخصیات کے ہاتھ میں ہی تھی اور ان کے سیاسی قائدین، جو حکام وقت کے مخالف تھے وہ بھی انہیں دانشوروں میں سے تھے۔ گویا سیاسی اور معاشرتی فعالیت اور اثر کو قبول نہ کرنے کی صلاحیت عوام الناس کی عملی زندگی کے حالات سے زیادہ وسیع پیمانہ پر وجود میں آتی تھی۔

جو ا نوں کا میدان میں وا رد ہو نا

اقتصادی اور معاشرتی حالات کا تیزی سے بدلنا اور سیاسی ثقافتی دباؤکا بڑھ جانا  ٥٠ ئ کی دہائی کی ابتدا اور اس کے بعد، ایک دوسرے تاریخی دور کے وجود میں آنے کے حالات ہموار ہوئے، جو زیر بحث ہیں۔ ایک ایسا دور جو فکری اور ثقافتی رجحان اور اسی طرح معاشرتی ضروریات ، سیاسی اقتضا اور اس کے نظام رہبری کے لحاظ سے پہلے والے دور سے مختلف اور جدا ہے۔تیزی کے ساتھ اقتصادی ، صنعتی اور تکنیکی تبدیلی کا آنا (Technologic) قدیم معاشروں کا منحصر اور محدود ہوجانا بلکہ تقریباً ان تجاری مراکز کا بند ہو جانا یہ چیزیں عام لوگوں کی اندرونی خواہشات کو چکنا چور کردیتی ہیں۔ ان کے معاشرہ کو بند اور انحصار سے بچنے کے جدید علم وفکر اور فلسفہ سے روبرو کردیتی ہے۔ جیسا کہ ان (عام لوگوں) کو اپنی قدیم تہذیب کی باواسطہ یا بلا واسطہ توہین وتحقیر اور ذلت ان کی قدیمی وراثتوں، رسم رواج اوردین و مذہب کے مقابلہ میں حساس اور ناراض کردیتا اور تیوریوں پر بل آنے لگتے ہیں۔ عام لوگوں کا بڑے شہروں میں آباد ہونا، وہاں کی آبادی کا بڑھنا، گروہی مواصلاتی نظام میں وسعت، تعلیم و تربیت کا عام ہوجانا، طبقاتی تضاد اور مخالفت کی زیادتی، ایسے اداروں میں سستی اور کندی کا آجانا بلکہ ان کا درہم برہم ہوجانا (ایسے ادارے) جو معاشر میں کسی شخص یا فرد کی مقام و منزلت اور اس کی شخصیت بنانے میں اساسی کردار ادا کرتے ہیں، (یہ تمام چیزیں) ایک نئی صورت حال کو جنم دیتی ہیں اور آخر کارظاہری اعتبار سے روشن فکروں کی تجدد پسندانہ حکومت جس کے پائے ثبات میں تزلزل ممکن نہیں ہے اورحاکم کی فکر اورآرزو نیز اسکی جدت پسندی کا لباس پہنتی ہیں۔(٢٤)

اب یہ کہ لوگوں کی قلبی خواہش کس طرح منتقل ہوکر ختم ہوئی اور دوسرے دورکا کس طرح آغاز ہوا اور معاشرتی اور ثقافتی حالات اور اس کا مطلق العنان تصرف کس طرح نابود ہو گی اور ایسا رجحان اور یہ قلبی میلان قاعدةً کیوں کر وجود میں آیا اور یہ قلبی میلان علاقوں اور معاشرہ کے کس حصہ میں زیادہ قوی اور مستحکم تھا؟ یہ ایسے مسائل ہیں جن کی الگ سے مفصل بحث کی ضرورت ہے۔اس مقام پر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ یہ دورہ (اس صدی کے) دو تین گذشتہ دہائیوں سے شروع ہوا، البتہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ شدت و ضعف(کمی وزیادتی)تقدم وتاخر تمام علاقوں میں اس کی علامتیں اور نشانیاں گذشتہ دہائی کے درمیان ظاہر ہو گئیں اور اس دور کی اہم خصوصیت” حقیقت کی تلاش” اور صرف اپنے آپ کو اہمیت دینا” ہے۔ دوسری عبارت میں یہ کہا جائے کہ اس (دور) کا اصلی مقصد قومی، ملی، دینی، نسلی، لسانی اصالت اور حقائق کی طرف پلٹنا ہے، یہ چیزیں تاریخی اور ثقافتی امتیازات ہیں یہاں تک کہ اگر تجزیہ طلبی اور تو ڑ پھوڑ کا سبب بنے۔(٢٥)

ایسے دورہ کی پیدایش کے مظاہر کو تیسری دنیا کے بہت سے ممالک میں تلاش کہ کیاجاسکتاہے۔ تیسری دنیاکے بہت سے ممالک کے معاشرتی اور سیاسی اضطراب اور ناامنی، یہ اس مقام پر ان کے معاشرتی،سیاسی اورثقافتی حالات کی طرف پلٹتا ہے اور اکثر اسی دور جدید کی پیدائش کا سبب ہے،اس صدی کی آخری دہائی کی اسلامی تحریک کو بھی ان طبقہ بندیوں  کے اندر جگہ دے سکتے ہیں۔(٢٦)

دورہ ٔجدید پہلے والے دورہ کے مقابلہ میں اہم تفاوت (فرق) کا حامل ہے۔ اس کی فطرت اور حقیقت کے اعتبار سے ہو یا اس کے معاشرتی اور ثقافتی حالات کے اعتبار سے اور یا اس کے مقاصد اور اس کی طرف جھکاؤ اور رجحانات (قلبی لگاؤ)کے اعتبار سے ہو۔ پہلے دورہ کی پیدائش نئی ثقافت اور تمدن کے ملاپ کا نتیجہ ہے اور گذشتہ تاریخی رہ گذر سے اُلٹے پاؤں واپس پلٹ آنے اور معاشرہ کو نئی تہذیب سے ہم آہنگ کرنے کی پوری کوشش، اس مقام پر صاحبان قدرت اور حکام نے کم سے کم منتظمین (حکومت کے منتظمین) سے متعلق ہوتا، اس طرح کا تھا۔ یہاں اس کے مقابل ایک عکس العمل سامنے آیا ہے ایسے آنکھ بند کر کے اثر قبول کرنے والے ملاپ کے مقابلہ میں بغیر کسی قید و شرط تابع ہونے اور اپنے آپ کو ان کی فکر کے مطابق ڈھال لینے کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیںکہ (معاشرہ) اپنی اصالت اور قدیمی حقائق کی طرف لوٹ جائیں۔ اگرچہ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے انہیں بھاری قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ وہاں پر قدرت اور حکومت کی باگ ڈور مغرب پرست دانشوروں کے ہاتھوں میں تھی اور وہاں کے لوگ عملی طور پر میدان سے دورتھے، وہ دور سے ان کی سیاست بازیوں کا نظارہ کررہے تھے اور یہاں پر حکومت اور اقتدار ان جوانوں کے ہاتھ میں ہے جو دور جدید کے معیار سے اپنا منھ موڑے ہوئے ہیں ۔اور لوگوں کی اکثریت (عوام الناس) بطور فعال سیاسی اور معاشرتی زندگی میں وارد ہوگئی ہے۔

ان دو تاریخی مرحلوں کے آپس میں بہت زیادہ اختلافات کے باوجود، دوسرے مرحلے کی پیدائش پہلے مرحلے کی حاکمیت کا فطری اور منطقی نتیجہ ہے۔ جدید تمدن نے تیسری دنیا میں داخل ہوتے ہی، اس طرح آنکھوں کو خیرہ کردیا تھا کہ کسی شخص میں بھی اس سے مقابلہ اور ٹکر لینے کی ہمت تک باقی نہیں رہ گئی تھی۔ ایک مختصر ساگروہ اسی( جدید تمدن)میں ضم ہوگیا اور لوگوں کی اکثریت کسی شدید عکس العمل کے بغیر تماشائی بنی  رہی اور اس کے مقابلہ میں سکوت اختیار کر لیا۔ لیکن یہ ان کی آخری تسلیم اورخود سپردگی کے معنی میں نہیں تھی کہ انہوںنے اپنے آپ کو ان کے حوالہ کردیا ہو (خصوصاً ان علاقوں میں جہاں کے رہنے والے روشن اور درخشاں تہذیب و ثقافت کے وارث اور مالک تھے۔) گویا ان پر ایک قسم کا سکتہ (بے ہوشی) طاری ہوگیا تھا اور یہ حالت(اس صدی کے) آخری دو تین دہائیوں تک اسی بے ہوشی میں باقی ر ہی اور ان لوگوں کا اس حالت سے خارج نہ ہونا دوسرے نورانی مرحلہ کا پیش خیمہ تھی۔

بہر حال یہ بھی لازم تھا کہ ایک مدت گذر جاتی اور حالات میں بدلاؤ اور انقلابات رونما ہوتے اور تجربے حاصل ہوجاتے اور اس کے ساتھ جس میں واقعیت کے خلاف نامطلوب حالات سے ٹکر لینا پڑتا اور موجودہ حاکم کے مقابلہ میں قیام کی جرأت و جسارت پیدا ہوجاتی، تاکہ اتنا بڑا تغیر و تحول پیدا ہوجائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تیسری دنیا کے بہت سے ممالک کے بڑے بڑے اقتصادی اور معاشرتی انقلاب، اقتصادی اور معاشرتی تبدیلیاں دوسرے تاریخی مرحلہ کو وجود بخشنے اور ظہور میں لانے کے لئے بہترین حالات فراہم کرنے والی رہی ہیں۔ قدیمی معاشرہ کا تربیت یافتہ جوان بہت ہی کم اور ضروری خصوصیات سے محروم تھا جو قدرت، ثقافت و تمدن اور موجودہ نظامِ حاکم کے مقابلہ کے لئے قیام کرسکے۔ اس کا امکان پایا جاتا ہے کہ ایمان میں استحکام اورپختگی اور دینی مسائل میں تعصب اس کو اس اقدام پر ابھارے اور یہ کوئی اقدام کر بیٹھے، لیکن یہ اقدام ایک بڑے حادثہ اور تحریک کو وجود میں نہیں لاسکتا ہے اور ایک جدید تاریخی دورہ کو اپنے ساتھ نہیں لاسکتا ۔ بعنوان مثال سکھوں کی تحریک جو ٨٠ ء کی دہائی کے اوائل سے اب تک اپنی مرکزی حکومت کے مقابلہ میں سخت استقامت کے ساتھ مقابلہ کرتی رہی ہے، سکھون کی تحریک سب سے زیادہ ان آخری دہائیوںمیں ہندوستانی معاشرہ کے بہت بڑے تغیرات کی مرہون منت رہی ہے، نیز ہندوستانی قدرت مند لوگوں کے دستورالعمل بنانے کی کیفیت کی بھی مرہون منت ہے۔ بے شک اگر بجز اس آخری سبب کے علاوہ تمام اسباب موجود ہوتے تو بنیادی طور پر ایسی تحریک وجود ہی میں نہیں آتی یا کم از کم ایسے حدود اربعہ اور اس میں اتنی استقامت اور شدت پیدا نہ ہوتی(٢٧)

موجودہ اسلامی تحریک بھی مندرجہ بالا نکات کی طرف توجہ دیتے ہوئے جائزہ لینے کے قابل ہے اور دینی اور سیاسی علامت کے عنوا ن سے اسلامی دنیا کا یہ دوسرا تاریخی مرحلہ ہے۔ اگرچہ یہ تحریک، تیسری دنیا کی غیر اسلامی حکومتوں میں اس کے مشابہ دوسری سیاسی تحریکوں سے مقایسہ اور موازنہ میں یہ تحریک وسیع اور کافی عمیق( و گہری) ہے، البتہ یہ خصوصیات اسلام اور اسلامی تمدن کی طرف پلٹتی ہیں۔

دین اسلام مورد اعتقاد دین ہونے اور اسلامی تمدن اور ثقافت کے عنوان سے قابل فخر شان و شوکت والی میراث ہے ،جو اور عین اسی عالم میں مسلمانوں کی موجودہ تاریخی حقیقت بنانے کے اعتبار سے  طرح موجودہ مسلمانوں کو سنوارنے والی ہے، اسلامی معاشروں کا جدید تمد ن سے روبرو ہوتے ہی، اسلامی تمدن لگا تار کسی نہ کسی طرح سے نکتہ چینی کا مرکز تنقید اور حملہ کی آماج گاہ حتیٰ مورد تجاوز قرار پایا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں نے بھی موجودہ تقاضوں کے تحت ان کے حملوں کا مقابلہ کر کے عکس العمل ظاہر کیا ہے، لیکن یہ عکس العمل کبھی بھی اس حد تک نہیں پہنچا کہ مغرب پرست حکام جو اسلامی مراکز پر قابض تھے ان کے افکار اور ان کی حکومت اور اقتدار کو ختم کرپائیں۔ اور اگر کبھی ایسے مواقع پیش بھی آئے ہیں تو وہ بہت ہی محدود اور بے اہمیت اور سطحی تھے اور زیادہ تر یہ حالات دینی پختگی، استحکام اور اس میں بہت زیادہ پابندی سے وجود میں آتی تھی نہ کہ فکرمیں بلندی، مطلوبہ معاشرتی اور ثقافتی پختگی اور بالیدگی کے استعمال اور صحیح سوجھ بوجھ کے سبب وجود میں آئی ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرب (مغرب پرستی) اس مدت میںاسی طرح اپنا پورے اقتدار کے ساتھ ان کے اتہامات کے مقابلہ میںاپنا قبضہ اور تسلط جمائے ہوا تھا حتیٰ کہ اسلام کا دفاع بھی انھیں کی مدد کا محتاج اور نیازمند تھا۔ ان کی دلیلوں کا لب لباب اس طرح تھا کہ اسلام تبھی حق ہو سکتا ہے جب وہ اگر مغربی تمدن اور جدید تمدن کے معیار کے مطابق اور موافق ہو اس لئے کہ اسلام در اصل انہیں (مغربی تمدن) کی طرح ہے بلکہ وہ ہو بہ ہو وہی ہے۔ اس مدت میں ساری کوششیں صرف اس بات پرکی جارہی تھیں کہ اسلام کے ایسا کوئی نیا تمدن کھوج نکالیں اور اس طرح سے انہیں کی حقانیت ثابت ہوجائے۔(٢٨)

یہ حالات تقریباً ٦٠ ء  کی دہائی تک جاری اور برقرار رہے۔ لیکن وہ تمام اسباب جن کا ذکر طوالت کا باعث ہے، اس بات کا سبب بناکہ مسلمانوں اور خاص طور پر جو ان طبقہ اور طلبا (Students) تیسری دنیا کے اپنے ہم عمر ساتھیوں کی طرح، شدت و سرعت کے ساتھ، دوسرا راستہ اختیار کرلیں۔ اس طرح دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگیا۔ جن ممالک میں اقتصادی، معاشرتی نیز ثقافتی، فکری اور مذہبی اور ثقافتی تغیرات میں تیزی و گہرائی زیادہ پائی جاتی تھی ان ممالک میں ایمان اور اسلامی تہذیب و ثقافت پر زیادہ ہجوم اور حملہ تھا اور اس پر مستقل دبائو بنا ہوا تھا ان علاقوں میں اسلام بہت جلدی نمایاں ہوا اور طاقتور اور عمیق تر ہوگیا اور انھیں ممالک کے ذریعہ دوسرے علاقے بھی اس کی لپیٹ میں آگئے البتہ معاشرتی، و فکری و دینی رجحان اور اس کے حالات کے اعتبار سے کس حد تک اس جدید مرحلہ سے سازگار ہو کر زیر اثر قرار پاگئے۔

مشر قی سیاسی محاذ ((Blocمیں تبدیلیاں

یہاں پر مناسب ہے کہ مشرقی سیاسی محاذ (Bloc) کی موجودہ تبدیلیوں کو جو وہاں کے ساکن لوگوں، خاندانوں اور ملتوں کی مذہبی، دینی، قومی اور ثقافتی حقائق اور اسباب کا اثر قبول کئے ہوئے ہیں ان کے بارے میں اشارہ کیا جائے۔ اگرچہ اس میں شک نہیں کہ اس(Bloc)سیاسی محاذ نے بہت سی مختلف دلیلوں (دلائل) اور اسباب کے ذریعہ تیسری دنیا کو دینی و ملی اور ثقافتی اصالت کی طرف لگاکر،ان کی اصالت اور حقائق کی طرف کھینچ لے گئی ہے ،لیکن یہ بات بھی قابل انکار نہیں ہے کہ یہ دونوں موجودہ زمانہ میں اپنے مقاصد کو پانے کے لئے کم و بیش ایک ہی مقصد کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اور ظن غالب کی بنا پر اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیابی کے لئے ایک دوسرے کی تحریک ہر ایک اپنے لئے راستہ کھوج نکالنے کاسبب بنی ہے۔ اس بلاکBloc) (میں رہنے والے بعض قومی و نسلی اور خاندانی گروہ کی خود مختاری اور انفرادیت کی خواہش کبھی اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ بلا شک و شبہہ اصالت اور حقیقت پرستی اور انفرادیت کی لہرتیسری دنیا والوں میں تحریک کی آگضرور دوڑا دے گی۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ بات کیا ہے اور وہ کیسے وجود میں آئی ہے؟

جیسا کہ تیسری دنیا کے موجودہ انقلابات اور تبدیلیاں عموماًایک جدید تاریخی دورہ کے سبب ان ممالک کی تاریخ میں وجود میں آئی ہے، ان پیوستہ سالوں میں مشرقی سیاسی محاذ (بلاک) کے بہت عظیم اور بہت سریع اور تیز تغیرات کے بھی جدید تاریخی مظاہر میں سے ایک مظہرجس کا آغاز ایک مدت سے ہو چکا ہے  اور وہ اسی طرح باقی ہے اور باقی رہے گا۔ ان دونوں دوروں میں جو بنیادی اور اساسی فرق پایا جاتا ہے وہ اسی میں ہے کہ پہلے تاریخی دورہ کا تعلق تیسری دنیا سے ہے اور اس کی تاریخ مختلف اسباب و عوامل کے زیر اثر ہے  جن میں سے اکثر نظامی، سیاسی اورتکنیکی کمزوریوں کے زیر اثر ہیں، وہ کمزوری اسی علاقہ میں باقی رہے گی، لیکن تاریخ کا موجودہ اور آخری دور اگرچہ وہ موجودہ زمانہ میں مشرقی بلوک( bloc) میں ہے، لیکن یہ کہ (اوّلاً) اس کی پیدائش کے کچھ اسباب و عوامل بین الاقومی دلائل اور وجوہات کے حامل ہیں اور صنعتی ا ور غیر صنعتی چیزوں میں تیز تبدیلیاں (چاہے وہ فوجی۔ ٹکنا لوجی ہو اور چاہے غیر فوجی ٹکنولوجی ہو) ستّر اور اسّی کی دہائیوں میں ترقی یافتہ ممالک سے متعلق ہے۔(٣٠) دوسرا اس لحاظ سے ہے کہ یہ خیمہ (مشرقی بلاک) بین الاقوامی سطح کے دو بڑے سیاسی حصہ داروں میں سے ایک رہا ہے، لہذا  اس کے محصلہ نتائج اس کے ملکی حدود سے بہت زیادہ وسیع اور بہت گہری حدود تک پہونچ جا ئے گا اور موجودہ دور کی پوری تاریخ میں ایک بہت بڑی گہری اور عمیق تبدیلی پر ہی تمام ہوگی۔

بہر حال سب سے زیادہ اہم اس دور کی خصوصیات کا حاصل کرنا ہے اور یہ کہ کیوں اور کس طرح یہ دور رونما ہوا ہے،؟ جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ اس دورکی پیدائش میں مختلف اسباب اور عوامل دخیل اور شریک رہے ہیں۔ یہاں پر اس دوران جائزہ لینے کا مقصد وہاں پر اس حد تک ہے کہ ثقافتی حقائق، ثقافت کے اپنے عام مفہوم کی طرف پلٹتے ہیں یہ کہ یہ خصوصیات کیا ہیں؟ اور اس کے پیدائش کے اسباب اور عوامل کون کون سے ہیں؟اس نکتہ کے واضح اور آشکار ہونے کا لازمہ ہے کہ تہذیب و تمدن اور اس کی نئی تاریخ کا آغاز کس طرح ہوا؟ اور ان ممالک میں (اس سے مراد وہ ممالک ہیں جنہوں نے بعد میںمشرقی خیمہ (Bloc) کو ڈھوندھ نکالا) اس کی تخلیق میں ان کا کوئی حصہ نہیں رہا ہے (مشرقی بلوک ) ان ممالک میں کس طرح اپنے قدم جما کر وہاں پر ڈٹ گیا اور کس طرح ان ممالک میں جذب ہوکر اس نے اپنا کام شروع کیا؟ اور کیا کیا تغیرات اس نے پیدا کئے؟ اور قدیمی تہذیبوں، ثقافتوں ، تمدنوںا ور قومی و لسانی اور دینی و مذہبی وراثتوں اور مجموعی طورپر یہ کہا جائے کہ جو چیزیں اس سر زمین کے لوگوں کی تاریخی، ملی ،قومی ماہیت اور حقیقت کوتعمیر کرنے والی ہیں ان کے ساتھ اس (مشرقی بلاک)کاکیا رویہ رہا ہے؟ اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ اس معاشرہ پر حاکم طاقت (حکومت) نے اس بارے میں کیا موقف اختیار کیا؟ اور کس طرح اس نے صنعتی، اقتصادی اور معاشرتی میدان میں ان کو وسعت دے کر ترقی کے راستہ پر گامزن کردیا؟آخرکار آیا قدیمی تہذیب و ثقافت کو بالکل نظر انداز کر دیا اور نئی تہذیب ثقافت اور اس کی ضروریات اور چاہتوں کے علاوہ بالکل کچھ نہ سوچا اور یا مقامی تہذیب و ثقافت کے پھلنے پھولنے کے لئے کوئی موقع نہیں چھوڑا اور ا سے دشمنی کی نگاہ سے  نہیںدیکھا۔(٣١)

اس (نکتہ) بات کا جائزہ لینازمانۂ حال اور آئندہ کے بہت سے تغیرات کی بنیاد کو واضح اور آشکار کر تا ہے ۔ اگرچہ مشرقی سیاسی محاذ (Bloc) کے بہت زیادہ محسوس اسباب و عوامل جو اکثر سیاسی، اقتصادی ا ور صنعتی حیثیت کے حامل تھے وہ تبدیلیاں شروع ہوگئیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تحولات اور تبدیلیاںقاعدتاً بدلاؤ لا نے والی پوشیدہ صلاحیتیں ایک اعتبار سے ان تبدیلیوں کا سبب بنی ہیں، اس کو اپنے فطری راستوں پر قرار پا جانا چاہئے تھا۔ البتہ ان راستوں میں سے ایک بہترین راستہ اور طریقہ حقیقت طلبی اور قدیمی روایتی رسم و رواج پر لگا دینے کا راستہ تھا۔ اکثراً اسی سونچ کے زیر نظر اور اس کے ماتحت ہے کہ تغیرات اور تحولات، اس مقام پر لوگوں سے متعلق ہیںاور کھل کر سامنے آجاتے ہیں اور قوی احتمال کی بنا پر یہ ماتحتی بھی موجودہ سیاسی اور معاشرتی تغیرات و تحولات میں خود ہی مؤثر سہم (حصہ) کی حیثیت رکھتا ہے، مستقبل میں بھی یہ اپنی اہمیت کو اسی طرح محفوظ رکھے گا۔

اس سے بھی زیادہ واضح انداز میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جدید تمدن نے شروع میں جنوبی یورپ کے کچھ علاقوں اور اس کے بعد مغربی یورپ میں وجود میں آئے اور پھر اپنے پیر جمالئے وہاں پر یہ پھلا پھولا اور پروان چڑھا۔ یہ تمدن فطری طور پر طرح طرح کے تغیرات اور تحولات کا محصول اور ثمرہ تھا کہ عام طور پر مغربی یورپ کے ممالک کو رنسانس کے بعد میں آنے والی صدیوں پر محیط ہوگئے تھے۔( یعنی ان پر پوری طرح مسلط ہوگئے) لہذا اس کے علاوہ کہ ان علاقوںمیں انہوںنے اپنے مختلف تاریخی مراحل کو گذارا تھا، اپنے آپ کو ان سر زمینوں کے تاریخی ، سیاسی ا ور معاشرتی حالات کے مطابق ڈھال لیا تھا اور موجودہ حالات کو بھی اپنے لئے سازگار اور ہماہنگ بنالیا تھا۔ یہ تمدن (تمدن نو) اسی درخت کا ایک پھل ہے اور یہ دونوں باہم کامل سازگاری اور فعالیت میں دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے اور مد مقابل تھے۔

توسیع اور ترقی کا بر ابر اور خلّا ق نہ ہو نا

لیکن یہ تناسب اور باہم سازگاری و ہم آہنگی جو مغربی یورپ میں موجود تھی اوردوسرے علاقوں میں ہرگز ایسا نہیں تھا منجملہ مشرقی یورپ اور روس اگرچہ مشرقی یوروپ کے بعض ممالک مثل یوگوسلاوی (چک اسلواکی)، مشرقی جرمنی اور ایک حد تک مجارستان و لہستان گذشتہ اور موجودہ صدی میں کمیونسٹوںکے قبضہ سے پہلے یا تو وہ خود مغربی یورپ سے وابستہ تھے یا پھر کم سے کم اس کے ثقافتی مراکز سے وابستہ تھے یا بلا واسطہ اور تدریجی طور پر اس سے متاثر ہورہے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسرے مشرقی یورپی ممالک نہ ان (مغربی ممالک) کے جغرافیائی مراکز سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی ان کے ثقافتی مراکز سے ان کا کوئی رابطہ تھا۔ 
یہ بات متحدہ روس (اب روس تقسیم ہو کر بہت سے ملکوں میں تبدیل ہوگیا ہے۔(بقلم مصحح)کے بارے میں زیادہ صحیح ہے۔ یہ ملک خود ایک برّ اعظم کے مانند ہے کہ جس نے یورپ اور ایشیا کے ایک بڑے حصہ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، مختلف قومیں، ملتیں اور مختلف ثقافتوں کواپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔ اس (روس) کے مغربی حصوں میں آباد غیر روسی لوگ جن کی تہذیب و ثقافت اور خصوصیات مغربی یورپ والوں سے مشا بہ ہے مثال کے طور پر بالکان کے ثقافتی مرکز سے وابستہ اور اس علاقے کے رہنے والوں کے مانند ہیں یعنی ان سے شباہت رکھتے ہیں اس کے ایشیاکے گرد و نواح کے علا قوں کے لوگ مرکزی ایشیا اور ایشیا ئے بعید کے لوگوں کی جیسی خصوصیات کے مالک ہیں یہاں تک کہ مغربی ایشیا کی قومیں اور اس میں زندگی بسر کرنے والی دوسری قومیں بھی اسی سے شباہت رکھتی ہیں۔(٣٢)

اگرچہ تمدن جدید کی ان سر زمینوں میں آمد اس حد تک کہ تیسری دنیا کے ممالک میں اس کا وارد ہونا خاص طور سے وہ ممالک جو قدیمی اور روایتی زندہ ثقافتوں والی مستحکم اور قدرت مند تھیں مشکل ساز نہیں تھیں، لیکن اس تہذیب و ثقافت کی آمد اوربالخصوص اس کے وارد ہونے کی کیفیت اتنی زیادہ آسان اور بے زحمت نہیں تھیں۔ یہ پریشانیاں اور تکلیفیں ان سر زمینوں پر حاکم ثقافت اور نئی تہذیب وتمدن کے ٹکرائو سے کہیں زیادہ پہلے تیسری دنیا کے بہت سے ممالک کے مانند، بنیادی جڑوں کی حامل رہے، مختلف شعبوں میں معاشرے کے لئے صنعتی، اقتصادی اوراجتماعی میدانوں میں معاشرہ کی تعمیر کے لئے اب بھی بہت سی مشکلات موجود تھیں۔

مارکس کے نظری عقیدہ (Marxism)کی تابع حکومتیں خودان ممالک پر حاکم، نظام پیش قدم لوگوں کے عنوان سے جدید تمدن کی وسعت اور صنعتی نوسازی اور اپنے معاشروںکو جدید (Modern) بنانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ نئی ساخت و ساز سے ان کا مسلح ہونا جوان کی نظر میں بطور کامل اشتراکیت کے نظام میں نمایاں ہوکر چمک رہی تھیں اور متجلی تھیں، فوجی و سیاسی ا ور اقتصادی طاقت کو ان ممالک میں متمرکز بناکر مقامی، قومی اور دینی ثقافتوں کی حقیقت جیسے تھی ان کو ویسے ہی ظاہر ہونے سے مانع تھیں۔ یا ان لوگوں کو سانس لینے کے لئے کوئی موقع فراہم نہیں ہونے دیا آخرکار ان لوگوں کو صرف اتنی فرصت دی جاتی تھی کہ وہ اپنی تہذیب کو ”مارکس” کے نظریہ سے مطابقت دے لیں اور اسے اپنے دین اور ثقافت کے نام سے لوگوں کے سامنے پیش کریںاور اس تفسیر کو در حد امکان مناسب ترین تفسیر سمجھ کر قبول کریں اور اسی کے مطابق عمل کریں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ”مارکس” کے نظریہ کو مطلق العنان اور آزاد چھوڑ کر اس کو حقیقت کی شناخت کا معیار قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس کو بہترین اور آخری راہ حل سمجھ لیا جائے اور اس فکر ونظر کی رعب ووحشت اور طاقت کے بل بوتے پر تبلیغ و ترویج کرکے اس کو منوا لیا ،یا موجودہ اور رائج تہذیبوں اور ثقافتوں کو زبردستی بے حس کرکے پردۂ خفا میں ڈال دیا، اس کے بغیر کہ اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں یا اس کو ذراسا بھی کمزور کریں۔(٣٣)

مشرقی خیمہ(Block)کے بعض ممالک کا فعال، خلاق اور عمومی سہم نہ رکھنے کے سبب تمدن نو کے وجود میں لانے اور اس کے( پھلنے وپھولنے) ترقی دینے میںکسی سیاسی کردار کا حامل نہیں ہے بلکہ کبھی کبھی ان ممالک کا اس ثقافت سے تضاد اور اختلاف اور ان کی بیگانگی اور اس کے بابت اس مقام پر مفید اورکار آمد تجربہ کا نہ رکھنا اور اشتراکیت اور مارکسیسم کے قالب میں ان حکومتوں پر قابض ہوجانا (خود تمدن جدید کی تجلیات میں سے ہے یہ اسی صورت میں ہے کہ مغربی یورپ کے حالات و احوال انیسویں صدی کے وسط میں اس جدید تمدن کے حالات کے لئے مقتضی ہوئے بلکہ اس کی ضرورت محسوس کی۔)(٣٤)

فوجی اور سیاسی آمرانہ نظام اور اس چیز کا باعث ہوئی کہ مقامی و علاقائی تہذیب وتمدن اور ثقافتوںکواپنے اظہار وجود اور موجودہ صورت حال سے مطابقت دینے کی انہیں مہلت ہی نہ ملے، یا وہ خود اپنے آپ خاموشی اختیار کرلیں یا ان کو زبردستی سکوت کے لئے مجبور کردیا جائے۔

قدیمی وراثتوں کے بارے میں حساسیت

ایک طرف مرکزی حکومتوں کا دبائو ان تہذیبوں اور ثقافتوں سے وابستہ لوگوں کو اپنے قدیم ا ور وراثتی تہذیب کی نسبت حساس بنا رہا

تھا اور دوسری طرف سے موجودہ صنعتی اور اقتصادی تغیرات کو اپنے اور اپنی حقیقت کے بارے میں سوچنا جو ان حساسیتوں میںجلوہ گر تھا، اس چیز پر آمادگی کے تمام حالات فراہم کرکے ان کو مستحکم اور قوی بنا رہا تھا (جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں) اقتصادی اور صنعتی تغیرات اس کے بالکل برخلاف لوگوں بالخصوص جوانوں کو قدیمی میراث اور تمدن کے بارے میں یہ تصور چاہے مذہبی ہو یا تاریخی اور یا ثقافتی وراثت کے بارے میں ہو، طولانی مدت میں آہستہ آہستہ اس سے تعلق بڑھارہا ہے۔

عموماً یہ ممالک اس سے پہلے کہ سالم اور کھلی فضا میں بغیر کسی آمر (حاکم) کے دبائو کے اس نظری اعتقاد سے مسلح ہو کر جو اس بات کے مدعی تھے کہ وہ بہشت جس کا آخرت میں وعدہ کیا گیا ہے اس کو روئے زمین پر لے آئیں گے، نئی تاریخ کو نئے تمدن کی روشنی میں آزما ئیںایک دوسرے کے ساتھ ساتھ زندگی گذارنے اور ملی ا ور قومی مصلحتوں کے بارے میں فکر کرنا سیکھیں، وہ اپنی ہی تعمیر پر مجبور ہوکر خود اپنے کو اشتراکیت کی خصوصیتوں اور اعتقاد کے مطابق سنوارنے میںمشغول ہو گئے۔ ان کی اقتصادی و صنعتی وسعت اور معاشرہ اور ثقافت کی ترقی کے ساتھ ساتھ قدم بہ قدم اپنی قدیمی اور قومی وراثتوں کی حفاظت کے شعور کو بھی بیدار کریں اور ملی یکجہتی اور اتحاد کو تقویت بخشیں وہ لوگ ایسی صلاحیت کے مالک نہیں تھے۔ (٣٥) البتہ یہ مشکل اس وقت تک باقی رہی جب تک  ان کے سر پر فولادی ہتھوڑا پڑتا رہا اور اظہار کرنے کی جرئت نہیں تھی لیکن جیسے ہی دباؤ کی شدت اور زور کم ہوا، حقیقت خود بخود کھل کر سامنے آگئی۔

یہ اہم ترین دلیلوںمیںسے ایک دلیل ہے جو مشرقی یورپ کے ترقی یافتہ اورصنعتی ممالک میں قومی بے چینی اور اضطراب کے نہ پائے جانے کو واضح اور آشکار کرتی ہے۔ان ممالک کا ترقی حاصل کر لینا اور صنعتی اعتبارسے ترقی یافتہ ہو جانا”مارکس” کے نظری اعتقاد کی تابع حکو متوںسے پہلے والے نظام کامرہون منت ہے۔ یہ اس معنی میں ہے کہ وہ لوگ تسلط سے پہلے کافی آزاد فضا میں، جدید تمدن کا تجربہ کر چکے ہیں اور اس تجربے کے درمیان ملی ا ور معاشرتی مطلوبہ اتحادپاچکے ہیں۔ البتہ اس کامقصدیہ نہیںہے کہ ہم دوسرے اسباب کی کار کردگی کو نظر انداز کردیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ان کی صنعتی ا وراقتصادی ترقی اس لحاظ سے ہے کہ ان کی ترقی کی کافی آزاد ماحول اور کھلی فضامیں مضبوطی اور قاطعیت کے ساتھ بنیاد رکھی گئی ہے اور یہ بھی کوشش کی ہے کہ ملی و قومی اتحادا ور انسجام کو مقتدرانہ طور پرہدیہ کے عنوان سے پیش کرے۔

اگر ان حادثات کے برخلاف دیکھنا چاہیں تو روس کی آزادی طلب ریاستوں کے نظریہ میں روس کے مختلف صوبوں یوگو سلاوی، رومانی اور بلغارستان کی قومی کشیدگی میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ روس کی جنوبی جمہوری ریاستوں کے موجودہ رجحانات میں بھی یہی حکم نافذاور رائج ہے۔ اگرچہ عملی رجحانات کا عملی ڈھانچہ ان آزاد ریاستوں (حکومتوں) میں اس لحاظ سے ہے کہ اس کے رہنے والے (باشندے) عموماً مسلمان ہیں لہٰذا بالٹیک کے علاقہ کی مرکزی جمہوری ریاستوں میں اس کی عملی کیفیت میں فرق پایا جاتا ہے، یہ تفاوت ایک طرف سے دین اسلام کی وجہ سے ہے کیوں کہ اس کے مقدسات مختلف اوربلکہ جدید ثقافت کے مقدسات کے بالکل بر خلاف ہیںبلکہ

”مارکس” کے نظام کے مطابق چلنے والی حکومتیں اور اس کے رسم و رواج اور نئی تہذیب و تمدن کے قضاد (خلاف) کی طرف پلٹتا ہے اوردوسری طرف سے ثقافت کی حقیقت جس کو یہ دین وجود میں لایا اور اس کو پالا پوسا اور پروان چڑھایا ہے۔(٣٦)

بالٹیک کے علاقہ کی موجودہ ثقافت عیسائیت سے متاثرہے اکثراً ” کیتھولک ” عیسائی اور بعض ارتھوڈکس عیسائی ہیں۔ اور پروٹسٹان سے پرورش پاکر وجود میں آئی ہے۔ لہذا روس کی جنوبی آزاد ریاستوں پر حاکم ثقافت سے زیادہ نئی ثقافت میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ خود مختار اور آزادی خواہ جنوبی آزاد ریاستوں کے تغیرات و تحولات کی ماہیت مذہبی حقیقت کی بہ نسبت قومی اور ثقافتی حقیقت سے زیادہ مشابہ ہیں لیکن چونکہ یہ ثقافت اسلامی ثقافت ہے نہ کہ عیسائی ثقافت لہذا چند جہات کی بنا پر مرکزی بالٹیک کے علاقہ حقیقت کے جو یا رجحانات سے متفاوت اور مختلف ہے۔

جو کچھ بھی اوپر کہا گیا ہے اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ سیاسی، بین الاقوامی اور اقتصادی یا دوسرے اسباب مثال کے طور پر آزادی خواہی اور مغربی سطح کے برابر سطح زندگی لانے کی چاہت اس درمیان ان باتوں کا کوئی دخل نہیں تھا اوراگر اس کا حصہ مان بھی لیا جائے تو بہت ہی کم تھا۔ بلکہ اس معنی میں ہے کہ سب سے زیادہ اہم اور حالات کو بدلنے والے مقامات میں سے ایک مقام کو تجلی بخشنے اور یہ کہ اس کی پیدائش کے اسباب اور کیفیتں کیا ہیں اور انقلاب برپا کرکے پورے دورہ کی اصلاح کرنے کے حالات کو اجاگر کیا جائے۔ اس کے شبیہ رجحانات کی پیدائش کے اسباب اور کیفیتوں کا تیسری دینا سے کیا فرق پایا جاتا ہے؟ اب اپنی اصل بحث کی طرف پلٹتے ہیں۔

گذشتہ حقائق کی تلاش

اسی ترح سے اصالت اور حقایق کی طرف قلبی جھکاؤ، حتیٰ بہتر یہ ہے کہ ہم اس طرح کہیں کہ ان حقایق اور اصالت کی طرف ہجوم بڑی ہی تیزی سے شروع ہوگیا تاریخ کے اس مرحلے میں یہ فکر سب سے زیادہ ترقی طلب اور سب سے زیادہ اپنے حامی رکھنے والی موجودہ معاشرتی اور سیاسی فکر تھی، لہٰذا دوسرے بہت سے لوگوں کو جو موجودہ سیاسی حکومت سے ایک طرح سے ناراض اور ہم آہنگ نہیں تھے، ان لوگوں کو اس فکر نے اپنے زیر سایہ کھینچ لیا۔ یہ بالکل اسی سبب کے تحت ہے فکر کے زیر سایہ بہت سی طاقتیں جمع ہوگئی ہیں جو عناد، بغاوت اور سرکشی کی حالت سے دوچار ہیں اور کبھی کبھی ان کے خلاف ساز شیں رچنے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ وہ معاشرے جو بڑی تیزی کے ساتھ جدت پسندی کو رواج دینے کی ہوا میں لگے ہوئے ہیں وہ لوگ خاندانی، تربیتی اور اخلاقی حیثیت سے فاقد ہیں اورکثرت سے پائے جا تے ہیں۔ جس وقت اقتصادی، صنعتی اورمعاشرتی تغیرات کا حجم (کسی معاشرہ میں) اس کی ہضم کرنے کی صلاحیت سے وسیع ہو جس کو سماج اور معاشرہ برداشت نہ کرپائے تو ایسی مشکلات کے جھیلنے کے لئے اس کا انتظار کرتے رہنا چاہئے۔(٣٧)

مندرجہ بالا نکتہ کی طرف توجہ دینا تیسری دنیا کی موجودہ سیاسی تحریکوں کی موجودہ حالت کو بھی صحیح سمجھنے کے واسطے اسلامی تحریکیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ تمام موجودہ طاقتیں جو ان کے اندر پائی جاتی ہیں، ان مقاصد کا عقیدہ رکھتے ہوئے اس پر کاربند ہوں، بلکہ وہ ان تحریکوں سے اسی لئے وابستہ ہیں کہ وہ اپنی قلبی اور باطنی خواہشات کا مناسب جواب دینے کیلئے اس راہ سے بہتر کوئی اور راہ نہیں پاتے ہیں اسی لئے کہ موجودہ حالات سے ٹکر لیناان کی ا فکار کے نقطۂ مرکزی کو تشکیل دیتا ہے، اسے تلاش نہیں کرپائے ہیں۔

اس واقعہ کے مختلف اسباب ہیں۔ لیکن وہ تمام اسباب اسلام اور اس کی استثنائی خصوصیات کی طرف پلٹتے ہیں۔ اسلام پورے موجودہ دور میں، نہ صرف ایک دین کے عنوان سے، بلکہ تہذیب و تمدن اور ثقافت کے خالق اور اسلامی ماہیت اور حقیقت کے اعتبار سے بھی اس پرحملہ اور تجاوزکیا گیا۔ لہذا نئی اسلا می تحریک، نہ صرف یہ کہ وہ اسلام کی عظمت اور تقدس کے ساتھ دوبارہ واپسی کے خواہاں ہیں ایک عقیدتی اور با عظمت نظام ہے، بلکہ اسلامی وراثتوں اور ان پراعتماد اور بھروسہ کرنے کے بھی خواہاں ہیں۔جدید تاریخی دور میں تیسری دنیا والوں کی اپنی اصالت و حقیقت اور انحصار طلبی مسلمانوں کے درمیان وراثت اور اسلامی ماہیت اور حقیقت کی طرف بازگشت کی صورت میں نمایاں ہوئی ہے۔

اسلام اپنی پوری گذشتہ تاریخ میں کبھی بھی کسی کے تحت تسلط اور دباؤ میں نہیں تھا، تاکہ وہ اپنے پیروں کو  پیچھے ہٹائے اور زندگی کے فعال معاشرتی، سیاسی ا ورثقافتی میدان کو چھوڑ کر ہٹ جائے، لیکن ایسادباؤ پورے دور جدید میں عملی طور پر موجودتھا۔ یہ دباؤ نہ یہ کہ صرف جدید نہیں تھا اور ماضی میں اس کی کوئی نظیر نہیں تھی بلکہ اس (اسلام) کے اندرونی اور ذاتی خصوصیات کے مخالف بھی تھا۔ جیسا کہ دوسرے ادیان سے شمولیت اور پھیلاؤ کے اعتبار سے اسلام کی طرح ان کے پاس اصالت پسندی نہیں پائی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ لوگ بہتر طریقہ سے عصر نو کے دباؤ میں آسکتے ہیں اور اس سے ہماہنگ ہو سکتے ہیں۔ لیکن دین مقدس اسلام ایسا ہرگز نہیں کرسکتا اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کرسکتا ہے۔

مغرب پرست مسلمان تجزیہ نگاروں یا وہ اہل یورپ جن کی نظر جہاں اسلام کے حوادث اور واقعات پر رہتی ہے، وہ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا تھے، وہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی گذشتہ صدی میں مقابلہ اور استقامت صرف ان کا خالص تعصب اور دین میں اندھی تقلید کی بنا پر تھا جو آہستہ آہستہ زمانہ کے ساتھ ساتھ نابود ہوجائیگا، وہ لوگ اسی حساب سے مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے۔ وہ لوگ اس دین اسلام کی ذات اور اس کے اندر پائے جانے والے جوہر سے بے خبر اور غافل تھے اور یہ بھول گئے تھے کہ وہ چیز جو نئے زمانہ کے دباؤ کے ساتھ سازگار اور ہم آہنگ نہیں ہے وہ خود اسلام کا ذاتی جوہر ہے نہ یہ کہ ان (انگریزوں) کے کہنے کے مطابق اس کے ماننے والوں کو متعصب بنیاد پرست اور رجعت پسند کہا جائے۔(٣٨)

جو کچھ یہ لوگ (انگریز) اورمغرب پرست مسلمانوں کو، اتنی بڑی غلطی کی طرف کھینچ لایا، یہ اصلاح طلبی کا راستہ تھا، جس کو عیسائیت نے طے کیا اور تقریباً دوسرے تمام ادیان نے بھی کم وبیش اسی راہ کو طے کیا۔ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ اسلام بھی ایک دین کے عنوان سے اسی راستہ کا انتخاب کر کے اس پر گامزن ہوجائے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ اسلام کی حقیقت ، عیسائیت حقیقت سے مختلف ہے اور اپنے ماننے وا لے مسلمانوں سے اسی ماہیت اور حقیقت کے لحاظ سے توقع بھی رکھتا ہے۔ ایمان کی شرط، اس دین کی کلیت اور تمامیت میں ایمان شرط ہے (اسلام) اور اہمیت کا حامل یہ تھا کہ عیسائیت کی طرح اس کلیت کو بانٹا نہیں جاسکتا۔ (یعنی تقسیم کے قابل نہیں ہے) مومنین اور زمانہ کا ہر دور میں اجماع اصول اور اس کے حدود اربعہ کی تعریف( اور اس کی حد بندی) میں، عیسائیت کی طرح، کوئی مداخلت نہیں تھی۔ اس موضوع کی اہمیت کے لحاظ سے اس کا اجمالی جائزہ لیں گے۔

اسلام، عیسا ئیت اور تمدن جدید

دین اسلام اور عیسائیت جدید تمدن سے ملاپ کے بارے میں مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ یہ تمدن عیسائیت کے آئین میں، پلا بڑھا اور اسی کے زیر نظر پروان چڑھا اور موجود ہوگیا ہے لہذا اس (عیسائیت) کی اس (نئے تمدن) سے ہم آہنگی اور سازگاری اسلام کی بہ نسبت کہیں زیادہ تھی اور اب بھی ہے، بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ عیسائیت ایک دین کے عنوان سے اپنے کو ان تغیرات کے ساتھ جو اس تمدن کے ترقی کرنے سے پیدا ہوئے اور نئی نئی ضرورتیں علمی، سماجیاتی،سیاسی اور ثقافتی حتیٰ اخلاقی ا ور تربیتی مختلف میدان میں پیدا کردی تھیں وہ اپنے آپ ایک طرح سے تمدن نو سے مطابقت کرسکتی تھیں اور یہ مطابقت پہلے درجہ میں خود اس دین کی ذاتی خصوصیات کی مرہون منت تھی۔(٣٩)عیسائیت کو اس کے مرکزی نقطہ سے تعبیر کیا جاتا تھا یعنی حضرت عیسیٰ  ـ اور کتاب انجیل کے پیغام اور دستورات اور عہد عتیق سے بھی تعبیر کیا جاتا تھا، جو بعد میں عیسائیت کے ایک جز کے عنوان سے قانونی طور پر پہچانا جانے لگا،اور اس کے کچھ ضمنی حصے جو کلیسا کے پادری (روحانی) اور اہل کلیسا کے ذریعہ تدوین کئے گئے تھے، اس میں اضافہ کردیا گیا تھا تاکہ عیسائیت کو ایک ایسے جامع وکامل دین میں تبدیلی کر دے جو کہ قرون وسطیٰ میں مؤمنین، تمام مادی، معنوی و ذاتی اور معاشرتی امور پر مشتمل تھی۔

قرون وسطیٰ میں یورپ پر عیسائیت اسی طرح حاکم تھی جس طرح اسلام اس دور کے مسلمانوں پر حاکم تھا۔ یہ دونوں دین یکساں طور پر اپنے ماننے والوں کی تمام مختلف جہات سے فردی اور اجتماعی زندگی میں ضرورتیں پورا کرتے اورفعالانہ طور پر حاضر رہتے تھے، اس فرق (تفاوت) کے ساتھ کہ اسلام کی تمامیت ذات خود اسی سے وجود میں آئی تھی، یعنی قرآن و سنت سے پیدا ہوئی تھی اور صرف اس زمانہ کی عیسائیت کی حقیقت بعض ابتدائی کے ایک حصہ کی طرف پلٹتی تھی۔ حقیقت میں یہ کلیسا کے پادری ا ور معنوی روحانیوں (پادریوں) اور کلیسا والوں کا اجماع ہی تھا جو عیسائیت کے خلاء اور کم و کاست کی تلافی کیا کرتا تھا تاکہ ایک جامع اور کامل دین میں تبدیل ہوجائے۔

یہ فطری بات ہے کہ یہ دونوں دین اس دباؤ کے مقابلہ میں جو ان کے مقابلہ کے لئے اٹھتا تھا ان کے عقب نشینی اور اس کی واپسی کا خواستگار تھا، دو مختلف کیفیتوں کا عکس العمل ظاہر کریں، ایک جگہ پر خود یہی دین تھا جو اس کے اصول و قوانین اور بنیادوں اور اس کے حدود اربعہ کو بیان اور معین کرتا تھا اور دوسری جگہ پر اس (دینی) مجموعہ کے کچھ حصے شارع مقدس کے ذریعہ نہیں بلکہ بعض دوسروں کے ذریعہ 
اگرچہ وہ لوگ بھی مقدس اور معتبر تھے مگر وہ لوگ ہرگز شارع مقدس کے ہم پلہ اہمیت حاصل نہیں کرسکتے تھے، ان کے ذریعہ اس دینی مجموعہ کی توضیح اور تعیین کی جاتی تھی۔اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی رائے کا اعتبار اور ان کا حجت ہونا بھی جن کو خود دین سے حاصل کر نا چاہئیے نہ کہ مومنین کے اجماع اور اتفاق سے ۔ یہ اہل کلیسا کا اتفاق اور اجماع تھا جس نے قدیسین اور کلیسا کے روحانیوں اور پادریوں کو اس مقام و منزلت پر لاکر کھڑا کردیا تھا کہ ان کے نظریات اور آرا کو دین کے برا بر اور قانون کا درجہ دیکر اس کا ایک حصہ سمجھ لیا جا ئے ۔

عملی طور پر بھی یہ دونوں (دین) جدید تمدن کے مقابلہ میں حقیقی طور پر اس کے رقیب بلکہ اس کے مخالف محسوب ہوتے تھے، دو طرح سے رد عمل کا اظہار کیا۔ عیسائیت نے ایک طویل عرصہ تک اس کا مقابلہ کیا مگر یہ مقابلہ فطری طور پر تاریخی بہاؤ کے رخ کا مخالف تھا اور اس کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں تھا آخر کار یہ استقامت اور مقابلہ شکست کھا گیا۔اس مقابلہ کے دوام نہ پانے اور اس کے بکھرجانے کے بہت سے وجوہات ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک و شبھہ نہیں کہ اس کی اہم ترین نقصان اور ضرر قبول کرنے والی خصوصیت خود اسی سے متعلق ہوتی تھی۔ اسی خصوصیت نے لوٹر اور کالون اور دوسرے تمام پروٹسٹا نیزم (Protestant) کے بانیوں کی پرورش کی اور ان کو میدان میں لے آئی۔ وہ لوگ جنھوں نے دوسری تعبیر کی وہ تمام سختیوں اور موانع کے باوجود نفوذ کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

کیا اس کے علاوہ کچھ اور ہے کہ جو لوگ خالص اور حقیقی ابتدائی عیسائیت کی طرف رجوع کرنے کے مدعی تھے، وہ لوگ عیسائیت کو ہر اس چیز سے سنوارنے کی فکر میں لگ گئے جس کا آہستہ آہستہ کلیسااور اہل کلیسا کے ذریعہ بڑھاوا دیا گیاتھا۔ انہوں نے اس فکر و خیال کے ساتھ میدان میں قدم رکھا اور ایسی فکر کو آگے بڑھانے کے لئے حالات بھی مناسب اور سازگار تھے۔ لہٰذا بڑی تیزی کے ساتھ یہ نظریہ پھیلا اور تمام رکاوٹوں کو بالکل صفح ھستی سے ختم کر دیا۔ ایسا حادثہ کسی اسلامی مملکت میں وجود میں نہیں آسکتا تھا جو بعد میں اپنے آپ کو وسعت دے۔

اگرچہ اسلام میں بہت سے ایسے لوگ تھے جو اس آخری صدی کے دوران عیسائی (Protastant) مذہب کی پروٹسٹان شاخ کی پیروی کرتے ہوئے اٹھے یا اس کی طرف توجہ دئیے بغیر،کم و بیش ایسے مقاصد کی پیروی کرتے تھے۔ لیکن یا یہ لوگ شروع ہی سے شکست کھا گئے اور یا یہ کہ نتیجةً اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔(٤٠)جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اس کا اصلی سبب یہ تھا کہ یہ دو دین دو مختلف ماہیت اور حقیقت کے حامل ہیں۔  مذہبی اصلاح کے معنی یہ ہیں کہ بعض مذہبی اعتقادات کو ترک کردیا جائے اور بلکہ عیسائیت کے معیار پر عیسائیت میںیہ اتفاق رونما ہو سکتا ہے اور اسلام میں اس اتفاق کے رونما ہونے کا امکان بھی نہیں پایا جاتا تھا۔ ایک عیسائی ہو سکتا ہے کہ معتقد اور مومن بھی ہو وہ اور اضافات کو اس اعتبارسے کہ یہ اضافات شارع واقعی سے متعلق نہیں ہے لہٰذا اس کو ایک کونے میں ڈال دے (یہ اصل شریعت عیسیٰ میں نہیں ہے) یہ چیز اس کے ایمان و اخلاص کے مخالف اور منافی نہیں تھی لیکن ایک مومن اور معتقد مسلمان ایسا ہرگز 
نہیں کرسکتا۔ کیونکہ جس چیز پر وہ ایمان و عقیدہ رکھتا اور اس پر پابند تھا وہ تمام چیزیں اسلام کی طرف سے تھیں نہ یہ کہ وہ علمائے اسلام کی طرف سے آئیں کہ جن پر انہوںنے اتفاق کرلیا تھا۔

البتہ اسلام میں بھی دوسرے آئین مذاہب اور مکتب فکر کی طرح پوری تاریخ میں خود ساختہ بہت زیادہ اضافے پائے جاتے تھے اور اس کے بہت سے قواعد اور قوانین اور مفاہیم جس کو خود اسلام نے بیان کیا تھا، اس کے خلاف بہت سی رنگ برنگ تفسیریں دیکھنے کو ملتی اور رائج تھیں۔بہت سے لوگوں نے قیام کیا تاکہ ان اضافات کو آہستہ آہستہ ختم کردیں ان غیر صحیح تفسیروں کی اصلاح کریں اور اس کو حقیقت کے مطابق پہچنوائیں۔ لیکن یہ اصلاحات ان اصلاحات کے بر خلاف ہیں جو عیسائیت یا دوسرے ادیان میں پائی جاتی ہیں اور جدید تمدن اور تاریخ کی درخواست کے عین مطابق قرار پائی ہیں۔ یہ تمدن اس سے زیادہ کہ ان ادیان میں اصلاح اور اس کے بنانے اور سنوارنے کا ان کے آخری معنی میں طلبگار ہو، (ادیان) کی تقسیم اور ٹکڑے ٹکڑے کر دینے اور ان کی عقب نشینی اور ان کو پیچھے ڈال دینے کے خواہاں تھے۔ تمدن نو چاہتا تھا کہ دین اپنے تمام معاشرتی مسائل کو یکسر پس پشت ڈال دے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کردے۔ اس (تمدن جدید) کا مقصد یہ تھا عیسائیت اور دوسرے ادیان بھی ان کو تعمیری اور مثبت جواب دے سکتے تھے۔ لیکن اسلام سے یہ ممکن ہی نہ تھا۔ اور اصلاح طلب مسلمان جو اپنے ایسے اہداف تک پہنچنے کے لئے وہ اپنے خیال خام میں اصلاح کے لئے سبقت کی یا اصلاح کے لئے اقدام کیا تھا ،جلدی یا کچھ دیر میں اسے شکست اٹھانی پڑی۔ اصالت پسندی کی موجودہ تحریک اصلاح طلبی کی تحریکوں اور ان کے افکار، خود یہ ان کی شکست پر بہترین دلیل ہیں اصلاح طلبی کی تحریکیں ہی ہیں جو ایسے افکار اور اہداف کی مالک ہیں،ان کی شکست سیاسی دلائل سے زیادہ اعتقادی دلیلوں کی حامل تھی یعنی ان کی شکست کا واحد سبب مذہبی اور اعتقادی معیار تھے۔ (٤١)

البتہ اسلام اور عیسائیت کا تفاوت اور ان دونوں کا جدید تمدن سے مقابلہ، صرف اسی نکتہ پر ختم نہیں ہوتا ہے عیسائیت ”لوٹر پذیر” ہے اور اسلام ”لوٹر پذیر” نہیں ہے یا عیسائیت کے پروٹسٹان کے ایسا گروہ عیسائیت میں تغیر اور انقلاب پیدا کرکے کامیاب ہوسکتا ہے لیکن اسلام میں ایسا بدلاؤ ہرگز پیدا نہیں ہوسکتا۔ عیسائیت کی اصلی شاخ اور حقیقت پسند جدید تمدن اسلام کے برتاؤ کے مقابلہ میں مخالف ٹکراؤ کا حامل ہے یہ بھی ان دونوں کی حقیقت اور اس کے اندرونی ڈھانچہ کی طرف پلٹتا ہے۔ اور یہ اسلام کا جامع اور کامل ہونا اور اس کے دستورات اور احکام کے کامل نفاذاور یہ کہ اخروی کامیابی حتی ہم مسلمانوں پر زور دیا گیا ہے کہ دنیاوی عزت بھی ایسے کامل دستاویز پر کی مرہون منت ہے، دوسرے ادیان کے بر خلاف یا کم از کم ان کی موجودہ تفسیر کے خلاف، یہ بات بڑھتے ہوئے او رنئی تاریخ کو ذلیل و خوار کردینے والے دباؤ کے مقابل اس دین کی اصالت کا محافظ ہے۔

جانسن) (Johnston نے اس بات کی دوسر ے زاویہ نگاہ سے اس طرح توضیح دی ہے: ”آج اسلام اور مغربی دنیا باہم ایک دوسرے کے خلاف صف آرائی کئے ہوئے ہیں اس طرح کہ وہ لوگ مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح سے کہ کسی بھی بڑے دین میں ایسی صف آرائی نہیں ہوئی ہے نہ عیسائیت میںکہ وہ خود مغربی دنیا کا ایک حصہ ہے اور جدت پسندی کے ذریعہ وہ اسی میںضم ہو گیا ہے،       ہندوایزم کو اور بودھ ایزم کے طریقہ پر تحلیل و تجزیہ نہیں کیا ہے کیوں کہ ان کی گہرائی میں صرف روحانیت پائی جاتی ہے اور روح کی نجات و فلاح کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے اور نہ ہی یہودیت کہ ایک بہت چھوٹا سا آئین و مذہب اور ایک قوم و ملت میں محدود ہے۔ اور ان ادیان کے مذہبی رہنماؤں میں سے کسی رہنما کا وہ اثر نہیں ہے جتنا کسی خلیفہ، مہدی اور آیت ا…کا اثر مغربی دنیا پر ہے اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام نے ڈیڑھ ہزار سال کے عرصہ میں مغرب کے ساتھ نظامی (فوجی) مقابلہ بنائے رکھا اور دور حاضر حالت میں بھی وہی جنگی صورت حال اور ٹکراؤ کا سلسلہ باقی ہے۔”(٤٢)

اگرچہ اس کی تحقیق اور چھان بین اور اس کی تفسیر اسلام اور مغرب کے مسلحانہ اور سیاسی ٹکراؤ پر ناظر ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ یہ ٹکراؤ اسلام کی دینی حیثیت سے ہے جو اپنے حقائق اور اصالت پر زوردیتا ہے اس جدید تمدن کے مقابلہ میں جو درمیانی رویہ اختیار کرنے کا خواہاں، بلکہ اس کے پیچھے ہٹنے کا خواہاں ہے۔

دو با رہ پلٹنا

لہٰذا اس دین کی ذاتی خصوصیات کی طرف توجہ کرتے ہوئے، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اس دین نے ایک مدت کے لئے اس جدید تاریخی میدان کو ترک کردیا، (اور گوشہ نشینی اختیار کرلی) مگر ایسا نہیں ہے کہ آج کل متحرک اور فعالانہ طور پر میدان میں قدم رکھ دیا ہے؟ جو کچھ آج ہم دیکھتے ہیں، یہ اس کے اندرونی خصوصیات کے ساتھ با ہمی توافق اور آپسی سازگاری ہے اور اس سے پہلے جن چیزوں کو دیکھتے تھے، وہ ایک عارضی اور ناپائیدارحادثہ تھا۔خصوصاًیہ کہ کوئی بھی دین اس دین کے برابر اس طرح سے کہ ہر طرف سے معاشرہ اور تاریخ میں اس قدر عمیق رسائی نہیں رکھتا ہے اور اپنا اثر نہیں ڈالتا ہے اور اس حد تک کہ اپنے پیروؤں کو اپنے مقصد کے حصول کے لئے اکٹھا کرنے اور اپنے مقاصد کو وجود بخش نے پر قادر نہیں ہے۔  جیسا کہ اس کا خاصہ مغرب سے پیکار اور بلکہ اپنے غیر سے آمادہ پیکار رہنا دین اسلام میں دوسرے ادیان سے زیادہ عمیق اور قاطع ہے۔(٤٣)

حقیقت میںموجودہ اسلامی تحریک جدید تمدن کے پوری دنیا پر چھاجانے کے مقابلہ میں اس دین کی استقامت کا ایک نمونہ ہے۔ اس کا اصلی مقصد یہ ہے کہ اس کو اسلامی دنیا میں چھاجانے سے روکنا ہے جو خود اس سے متعلق ہے اور یہ ایک فطری امر ہے۔ ایسے جریان کا فقدان غیر فطری امر اور سوال طلب ہے؟، نہ یہ کہ اس کا وجود سوال طلب ہو اگر دوسرے ادیان اور ثقافتیں ایسی تحریک کی حامل نہیں تھیں، یا کم از کم اگر ایسی ہوں بھی تو وہ اتنی گہرائی اور شدت کی حامل نہیں تھیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ذاتی طور پر جدید تمدن کے دنیا پر چھاجانے کے مخالف نہیں تھے۔ یا پھر یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ اپنی حکومت اورسرزمین کے واسطے ایسے مقدسات اور معیار جو اس کو واجب اور لازم جانیں ان کے پاس نہیں ہیں اور یا اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ اس بات پر قادر تھے کہ اپنے معیار کو ان کے معیاروں اور مقدسات کو تمدن جدید اور اہم موجودہ نظام کے ساتھ ہماہنگ اور موافق بناسکیں۔(٤٤)

البتہ، اس بات کا اضافہ کرناچاہیے کہ اسلامی معاشرہ میں اس آخری صدی میں رونما ہونے والے انقلابات اس طرح تھے کہ اس استقامت اور ٹکراؤ کے لئے ضروری مادی طاقت کو فراہم کرلیا ہے۔ اس زمانہ کے حوادث اور واقعات اور پے در پے مسلمانوں کو جدید تمدن کے ذریعہ دھچکے لگے ہیں،اس سے ان کے افکار، اعتقاد ات اور ان کی شخصیت کی کچھ اس طرح پرورش کی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اتنی بڑی اور عظیم تحریک کی خدمت کے لئے آمادہ کرلیں۔

اس بات کا پتہ لگانے کے لئے اس کا بہترین نمونہ اس آخری دوران میں اسلامی فکر کی تحقیق اور اس کی چھان بین ہے جس سے مسلمان ابتدائی دہائیوں میں اسلام اور جدید تمدن کے مقابلہ اس طرح مرعوب ہوگئے تھے کہ وہ اپنے دین کے دفاع کے سلسلہ میں اس کے سوا کہ اسلام کو تمدن نو کے برابر ثابت کریں کچھ اور سوچ ہی نہیں رہے تھے وہ لوگ معذرت خواہی کے جواب کے ذریعہ اپنے زعم ناقص میں اس شباہت اور برابری کو ثابت کر نا چاہتے تھے ۔ بعد میں آنے والی نسل خود اپنے او پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے اعتقادات کو زیادہ سے زیادہ بیان کرنے میں لگ گئی۔ اس نسل کا ہدف اپنے اسلاف کی طرح اسلام کو جدید تمدن کے معیار کے مطابق اس کے مانند اور برابر ثابت کرنا نہیں تھا۔ بلکہ نسل جدید کا مقصد (ہدف) یہ تھا کہ ان کو اس کی مستقل طور پر توضیح دیں۔ آج کل کی نسل کا علم وفہم اور بیان قاعدةً (اصولی طور پر) دوسری طرح اور جداگانہ ہے اور وہ اپنے دین کی پورے طور پر حاکمیت اورچاہتوں کی تکمیل کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے اور یہ نسل اس سے کم پر قانع اور مطمئن ہونے والی نہیں ہے، اس نسل کی نظر میں صرف اسلام ہی حق وباطل کا معیار ہے اور یہ دوسرے (تمدن) ہیں جن کا مقایسہ اسلامی معیار پر کیا جائے نہ یہ کہ اسلام کا قیاس دوسروں سے (یعنی اسلام کا قیاس دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کے ساتھ نہ کیا جائے چونکہ اس سے ان کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔)(٤٥)

یہ تغیر اور تبدیلی خود اس بات کی حکایت کرتی ہے کہ مسلمانوں میں دینی رجحانات کی شناخت اور ذہنی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے خصوصاً جوانوں اور مسلم طلبا(Muslim Students) کی فکر میں انقلاب آیا ہے اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام تغیرات اور تبدیلیاں ایک ساتھ تمام اسلامی ممالک میں فکری اور اعتقادی انقلاب کا آجانا بلکہ اسلامی ممالک میں معاشرتی، اقتصادی اور معیشتی ، معاشرتی اور سیاسی تغیرات کے ساتھ ساتھ یہ بدلاؤ پیدا ہوگئے ہیں۔ لہٰذا بڑھ بڑھ کر ایک دوسرے کو قوی اور مضبوط بنانے میں حصہ لیا۔ یہاں تک کہ  ٧٠ ء کی دہائی کے آخر میں اوج کی آخری منزل تک پہونچ گیا اور لوگوں میں نئے حالات ا ورحوادث کو وجود بخشا جس کا سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ یہ تحریک (اس دور جدید کی) سیاسی،( دینی اورمعاشرتی) اور دور جدید کی ثقافتی نشانی اور علامت ہے کہ اس (تحریک) نے دنیا کے تمام غیر صنعتی ممالک بجز جنوبی امریکہ کے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ عموماً دور جدید اپنے پہلے والے دورہ کا نتیجہ ہے۔ یعنی ایک ایسا دور جو اپنے زرق وبرق و قدرت اور جدید تمدن کی تکنیک (Technology) نے یوروپ کے علاوہ دوسرے علاقوں کے تمدنوں کو اپنے رعب و داب اور دھمکی میںلیکر، وحشت پھیلائی اور دوسرے تمدنوں کو پردہ ٔ خفا میںڈال دیا ۔(یعنی دوسرے تمدن بے اہمیت ہوگئے تھے۔)

اور خود نے چومکھا غلبہ کرکے اس پر اپنا قبضہ جمالیا۔ نئی حالت جو نئے تمدن کے غلبہ کے ہمراہ تھا، یہ زیادہ تر عارضی اور ناپائدار تھا یہاں تک کہ فطری طور پر اس ناپائیداری میں استحکام بنا رہا اس طرح، لحاظ کیا جاتا تھا کہ بغیر کسی سبب اور علت کے قدیمی میراث کو فراموشی کے سپرد کردیا تھا اور اس قدیم تہذیب و تمدن کی اولاد اور اس کے وارثوں کو بھی سکوت وخاموشی پر مجبور کردیا تھا۔

یہ فراموشی جو اکثر ذلت و رسوائی کے ہمراہ تھی، ایک طولانی مدت تک باقی نہیں رہ سکتی تھی۔ لیکن اس زمانہ کو ختم ہونے کے لئے بھی اس بات کی ضرورت تھی کہ مقدمات کو فراہم کیا جائے۔ کچھ مقدمات اور حالات آخری صدی میں پیدا ہو گئے، آخری دو تین دہائیوں میں اپنے مقام و منزلت اور بلندی کو پالیا اور تیسری دنیا کو تاریخ کے ایک نئے دور میں لاکر کھڑا کردیا۔ اس نئے تاریخی دور نے دنیائے اسلام کو بھی شد ت اور زیادہ گہرائی کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ نیا دور کن اسباب و عوامل اور طاقتوں کے زیر اثر ہے اور اس کے اچھے اور برے پہلو کیا ہیں؟ اور وہ اپنی پائیداری اور خلاقیت اور سربلندی کی کس حد تک حفاظت کرسکتا ہے ؟ یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے کہ اگر جدید دور کی حقیقت طلبی کا عقیدہ اور نظریہ کہ یہ دور خود کسی نہ کسی طریقہ سے اس دور کی مخلوق ہے، تیسری دنیا خصوصاً اسلامی دنیا کی مختلف ضرورتوں کا جواب دہ ہو، ایک طرح سے اصالت اور تجدد پسندی اور اس کی طرف میلان اور تبدیلی کی خواہش، اگر ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے پر فدا نہ ہوں تو ایسی صورت میں اطمینان کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نظری اعتقاد (Idiology) میدا ن کارزار میں کامیاب ہوجائے گا۔ اصالت سے وابستگی آج کی بہت زیادہ اور مختلف ضرورتوں کو نظر انداز کرکے اس پرشتاب اور آئے دن تبدیلی کی شاہد دنیا، تنہا اس کامیابی کی ضامن نہیں ہوسکتی (یعنی کامیابی نصیب نہ ہوسکے گی) اور یہ بات ہمارے زمانے میں یعنی ٨٠ء کی دہائی اور اس کے بعد آنے والی دہائی میں گذشتہ تاریخ کے تمام زمانوں سے زیادہ صحیح ہے۔ اس کی طرف توجہ دینا نہ صرف یہ کہ اس معرکہ میں حقیقت طلبی جس کی بنیاد ڈالی جاچکی ہے نظری اعتقاد کی کامیابی کی ضامن ہے بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جدید دور کی پائیداری اور اس کا ہمیشہ باقی رہنا کامیابی اور کامرانی بھی اسی کی مرہون منت ہے۔ اس نظری عقائد (Idiology) کی شکست اور اس دور جدید کی ضروریات واحتیاجات کے پورا کرنے کی توانائی نہ رکھنا، تقریباً اس دور کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائے گی۔(٤٦)

اس مقام پر بہتر یہ ہے کہ کتاب کے آئندہ حصہ میں جس حصہ کے بارے میں بحث کی جائے گی اس کی طرف اشارہ کریں۔ شیعہ حضرات اور اہل سنت کی سیاسی فکر کی تحقیق اور اس کی چھان بین کے لئے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اصولاً( قاعدتاً)ان دو مذہبوں کی حقیقت کیا ہے اور ان دونوں کے خصوصیات اور اختلافات کیا ہیں؟ 
عقید تی اختلا فات کی جڑیں (بنیادیں)

اس موقع پر بنیادی مشکل یہ ہے کہ ان دو مذہبوں کے تفاوت اور اختلاف کا مرکز صرف حضرت علیـ کی خلافت کو بنایا جاتا ہے۔ مسئلہ اور مشکل یہ نہیں ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب   پیغمبر اکرمۖ کے بلا فصل وصی ہیں یا کہ چوتھے خلیفہ۔ ان دونوں کے اختلاف کا خلاصہ اسی مقام پر نہیں ہوتا ہے۔

بنیادی طور پر بحث کا مرکز ذات اورشخصیت نہیں ہے اور یہ کہ وہ کون ہے۔ بحث کا مرکز شان اور اس کا مقام و منزلت ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ (شان) مقام و منزلت کیا ہیں؟ اور کون شخص اور کون کون اشخاص اس شان و شوکت اور مقام کے حامل ہیں؟دوسرے لفظوں میں یہ کہ بحث مصادیق سے زیادہ مفاہیم پر مبنی ہے۔ شروع میں بحث اس بارے میں ہے کہ امامت کا مفہوم کیا ہے؟نہ یہ کہ امام کون ہے؟ اگر اس مسئلہ پر ایک تاریخی مسئلہ کی حیثیت سے نظر کریں تو یہ ایک (بہت بڑی) غلطی محسوب ہوگی اور حقیقت یہ ہے کہ یہ مفہوم(امامت) اہل سنت وتشیع کے تمام مختلف زاویہ نگاہ اور دینی افکار کے حدود اربعہ کو متاثر کرتا ہے۔

اس سے زیادہ صراحت کے ساتھ کہا جائے۔ شیعوں کا اعتقادی، فقہی اورکلامی ڈھانچہ اور اس کے  بعد، تاریخی تجربہ، اہل سنت وتشیع کا نفسیاتی اور معاشرتی ڈھانچہ اور اہل سنت دو طرح کے مختلف اسباب سے متاثر ہوکر وجود میں آئے اور پروان چڑھے۔ اس اختلاف (تفاوت) کا اصلی سبب یہ ہے کہ اہل سنت اسلام کو (ماورائے اسلام) خلفائے راشدین وصحابہ اورتابعین کے زمانے میں اسلام کے وجود کے بارے میں صوری خیال کرتے ہیں اور پھر اسلام کو اسی زاویۂ نظر سے دیکھ کر اس کی تفسیر کرتے ہیں۔ لیکن شیعہ حضرات اس کو جانشینی کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم  ۖ کی تاکیداور سفارش اور فرمان کے مطابق اسلام کے بارے میں فکر کرتے ہیں۔ ایک (فرقہ) اسلام کو صدر اسلام کی تاریخ کے اعتبار سے دیکھتا ہے اور دوسرا (فرقہ) صدر اول کی تاریخ کو اسلامی معیاروں اور قواعد و ضوابط کے اعتبار سے جائزہ لیتاہے۔ ایک جگہ دین کو صدر اسلام کی تاریخ کے اعتبار سے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے اور دوسری جگہ تاریخ کو دین سے ہٹ کر پرکھا جاتا ہے۔یہ دو نوں کاملاً، مختلف زاویہ نگاہ کے حامل ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ وسنی کے اصلی اختلافات اور ان دونوں کے اہم امتیازات اور شناخت دو کلامی اورفقہی مکتب کے اعتبار سے یہ اختلافات وجود میں آئے ہیں۔(٤٧)

جس وقت صدر اسلام کی تاریخ، خصوصیت کے ساتھ خلفائے راشدین کے زمانہ کی اہمیت و  عظمت و منزلت خود اسلام کے ہم پلہ

ہوجائے، تو یقینا یہ اسلام دوسرے گروہ کے اسلام سے مختلف ہوگا جو گروہ نہ فقط اس تاریخ کی اہمیت ومنزلت کامعتقد نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت کا قائل ہی نہیں ہے، بلکہ اس کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ مسئلہ اس سے بھی زیادہ سنجیدگی کا حامل ہے کہ پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں کا اختلاف، اسلام کو سمجھنے میں دو مختلف معیار کی بنا پر ہے ۔

ایک جگہ امامت و خلافت وامام وخلیفہ کو ایک زاویہ سے سمجھا جاتا ہیاور دوسرے مقام پر (گروہ میں) دوسری طرح سے درک کیا جاتاہے۔ دوسری طرف شان وخصوصیات پیغمبر کی قدر و منزلت اور بعد میں آنے والے خلیفہ (امام) کی خصوصیات کو گھٹاکر برابر کردیا جاتا ہے اور دوسری جگہ پر امام کی خصوصیات اور اس کے مقام و منزلت کو پیغمبر اکرم  ۖ تک بڑھا دیا جاتا ہے(البتہ یہ فطری بات ہے کہ وحی اور نبوت کے علاوہ) ان دو نظریات کے پیش نظر بہت سے مسائل وجود میں آتے ہیں کہ جن کا ظہور میں عموماً سیاسی افکار  ہی میں ہوتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ ان دونوں فرقوں کے سیاسی افکار اسلام کے بارے میں تمام دوسری بحثوں سے زیادہ ان کے فہم و ادراک اور مختلف زاویہ نگاہ سے متاثر ہو نے کی وجہ سے ہے۔

یہاں پر ایک بات یاد دلانا ضروری ہے کہ اس طرح کی بحثوں کے پیش کرنے سے غلط فہمی پیدا نہ ہوجائے مثال کے طور پر اگر ایسے اختلافات پائے جاتے ہیں پھر وحدت اسلامی کے کیا معانی ہوسکتے ہیں ؟ یا یہ کہ وحدت اصل ہے یعنی اساسی حیثیت کی حامل ہے۔ لہٰذا ان بحثوں کا یہاں پر چھیڑنا مناسب نہیں ہے۔اوّلاً ان تمام اختلافات کے باوجود ان دو فرقوں کے درمیان وسیع اور مسلم معیار جن میں شک و شبھہ نا ممکن ہے، ان کی برکت سے اور دوسرے عام اسلامی فرقوں سے بھی اس قدر مشترک بنیادی مسائل پائے جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر بیٹھ سکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ خود یہ دین یعنی اسلام نے اس طرح باہم ملنے جلنے اور آپس میں اتحاد کے بارے میں شرعی ذمہ داری کے عنوان سے اس کی بہت زیادہ تاکید کی اور حکم دیا ہے۔ لہٰذا اصولی طور پر یہ مطالب ہماری بحث سے جدا ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان دو مذاہب کی گذشتہ تاریخ کے صحیح اور تجزیاتی درک و فہم اور ان دونوں کی موجودہ حالت کی صحیح چھان بین کے لئے لازم ہے کہ ان دونوں کی بہ غور شناخت کی جائے اور ان کے مختلف اجزا و عوامل کو ان لوگوں کی سیاسی فکر کو وجود میں لانے اور اس کو بال و پر عطا کرنے کے بارے میں جائزہ لیا جائے۔ جو کچھ کہا جا چکا ہے اور بعد میں کہا جائے گاوہ اس امر سے متعلق ہوگا اور اس مقصد کے علاوہ اس کا کوئی اور مقصد نہیں ہوگا۔

حوالے :

(١)مثال کے طورپر اس مقام پر عیسائیت کے اقدامات کے بارے میں رجوع کریں: 
Vatican Counil 2nd The Conciliar and Post Conciliar Documents,PP.903-911.
(٢)اس سے زیادہ وضاحت کے لئے دیکھئے العقیدة و الشریعة فی الاسلام ص٢٥٠۔ ٢٦٠ اور البدعة: تحدیدہا و الموقف الاسلام منہا،نامی 
کتاب میں بھی رجوع کریں۔
(٣)اس سے زیادہ وضاحت کے لئے تیسری اور چوتھی فصل میں دیکھئے۔ 
(٤)برائے نمونہ، رجوع کریں۔
. Asaf Hussain,Islamic Movements in Egypt, Pakistan and Iran
(٥)اس بحث کے واضح ہونے کے لئے لازم ہے کہ معاشرہ اور تاریخ پر اسلام کی تاثیر کی کیفیت کو معاشرہ اور تاریخ پر معاشرتی اور تاریخی تغیرات کے پیدا ہونے میں اس کا کردار کیا ہے، ایک دین کی حیثیت سے دین اسلام کی دوسری خصوصیات کے بارے میں تحقیق کی جائے۔ اس بارے میں کتاب ایدئولوژی و انقلاب، نامی کتاب کے ص١١١۔ ١٤٩، و نیز الفکر السیاسی الشیعی، کے ص٣٧۔ ١١٥ اور العقیدة و الشریعة فی الاسلام کے ص١٣٣۔ ١٧٧ پر بھی رجوع کریں۔

(٦)شیعہ اور سنی کے نظریاتی اختلاف کی روشنی میں مؤثر اختلاف کو حاصل کرنے کے لئے اس طولانی مدت میں شیعہ اور سنی معاشرہ پر موجودہ زمانے کی پوری مدت میں کیا اثر ڈالا ہے اس کو معلوم کرنے کے لئے رجوع کریں۔Faith and Power PP.31-55.     الفکر السیاسی الشیعی نامی کتاب کے ص٣٧۔ ١٨٠، کتاب کے آخر میں بہترین اور قابل اعتنا مصادر (منابع) اس بارے میں پائے جاتے ہیں۔ 
(٧)بہترین مآ خذ میں سے ایک ماخذ جس پر توجہ کرکے بخوبی شیعہ و سنی کے دینی اور فکری، رجحانات کے ڈھانچہ میں فرق کوجانا جاسکتا ہے اور اسی طرح شیعہ حضرات اور اہل سنت کی عاطفی اور جذبات پر مبنی حساسیت کو بھی اور ان کے سوچنے کی کیفیت اور ان کی تاریخ پر نظر کو اور خصوصاً صدر اسلام کی تاریخ کو حاصل کیا جاسکتا ہے، کچھ ایسی کتابیں بھی ہیں (جن سے یہ چیز اچھی طرح معلوم ہوسکتی ہے) جو ان سنیوں نے لکھی ہیں جو سنی سے شیعہ ہوگئے ہیں ان کتابوں میں اس سے بحث کی گئی ہے۔ نمونہ کے طورپر آپ محاکمہ تاریخ آل محمدۖ مؤلفۂ قاضی بہجت آفندی، لماذا اخترت مذہب الشیعہمؤلفۂامین الانطاکی اور خصوصاً اس طرح کی آخری کتاب جس کو تونس کے روشن فکر سنی عالم جو بعد میں شیعہ ہوگئے، انہوں نے ثم اہتدیت کے عنوان پر لکھی ہے مؤلفۂ محمد تیجانی السماوی ۔ اسی طرح نظریة الامامة الشیعة الامامیةنامی کتاب کی طرف بھی رجوع کریں (مولف) احمد محمود صبحی، ص١٥۔ ٦٨
(٨)الشیعة والحاکمون، ص٢٦۔٢٧؛
(٩)الفکر السیاسی الشیعی، ص٦٤۔ ٦٥
(١٠)اس بات کو عبد الکریم الخطیب نے اپنی کتاب سد باب الاجتہاد و ما ترتب علیہ میں اچھی طرح توضیح دی ہے۔خصوصاً اس کے ص٣۔ ٨ 
پر رجوع کیجئے۔

(١١)حقیقت یہ ہے کہ علما اہل تشیع و تسنن اعتقادی، تاریخی، فکری اور معاشرتی اعتبار سے دو طرح کے حالات سے متاثر ہوکر وجود میں آئے ہیں اور ترقی حاصل کی ہے اور یہ بات خصوصاً آخری صدیوں میں اور خاص طورپر موجودہ زمانے میں زیادہ صحیح ہے۔ شیعہ مذہب میں علما اور روحانیت کو ایک مستقل حیثیت حاصل ہے۔ جیساکہ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ مشکل تنہا یہ نہیں ہے کہ یہ معاشرہ اور ادارہ اقتصادی اور تشکیلاتی طورپر مستقل اور کسی سے وابستہ نہیں ہے۔ زیادہ اہمیت کا حامل یہ ہے کہ یہ ادارہ عوام الناس اور حکومت دونوں کی طرف سے قانونی طورپر ایک مستقل حیثیت حامل ہے اور خود (علما) بھی اس بارے میں راسخ یقین رکھتے ہیں اور اسی طرح شیعہ معاشرہ کا بھی یہی عقیدہ ہے، یا کم از کم ایرانی معاشرہ، اس طرح ہے کہ وہ اس سے بے توجہی اور بے اعتنائی نہیں کرسکتا ہے۔

ایرانی معاشرہ کم از کم قاچاری نظام کے زمانہ کے بعد سے خصوصاً ان مواقع پر جو عوام سے متعلق ہیں اس طرح وجود میں آیا ہے  گویا وہ ہمیشہ اس ادارہ کی طرف رجوع کرنے کے لئے ضرورت مند اور محتاج ہے۔ اس حد تک کہ اس مقام پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس سے قبل کہ یہ ادارہ (علما) عوام الناس کا ضرورت مند ہو یہ عوام ہیں جو مختلف اسباب کی بناپر اس (ا تحاداور کمیٹی) کے محتاج رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر یہ کہا جائے کہ علما کا گروہ حقیقت میں ہمارے عوام کی مادی، دینی، نفسیاتی اور روحی مشکلات کو برطرف کر نے والا ہے تو کوئی مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ یہی سبب ہے کہ بہت سی اندرونی اور بیرونی مشکلات کے باوجود اب تک یہ چیز باقی ہے۔ یہ صنف کم سے کم گذشتہ دو تین صدیوں کے درمیان لوگوں کی قلبی (عاطفی) اور اخلاقی بہت بڑی تکیہ گاہ رہی ہے۔ وہ لوگ (عوام الناس) نہ صرف یہ کہ اس کے خواہش مند تھے کہ وہ اپنی ذاتی اور فردی زندگی کی مشکلات میں ان (علما) کی طرف رجوع کر یں اور اپنی مشکلات اور مصیبتوں کو حل کرنے کے لئے ان سے امداد کی درخواست کرتے تھے۔

ان باتوں (نکات) کا کامل جائزہ میں طوالت کا باعث ہے۔ لیکن اس مقام پر مسئلہ شیعوں کی روحانیت اور مرجعیت کی طرف پلٹتا ہے، ایسا ہی ہے۔ لیکن ان اسباب اور تجربیات میں سے کوئی بھی  مسئلہ اہل سنت کے درمیان نہیں پایا جاتا ہے اور شاید اس کا وجود میں آنا ممکن بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے اعتقادی معیار جدا اور ان کا فردی، معاشرتی اور تاریخی تجربہ اور ہے۔ ان کے نزدیک ایک عالم کی حیثیت اسلامی اور فقہی مسائل کے ماہر سے زیادہ نہیں ہے جس طرح معاشرہ میں مختلف مشغلے اور پیشے پائے جاتے ہیں اور ہر ایک شخص کسی نہ کسی چیز میں مشغول ہے، علما بھی امامت جمعہ و جماعت اور دینی و فقہی مسائل کے مطالعہ میں مشغول ہیں اور ان مواقع پر ان کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

افسوس کا مقام ہے کہ آخری زمانہ کے بدلاؤ اور تعلیمی نظام کی اصلاح نے ان لوگوں کو زیادہ قانونی، سرکاری اورمغرب پرست  بنادیا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ لوگ عوام الناس سے بہت دور ہوگئے ہیں۔ شیخ کشک مشہور ترین اور عربی عوام کا محبوب ترین خطیب نے اپنے ایک خطبہ کے ضمن میں ١٩اپریل ١٩٨١ئ کو علمائے ”ازہر” اور تمام علمائے دین کو خطاب کرتے ہوئے اس طرح بیان کیا (للکارا) ١٩٦١ئ میں ”اصلاح” کے نام سے ایک ضربہ ”جامعۂ الازہر” کو پہنچایا گیا کہ جس نے واقعاً اس (جامعہ ازہر) کو نابود کردیا۔ اے جامعہ ازہر والو! مجھے بتاؤ کہ جب تم اپنی سند کو لیتے ہو تو قرآن کا کون سا حصہ حفظ کرتے ہو اور کتنے سوروں کو ازبر (زبانی) پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہو؟ آج کل ”ازہر” سے فارغ التحصیل ہوکر لوگ جب نکلتے ہیں تو وہ قرآن کو دیکھ کر بھی صحیح طریقہ سے نہیں پڑھ سکتے۔ ”جامعہ ازہر” نے اتنا سخت ضربہ کھایا ہے یہ کب سے یہ طے پایا گیاہے کہ جامعہ ازہر سے شیخ یعنی وائس چانسلر کو فلسفہ کا ماہر ہونا ضروری ہے( ایک وائس چانسلر (شیخ) نے جرمن سے ڈاکڑیٹ (پی.ایچ.ڈی کی) ڈگری حاصل کی تھی) اس سے پہلے والے شیخ نے فرانس سے فلسفہ میں (پی.ایچ.ڈی) کی ڈگری حاصل کی تھی۔ آیا مسلمان حضرات اس قدر عقیم اور بے صلاحیت ہیں کہ وہ پی. ایچ. ڈی. کی ڈگری لینے کے لئے فرانس جائیں؟ مجھے نہیں معلوم کہ بعد میں آنے والا شیخ کون ہوگا۔ شاید ایک فوجی اعلیٰ کمان کا افسر (جرنل) جامعہ ازہر پر قبضہ جمالے کوئی کیا جانے؟ لیکن بہرحال اصلاح کے زمانے سے، اسلام کے رہبر نے اس کی ہر طرح کی رہبری اور ہدایت کو چھوڑ دیا ہے۔” اور بعد میں اس طرح اضافہ کرتا ہے: ”نئے مفکروں کا اس زمانے میں نئے طریقہ کے مطابق بغیر استاد یا شیخ کے علم حاصل کیا جاتا ہے۔ وہ براہ راست کتابوں میں رجوع کرتے ہیں لیکن کچھ بھی ان کے پَلّے نہیں پڑتا ،یعنی کچھ بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ ان دنوں ایک ستر سالہ مؤمن واعظ کی جگہ ایک نوبالغ لڑکا لے لیتا ہے ابن تیمیہ اور ابن عبد الوہاب کے چند کلمے اور کچھ صفحات پڑھ کر آیا محافظ ایمان ہوسکتا ہے۔ کتنی مضحکہ خیز نمائش! اے شیخ ازہر اور وہ تمام لوگو! جو خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہو اور اسلام کو تم نے چوپایوں کے چرنے کی جگہ (چراگاہوں) میں تبدیل کردیا ہے کہ جس کاجو بھی جی چاہے اس میں چرنے لگے۔” پیامبر و فرعون، ص٢١٩۔ ٢٢٢۔

ان تنقیدوں اور دوسری تنقیدیں جو کہ کی گئی ہیں اور کی جارہی ہیں اس کے باوجود یہ کہنا چاہئے کہ جو ناخواستہ طورپر ان معاشروں میں، سیاسی فعال زندگی سے دوری اختیار کرلی ہے اور یہ بہت زیادہ مشکلات خاص طور سے سنیوں کے مذہبی معاشرہ میں پیدا کردی گئی ہیں۔ ان (اہل سنت) کے معاشروں میں اسلامی تحریکوں کے منحرف ہوجانے کا اصلی سبب انھیں واقعات اور حادثات کی طرف پلٹتا ہے۔ البتہ اس کی تاکید کرنی چاہئے کہ یہ فاصلہ کا ہوجانا ان کی گذشتہ موقعیت کا فطری اور قہری نتیجہ ہے، یہاں تک کہ آگاہانہ ارادہ اور کبھی کبھی ان کا غیر ذمہ دارانہ اقدام سبب بنا ہے، اسلامی تحریکیں منحرف ہوگئی ہے۔ یہ ان کا مسئلہ آج کا مسئلہ نہیں ہے بل کہ ان کی تاریخ کا مسئلہ ہے اور نہ ہی موجودہ آخری صدی کے حالات کا مسئلہ ہے جو تاریخ کی گہرائیوں میں اپنی جڑیں پھیلائے ہوئے ہے۔

یہ بات قابل ملاحظہ ہے کہ رشید رضا کے ایسا شیعہ مخالف انسان جو شیعوں سے پکی دشمنی رکھتا ہے علمائے شیعہ کی مؤثر فعالیت اور ان کے اساسی کردار اور ان کے اسلامی معاشرہ کی حفاظت کی کوشش کی صریحی طور پر قدردانی کرتا ہے حتیٰ کہ اپنے مذہب کے علما کو بھی تاکید کرتا ہے کہ ان (شیعہ علما) کی طرح اپنا کردار پیش کریں اور فعالیت کو انجام دیں۔ اس کے لئے اندیشۂ سیاسی در اسلام معاصر، نامی کتاب کے ص١٤١۔ ١٤٢، کی طرف رجوع کریں۔ 
اہل سنت کی روحانیت کے ڈھانچہ اور پوری تاریخ اسلام میں ان کے کردار کے بارے میں آپ اس کتاب کے مفید مقالہ کے سلسلہ میں آپ اس کتاب میں رجوع کریں۔

Gibb and Bowen, Islamic Society and the West, PP.81-113.
اور اسی طرح رجوع کریں، قابل مطالعہ کتاب الاسلام بین العلماء و الحکام عبد العزیز البدری کی تالیف  کی طرف  علمائے دین اور جدت پسندوں اور ترقی پسند لوگوں کی طرف سے تنقیدوں اور اعتراضات کے بازار گرم ہونے کے بارے میں نمونہ کے طورپر آپ رجوع کریں۔ عربی دنیا کے ایک مذہبی روشن فکر اور نفوذ رکھنے والے شخص خالد محمد خالد کی تنقیدوں میں سے ایک کتاب الشیعہ فی المیزان مغنیہ میں: ص٣٧٥۔؛ ٣٧٨
عرب کے غیر مذہبی فکروں میں سے ایک بہت معتبر ادیب احمد بہاء الدین کی تنقیدوں میں سے ایک کتاب الاسلام و الخلافة فی العصر الحدیثکے ص١٨۔ ٣٤، پر اساسی کردار کے بارے میں اس کا بے طرفانہ اور ہمدردانہ نظریہ خصوصاًقدیم عربی ادب کی حفاظت میں ان کا مؤثر حصہ دیکھنے کے لئے من حاضراللغة العربیة کے ص٢٤، ٢٥ پر رجوع کریں۔ 
(١٢)واضح ترین بات جس کی طرف اوپر والی عبارت میں اشارہ ہوچکا ہے نمونہ کے طورپر شیخ جعفر کاشف الغطاء اور فتح علی شاہ کے روابط میں اس کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کی طرف رجوع کریں، رویا روئیتہای اندیشہ گران ایران بادو رویہ تمدن بورژ وازی غرب، ایران کے متفکرین اور مغربی مفکرین کے درمیان پہلی مرتبہ مقابلہ، کے ص٣٢٩، ٣٣٢ پر، دوسرے بہت سے نمونوں کی ”کول” نشان دہی کرتا ہے۔
Roots of North Indian Shi,ism In Iran and Iraq., PP.113-204
(١٣)، معالم الخلافة فی الفکر السیاسی الاسلامی نامی کتاب کے ص١٢٦و ١٢٥ پر رجوع کریںاور اسی طرح النظریات السیاسیة الاسلامیة کے،ص٧١، ٧٢ پر بھی رجوع کریں۔
(١٤)مک ڈونالڈ گولڈ زیہر ) (Goldziherاس طرح نقل کرتا ہے: ”شیعہ کے درمیان اب بھی مجتہد مطلق پائے جاتے ہیں۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ (شیعہ حضرات) مجتہدین کرام کو امام غائب کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ اسی بناپر مجتہدین کرام کی موقعیت اور مقام ومنزلت بالکل علما اہل سنت سے مختلف ہے۔ انہوں نے شاہ پر آزادانہ طور پر اعتراض بھی کرتے ہیں اور اس کو کنٹرول بھی (مہار) کرلیتے ہیں۔ لیکن اہل 
سنت کے علما مجموعی طورپر اس کی حکومت کے تابع اور اسی کے افراد شمار کئے جاتے ہیں۔”
Shorter Encyclopaedia of Islam, P.158.

(١٥)علما کی صنف (جمعیت) کی طرح دوسرے ادارے بھی اس کے مقابلہ میں مثال کے طور پر مذہبی کمیٹیاں اور مذہبی انجمنیں جو ایران جیسے ملک میں وجود میں آئی ہیں، ہمیشہ معاشرہ کے اسلامی ہونے کی محافظت کرتے رہے ہیں، بہت سے اہل سنت کے مذہبی روشن فکروں نے اسلامی پارٹیوں (گروہ) کی تاسیس کی تجویز پیش کی ہے۔ اس فکر کی ابتدا میں ان کا سب سے پہلا مقصد یہ تھا کہ یہ ادارے اور انجمنیں قانونی اور معاشرتی طورپر اسلامی قوانین کی حفاظت کے لئے وجود میں آئیں نہ یہ کہ وہ سیاسی کر و فر میں مصروف ہوجائیں (ایرانی معاشرہ میں مرکزی حکومتوں کے مہار کرنے اور مغربی بے راہ روی کو روکنے اور ان کی جدت پسندی اور دین مخالف و قوم مخالف طاقتوں پر قابو پانے والی طاقت کے حامل یہی علمائے دین ہی تھے) معاشرتی اور یہاں تک کہ معیشت کے قدیمی ذرائع کے مراکز اور بازار کے بھی محافظ تھے۔لیکن یا یہ ادار ے تمام اسلامی ممالک میں نہیں پائے جاتے تھے یا اگر موجود بھی تھے تو ان کے اندر اتنی طاقت اور استقلال نہیں پایا جاتا تھا۔ ان ممالک میں جو چیزیں حکومتوں کو کنٹرول اور مہار کرتیں یا ان کو ڈراتی تھیں، وہ لوگوں کے عام افکار تھے۔ لیکن اول یہ کہ یہ سبب بر محل عکس العمل ظا ہر نہیں کر سکتے تھے اور دوسرے یہ کہ موجودہ حکومتوں کی تہدید اور پروپگنڈوں سے متأثر ہوجاتے تھے لہٰذا روشن فکر لوگ اور صالح و مذہبی علما نے اسلامی احزاب کی تاسیس اور بنیاد کی فکر میں پڑ گئے۔ مثلاً کتاب معالم الخلافة فی الفکر السیاسی الاسلامی کے مؤلف ایسے احزاب (گروہ) کی تاسیس کو جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو ادا کرنا چاہتے ہوں اس کو واجب جانتے ہیں اور اس طرح کہتے ہیں: ”پس اگر کوئی حزب ایسے عمل پر اقدام کرے جس کا اشارہ آیت میں ہوا ہے تو یہ عمل بقیہ مسلمانوں کے اس عمل کے انجام نہ دینے کے گناہ کو ختم کردے گا، اس کے انجام نہ دینے کا گناہ بقیہ لوگوں کی گردن سے اُٹھا لیا جائے گا۔ کیونکہ یہ (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) واجب کفائی ہے اور شرعاً جائز نہیں ہے کہ دوسرے احزاب کی تشکیل میں کوئی مانع قرار پائے۔ اس لئے کہ یہ منع کرنا واجب کے مقابلہ میں قیام کرنے کے مترادف اور حرام ہے۔” اس کے بعد وہ اضافہ کرتے ہیں:” جیساکہ واجب کے قائم کے لئے حاکم کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایسے قیام کی نسبت حاکم کی اجازت پر موقوف کردینا حرام ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کا اسلامی احزاب قائم کرنے کے لئے اسلامی حکومتوں کی اجازت ضروری نہیں ہے۔”اسی مقام پر ص٢٧٣اور ٢٧٤ پر رجوع کریں۔
ایک دوسرا مؤلف اس بارے میں اس طرح کہتا ہے: ”نقد اور اعتراض انھیں حقوق میں سے ایک حق ہے جس کو اسلام نے تمام اسلامی معاشرہ میں رہنے والوں کے لئے مقرر کیا ہے۔ لہٰذا اگر کچھ لوگ چا ہیں کہ لوگوں کو اپنے افکار و نظریات کی طرف دعوت دیں تو وہ لوگ اس کے ذریعہ احزاب اور کمیٹیاں بناسکتے ہیں۔” 
نظام الحکم فی الاسلام کیص٩٢۔ مزید وضاحت کے لئے دیکھئے اخوان المسلمین و الجماعات الاسلامیّہ الحیاة السیاسیة المصریة، ١٩۔ ٤٨؛ ٣١۔

١٣٢پر، نیز معالم فی الطریق کیص١٧٣، پررجوع کریں۔ 
(١٦)پیامبر و فرعون، کے، ص٢٨٣۔ ٢٩٥پر رجوع کریں۔ 
(١٧)جنوبی امریکہ میں انقلابی فکر کے بارے میں اور یہ کہ اس کی خصوصیات کس حدتک تیسری دنیا کے بہت سے خصوصاً اسلامی دنیا کے ممالک میں موجودہ انقلابی افکار کے خصوصیات سے کس قدر مختلف ہیں، اس کے لئے رجوع کیجئے فیدل و مذہب، کی طرف جو” فری بتو ”کی تحریر اور خاص طورپر چگوارا کے ظریات اور خطابات کے مجموعہ کی طرف اس عنوان کے تحت  Che Guevara and The Cuban Revolutionاور اگر چگوارا کے بائیں بازو کے افکار کو جاننے کے لئے مثلاً ایران میں انھیں بائیں بازو کے افکار کا ہمزاد موجود تھا جو انقلاب کی کامیابی سے پہلے فدائیان خلق، کی راہ و روش اور ان کے نظریات کا حامل تھااس کتاب کا قیاس جدید نظریہ پردازوں کے بہت بڑے رئیس ”بیژن جزنی” کی کتابوں کے ساتھ کیا جائے، زیادہ توضیح کے واسطے آپ رجوع کریں  ایدئولوژی و انقلا ب کے ص٢١٤، ٢٢٠اور ایران دیکتاتوری و پیشرفت (ایران آمریت اور ترقی) کے ص٣٧، ٢٤٢، کی طرف مراجعہ کیا جائے۔

Islam and the Search for Social Order in Modren Egypt 
اسی طرح مصر کے معاشرہ کی فکری، سیاسی اور معاشرتی انقلاب کو بیسویں صدی کے نصف اول کے روشن فکروں میں سے ایک اہم ترین اور سب سے زیادہ اثر انداز محمد حسین ہیکل کی بایو گرافی کی روشنی میں ان کے بارے میں تحقیق کی جائے۔ 
(١٨)نمونہ کے طورپر آن روزہا (وہ ایام) ترجمۂ حسین خدیوجم” کی طرف رجوع کیا جائے۔
(١٩)بطور نمونہ، طٰہٰ حسین کے نظریات کی طرف رجوع کریں جس کو انھوں نے اپنی جنجالی کتاب مستقبل الثقافة فی مصر(مصری ثقافت کا مستقبل) ٤٠ئ کی دہائی کے شروع میں تحریر کی ہے وہ اس کے ایک حصہ میں اس طرح تحریر کرتے ہیں: ”تحریک کا راستہ صاف ستھرا اور بالکل سیدھا ہے اور اس میں شک و شبہہ اور کسی بھی طرح کی کوئی کجی نہیں پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے یورپ والوں کی طرح اپنی زندگی ڈھال کر ان کی روش کو اختیار کریں اور ان کے راستہ پر چلنا چاہئے تاکہ جدید تمدن میں بالکل انھیں کی طرح ہوکر ان کے شریک ہوجائیں وہ چاہے اچھی ہوں یا بری خوشگوار ہوں یا تلخ چاہے وہ ان کی طرف سے ضروری ہوں یا ان کو برے لگتے ہوں، چاہے اس کی اچھائیاں ہوں یا خرابیاں۔ جو شخص اس کے علاوہ سوچے وہ یا تو فریب کار ہے اور یا فریب خوردہ (دھوکہ میں پڑا ہو) ہے” مؤلفات فی المیزان، کے،ص١٩ سے نقل کیا گیا ہے۔ اس سے ان کی تنقید اور اجمالی نظریات کی تحقیق کی جاسکتی ہے۔

E.Von Grunebaum. Islam, PP.208-16
(٢٠)المعالم الاسلامی و الاستعمار السیاسی و الاجتماعی و الثقافی، میں رجوع کریں خصوصاً اس کے ص١٥٨۔ ١٥٩پر رجوع کریں۔
(٢١)محمد المبارک شام کا رہنے والا ہے جس نے موجودہ زمانہ میں اپنے وطن شام کے بارے میں زندہ توصیف کو اپنی کتاب الفکر الاسلامی 
الحدیث فی مواجھة الافکار الغربی کے تفصیلی مقدمہ میں تحریر کرتا ہے۔ ایک ایسی تعریف و توصیف جو درد و رنج سے بھری ہوئی ہے۔ ایسا درد و رنج جو اس کی تہذیب و ثقافت، زبان و ادب رسومات اور اس کے دینی مظاہر اور اس کی تہذیب و ثقافت پر حملہ (ہجوم) سے پیدا ہوا ہے۔ خصوصاً اسلام در جہان امروز، (اسلام اور عصر حاضر) ”مؤلفۂ کانٹ ول اسمتھ” کی کتاب کے، ص١١٤۔ ١٦١ پر رجوع کیجئے، جو عربوں کے مذہبی احساسات کے مجروح ہونے کو بڑی ہی ہمدردی اور دلسوزی کے ساتھ بیان کرتا ہے اور اسی طرح سے نئے زمانہ میں مسلمانوں کے حالات کی تشریح کرتا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے مطالعات کا بین الاقوامی جریدہ، شمارہ٤، ١٩٨١ئ۔
(٢٢)اس قسم کے چند نمونوں کو کتاب ناسیو نالیسم ترک و تمدن باختر، مؤلفٔ ضیاء کوک آلب،( جدید ترکی کے معنوی باپ) کی اس تصنیف میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جس کو سید حسین نصر اپنی کتاب علم و تمدن در اسلام، کی عالمانہ تمہید میں جو اس نظر و تفسیر پر ایک تنقید ہے اس کی طرف رجوع کیا جائے اور اسی طرح ایدئولوژی وانقلاب، کے ص٦٤۔ ٩٣ پر رجوع کریں۔

(٢٣)اس تاریخی حصہ میں مسلمانوں اور ان کے حالات اور فکری خصوصیات اور مسلمان روشن فکروں کی فکری خصوصیات معلوم کرنے کے لئے خصوصاً آپ اس تاریخی دور میں ملاحظہ کیجئے جہاں پر ضمنی طورپر ان کے نظریات پر تنقید بھی کی ہے۔   G. E. Von Grunebaum,  Islam, 1949, PP.185-86.

(٢٤)افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی ممالک کے مذہبی سماج کی طرف سے تہذیب نو کی طرف جھکاؤ کی بہ نسبت جوابدہی کے بارے میں اور اسی طرح ان کے نفسیات پر پڑنے والے اثرات کے محاذ سے بھی مسلمان جوانوں کے رجحانات کے بارے میں بہت ہی سرسری جائزہ لیا گیا ہے۔ اس بارے میں ”ایدئولوژی و انقلاب’ کے صفحات ١٦٩۔ ١٧٨پر رجوع کریں ؛ ” پیامبر و فرعون” کے ص ٢٧٣اور ٢٩٥ پر رجوع کریں اس طرح ایک سعد الدین ابراہیم مشہور مصری معاشرہ شناس جس نے اکثر مصر کی معاشرتی اور اسلامی تحریکوں کے بارے میں کام کیا ہے اس کی تحقیقات کی طرف رجوع کیا جائے اس کے مقالہ کے خلاصہ کو اور خود مؤلف اور اس کی کارکردگیوں سے روشناس کرایا گیا ہے خصوصاً اس کا وہ مقالہ اس An Anatomy of Egypt Militant Islamic Groups.کے عنوان کے تحت مطالعات مشرق وسطیٰ، مطبوعہ ١٩٨١ئ کے بین الاقوامی جریدہ کی طرف رجوع فرمائیں۔
(٢٥)ملاحظہ کریں معیشتی اور معاشرتی تبدیلیوں کی تاثیر کے بار ے میں تیسری دنیا کے جوانوں کی جدائی خواہی کی تحریک (اصالت خواہ ) کے بارے میں، ہند و پاکستان، نامی کتاب کے ص١٤١۔ ١٩١اور اسی طرح سعد الدین کی کتاب جو The New Arab Social Order.کے عنوان کے تحت ہے اس کی طرف رجوع کریں۔ 
(٢٦)بیشتر توضیح کے واسطے اس کتاب میں رجوع کریں۔

Islamic Future, The Shape of Ideas to Come, PP,47-59.
(٢٧) ہند و پاکستان، کے ص٩١، ١٤١،پررجوع کریں۔
(٢٨)یہ نکتہ اور اس سے وجود میں آنے والے عوارض کی طرف ہیملٹن گب اچھی طرح سے توضیح دے رہا ہے: Modren Trends In Islam, PP,124-127.
(٢٩)نمونہ کے طورپر رجوع کریں:Inside the Iranian Revolution, PP,39-58.،اور اسی طرح: ایدئولوژی و انقلاب، کے ص١٥٠۔ ١٨٤پر بھی رجوع کریں۔

(٣٠)مزید وضاحت کے لئے موج سوم، میں خصوصاً اس کے ص ٣۔ ٢٧۔ ٤٣١۔ ٤٥٣۔ ٤٥٤۔ ٦١١۔ 
(٣١) (Idealogy) مارکسیزم ایڈ یا لوجی کی بنیاد اور فکری عمارت کچھ اس طرح تھی کہ وہ اپنے ماننے والوں اور حاشیہ نشینوں کو ہر وہ شخص جو اس کامخالف ہے اور بنیادی طورپر اس کی افکار کے مخالف تھا ان کوطلب کرلیتا ان سے بیزاری سے پیش آنے کی دعوت دیتا۔ ان لوگوں کی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے کہ جو لوگ ان کی فکر سے ہم آہنگ نہیں تھے ان کے خلاف بڑی ہی سختی اور شدت کے ساتھ پیش آیا گیا ہے، نمونہ کے طورپر ملاحظہ ہو کتاب درزیر زمینی خدا، کا واقعہ ملاحظہ ہو جس میں چینی اور روسی کمیونسٹوں کے ذریعہ ترکستان الشرقیہ، مشرقی ترکستان کے مسلمانوں کا کس بے رحمی سے قلع قمع کیا گیا ہے اس داستان میں اس کی کیفت کو بیان کیا گیا ہے اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ سماچیان کے ساتھ قیام کے بارے میں خاص طور سے اس کے صفحات پر رجوع کیا جائے ، ٥١، ١٣١،

جو چیز اس ملک کے استحکام اور اتحاد کی حفاظت کرتی تھی وہ عملی طورپر اس کے خلافمرکزی حکومت کا فولادی آہنین مشت موجود تھا حجری اور فولادی تہذیب اور عہد استالینی،ا ور جنگ جہانی دوم کے زمانہ والے اکتبر والے انقلاب کے زمانہ کی نسل ظلم ستیزی کے خلاف ارتباط پیدا کرتا اور زندہ قوموں کے آرمانی ثقافتوں کا ان کے ملتے جلتے اجزاء سے پیوند مارکسیسم کی نگاہ میں ایسی قوم جو مارکسیزم کو اس کے نزدیک لائی، صنعتی اور اقتصادی تغییرات اور انقلاب کا وجود میں نہ آنا اور اسی کے اتباع میں سیاسی اور فکری بدلاؤ جو عموماً ٧٠ئ کے آخری دہائی اور ٨٠ئ کی آخری دہائی میں وجود میں آیا اور آج یہ تمام تغییرات اور تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں نمونہ کے طورپر ملاحظہ ہو کتاب گفتگو با استالین, خاص طور سے اس کے ص٢٤٣، ٢٨٧ پر رجوع کریں۔
(٣٣)خصوصاً امپراطوری فروپاشیدہ، کے ص٢٤٧۔ ٢٩٥، پر رجوع کریں۔
(٣٤)فرانسوی مارکسیزم کے ص٣٠، ٤٩، پر رجوع کریں۔
(٣٥)طبقہ جدید، کے صفحات ١٣٠، ١٣٢، پر رجوع کریں۔
(٣٦)روسی مسلمان مبلغین کے ذریعہ اسلام اور مارکسیزم کے درمیان یکسانیت پیدا کرنا اور اس کے کم مدت اور طویل مدت میں حاصل 
ہونے والے نتائج، خاص طورپر” امپراطوری فروپاشیدہ ”کے ص٢٦١۔ ٢٧٨پرملاحظہ کریں۔
(٣٧)یہ مشکل تمام ان افکار سے متعلق ہے جو بعض دلیلوں کے سبب ان کے سمجھنے اور ان سے وابستگی کے علاوہ آگے بڑھ رہی ہے مارکسیزم بھی تیسری دنیا کے بہت سے ممالک میں ایسی مشکلات سے روبرو رہی ہے۔توضیح کے لئے ملاحظہ ہو ”ایدئولوژی و انقلاب” ص٢١٥، ٢١٦۔
(٣٨)Muhammedanism کے جیسی مختصر اور دقیق کتاب کی آخری فصل میں ملاحظہ کیجئے 
ہیملٹن گب نے اپنی کتاب میں ایک زمانہ پہلے بڑی ہی دقت اور ہوشیاری کے ساتھ عصر حاضر میں اسلامی عقب نشینی کے ناممکن ہونے کے بارے میں بیان کیا ہے۔
(٣٩)اس تطبیق کا بہترین نمونہ Vatican Council 2nd, PP,903-1014:
آپ کو یہ مل جائے گا کہ اسلام اور عیسائیت کا عکس العمل جدید تمدن کے مقابلہ میں اس کے اثر کو نئی تہذیب کے ماننے والوں پر بھی چھوڑا۔ اس بارے میں خصوصاً آپ روشن فکران عرب و غرب, کے ص١٤، ٧ ١،پر رجوع کریں۔
(٤٠)بلانٹ اپنی کتاب The Future of Islam, London, 1882 میں معتقد تھا کہ مستقبل لا مذہب مسلمانوں سے متعلق ہے یعنی سماج میں ان کا بول بالا ہوگا۔”Islamic Futures,P,25.
(٤١)موجودہ صدی میں مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہ ترقی پسند اور نئی فکر کے حامل افراد پروٹسٹان کی تحریک سے قوت لیکربغیر اس توجہ کے قیام کردیا کہ انھیں کے جیسا کوئی اقدام کر یں اہمیت کا حامل مسئلہ یہ تھا کہ ان کے بعض افراد کا’ لوٹر’ کی طرح عوام بعض گروہ کی طرف سے تعارف کرایا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ لوگ بھی اسی کی طرح کامیابی حاصل کرلیں گے اور ہم نے یہ دیکھ لیا کہ ایسا نہ ہوگا۔ اس کا ایک بہترین نمونہ عبدالرزاق ہے اس کے باوجود کہ اس کی کتاب الاسلام و الاصول الحکم تقریباً پوری کتاب تاریخی اور علمی حقائق پر استوار ہے لیکن چونکہ اہل سنت کے بنیادی اصول کی مخالف تھی لہٰذا اپنے لئے راستہ نہ بناسکی۔ اس لئے کہ اس کے اصول ایسے نہیں تھے جو زمانہ کے ساتھ ساتھ پُرانے ہوجائیں اور وہ بھُلا دیئے جائیں۔

یہاں مناسب ہے کہ وہ چیز جو اس زمانہ کی معتبر اور معروف ترین نشریات میں سے یعنی المقتطف نامی جریدہ جو اس کتاب اور اس کے مؤلف کی شان میں تحریر کیا گیا ہے میں اُسے نقل کر رہا ہوں: ”اس کتاب نے جو غوغا اپنے مؤلف کے خلاف مچایا جو جامعہ ازہر کے علما میں سے ہیں اور شرعی عدالت کے قاضیوں میں سے ہیں، ان کے خلاف جنجال برپا کردیا اس نے ہم کو اس شور و ہنگامہ کی یاد دلادی جو عیسائیت میں دینی مصلح اور ان کے پیشوا لوٹر کے خلاف برپا کیا گیا تھا ۔وہ ایسا شخص تھا جس کے اقدام کا نتیجہ اور زیادہ تاثیر عیسائی ممالک کے دینی، ادبی اور مادی حلقوں میں تھاہماری نظروں میں جو کچھ عبد الرزاق نے تحریر کیا ہے وہی اثر پڑنے والا ہے جو لوٹر کی تحریر کی وجہ سے اثر پڑا ہے ہمارا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کچھ لوٹر اور اس کے ساتھیوں نے کہا اور کیا وہ پورا کا پورا درست تھا، اسی طرح اس وجہ سے بھی نہیں کہ ہم عبد الرزاق کے بارے میں اس بات کے قائل ہیں کہ عبد الرزاق اور ان کی طرح کے لوگوں نے جوکچھ کہا ہے، وہ سب کچھ صحیح اور اس میں خطا و لغزش کا گذر نہیں ہے، بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ بعض متفکرین کا شبہہ آمیز تنقیدی موقف بحث و تحقیق اور چھان بین تک پہونچا دیتا ہے اور پردوں کو چاک کرکے حقائق کو آشکار کر دیتا ہے۔ ہم ابھی تک نہیں بھولے ہیں کہ شیخ محمد عبدہ کے خلاف سب نے مل کر کیا کیا ہنگامہ کیا ،لیکن آ ہستہ آہستہ امو سلادھار بارش تھم گئی یہاں تک کہ انھیں (شیخ محمد عبدہ کو) امام کا لقب مل گیا ۔سب لوگوں نے ان کی اقتدا کی اور ان کے راستہ کو اپنا لیا۔ المقتطف اکتوبر ١٩٢٥ئ کے شمارہ کے ص٣٣٢، پر محمد عمارہ کی کتاب الاسلام و اصول الحکم کے مقدمہ کے صفحہ ٢٤، سے نقل کیاگیا ہے۔
Johnsen,”International”Islam The Economist,3,jan,1980.
ماخوذ از    Asaf Hussain, Islamic Movemeuts: P.12th 
(٤٣)ان حقائق کو بہت سے انگریزوں نے اگرچہ وہ دشمنی اور کینہ سے بھرے انداز اختیار کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔Islamic Futures, PP.43-44. 
Ibid. PP.27-35اور اسی طرح  The Dagger of Islam, PP.4-9: 69-82.
کہ اس درمیان مؤلف نے مغرب پرست عیسائیوں اور عربی دنیا میں دنیا پرست مسلمانوں کے فرق کو جدید تمدن سے ملنے پر واضح کیا ہے اس کے واسطے رجوع کریں The Dagger  of Isran, p. 27-35 
(٤٤) عیسائیت کا تمدن کے ساتھ روبرو ہونے اور یہ کہ آج کل کے انسانوں کے واسطے کیا پیغام رکھتا ہے اور کیا پیغام رکھ سکتا ہے  اس کے بارے میں آپ رجوع کیجئے آج کے عیسائیوں کے بزرگ علما میں سے ایک بزرگ عالم کی طرف جس نے مندرجہ ذیل عنوان پر لکھا ہے۔

On Being a Christian, PP.25-51:89-112: 554-601.
(٤٥)اس بارے میں بہترین نمونہ سید قطب الدین کی کتاب معالم فی الطریق ہے۔ اس کتاب کے ابتدائی اور اہم مقاصد میں سے ایک مقصد ان لوگوں کی جرئت مندانہ اور پوری قدرت کے ساتھ آخری رد ہے جو مؤلف کی تعبیر کے مطابق شکست خوردہ اور سست عناصرہیں (المہزومون روحیاًو عقلیاً)اور ان کی کوشش یہ ہے کہ آج کل کی جدت پسندی اور چٹک بھڑک کو اسلام میں نمایاں کردیں اور اسلام کی شجاعت اور بہادری کی روح کو بالکل سے ختم کردیں۔ اگرچہ یہ کتاب ایک ایسے تیز گام گروہ کے دستورالعمل کے عنوان سے جن لوگوں نے اسلامی  معاشرہ کی تاسیس کی ذمہ داری اپنے سر لے رکھی ہے ان کے واسطے لکھی گئی ہے ملاحظہ ہو اس کے ص٥٠، ٥١ ،کی طرف۔ لیکن گویا اس کی اصلی ذمہ داری تمام ان لوگوں کی واقعی اور ہمہ جانبہ مخالفت کا قد علم کرنا ہے جو اسلامی تہذیب اور اس کی حقیقت کواہمیت نہیں دیتے ہیں۔ الفکر الاسلامی الحدیث وصلتہ بالافکار الغربی نامی کتا  ب کی چوتھی طباعت کے مقدمہ کی طرف بھی رجوع کریں اس کا مؤلف صریحاً کہتا ہے:” ایسے مشرق پسند لوگوں کی کوششوں کا خطرہ جو ہمیشہ مسلمانوں کو نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ وہ اپنے دین کو معتدل کریں اس طرح کہ وہ جدید تمدن کے ساتھ سازگار ہوجائے، مسلماً مارکس کے نظریہ کے تحت چلنے والے نظام کے خطرہ سے کم نہیں ہے” قابل ذکر بات یہ ہے کہ مؤلف نے یہ بات ایسے وقت میں کہی جب مارکسیزم نے اپنا ڈیرہ تمام جگہ ڈال دیا تھا۔ زیادہ انقلابی اور جاندار نمونوں کو معلوم کرنے کے لئے مصر و شام کی اخوان المسلمین  کمیٹی کے الدعوة و النذیر نامی جریدہ کے مختلف شماروں کی طرف رجوع فرمائیں۔

(٤٦)یہاں پر لازم ہے کہ اگرچہ اہم نقطہ کو اجمالاً تحریک اسلامی کے آئندہ روابط کے بارے میں یاددہانی کرادوں۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس بارے میں سنجیدگی اور حق گوئی کے طورپر حقیقت کو بہت کم بیان کیا گیاہے اور یہ اس تحریک کی کمزوریوں میں سے ایک بہت بڑی کمزوری ہے بہرحال کوشش کریں گے کہ ہم چند اہم نکات کو بیان کریں۔

موجودہ اسلامی تحریک کی بنیادی مشکلات میں سے ایک مشکل یہ ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کا حل صرف ایمان اور ایثار کی روشنی میں تلاش کرناچاہتی ہے عصر حاضر کی زندگی کی اہم ضروریات کو تقریباً نظر انداز کردیتی ہے اور ان ضرورتوں کو مغربی تہذیب و تمدن سے بہت کم جدا کرتی ہے۔ مغربی تمدن بلکہ بہتر ہے کہ تمدن جدید کا نام دیں ،کیونکہ اب یہ تمدن فقط مغرب سے متعلق نہیں ہے، اب یہ تمدن عالمی تمدن ہوگیا ہے اور اس انقلاب میں سبھی لوگوں کا کردار اور حصہ ہے، یہ مسئلہ کا ایک رخ ہے اور آج کی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لوازم ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ دنیا میں عقیدہ کاحامل کوئی بھی مسلمان بلکہ کوئی بھی مومن اور موحد کلی طورپر اس تمدن اور تہذیب کی کاملاً طرفداری نہیں کرسکتا۔ یہ چیز بہت واضح اور روشن ہے اس میں کسی قسم کی بحث و گفتگو کی ضرورت نہیں ہے ۔لیکن یہ بھی نہ بھولنا چاہئے کہ آج کی دینا میں زندگی بھی چند اصول و ضوابط کی پابندی کی محتاج ہے ان اصول کی طرف توجہ دیئے بغیر زندگی نہیں کی جاسکتی یا کم از کم باعزت اور مستقل طورپر زندگی گذارنا بس دشوار کام ہے۔ پابندی اور غورو فکراور پیہم کوشش کرتے رہنا اپنی ذمہ داری کو جاننا نظم اور قانون مندی، کام کی طرف رغبت، انتظام سنبھالنا، قانون کی فرمابرداری اور قانون شکنی کے لئے عذر نہ تراشنا۔ ذمہ داری کو قبول کرنا اور غیر ذمہ دارانہ مداخلت سے پرہیز کرنا اور اپنی ہی حدتک محدود رہنا اور اپنی قدرت اور وسعت  سے زیادہ توقع نہ رکھنا، نعاشرتی طورپر اپنے آپ کو ہم آہنگ کرکے اس کا تعاون کرنا اور آخرکار علم و عقل کی بنیاد پر فکر کرنا اور محاسبہ کے اعتبار سے پختہ ارادہ ہے اور تصمیم کرنا۔ البتہ اس مقام پر جہاں پر علم و عقل اور محاسبہ کو مداخلت کرنی چاہئے وہ مقامات انھیں لوازم میں سے ہیں۔ اگر گذشتہ زمانہ میں ان چیزوں کی طرف توجہ کئے بغیر معاشرہ کا ادارہ کرنا ممکن بھی ہوتا ہے، لیکن آج کل (علم و عقل کے بغیر) بالکل ممکن نہیں ہے۔ اور تعجب کا مقام یہ ہے کہ اسلام نے بھی ان تمام چیزوں کے بارے میں صریحی اور تاکیدی حکم دیا ہے،لیکن ان آخری صدیوں میں مسلمان لوگ اس طرح زندگی بسر کرتے رہے ہیں کہ دوسری ہر ملت و امت سے بہت کم ان چیزوں کے پابند رہے ہیں۔ ان چیزوں پر پابندی نہ کرنے کی بہت سے تاریخی، معاشرتی، اخلاقی، تربیتی اور نفسیاتی اسباب تھے کہ ہمیں ان کو اچھی طرح غور و فکر کرکے پہچان لینا چاہئے۔

اہم ترین دلیلوں میں سے ایک دلیل مسلمانوں کا اسلام کے بارے میں عمیق ذاتی اور فردی نظریہ رکھنا ہے۔ ماضی میں ایک اچھا شخص وہ سمجھا جاتا تھا ،جو عبادی احکام کو بجالانے کے علاوہ مثال کے طورپر اہل خیرات بھی ہو۔ مسجد، مدرسہ، پانی کے ذخیرہ انتظام اور پُل اور اس کے ایسی چیزیں بناکر لوگوں کے لئے وقف کردینا تھا۔ موجودہ دور میں لوگوں کی دین فہمی معاشرتی اور انقلابی میلان کے زیراثر قرار پاگئی ہے، اس زمانہ میں اچھا شخص اُسے کہا جاتا ہے جو مثال کے طورپر بے دینوں، مفسدوں اور جباروں سے زیادہ مقابلوں کے مختلف میدانوں میں بہترین استقامت کے جوہر دکھائے۔ بیشک یہ تمام چیزیں حقیقی ایمان کی علامتیں ہیں۔ لیکن مشکل اس مقام پر ہے کہ اس طرح کی علامتوں کے علاوہ، دینی ایمان کے دوسرے مظاہر کی طرف اساسی اعتبار سے یکسر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ ان کی نظر میں کسی شخص کے اچھے ہونے کا یہ معیار نہیں ہے کہ مثال کے طورپر وہ اچھے طریقہ سے غور و خوض اور حوصلہ کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشغول ہوجائے اور یا لگاتار کام میں لگے رہ کر امانت داری کے ساتھ کام کو آخر تک پہنچائے یا لوگوں کے ساتھ مل کر ان کا تعاون کرے جو آج کی صنعتی اور تکنیکی زندگی کا لازمہ ہے، اپنے ساتھیوں کے ساتھ خلوص کے ساتھ کام میں مشغول ہوجائے کسی بات کو اچھے طریقے سے کان دھرکے سُنے اور مختلف بہانوں کے ذریعہ کام سے جی نہ چرائے اور وہ امور جو اس سے متعلق نہیں ہیں ان میں مداخلت نہ کرے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے مفاہیم اور مطالب ہمارے درمیان جانے پہچانے نہیں ہیں، دین اور دینی ذمہ داری سے کوئی رابطہ نہیں ہے یہاں تک کہ یہ بھی کہنا چاہئے کہ اس قسم کے مسائل نہ فقط پہچانے ہوئے نہیں ہیں بلکہ عملی طورپر ان کے مخالف ہیں جو حاکمیت رکھتا ہے اور اس کو اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ نمونہ کے طورپر اگر ”چالاکی” کے مفہوم کو ہمارے عرف کے درمیان بیان کیا جائے اور یہ بھی دیکھا جائے کہ اس کے مصادیق کون لوگ ہیں تو بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ کسی حدتک ذہن و فکر و روح پر حاکم مفاہیم ہیں چاہے فردی یا ذاتی ہوں یا معاشرتی ہوں، جو آج کی دنیا میں ضروریات زندگی سے تضاد اور اختلاف رکھتے ہیں، اس سے بدتر یہ ہے کہ اس قسم کے مفاہیم نے دین میں اپنی جگہ بنالی ہے اور ایسے بہت کم لوگ ہیں جو ان کو دین، ایمان اور اخلاص کے خلاف گردانتے اور جانتے ہیں۔ جب تک یہ مشکل کم سے کم اطمینان بخش انداز پر حل نہ ہوگی، معاشرہ ترقی کے زینوں کو طے نہیں کرسکتا۔ جیساکہ اس کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے کہ یہ مشکل صرف ہماری مشکل نہیں ہے بلکہ کم و بیش تمام اسلامی معاشروں اور عصر حاضر کی اسلامی تحریک کے لئے یہ مشکل ہے۔ ہماری مشکلات کا حل فقط خود جوش پیدا ہونے والی فداکاری میں نہیں ہے ان معنی میں ایثار اور فداکاری جو آج کل رائج ہیں اس سے ہماری مشکل حل نہ ہوگی۔ اور بیشک یہ شرط لازم و ضروری ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ یہ ایثار اور فداکاری ان اصول و اقدار کے ساتھ ہونا چاہئے جو اس تاریخی دور میں زندگی کے لئے ضروری ہے اور ان اصول و اقدار کا آپسی ارتباط ضروری ہے، اس میں اس طرح رابطہ ہونا چاہئے کہ ہماری اور اس امت اسلامی کی سرفرازی اسی رابطہ کی مرہون منت ہے۔ یہ پیوند اس طرح ہونا چاہئے کہ نہ دینی بنیادوں کو کوئی نقصان پہونچیاور نہ ہی یہ مفاہیم اتنے زیادہ پست ہوجائیں کہ ہر قانون شکن، فریضہ ناشناس، بے نظم، آرام طلب، لاپراوہ اور جہالت اور ہر طرح کی بات کو کسی نہ کسی اعتبار سے ان کی توجیہ کرے یا ان کو قانونی اور جائز قرار دے۔ اسلامی دنیا کے اس وسیع دائرہ میں قدرے تسامح کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسلامی ممالک جو ایران کے مشرقی سمت میں واقع ہیں، وہ اس مشکل سے کم تر روبرو ہوئے ہیں اور جتنابھی مشرق کی طرف بڑھتے جائیں، یہ مشکل کم ہوتی جاتی ہے۔ ترکی اور اصولی طورپر ترک زبان لوگ چاہے وہ ایران میں ہوں یا بیرون ایران، مختلف اسباب کی وجہ سے ایرانیوں سے کم اس مشکل سے روبرو ہوئے ہیں۔ عربی دنیا میں یہ مشکل ایران ہی کی طرح سنجیدہ، پیچیدہ اور عمیق ہے اگرچہ ان ممالک میں سے ہر ایک ملک میں گذشتہ حالات کے اعتبار سے قوی اتحاد کا استحکام، استعماری تجربہ اور موجودہ حکومت کی نوعیت کے اعتبار سے، اس مشکل میں شدت و ضعف پایا جاتا ہے۔ اس کی بیشتر وضاحت کے لئے آپ ” افریقہ میراث گذشتہ و موقعیت آئندہ” کے ص٨١۔ ٨٦،پر رجوع کریں اور اسی طرح دو کتاب ضیاء الدین سردار کی ہیںجو دنیائے اسلام کے معاشرتی، معیشتی اور ثقافتی مسائل کے معروف ماہر ہیں، وہ کتابیں اس عنوان کے تحت ہیں:

The Future of Muslim Civilization, Islamic Futures,
(٤٧)گذشتہ زمانہ کے بعض علما اور اسی طرح عصر حاضر کے صاحبان قلم اس فرق کی طرف عالمانہ طورپرتوجہ کر رہے ہیں۔ قدیم زمانہ کے علما میں سے آپ رجوع کریںکتاب الفصل فی الملل والاہواء والنحل کے مصنف ابن حزم،ج، ع، ص٩٤۔ ان کے بیان کا کچھ حصہ اس طرح ہے: ”یہ صحیح نہیں ہے کہ، آپ اپنی روایتوں کے ذریعہ ان( شیعوں) کے خلاف دلیل پیش کریں۔ کیونکہ وہ لوگ ہماری روایات کو قبول نہیں کرتے ہیں اور اسی طرح وہ لوگ بھی اپنی روایتوں کے ذریعہ ہمارے اوپر احتجاج نہیں کرسکتے کیونکہ ہم ان کی روایات کو صحیح نہیں جانتے یہ ضروری ہے کہ مباحثہ کے دونوں فریق ایسی چیز کے ذریعہ استدلال کریں (احتجاج کریں) جو ایک دوسرے کو قابل قبول ہو چاہے اس سے دلیل پیش کرنے والا خود اس کا قائل ہو یا قائل نہ ہو…”

اور دور جدید کے صاحبان قلم یعنی متأخرین کی طرف آپ رجوع کرنا چاہیں تو معالم الخلافة فی الفکر السیاسی الاسلامی کے ص١٣١۔ ١٣٨اور کتاب الفکر السیاسی الشیعی کے ص١١٦۔ ١٨٠، پر رجوع کریں ۔

تبصرے
Loading...