حضرت آیة اللہ العظمی سیدعلی حسینی سیستانی

ولادت

حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی ۱/ ربیع الاول سن ۱۳۴۹ ہجری قمری میں مقدس شہرمشہدمیں پیداہوئے ۔ آپ کے والدنے اپنے جدکے نام پر آپ کانام علی رکھاآپ کے والدمحترم کانام سیدمحمدباقراورداداکانام سیدعلی ہے، وہ ایک  بہت بڑے عالم اورزاہد انسان تھے ان کے زندگی نامہ کو مرحوم آقابزرگ تہرانی نے طبقات عالم شیعہ نامی کتاب کے چوتھے حصہ میں صفحہ نمبر ۱۴۳۲ پرذکرکیاہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ نجف اشرف میں مولاعلی نہاوندی اورسامر ہ میں مجدد شیرازی کے شاگردوں میں تھے اوربعدمیں وہ مرحوم سیداسماعیل صدرکے خاص شاگردوں میں رہے ۔ سن ۱۳۰ ۸ ہ جری میں مشہدمقدس لوٹ آئے اوروہی سکونت اختیارکرلی مرحوم شیخ محمدرضاآل یاسین ان کے خاص شاگردوں میں سے ہیں۔

 آپ کے خاندان کاتعلق حسینی سادات سے ہے،یہ خاندان صفوی دورمیں اصفہان میں رہتاتھا جب آپ کے پردادسیدمحمدکو،سلطان حسین صفوی نے سیستان میں شیخ الاسلام ک ا عہدہ سپرد کیاتووہ اپنے گھروالوں کے ساتھ وہ ی ں جاکر بس گئے ۔

 سیدمحمدکے پوتے، سیدعلی،جوآپ کے دادا ہیں ا نہوں نے وہاں سے  مشہد مقدس کی طرف ہجرت کی اوروہاں مرحوم محمدباقرسبزواری کے مدرسہ میں رہنے لگے بعدمیں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں سے نجف اشرف چلے گئے۔

 آیت اللہ العظمی سیستانی (دامت برکاتہ) نے پانچ سال کی عمرمیں اپنی تعلیم کاآغازقرآن کریم سے کیا  اور لکھناپڑھناسیکھنے کے لئے دارالتعلیم نامی ایک دینی مدرسہ میں داخلا لیا، اس ی دوران ا ٓ پنے استادمرزاعلی آقاظالم سے کتابت سیکھی۔

 سن ۱۳۶۰ ہجری میں اپنے والدبزرگوارکے حکم سے دینی تعلیم شروع کی اورعربی ادب کی کچھ کتابیں جیسے شرح الفیہ ابن مالک ،مغنی ابن ہشام، مطول تفتازانی ،مقامامت حریری اورشرح نظام ،مرحوم ادیب نیشابوری اوردوسرے استادوں سے پڑھی ں اورشرح لمعہ وقوانین مرحوم سیداحمدیزدی جونہنگ کے لقب سے مشہورتھے، سے پڑھی ں۔ مکاسب ورسائل اورکفایہ جیسی کتابیں جلیل القدرعالم دین شیخ ہاشم قزوینی سے پڑھی ں ۔ فلسفہ کی کچھ کتابیں جیسے منظومہ سبزواری وشرح اشراق اوراسفار استادیاسین سے پڑھی ں اورشوارق الالہام شیخ مجتبی قززینی کے پاس پڑھی ۔ موصوف نے علامہ محقق مرز ا مہدی اصفہانی ،متوفی۱۳۶۵ہجری،سے بہت زیادہ کسب فیض کیا ۔ اس ی طرح مرزامہدی آشتیانی اورمرزا ہاشم قزوینی سے بھی کافی استفادہ کیا ۔ مقدماتی وسطحی تعلیم سے   فار غ ہونے کے بعد کچھ استادوں کے پاس علوم عقلیہ اورمعارف الہیہ سیکھنے میں مشغول ہوگئے ۔ اس کے بعد سن ۱۳۶8ہجری میں مشہدمقدس سے شہر قم کی طرف ہجرت کی اوربزرگ مرجع تقلیدآیة اللہ العظمی بروجردی کے فقہ واصول کے درس خارج میں شریک ہوکرعلمی فیض حاصل کیا۔ موصوف نے ان کی فقہی بصارت ،مخصوصا علم رجال اورحدیث سے بہت زیادہ کسب فیض کیا،اسی طرح موصوف نے فقیہ وعالم فاضل سیدحجت کہکمری اوراس زمانے کے دوسرے مشہورعلماء کے درسوں میں بھی شرکت کی۔

 موصوف نے قم کے قیام کے دوران مرحوم سیدعلی بہبانی (جواحوازکے جلیل القدرعالم دین اورمرجع محقق شیخ ہادی تہرانی کے تابعین میں سے تھے) سے قبلہ کے مسائل کے سلسلہ میں کافی خط وکتابت کی ، آپ اپنے خطوں میں مرحوم محقق تہرانی کے نظریوں پراعتراض کرتے تھے اور مرحوم بہبانی اپنے استادکادفاع کرتے تھے یہ سلسلہ ایک مدت تک چلتارہا یہاں تک کہ مرحوم بہبانی نے آپ کوشکریہ کا خط لکھااورآپ کی کافی تعریف کی اوریہ طے پایاکہ ب اقی بحث مشہدمیں ملاقات کے موقع پرہوگی۔

سن۱۳7۱ہجری میں آپ نے قم سے نجف اشرف کاسفرکیااورامام حسین علیہ السلام کے چہلم کے دن کربلامیں واردہوئے ۔ پھروہاں سے نجف چلے گئے ۔ نجف پہنچ کرمدرسہ بخارائی میں قیام کیااورآیة اللہ العظمی خوئی ،شیخ حسین حلی جیسے بزرگ مراجع اکرام کے فقہ واصول کے درسوں میں شرکت کی، اسی طرح موصوف آیة اللہ حکیم اورآیة اللہ شہرودی جیسے بزرگ علماء کے درسوں میں بھی شریک ہوئے۔

جب سن ۱۳8۰ہجری میں آپ نے مستقل قیام کی نیت سے اپنے وطن مشہدواپس ا ٓ نے کاارادہ کیاتواس وقت آیة اللہ العظمی خوئی اورشیخ حسین حلی نے آپ کو اجتہاد کا اجازہ لکھ کردیا،اسی طرح مشہورمحدث آقابزرگ تہرانی نے رجال اورحدیث میں موصوف   کے تبحرعلمی کی کتبی تصدیق کی۔

موصوف سن ۱۳8۱ ہجری میں دوبارہ نجف تشریف لے گئے اور وہاں شیخ انصاری کی کتاب مکاسب سے فقہ کادرس خارج کہناشروع کردیا ۔ اس کے بعدشرح عروة الوثقی سے کتاب طہارت اورصلاة کی تدریس کی اورجب سن ۱۴۱8 ہجری میں کتاب صوم تمام ہوئی تو آپ نے کتاب الاعتقادک ی ت در ی س شروع ک ی ۔

 اسی طرح اس عرصہ میں آپ نے مختلف موضوعوں جیسے کتاب القضا،کتاب الرباء ،قاعدہ الزام، قاعدہ تقیہ ،وغیرہ پرفقہی بحث کی، آپ نے اس دوران علم رجال پربھی بحث کی ، جس میں ابن ابی عمیرکی مرسلہ روایت وں کے اعتبار اور شرح مشیخة التہذی بین پربحث ہوئی۔

     موصوف نے سن۱۳8۴ہجری میں شعبان کے مہینہ سے علم اصول کادرس دیناشروع کیا اورآپ کے درس خارج کاتیسرا دورا سن۱۴۱۱ ہجری کے شعبان ماہ میں تمام ہوا ۔ سن 1397ہجری سے آج تک کے ، آپ کے فقہ واصول کے تمام درسوں کے آڈیوکیسٹ موجودہیں ۔ آج کل آپ کا(شعبان ۱۴۲۳ہجری)شرح عروة الوثقی کی کتاب الزکواة کادرس خارج چل رہاہے۔

علمی کارنامے

حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی (دامت برکاتہ) ہمیشہ اپنے استادوں کے درسوں میں اپنی بے پنہاذہانت وصلاحیتوں کاثبوت دیاکرتے تھے اورہمیشہ ہی تمام شاگردوں میں ممتازرہتے تھے ۔ آپ اپنے علمی اعتراضوں ،حضورذہن،تحقیق،فقہ ورجال کے مسائل کے مطالعہ ،دائمی علمی کاوشوں اورمختلف عل م ی نظریوں سے آشنائی کے بل بوتے پرحوزہ میں اپنی مہارت کاثبوت پیش کرتے رہتے تھے –

 قابل ذکربات یہ ہے کہ آپ کے اورشیہدصدر(قدس سرہ)کے درمیان عل م ی کارناموں کے سلسلہ میں مقابلہ رہاکرتاتھا ۔ اس بات کااندازہ آپ کے دونوں استادوں، آیة اللہ خوئی(رضوان اللہ تعالی علیہ) اورعلامہ حسین حلی (قدس سرہ) کے اجازہ اجتہادسے لگایاجاسکتاہے ۔  یہ بات بھی مشہورہے کہ آیة اللہ خوئی(قدس سرہ)نے ایة اللہ العظمی سیستانی (دام ظلہ) اورآیة اللہ شیخ علی فلسفی(جوکہ مشہدکے مشہورعلماء میں سے ہیں) کے علاوہ اپنے شاگردوں میں سے کسی کوبھی کتبی اجازہ نہیں دیا ۔ اسی طرح اپنے زمانے کے شیخ المحدثین علامہ آقابزرگ تہرانی نے آپ کے لیے سن1380 ہجری قمری میں جواجازہ لکھاہے اس میں آپ کی مہارت اورعلم رجال اورحدیث میں آپ کی درایت کوکافی صراحاہے آقابزرگ تہرانی نے آپ کے لیے یہ اس وقت لکھاتھا جب موصوف کی عمرصرف ۳۱ سال تھی۔

تالیفات اور فکری کارنامے

تقریبا ۲۴ سال پہلے ،آپ نے فقہ ،اصول اوررجال کادرس خارج کہناشروع کیااور اسی طرح مکاسب کی کتاب الطہارت ،صلاة،قضا، خمس،اوردوسرے قواعدفقہی جیسے ربا،تقیہ اورقاعدہ الزام کوپوراکیا،آپ اصول کی تدریس کے تین دورہ ختم کرچکے ہیں، جس میں کی کچھ بحثیں جیسے اصول عم ل ی ،تعادل وتراجیح اورکچھ فقہی بحثیں جیسے ابواب نماز،قاعدہ تقیہ والزام چھپای کے لے تیار ہے۔حوزہ کے کچھ مشہور علما؁ و فضلا؁ جن میں سے بعض درس خارج بھی کہتے ہیں، جیسے علامہ شیخ مہدی مروارید،علامہ سیدمرتضی مہری،علامہ سیدحسین حبیب حسینیان،سیدمرتضی اصفہانی، علامہ سیداحمد مددی،علامہ شیخ باقرایروانی اورحوزہ علمیہ کے کچھ دوسرے استادآپ کی بحثوں پرتحقیق کی ہے۔ حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی( دام ظلہ ) نے درس دینے کے ساتھ ساتھ کچھ اہم کتاب وں اوررسالوں کی تصنیف وتالیف بھی ہ ے۔ اسی طرح آپ نے ، ا پنے استادوں کی تمام تقریرات کوبھی تالیف کیا ہے ۔

درس وبحث کاطریقہ

 آپ کے درس دینے کاطریقہ حوزہ کے دوسرے استادوں اوردرس خارج کہنے والوں سے الگ ہے ،جیسے آپ کے اصول کے درس کی خصوصیت ذیل میں بیان کی جارہی ہے ۔

۱ ۔ بحث کی تاریخ کاذکر:

 اصول کی شناخت اوراس کی بنیادی چیزیں ،جوشایدایک فلسفی مسلہ ہے جیسے سہولت وآسانی مشتق اوراس کے ترکیبات   ہوں یاعقیدتی وسیاسی، جسیے تعادل وتراجیح کی بحث، جس میں آپنے بیان کیاہے کہ حدیثوں کااختلاف ،اس زمانے کے فکری اورعقائدی جھگڑوں ،کشمکشوں اورا ٓ ئمہ  کے زمان ے کے سیاسی حالات کانتیجہ تھا اس بارے میں تھوڑی سی تاریخی معلومات بھی ہمیں اس مس ئ لہ کے افکارونظریوں کے حقیقی پہلوؤں تک پہنچادیت ی ہے۔

۲ ۔ حوزوی اورجدیدفکرکاسنگم:

 کتاب کفایةکے مو لف نے ، معانی الفاظ کی بحث کے ضمن میں ، معانی الفاظ کے بارے میں اپنے نظریات کوجدیدفلسفی نظریہ کے تحت،جس کانام ?نظریہ تکثرادراکی? ہے اورجوانسانی ذہن کی استعدادوخلاقیت پرمبنی ہے،بیان کیاہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ انسان کاذہن ایک بات کودوالگ الگ شکلوں میں تصورکرسکتاہے: ایک کومستقل طورپردقت ووضاحت کے ساتھ ، اسے اسم کہاجاتاہے اوردوسرے کوغیرمستقل طورپرکسی دوسری چیزکی مددسے اسے حرف کہتے ہیں ، اورجب ?مشتق? کی بحث شروع کرتے ہیں توآپ زمان کواس فلسفہ کی نظرسے دیکھتے ہیں جومغربی دنیامیں رائج ہے اور اس بارے میں بھی اظہارخیال کرتے ہیں کہ زمان کومکان سے روشنی اوراندھیروں کے لحاظ سے الگ کیاجاناچاہئے ،صیغہ امراورتجری کی بحث میں سوشیالسٹس کے نظریوں کوذکرکرتے ہیں ۔جنکا ماننا ہے کہ بندے کی سزاکامعیاراللہ کی نافرمانی ہے اوریہ حالت پرانے انسانی سماج کی طبقہ بندی اورتقسیم بندی پرہے جس میں آقا،غلام،بڑے ،چھوٹے?? کافرق پایاجاتاتھا ۔ درحقیقت یہ نظریہ اس پرانے سماج کے باقیات میں سے ہے جوطبقاتی نظام پرمبنی تھا ، نہ کہ اس قانونی نظام پرجس میں عام انسان کے فائدوں کی بات کی جاتی ہے۔

۳ ۔  ان اصول کااہتمام جو فقہ سے مربوط ہیں :

 لہذاایک طالب علم بھی علماء کی دقیق اورپیچیدہ فقہی بحثوں کو،جن کاکوئی علمی اورفکری نتیجہ نہیں ہوتا، دیکھ سکتاہے جیسے وہ بحثیں جووضع کے بارے میں کی جاتی ہیں کہ کیاوضع ایک امرتکوینی ہے یااعتباری، یاایک ایساامرہے جوتعہدوتخصیص سے متعلق ہے، یاوہ بحثیں جوعلم کے موضوع اورعلم کے موضوع کی تعریف کے ذاتی عوارض کے بارے میں ہوتی ہیں اور انہیں جیسی کچھ   دیگر چیزیں جو بیان ک ی جاتی ہیں ، لیکن جوکچھ آیة اللہ العظمی سیستانی کے درسوں میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ  یہ ہے کہ موصوف محکم اورمضبوط علمی مبن ا کوحاصل کرنے کے لیے سخت محنت وزحمت کرتے  ہ یں خاص طور پر روش استنباط اور اصول کی بحث وں میں ، جیسے اصول عملی، تعادل وتراجیح ،عام وخاص وغیرہ کے متعلق جوبحثیں ہیں۔

۴ ۔ جدت :

 حوزہ کے بہت سے استادوں میں تخلیق کافن نہیں پایاجاتاہے لہذا وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی کتاب یارسالہ پرتعلیقہ یاحاشیہ لکھے، بجائے اس کے کہ اس پربحث کریں، لہذاہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے استادصرف موجودااستادوں کے نظریوں پربحث کرتے ہیں یا?ففہم? یااس شکل پردواشکال واردہوتے ہیں اوران دواشکالوں میں غورکرناچاہئے، جیسی عبارتوں میں مشغول کرلیتے ہیں۔

۵ ۔  مشرکوں کے ساتھ نکاح جائز ہے :

 آیة اللہ سیستانی اس قاعدہ کوجیسے قاعدہ ?تزاحم? کہتے ہیں اورجسے فقہاء واصولین صرف ایک عقلی ،عقلائی قاعدہ مانتے ہیں ،قاعدہ اضطرارکے ضمن میں جوایک شرعی قاعدہ ہے اوراس کے بارے میں بہت سی نصوص کاذکرہواہے ،جیسے(ہروہ چیزجسے اللہ نے حرام کیاہے ،اسے ہی مضطر کے لیے حلال کیاہے) کوحلال جانتے ہیں لہذا قاعدہ اضطراراصل میں وہی قاعدہ تزاحم ہے، یایہ کی فقہاء واصولین بہت سے قاعدوں کوفضول میں طول دیتے ہیں جیسے جوکچھ قاعدہ لاتعادمیں دیکھنے میں آتاہے کہ فقہا ء اسے نص کی وجہ سے نمازمیں سے مخصوص مانتے ہیں جبکہ آیة اللہ سیستانی اس حدیث ?لاتعادالصلاة الامن خمس?کومصداق کبری مانتے ہیں جونمازاوربہت سے مختلف واجبات کوشامل ہے اوریہ کبری روایت کے آخرمیں موجودہے، ولاتنقض السنة الفریضہ لہذاجوکچھ مسلم ہے وہ یہ ہے کہ نمازمیں بھی اوراس کے علاوہ بھی واجبات سنت پرترجیح رکھتے ہیں جیسے ترجیح وقت وقبلہ ،اس لیے کہ وقت اور قبلہ واجبات میں سے ہے نہ کہ سنت سے۔

۶ ۔   اجتماعی نظر :

کچھ فقہاء ایسے ہیں جومتن کاتحت اللفظی ترجمہ کرتے ہیں یادوسرے لفظوں میں یہ کہاجائے کہ وہ وسیع معنی کوبیان کر نے کے بجائے خودکوم تن کے حروف کاپابندبنالیتے ہیں ۔ کچھ دوسرے فقہاء ان حالات پربحث کرتے ہیں جس میں وہ م تن کہاگیاہے تاکہ ان باتوں سے آگاہ ہو سکیں جن کی وجہ سے اس م تن پراثرہواہے ،جیسے اگرپیغمبراسلام (ص) کی اس حدیث پرغوروفکرکریں جس میں آپنے (خیبرکی جنگ میں)پالتوگدھے کے گوشت کوحرام قراردیاہے ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ فقہاء اس حدیث کے ایک ایک حرف پرعمل کرتے ہیں یعنی یہ کہ اس حدیث کے مطابق پالتوگدھے کے گوشت کوحرام قراردیتے ہیں، جبکہ ہمیں ان حالات پربھی توجہ دینی چاہئے ج ن میں یہ حدیث بیان کی گ ئی تھی تاکہ پیغمبراسلام (ص) کی اس حدیث کوبیان کرنے کے اصلی اوربنیادی مقصدتک پہنچاجاسکے اوروہ یہ ہے کہ خیبرکے یہودیوں کے ساتھ جنگ لڑنے کے لئے ہتھیاراوراورفوجی سازوسامان کی سخت ضرورت تھی جبکہ اس زمانے میں جس میں مسلمانوں کے حالات اچھے نہیں تھے اوراسلاح کو ڈھونے کے لیے چارپایوں کے علاوہ کوئی دوسرا ذر یعہ نہیں تھااس لیے ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ اس حدیث سے مرادایک حکومتی پابندی تھی جس میں ایک ایسی مصلحت تھی جس کی ان دنوں ضرورت تھی ، اس لیے اس طرح کا حکم صادرہوا لہذااس حدیث کوحکم یاحلال وحرام کے طورپرنہیں لیناچاہئے۔

۷ ۔  استنباط میں علم ودرایت کاہونا:

 آیة اللہ العظمی سیستانی کا نطریہ یہ ہے کہ ایک فقیہ کوعربی زبان اور قواعد میں ماہر ہونا چاہئے ۔ ساتھ ہی ساتھ عربی نثر و نظم اورحقیقت مجازکے استعمال سے بھی مکمل طورپر واقف ہونا چاہئے تاکہ متن کوموضوع کے اعتبارسے سمجھ سکے،اسی طرح اہلبیت علیہم السلام کی حدیثوں اوران کے راویوں پر پوری طرح سے تسلط ہون ا چاہئے اس لیے کہ علم رجال کی معرفت ہرمجتہدکے لیے واجب وضروری ہے ۔ اسی طرح آپ کے کچھ نظریے ایسے ہیں جومنحصربہ فردہیں اورمشہورسے کافی مختلف ہیں ، جیسے ابن غزائری اور ان کی کتاب ک ے بارے میں موصوف کی رائے مشہورسے مخ ت لف ہے آپ کی نظرمیں وہ کتاب ابن غزائری کی ہی ہے اورغزائری، نجاشی اورشیخ وغیرہ سے زیادہ قابل اعتمادہے ۔ آپ کایہ بھی مانناہے کہ کسی حدیث کو مسندیامرسل قرارد ینے اور راوی کی شخصیت کو معین کرنے کے لیے،  طبقات کی روش پراعتمادکرنا چاہئے اور یہی روش مرحوم آیة اللہ بروجردی کی بھی تھی۔۔

۸ ۔ مختلف مکتبوں کے درمیان مقایسہ:

 ہم سب جانتے ہیں کہ اکثراساتذہ ایک مکتب یاعقیدہ کونظرمیں رکھ کرکسی موضوع،کی تحقیق یامطالعہ کرتے ہیں ، لیکن آیة اللہ سیستانی کی روش اس سے مختلف ہے۔ مثلاجب وہ کسی موضوع پرتحقیق کرتے ہیں توحوزہ مشہدو حوزہ قم اور حوزہ نجف اشرف کے درمیان مقایسہ کرتے ہیں ۔ وہ مرزا مہدی اصفہانی (قدس سرہ) جومشہدکے ایک مشہور عالم ہیں ،آیة اللہ بروجردی(قدس سرہ) ، جو حوزہ علمیہ قم کی فکرک ا سمبل ہیں اور اسی طرح حوزہ علمیہ نجف کے مشہورمحققوں جیسے  آیة اللہ خوئی اورشیخ حسین حلی(قدس سرہ ما ) کے نظریوں کوایک ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب  کسی موضوع پر اس طرح بحث ہوتی ہے تو اس کے سارے گوشے اورنکتے ہمارے سامنے اچھی طرح واضح ہوجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ کی فقہی روش میں بھی چندخوبیاں پائی جاتی ہیں جوحسب ذیل ہیں:

۱ ۔ شیعہ اور دیگر مذاہب کی فقہ کے درمیان مقایسہ:

 اس لیے کہ اس زمانے میں ، ہمارا اہل سنت کے فقہی افکارسے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے، جیسے موتامالک اورخراج ابویوسف اوراس جیسی دوسری کتابوں سے ، تاکہ کسی حدیث کو بیان کرنے کے آئمہ کے مقصداوراس کے بارے میں اہل سنت کے نظریہ کوسمجھاجاسکے۔

۲ ۔  کچھ فقہی بحثوں میں،دورحاضرکے ق وانین کاسہارا:

جیسے کتاب بیع وخیارات کی بحث میں ،کچھ فقہی مناسبتوں کی وجہ سے عراق،مصر اور فرانس کے قانون کاسہارالی تے ہیں۔ اس لئے کہ اس زمانے کے قانون کے اسلوب کو ج اننے ک ے بعد انسان کوبہت سے تجرب ے حاصل ہوتے ہیں، جب   دور حاضرکے قانون کے ذریعے فقہی قواعد کی تحلیل کی جاتی ہے اور ان دونوں میں مطابقت   پیدا کیا جاتا ہے تو بحث کے تمام اہم نکت ے روشن ہوجاتے ہیں۔

۳ ۔ ہمارے اکثرعلماء ان فقہی قاعدوں پرجوبزرگوں سے ہم تک پہنچے ہیں،کوئی ردوبدل نہیں کرتے ہیں:

اس قاعدہ کی بنیاد پرمسلمانوں کو یہ حق ہے کہ اپنے ذاتی فائدوں کے لیے کبھی کسی دوسرے اسلامی مسلک کے قوانین کی اتباع کرسکتے ہیں (چاہے وہ  قوانین اس کے اصلی  مسلک کے مخالف ہی ہو)  لیکن آیة اللہ سیستانی اس کوقبول نہیں کرتے ۔ بلکہ وہ مذہب اور اس کے قوانین کو دوسرے مذ ا ہب سے زیادہ لائق احترام و ضروری سمجھتے ہ یں جیسے یہ قاعدہ ?لکل قوم نکاح? یعنی ہرمذہب میں نکاح اورشادی کی اپنی مخصوص رسمیں ہوتی ہیں۔

آیة اللہ سیستانی( دام ظلہ ) کی شخصیت کی خصوصیت یں

 آپ سے مل اقات کرنے والے  حضرات ، جلدی ہی آپ کی ممتازاورآیڈیل شخصیت کوسمجھ جاتے ہیں آپ کی شخصیت کی ان ہی خوبیوں نے آپ کوایک مکمل نمونہ عمل اورعالم ربانی بنادیاہے ۔ آپ کے فضائل اوراخلاق کے کچھ نمونہ جن کا میں نے نزدیک سے مشاہدہ کیاہے ،انہیں یہاں بیان کر رہا ہوں:

۱ ۔ دوسروں کی را ئے  کا احترام

 چونکہ آپ علم کے شیدائی ہیں اورمعرفت وحقائق تک پہنچن ا چاہتے ہیں، اس لئے ہمیشہ دوسروں کی را ئے کااحترام کرتے ہیں ۔ انکے ہاتھ میں ہمیشہ کوئ نا کوئ کتاب رہتی ہے ۔ وہ کبھی بھی مطالعہ ،تحقیق،بحث اورعلماء کے نظریات کونظراندازنہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ غیر معروف علماء کے نظریات کوبھی پڑھتے ہیں اوران پرتحقیق بھی کرتے ہیں ۔ یہ روش اس   بات کی علامت ہے کہ آیة اللہ سیستانی دوسروں کی را ئے کے لیے خاص توجہ اوراحترام کے قائل ہیں۔

۲ ۔ بات چیت میں ادب و نزاکتوں کا لحاظ :

 جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ طلباء کے درمیان جومباحث ے ہوتے ہیں یاایک طالب علم اوراستادکے درمیان جو بحث ہوتی هے ، خاص طورپرحوزہ نجف میں ،وہ نہایت ہی سخت وگرم ہوت ی ہے ۔ کبھی کبھی یہ چیزطلباء کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی بحث وگفتگومیں ہمیشہ سختی وگرمی کاہوناصحیح نہیں ہے ۔ یہ ہرگزکسی صحیح علمی مقصدتک نہیں پہنچاتی ،وقت کی بربادی کے علاوہ طلباء میں مذاکرہ کے جذبہ کوبھی ختم کردیت ی ہے ۔ اسی وجہ سے جب آیة اللہ سیستانی اپنے شاگردوں کو درس دیتے ہیں یاان سے بحث کرتے ہیں تو اس بحث کی بنیادایک دوسرک ے عزت واحترام پرہوتی ہے ۔ وہ اپنے شاگردوں کےاحترام کا خاص خیالرکھتے ہیں چاہے ان کے سامنے جوبحث ہو رہی ہو وہ کمزوراوربے بنیاد   ہی کیوں نہ ہو ۔ آپ کی ایک دوسری خوبی یہ ہے کہ آپ اپنے شاگردوں کو   جو جواب دیتے ہیں ،اس کودہراتے ہیں تاکہ وہ ، اس بات کواچھی طرح سمجھ لیں ۔ لیکن اگرسوال کرنے والااپنے نظریہ کے بارے میں ضدکرتاہے توآپ خاموش رہن ا ہی پسندکرتے ہیں۔

۳ ۔  تربیت:

 تدریس ،پیسہ کمانے کاذریعہ نہیں ہے ، بلکہ ایک بہت اہم ذمہ داری ہے۔ اسی لئے ایک اچھے ، مہربان اورشفیق استادکی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنے شاگردوں کی اچھی تربیت کرے اورانہیں ایسے بلندعلمی مقام تک پہنچائے جہاں سے ترقی کے موقع فراہم ہوں ۔ اور ان ساری باتوں کالاز م ہ محبت ہے ۔ لیکن اچھے اور برے لوگ ہرجگہ  پائے جاتے ہیں۔ جہاں کچھ   لوگ لاپروا اورغیرذمہ دار ہو تے ہیں ،   وہیں ایسے لوگوں ک ی بھی کمی   نھیں ہے جومخلص،ہمدرد،مہربان، اورسمجھدار ہوتے ہیں اورجن کااصلی مقصد تدریس کی ذمہ داریوں کواچھی طرح ادا کر نا ہوتا ہے ۔

 یہاں پریہ بات بھی قابل ذکرہے کہ آیة اللہ حکیم اورآیة اللہ خوئی دونوں ہی ہمیشہ بہترین اخلاق کانمونہ رہے ہیں اورجوکچھ میں نے آیة اللہ سیستانی کی زندگی میں دیکھا ، وہ وہی ان کے استادوں وال ا اخلاق ہے۔ وہ اپنے شاگردوں سے ہمیشہ اس بات کا  تقاضا کرتے ہیں کہ درس ختم ہوجانے کے بعد ان سے سوال کریں، حضرت آیة اللہ سیستانی ہمیشہ اپنے شاگردوں سے کہتے ہیں کہ اپنے استادوں اورع الموں کااحترام کرواوربحث وسوالات کے وقت ان کے ساتھ نہایت ادب سے پیش آؤ ۔ وہ ہمیشہ اپنے استادوں کے کردار کی بلند ی کے قصہ سناتے رہتے ہیں۔

۴ ۔ تقوی اورپرہیزگاری:

 نجف کے کچھ علماء خودکو لڑائ جھگڑوں اور شکوے شکایتوں سے دوررکھتے ہیں، لیکن کچھ لوگ اسے حقیقت سے بچنااور فرارکرنا مانتے ہیں یااسے ڈراورکمزوری سمجھتے ہیں ۔ لیکن اگراس مسئلہ کودوسرے نکتہ نظرسے دیکھاجائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ایک مثبت امرہ ی نہیں، بلکہ بہت سی جگہوں پرضروری اورمہم بھی ہے ۔ لیکن اگروہی علماء احساس کریں کہ امت اسلامی یاحوزہ، کسی خطرہ میں پڑگیاہے تویقینا وہ بھی میدان میں کودپڑیں گے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہرعالم کوسخت اورحساس موقعوں پراپنے علم کااظہارکرناچاہئے ۔

 ایک اہم نکتہ جسے یہاں پرذہن میں رکھناضروری ہے، وہ یہ ہے کہ آیة اللہ سیستانی فتنوں اوربلوں کے موقعوں پرہمیشہ خاموش رہتے ہیں، جیسے جب آیة اللہ بروجردی اورآیة اللہ حکیم کے انتقال کے بعد،   علماء  مقام ومنصب حاصل کرنے کے لیے اپن ی شخصیت کو چمکانے کے چکرمیں پڑ ے ہوئے تھے، تب بھی آیة اللہ سیستانی اپنی ثابت سیاست پرعمل کرتے رہے ۔ انہوں نے کبھی بھی دنیوی لذتوںاورعہدے ومقام کواپنامقصدنہیں بنایا۔

۵ ۔  فکری آثار:

حضرت آیة اللہ سیستانی صرف ایک فقیہ ہی نہیں بلکہ ایک بلند فکر اور نہایت ذہین انسان ہیں اوراقتصادی وسیاسی میدان پر بھی آپ کی گہری نظرہے ۔ سماجی نظام وسیسٹم پربھی آپ کے بہت اہم نظریے پائے جاتے ہیں اورآپ ہمیشہ اسلامی سماج کے حالات سے باخبررہتے ہیں ۔

قابل ذکر بات ہے کہ جب آپ ۲۹/ ربیع الثانی سن ۱۴۰9 ھجری  میں اپنے استادآیة اللہ العظمی سیدابوالقاسم خوئی کی عیادت کے لیے گئے توآپ کے استادنے آپ سے چاہاکہ آپ ان کی جگہ پرمسجدخضراء میں امامت کی ذمہ داری س نبھا ل ل یں ، لیکن آپ نے قبول نہیں کیا ۔ مگرجب استادمحترم نے اصرارکیااورفرمایا: ?کاش میں تمہیں اسی طرح حکم دے سکتا جس طرح مرحوم حاج آقاحسین قمی نے دیاتھا، تو میں بھی تمہیں قبول کرنے پرمجبورکردیتا? تو یہ سن کر آپ اس ذمہ ذاری کو س نبھا ل نے   کے لئے تیارہوئے۔

    لیکن آپ نے چندروز کی مہلت مانگی اوراس کے بعد 5 / جمادی ا لاول سن ۱۴۰9 میں امامت کی ذمہ داری قبول فرمائی اوراس فریضہ کو ۱۴۱۴ ہجری کے ذی الحجہ کے آخری جمہ تک انجام دیا اس کے بعد حکومت کی جانب سے اس مسجد کو بندکردی ا گ یا اوریہ سلسلہ قطع ہوگیا۔

 آپ سن۱۳۷۴ ہجری میں پہلی بار فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے بیت اللہ الحرام تشریف لے گئے اورا سکے بعد سن ۱۴۰۴اور ۱۴۰۵ ہجری میں بھی بیت اللہ الحرام کی زیارت سے مشرف ہوئے۔

آپ کی مرجعیت :

حوزہ علمیہ نجف اشرف کے کچھ علماء نقل کرتے ہیں کہ آیة اللہ سیدنصراللہ مستنبط کے انتقال کے بعد کچھ علماء وفضلاء نے آیة اللہ خوئی سے یہ آرزو ظاہر کی کہ آپ مرجعیت کی صلاحیت رکھنے والے اپنے کسی شاگرد کو اپنے جانشین کے طور پر معین فرمادیں ، تو انہوں نے، آیة اللہ سیستانی کو ، ان کے علم،پرہیزگاری اورمضبوط نظریات کی وجہ سے انتخاب کیا ۔ شروع میں آپ آیة اللہ خوئی کی محراب میں نمازپڑھایاکرتے تھے پھرآپ ان کے رسالہ پربحث کرنے لگے اوراس پرتعلیقہ لگایا ۔ آیة اللہ خوئی کے انتقال کے بعد ان کے تشیع جنازہ میں شریک ہونے اوران کے جنازہ پرنمازپڑھنے والوں میں آپ بھی تھے ۔ آیة اللہ خوئی کے بعدحوزہ نجف کی مرجعیت کی باگ ڈورآپ کے ہاتھوں میں آگئی اورآپ نے اجاز ے دینے، شہریہ تقسیم کرنے اورمسجدخضراء میں آیة اللہ خوئی کے منبرسے تدریس کرنے کاکام شروع کردیا ۔ اس طرح آیة اللہ سیستانی عراق ،خلیجی ممالک،ہندوستان اورافریقہ وغیرہ کے جوان طبقہ میں جلدی ہی مشہورہوگئے۔

حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی ایک جانے مانے عالم دین ہیں اور ا ن کی مرجعیت مشہورہے ۔ حوزہ علمیہ قم ونجف کے استاد اور ایک بڑی تعدادمیں اہل علم حضرات آپ ک ی عالم یت ک ے گواہ ہیں ۔

 آخرمیں ہم اللہ تعالی سے دعاکرتے ہیں کہ ان کے سایہ کو ہمارے سروں پرباقی رکھے۔

تبصرے
Loading...