تشیع کے اندر مختلف فرقے

 

شیعوں کے اہم ترین گروہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوئے ہیں اور دوسری صدی ہجری کے تمام ہونے تک کوئی خاص تفریق نظر نہیں آتی اسی وجہ سے صاحبان ملل ونحل نے واقفیہ کے مقابلہ میں شیعہ امامیہ کو کہ جو امام رضا کی امامت کے قائل ہیں انہیں قطعیہ اور اثنا عشری کانام دیا ہے نیز وہ امام رضا کے بعد امام زمانہ تک کی امامت کے قائل ہیں ۔(١)
البتہ پہلی صدی ہجری میں بھی ٦١ھ تک یعنی امام حسین کی شہادت تک کوئی بھی نیا فرقہ تشیع میں پیدا نہیں ہوا،اگرچہ شہرستانی نے فرقہ غلات سبئیہ کو شیعہ فرقہ کی ایک شاخ جانا ہے کہ جو امام امیر المومنین کے زمانہ میں پیداہو ا ہے(٢)جبکہ خود ابن سبا نام کے شخص کے بارے میں شک و تردید کا اظہار کیا گیا۔ (٣)

جب کہ خود رجال کشی نے کہا ہے: کچھ غالی افراد حضرت علی کے زمانہ میں بھی موجود تھے امام نے انہیں توبہ کرنے کا حکم دیاجب انہوںنے توبہ نہیں کی توآپ نے ان کوپھانسی دے دی۔(4)
امام حسن اور امام حسین مسلمانوںکے درمیان ایک خاص مقام ومنزلت رکھتے تھے اور پیغمبرۖ کی یکتا ذریت شمار ہوتے تھے ، شیعوں کے علاوہ عام مسلمان بھی انہیں خلافت کا سزاوار جانتے تھے ،اس وجہ سے ان دو بزرگ شخصیتوں کے زمانہ میں امر امامت سے متعلق کوئی شبہ پیش نہیں آیا اور کسی قسم کا فرقہ بھی وجود میںنہیں امام حسین کی شہادت کے بعد شیعوں کے درمیان ہم بہت سے فرقوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور جو فرقہ نکلے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔
کیسانیہ:یہ فرقہ محمد حنفیہ کی امامت کا معتقدہے ۔
زیدیہ :یہ فرقہ زید بن علی کی امامت کامعتقد ہے۔
ناووسیہ :یہ فرقہ امام صادق کی غیبت اوران کی مہدویت کا قائل ہے ۔
فطحیہ:امام صادق کے فرزند عبداللہ افطح کی امامت کا قائل ہے ۔
اسماعیلیہ:امام صادق کے فرزند اسماعیل کی امامت کا قائل ہے۔
طفیہ :یہ لوگ معتقد ہیں کہ امام صادق نے موسیٰ بن طفیّ کی امامت کی تاکیدو سفارش کی ہے۔
اقمصیہ :یہ لوگ قائل ہیں کہ امام صادق نے موسیٰ بن عمران اقمص کی امامت کی تاکید کی ہے ۔

یرمعیہ:یہ لوگ کہتے ہیں کہ امام صادق نے یرمع بن موسیٰ کی امامت تاکید کی ہے۔ 
تمیمیہ: یہ لوگ قائل ہیں کہ امام صادق نے عبد اللہ بن سعد تمیمی کی امامت کی تاکید فرمائی ہے ۔
جعدیہ :یہ لوگ کہتے ہیں کہ امام صادق کاجانشین ابی جعدہ نامی شخص تھا ۔
یعقوبیہ:یہ لوگ موسیٰ بن جعفر کی امامت کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ فرزندان امام صادق کے علاوہ بھی امامت کا پایا جانا ممکن ہے ا ن کے بڑے لیڈر کانام ابویعقوب تھا ۔
ممطورہ:یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے امام کاظم پرتوقف کیا اور کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ حضرت دنیاسے گئے یا نہیں؟۔(5)
واقفیہ :یہ لوگ قائل ہیں کہ امام کا ظم با حیات ہیں اور قیامت تک با حیات رہیں گے۔(6)
البتہ ان فرقوں میں سے بعض چھوٹے فرقے اور بھی نکلے ہیں مثلاًکیسانیہ کہ جو محمد حنفیہکی امامت کے قائل تھے ان میں دو گروہ تھے ،کچھ قائل ہیں کہ محمد حنفیہ امام حسین کی امامت کے بعدامام ہو ئے اور کچھ کہتے ہیںمحمد حنفیہ اپنے والد حضرت علی کے بعد امام تھے ، ان کے بعد امامت کو ان کے بیٹے ابو ہاشم کی طرف نسبت دیتے ہیں، اس میں بھی چند گروہہیں ،ایک گروہ معتقد تھا کہ ابو ہاشم نے محمد بن علی عباسی کی امامت کی تاکید کی تھی، دوسراگروہ یہ کہتاہے کہ ابو ہاشم نے اپنے بھائی علی بن محمد حنفیہ کی امامت کی تاکید کی تھی، تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ابو ہاشم نے اپنے بھتیجے حسن بن علی کو اپنا جانشین بنایا تھا،چوتھا گروہ معتقد تھا کہ ابو ہاشم نے عبداللہ بن عمرو کندی کی امامت کے بار ے میں تاکیدکی تھی۔ (7)

زیدیہ بھی تین بنیادی گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں: (8)
جارودیہ :یہ لوگ حضرت رسول ۖ اکرم کے بعد حضرت علی کو خلافت کا مستحق جانتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ پیغمبرۖ نے حضرت علی کو ان کے اوصاف کے ساتھ لو گوں کو پہچنوایا نہ کہ نام کے ساتھ لوگوں نے ان کو پہچاننے میں کو تاہی کی اور ابو بکر کو اپنے اختیار سے چنا اور کفر اختیار کیا۔
سلیمانیہ:یہ لوگ قائل ہیں کہ امام کا انتخاب شوری کے ذریعہ ہوتا ہے یہ لوگ فاضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی امامت کو جائز جانتے ہیں، اسی بنا پر ابو بکر و عمر کی خلافت کو جائز جانتے ہیںان کا خیال ہے کہ امت نے حضرت علی کا انتخاب نہ کر کے خطا کی ہے لیکن فسق کی مرتکب نہیں ہوئی یہ لوگ عثمان کو بھی کافر جانتے ہیں۔(9)

بتریہ:ان کے عقائد بھی سلیمانیہ کی طرح ہیں، صرف اس فرق کے ساتھ کہ عثمان کے بارے میں یہ توقف کے قائل ہیں ۔(10)

فرقۂ اسماعیلیہ بھی تین گروہ میں تقسیم ہوگیا:
ایک فرقہ قائل ہے کہ امام صادق کے بعد ان کے فرزنداسماعیل امام ہیں اور وہ ابھی تک زندہ ہیں اور وہی مہدی موعود ہیں۔
دوسرا فرقہ قائل ہے کہ اسماعیل دنیا سے جا چکے ہیں ان کے بیٹے محمد امام ہیں اور وہ غائب ہیں ایک دن ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
تیسرا فرقہ بھی دوسرے فرقہ کی طرح محمد بن اسماعیل کی امامت کا قائل ہے فرق صرف یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ محمد دنیا سے رخصت ہوگئے اور امامت ان کی نسل میں باقی ہے۔(11)
ان میں سے بہت سے فرقے زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہے بلکہ ان پر فرقہ ہونے کا اطلاق بھی مشکل سے ہوگا جو اپنے قائد کی موت کے بعد نابود ہوگئے اور انہیں سیاسی و اجتماعی میدانوں میں ان کا کوئی خاص کردار نہیں رہا ان فرقوں میں سے تین فرقہ کیسانیہ زیدیہ،اسماعیلیہ پہلی دوسری اور تیسری صدی ہجری میں پائدار تھے البتہ فرقہ اسماعیلیہ اگرچہ دوسری صدی میں امام صادق کی شہادت کے بعد پیکر تشیع سے جدا ہو گیا تھا لیکن تیسری صدی ہجری کے نصف تک ان میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی تھی ان کی پیشوا خفیہ زندگی بسر کر رہے تھے۔(12)

پہلی صدی ہجری میں شیعہ امامیہ کے بعد زید کے خروج تک کیسانیہ ایک موثر ترین شیعہ فرقہ شمار ہوتا تھا، کیسانیہ فرقہ کا قیام مختار میںاہم کردار رہا ہے اگر مختار کو کیسانیہ سے وابستہ نہ بھی جانیں تو بھی ان کی فوج میں بہت سے افراد کیسانیہ فرقہ پرقائم تھے۔(13)
اس فرقہ نے پہلی صدی ہجری کے آخر تک اپنی سیاسی کوشش کو جاری رکھا اور ابوہاشم عبد اللہ بن محمد نفس زکیہ جو اس فرقہ کے قائد تھے انہوں نے پہلی مرتبہ لفظ داعی اور حجت کے لفظ کا اطلاق اپنے مبلغین کے لئے کیا اور بعد میں دوسرے فرقوں نے ان الفاظ سے فائدہ اٹھا یاجیسے عباسی، زیدی، اسماعیلی اسی طرح سب سے پہلے انہوں نے ہی خفیہ تبلیغ و مبلغین کا نظام قائم کیااس کے بعد عباسیوں نے اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا ۔(14)
اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے جس وقت اس کی طرف سے خطرہ کا احساس کیااس کو شام بلاکر زہر دے دیا جب ابو ہاشم کو معلوم ہوا کہ ان کی زندگی کا خاتمہ ہونے والا ہے تو خفیہ طور پر بنی عباس میں سے اپنے چچازاد بھائیوں کی رہائش (مقام حمیمہ) پر گئے اوراپنے چچا زاد بھائی محمد بن علی عباسی کو اپنا جانشین بنادیا اور اپنے مبلغین اور فوج سے ان کی شناسائی کرائی۔(15)اس کے بعد بنی عباس نے کیسانیہ کی قیادت کو اپنے کاندھوں پر لے لیا اور اپنی فعالیت وسرگرمی کو خراسان میں متمرکز کر دیا جیسا کہ ابوالفرج اصفہانی کا بیان ہے :

اہل خراسان معتقد ہیں کہ ابو ہاشم اپنے باپ کاجانشین تھا اور اس کے باپ نے وصایت کو اپنے باپ (حضرت علی )سے ارث کے طور پر لیا تھااورانہوں نے بھی محمد بن علی عباس کو اپناجانشین قرار دیا تھا اور محمد بن علی نے اپنے بیٹے ابراہیم کو امام بنایااس طرح سے وہ بنی عباس میں اپنی جانشینی کو ثابت کرتے ہیں۔
شہرستانی یہاں تک معتقد ہے کہ ابو مسلم خراسانی ابتدا میں کیسانی تھا لیکن بعد میںجب عباسی کامیاب ہوگئے تو اپنی مشروعیت کویعنی اپنے جد عباس کی جانشینی کورسول خداۖ سے وابستہ اورمنسلک کردیا ،کیسانیوں کی سیاسی اور اجتماعی فعالیت کو عبد اللہ بن معاویہ (کہ جو جعفر طیار کی نسل سے تھے)کے قیام میں تلاش کیا جاسکتا ہے شہرستانی کاکہنا ہے: کیسانیوں میں سے کچھ عبداللہ بن عمرو کندی کی جانشینی کے معتقد تھے اور جب لوگوں نے اس کی خیانت اور جھوٹ کودیکھ لیا تو عبد اللہ بن معاویہ بن عبداللہ بن جعفر طیار کی امامت کے قائل ہوگئے عبد اللہ بن معاویہ اور محمد بن علی کے ماننے والوں کے درمیان امامت کے سلسلے میںشدید اختلاف تھا ۔(16)
فرقہ کیسانیہ کے بعد جو فرقہ سیاسی اور اجتماعی میدان میں بہت زیادہ فعال و سرگرم تھا وہ فرقہ زیدیہ ہے کہ جو قیام زید کے بعدوجو د میں آیا یہ فرقہ شیعہ فرقوں میں سب سے زیادہ سیاسی رہا ہے اور تمام شیعہ فرقوں کی بہ نسبت اہل سنت کے اصول سے بہت زیادہ نزدیک تھا چنانچہ فرقہ زیدیہ بتریہ ابو بکر و عمر و عثمان کی خلافت کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ عائشہ ،طلحہ ،زبیر کی تکفیر بھینہیں کرتے تھے۔(17)

اسی وجہ سے فقہائے اہل سنت کی کافی تعداد نے محمد نفس زکیہ (کہ جو زیدی تھے) کے قیام کی تائید کی ہے ۔(18)
فرقہ مرجئہ کے بزرگ مسعر بن کدام نے محمد نفس زکیہ کے بھائی ابراہیم کو کوفہ آنے کے لئے خط بھی لکھا تھا۔(19)
ابو حنیفہ مذہب حنفی کے امام محمد نفس زکیہ کے قیام میں شریک تھے اور لوگوں کو ان کی مدد کرنے کی تشویق کرتے تھے۔(20)
سعد بن عبداللہ اشعری قمی فرقہ زیدیہ بتریہ کے بارے میں کہتا ہے: انہوں نے ولایت علی ـ کو ولایت ابو بکر و عمر کے ساتھ مخلوط کردیا ہے،(٥)خاص کر اصول دین میں معتزلہ کے پیرو ہیں اور فروع دین میں ابو حنیفہ اور کچھ حد تک شافعی کی پیروی کرتے ہیں۔(21)
مذہب زیدی یعنی تشیع بمعنی اعم بہت زیادہ، سنی عقائد سے معارض نہیں تھا اسیبناپر زیدیوں کے بعض قیام جیسے محمد نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم کے قیام میں بہت سے علماء اہل سنت بھی شریک تھے اور جو شیعہ ان کے قیام میں ساتھ تھے ان کا خیال تھا کہ منجملہ سبھی علوی قیام کے قائد و رہنماامام معصوم کی طرف سے منصوب ہیں، شاید شیعوں کے ان کے ارد گرد سے منتشر ہونے کی علت یہی ہو خلاصہ یہ کہ صرف زیدی پوری طرح ان رہبروں کے ساتھ باقی رہ گئے تھے مثلاً محمد نفس زکیہ کے بھائی براہیم بن عبد اللہ نے مسعودی کے بقول زیدیوں کے چارسو افراد ہمراہ جنگ کی اور یہ چند لوگ ان کے ساتھ قتل ہوئے۔(22)

تیسرا فرقہ جو اجتماعی اورسیاسی میدان میں فعال و سرگرم تھا وہ فرقہ اسماعیلیہ ہے یہ فرقہ دوسری صدی کے دوسرے نصف میں پیکر تشیع سے جدا ہوگیا لیکن تیسری صدی ہجری کے آخر تک اسے معاشرے میں کوئی خاص اہمیت ومقبولیت حاصل نہیں ہوتی اور اس کے قائدین ٢٩٦ھ یعنی مراقش میںپہلے فاطمی خلیفہ عبید اللہ مہدی تک خفیہ زندگی بسر کرتے رہے اس وجہ سے اس فرقہ کے تشکل کے مراحل کا پوری طرح سے علم نہیںہے نو بختی جو تیسری صدی ہجری میں موجود تھا اس نے ان کی پہلی فعالیت اور سرگرمیوں کو غلات اور ابن الخطاب کی پیروی سے ربط دیا ہے۔(23)
ان کے عقائد بھی ابہام کی شکل میں باقی رہ گئے۔
مسعودی اس بارے میں لکھتا ہے مختلف فرقوں کے متکلمین مثلاًشیعہ،معتزلہ مرجئہ او رخوارج نے اپنے فرقوں کی موافق میں اوراپنے مخالفین کی رد میں کتابیں لکھی ہیں… لیکن ان میں سے کسی نے بھی فرقہ قرامطہ کے عقائدکے بارے میں کچھ نہیں لکھا اور جنہوں نے ان کی ردبھی کی ہے جیسے قدامہ بن یزید النعمانی ،ابن عبد الجرجانی،ابی الحسن زکریا الجرجانی ،ابی عبداللہ محمد بن علی بن الرزام الطائی الکوفی اور ابی جعفر الکلابی ،ان میں سے ہر ایک اہل باطن کے عقائد کی شرح کرتا ہے کہ جس کودوسرے بیان نہیں کرتے ہیںاور خود اس فرقہ والوں نے ان مطالب سے انکار کیا ہے اور ان کی تائید نہیں کی ہے،(24)یہ چیز علت بنی کہ یہ لوگ مختلف مناطق میںمتفاوت ناموں سے یاد کئے گئے۔

خواجہ نظام الملک نے اس بارے میں لکھا :ان کو ہر شہر میں ایک الگ نام سے یاد کیا جاتا تھا ،حلب و مصر میں اسماعیلی ،قم ،کاشان ،طبرستان اور سبزوار میں سبعی، بغداد اور ماوراء النہر میں قرمطی، ری میں خلفی اوراصفہان میں…(25)
فاطمی حکومت بننے سے پہلے اسماعیلیوں نے سیا سی کو ششیں کم کردیںزیادہ تر توجہ تبلیغ و تر بیت پر مرکوز رکھی اسی وجہ سے اسماعیلی قائدین منجملہ محمد بن اسماعیل، عبد اللہ بن محمد، احمد بن عبد اللہ و حسین بن احمدنے ان علاقوں میں جیسے ری،نہاوند، دماوند،سوریہ ،جبال، قندھار، نیشاپور،دیلم ،یمن،ہمدان،استانبول ،اور آذر بائیجان گئے انہوں نے ان مناطق میں اپنے چاہنے والوں اور مبلغین کو بھیجا(26)یہ وہ جگہیں تھیں جس کی بنا پر 
قرمطیو ں اپنے کوفرقہ اسماعیلیہ سے منسوب کیا اور اتنی وسعت اختیار کی کہ عباسیوں کا لشکر بھی ان کے آشوب کو خاموش نہیںکر سکا ۔(27) 
٢٩٦ھ میں فاطمی حکومت مراقش میں اسماعیلی مذہب کی بنیاد پر وجود میں آئی اور بہت سی اسلامی سر زمینوں کوعباسیوںکے ہاتھوں سے چھین لیا۔ 
…………

اس مضمون میں شامل موضوعات

(١)شہرستانی ،کتاب ملل ونحل ،منشورات الشریف الرضی قم،١٣٦٤ھ ش، ج١ص١٥٠
(٢) شہرستانی ،کتاب ملل ونحل ،منشورات الشریف الرضی قم،١٣٦٤ھ ش، ج١ص١٥٥
(٣)عسکری ، سید مرتضی ،عبد اللہ بن سباء و اساطیر اخری ، طبع ہشتم١٤١٣ھ ج ٢، ص ٣٢٨۔٣٧٥
(4)شیخ طوسی ،اختیار معرفة الرجال ، موسسہ آل البیت ، الاحیاء التراث ، قم ، ١٤٠٤ھ ج١ ص ٣٢٥

(5)ابن ہیثم البحرانی ، حیثم بن علی ، النجاة فی القیامة فی تحقیق امر الامامة،مجمع الفکر الاسلامی ، قم طبع اول ، ص١٧٢۔١٧٤
(6)شہرستانی ،کتاب ملل ونحل ،منشورات الشریف الرضی قم،١٣٦٤ھ ش، ج١،ص١٥٠

(7)شہرستانی ،کتاب ملل ونحل ،منشورات الشریف الرضی قم،١٣٦٤ھ ش، ج١ص١٣١۔ ١٣٥

(8)وہ ابی جارود کے اصحاب زیاد بن ابی زیاد تھے اس وجہ سے ان کو جارودیہ کہتے ہیں
(9)ان کا رہنما ایک شخص سلیمان بن جریر تھا ، اس وجہ سے اس فرقہ کو سلیمانیہ کہا گیا۔

 

(10)کثیر النویٰ ابتر نام کا شخص ہے اس وجہ سے یہ ابتریہ کہلائے(شہرستانی ،کتاب ملل ونحل منشورات الشریف الرضی قم،١٣٦٤ھ ش، ج١،ص١٤٠۔١٤٢)

(11)خراسانی ، محمد کریم ،تاریخ و عقائد فرقہ آقا خانیہ، تلخیص و تنظیم ، حسین حسنی ، نشر الہادی ، ص٤٣

(12) مسعودی علی بن الحسین ، مروج الذھب ، منشورات لاعلمی ،للمطبوعات ،بیروت ١٤١١ھ ج٣ ص ٩١
(13)مختار لیثی ڈاکٹرسمیرة ،جہاد الشیعہ،دار الجبل ، بیروت ، ١٣٩٦ھ ،ص ٨٧
(14)مقاتل الطالبین،ابو الفرج اصفہانی، منشورات شریف الرضی ، قم ١٤١٦ھ ،ص ١٢٤، ابن عبدربہ اندلسی، احمد بن محمد ، العقد الفرید ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت،١٤٠٩ھ ج ٤ ص ٤٣٨

(15)ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین ، ص١٢٥

(16)شہرستانی، کتاب ملل و نحل ، ج١،ص١٣٥

(17)ابوالفرج اصفہانی،مقاتل الطالبین،ص ٢٤٧

(18)ابوالفرج اصفہانی،مقاتل الطالبین،ص ٣١٤
(19)ابوالفرج اصفہانی،مقاتل الطالبین،ص ٣١٤
(20)اشعری سعد بن عبد اللہ ،المقالات والفرق،مرکز انتشارات علمی و فرھنگی ، تہران ، طبع دوم ١٣٦٠ھ ص١٠
(21)شہرستانی کتاب ملل و نحل ،منشورات الشریف الرضی ،قم ١٣٦٤ھ ،ج١ص١٤٣

(22)مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذھب ، منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ١٤١١ھ، ج٣ ص ٣٢٦

(23)فرق الشیعہ المطبعةالحیدریہ ،نجف ١٣٥٥ ١٩٣٦ھ ص٧١

(24)التنبیہ والاشراف ،دار الصاوی لطبع والنشر والتالیف،قاہرہ ،ص٣٤١

(25)سیاست نامہ،انتشارات علمی و فرہنگی تہران ١٣٦٤ھ ص٣١١
(26)جعفریان،رسول،تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا قرن ہفتم ہجری،سازمان تبلیغات اسلامی، طبع٥،١٣٧٧ہجری،ص٢٠٧،٢٠٩
(27)مسعودی ، علی ابن الحسین ، مروج الذہب ،منشورات موسسہ الاعلمی مطبوعات ، بیروت ، طبع اول ، ١٤١١ھ ، ١٩٩١ج٤ ص ٢٩٧

منبع: کتاب تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

 

 

 

تبصرے
Loading...