بچوں کی تکریم وتحسین

تکریم وتحسین کا مطلب یہ ہے کہ  ماں باپ اپنے بچوں کی عزّت کریں ان کی پیاری باتوں اور اچھے کاموں کو سراہیں، خلوص اور متانت سے انہیں صحیح راستہ دکھائیں ، گھر کی فضا کو پر سکون اور ماحول کو باوقار بنائیں، یہ نو خیز جسمانی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ لہذا سکھانے پڑھانے کے لئے  بہت نرمی اور ملائمت اختیار کریں۔ پھر ان کی ناسمجھی کا خیال رکھنا بھی بیحد ضروری ہے۔ اس بنا پر اصلاح مقصود ہو تو محبت اور حوصلے سے کام لیں۔

 اولاد کے حوالے سے تعظیم وتعریف کی بات سن کر ممکن ہے بعض والدین کی تیوریاں چڑھ جائیں! لیکن کیا کیا جائے ؟ اپنے ان گود کے پالوں کو ایک مکمل اور متوازن شخصیت کا روپ دینے کے لئے علم نفسیات کے قاعدوں اور احکام شریعت کا یہی تقاضا ہے۔

 سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے :

” اکرموا اولادکم  واحسنوا آدابھم یغفراللہ لکم”[1]

تم اپنی اولاد کا احترام کرو ، انہیں حسن ادب سے سنوارو اللہ تمہاری کوتاہیوں سے در گزر فرمائے گا۔

حضور رحمۃ للعالمین  مزید ہدایت فرماتے ہیں:

لا تحفرنّ احدا من المسلمین فاِنّ صغیرھم عند اللہ کبیرٌ”[2]

کسی مسلمان  کی قدرو قیمت کو کم نہ جانو کیونکہ خدا کی بارگاہ میں کلمہ گویوں کے چھوٹے بچے بھی بڑا مرتبہ رکھتے ہیں۔

اسی ضمن میں سرتاج انبیاء کا ایک اور فرمان:

“اوصیکم بالشّبانِ خیراً”[3]

لوگو میں تاکید کرتا ہوں کہ تم اپنے نوجوانوں کے لئے ہمیشہ نیکی اور خوش رفتاری کا مظاہرہ کرتے رہو۔

بچوں کی قدر دانی کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ  ان کی پہچان سے عام ذریعے یعنی ان کے نام پہ غیر معمولی توجہ دی جائے ہر شخص کا نام مستقل طور پہ اس سے چپکا ہوتا ہے اور یہی ہمیشہ اس کی شناخت کا کام دیتاہے۔اس بناپر نام ایسا چنا جائے جس مین حسن اور سعادت ہو اور جس کی تہہ میں خود پسندی کے بجائےخدا پسندی کا جذبہ مضمر ہو۔

یہاں پر سرور کونین ارواحنا لہ الفدا ہمارے ذہن کی یوں رہنمائی فرماتے ہیں:

“انّ اوّل ما ینحل احدکم ولدہ الاسمُ الحسن”

تمہارے بچے کو پہلا انعام یہ ملنا چاہئے کہ  تم اسے پیارا سا نام دو۔

پیغمبراسلامؐ ن جناب امیر المومنین کو جو خاص خاص باتیں بتائی ہیں ان میں ایک بات یہ بھی ہے۔

“یا علی حق الولد علی والدہ  ان یحسن اسمہ وادبہُ”[4]

اے علی ! ہر بیٹے کا اپنے باپ پہ یہ حق ہے کہ وہ اس کے لئے اچھا سا نام تجویز کرے اور نہایت عمدہ طریقے سے اسے تربیت دے۔

سلسلہ قیادت محمدیہ کے ساتویں رہبر حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت  میں حاضر ہو کر عرض کی : یارسول اللہ میرے اس فرزند کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ واالہ وسلم نے فرمایا:

” تحسّن اسمہ وادبہ وضعہ موضعا حسناً”[5]

خوبصورت سا نام رکھو، حسن ادب سے آراستہ کرو اور کام کاج کے سلسلے میں اس کے لئے بہتر سے بہتر مواقع فراہم کرو۔

الغرض ! نام گزاری کے سلسلے میں ہمیں جو ہدایات ملی ہیں ان میں کسی قسم کی رو رعایت کا پہلو نظر نہیں آتا نام ڈھنگ کا ہو، نفیس ہو اور بامقصد ہو ۔

پیغمبر اسلامسے نقل کرتے ہوئے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

 ہر فرزند نرینہ کا اپنے باپ پر حق یہ ہے کہ  وہ اس کی ماں کے ساتھ عزت وھرمت کے ساتھ پیش آئے اور اسی طرح ہر لڑکی یہ حق رکھتی ہے وہ اپنی ماں کے سلسلے میں اپنے باپ کو تعظیم وتوقیر کے قاعدوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دیکھے۔

منبع: اصول تربیت

[1] وسائل الشیعہ،ج۱۵،ص۱۹۵

[2] مجموعہ ورام،ج۱،ص۳۱

[3] کتاب قریش ،ص۱

[4] وسائل الشیعہ،ج۱۵،ص۱۲۳

[5] وسائل الشیعہ ۔ج ۱۵ ،ص۱۹۸

تبصرے
Loading...