انسانی تکریم کی بے توقیری

 انسان اور حیوان میں بہت مماثلتیں ہیں۔ مثلاً سانس لینے کیلئے ہوا، دیکھنے کیلئے آنکھیں، سننے کیلئے کان، انسانوں کی طرح نظامِ انہضام، چلنے کیلئے پاؤں، مذکر اور مونث، بچوں کی پیداوار، اُن کی خوراک کیلئے جسمانی دودھ کی موجودگی اور اُن کی حفاظت کی فکر وغیرہ۔ لیکن اللہ تعالٰی نے انسان کو عقل عطا کرکے اشرف المخلوقات بنا دیا۔ اس عقل کے باوجود اگر انسان کا دل پتھر بن جائے اور ضمیر مردہ ہو جائے تو پھر انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ اپنے سیاسی، عسکری اور معاشی مفادات کیلئے جب طاقتور قوتیں اپنے ہتھیاروں کے بل بوتے پر انسانوں کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح تلف کر دیتی ہیں تو انسانیت حیوانیت کے بدترین روپ میں سامنے آتی ہے۔ پہلی جنگِ عظیم میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ دوسری جنگ عظیم میں عیسائی ہٹلر نے کئی ملین یہودیوں کو گیس چیمبرز میں زندہ بند کرکے جلا دیا اور امریکہ نے جاپان کے ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے دو ہنستے بستے شہروں کو ایٹم بم مار کر راکھ کر دیا۔

آج سے تقریباً دس سال قبل امریکہ اور اس کے اتحادی، مسلمان دنیا کے گنجان آباد تاریخی شہر بغداد پر حملہ آور ہوئے۔ رات کی جگمگاتی روشنیوں میں آبادیاں، محلوں اور ہوائی اڈوں کو لیزر گائیڈڈ بموں کا نشانہ بنایا گیا، جس سے انسانی اجسام کے پڑخچے اڑتے دکھائے گئے، لیکن سنگ دل اور مردہ ضمیر انسانیت یہ سب کچھ ٹی وی سکرینوں پر خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہی۔ کسی نے احتجاج کیا نہ سلامتی کونسل میں کوئی آواز اُٹھائی۔ ابو غریب اور گوانتا ناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں قیدیوں کو ننگا کرکے اُن پر کتے چھوڑے گئے اور انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ اس کی اگر خبر لیک ہوئی یا معمولی احتجاج سامنے آیا تو وہ بھی مغرب کی طرف سے، لیکن پورے ایشاء، اسٹریلیا اور افریقی براعظموں سے اس بربریت کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھی، نہ کسی نے سلامتی کونسل میں اس انسانی تضحیک کے خلاف کوئی احتجاج کیا۔

افغانستان میں تو انسان کے ہاتھوں انسان کی تذلیل اس وقت انتہا پر نظر آئی، جب انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ جارح افواج کے سپاہی مقامی لوگوں کے مردہ اجسام پر پیشاپ کرتے دکھائے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں عورتوں کی عصمت دری اور پھر قتال اور اجتماعی قبریں، فلسطین میں ہنستے بستے مسلمانوں پر شطیلہ اور سابرا مہاجر کیمپوں میں مظالم کی اندوہناک داستانیں اور کشمیر میں بے گناہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی اجتماعی قبروں کا انکشاف، یہ سب انسانیت کے نام پر شرمناک دھبے ہیں۔

Aldous Huxley نے 1932ء میں”Brave New World” کے عنوان سے ایک ناول لکھا تھا، جس میں اس چیز پر زور دیا گیا کہ جس طرح اخلاقی اقدار برباد کی جا رہی ہیں اور انسانیت زوال کا شکار ہو رہی ہے، ہماری آنیوالی نسلوں کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے، چونکہ ہم Dehumanize ہو رہے ہیں۔ ناول نگار کے خیال میں مستقبل کی دنیا میں ماں اور باپ کے بغیر ٹیسٹ ٹیوب سے پیدا ہونے والے بچے بھی عام ہو جائیں گے، جن کی اپنی کوئی شخصیت نہ ہوگی۔ حکومتیں اُن کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیں گی۔ 

قارئین یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ مغرب میں اب شادیوں کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے، جوان مرد اور عورتیں سالوں سال بغیر نکاح کے اکٹھا رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مغرب میں اب حرام اولاد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ بچے ابھی بڑے نہیں ہوتے اور اُن کے ماں باپ ایک دوسرے سے الگ ہو کر نئی شادیاں رچا لیتے ہیں۔ یہ غیر انسانی فعل ہیں، اور اس سے انسانیت بے توقیر ہوتی ہے۔ 

قارئین، اس چیز سے قطع نظر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری موجودہ بین الاقوامی قیادت کے دوہرے معیار ہیں اور ہمارے دلوں سے انسانی جذبات بالکل مٹ گئے ہیں اور ہم واقعی Dehumanize ہو چکے ہیں۔ منافقت اس حد تک ہے کہ جانوروں سے پیار کرنے والے انسانی جانوں کے ضیائع سے بالکل ٹس سے مس نہیں ہوتے، کتوں اور بلیوں سے پیار کا اظہار کرنے والے زندہ معصوم انسانوں کا درندوں کی طرح ناشتہ کرتے ہیں اور وہ ایک لمحہ بھر کیلئے بھی اس حیوانیت پر شرمندہ نہیں، معافی مانگنا تو دور کی بات ہے۔

ایک اہل دل مغربی دانشور نے اگلے دن لکھا کہ چند ماہ قبل وہ Harvard یونیورسٹی میں ایک کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے گیا تو وہاں Cambridge کی ایک گلی کے کنارے کچھ طلباء سیاہ لباس پہنے اس بات پر احتجاج کر رہے تھے کہ یونیورسٹی کی سائنس لیبارٹیوں میں صحت مند بندروں کو مہلک بیماریوں کے جراثیم کا تجربہ کرکے ہلاک کر دینا ایک غیر انسانی فیل ہے، صحت مند جانوروں پر یہ ظلم بند ہونا چاہیے۔؟

قلم کار لکھتا ہے کہ اتفاقاً یہ 25 مئی 2012ء کا دن تھا، جس دن اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق شام کے دارالحکومت دمشق میں مغربی طاقتوں کی مدد سے لڑی جانی والی خانہ جنگی میں 108 بے گناہ شہری لقمہ اجل بنے، جن میں 34 عورتیں اور آپ یقین کریں 49 بچے بھی شامل تھے۔ ایک طرف جانوروں سے ہمدردیاں، دوسری طرف انسانوں کے خلاف درندگی، انسان کس چیز پر یقین کرے۔

قلم کار لکھتا ہے کہ وہ بدنصیب مائیں جو ان معصوم بچوں کی ہلاکت کے بعد زندہ رہتی ہیں، کیا کبھی کسی نے اُن کے جذبات کا اندازہ بھی لگایا ہے۔؟ خون میں لت پت اپنے معصوم بچوں کی لاشیں اٹھا کر وہ کتنے کرب کا شکار ہوں گی، وہ شائد نہیں چاہتیں کہ اپنے مردہ بچوں کے خون آلود کپڑوں کو دھو ڈالیں، چونکہ اس طرح ان کپڑوں سے اُن کے لخت جگر کے جسم کی مہک کے غائب ہونے کا خطر ہ ہے۔

قلم کار لکھتا ہے کہ جب دمشق میں ایک چار سالہ گم شدہ بچی راضان خلیفے کے والدین کی تلاش کی جا رہی تھی، عین اس وقت امریکہ کے شہر Texas میں اس نے یہ پوسٹر درخت پر لٹکا دیکھا۔ 

“Lost Cat. He is White and fluffy with brown and black tabby patches. Answers to the name Sully. If found please call”. 

یعنی ’’ایک سفید رنگ کی بھاری بھر کم بلی جو کچھ بھوری اور کچھ کالی بھی ہے، گم ہو گئی ہے، جس کو ملے اس نمبر پر اطلاع کریں۔ اس کو Sully کہہ کر پکاریں تو میوں کرتی ہے۔‘‘

آپ خود اندازہ کرلیں کہ مسلمان دنیا میں خاندان اجڑ گئے، کنبے تباہ ہوگئے، بچے بچھڑ گئے، ماں باپ قتل ہوگئے، جائیدادیں ختم ہوگئیں، بوڑھے مرد، حاملہ عورتیں اور معصوم بچوں کا تکہ بوٹی ہوگیا لیکن انسانیت خاموش ہے، ہم سب تماشائی ہیں، بغداد ہو یا دمشق، افغانستان ہو یا پاکستان، لیبیا ہو یا برما۔ مغرب تو کیا مسلمان دنیا کے ضمیر بھی مردہ اور دل پتھر ہوچکے ہیں۔ مغربی قلم کار آخر میں لکھتا ہے کہ صدر اوباما کی بیٹیوں نے ایک کتا بڑے پیار سے رکھا ہوا ہے، اگر اس کتے کو اُن لڑکیوں کی آنکھوں کے سامنے ذبحہ کر دیا جائے تو اُن پر کیا گذرے گی۔

20 جولائی کو امریکہ کے ایک سینما گھر میں بارہ بے گناہ امریکی ہلاک ہوئے تو امریکہ کا قومی پرچم سرنگوں کر دیا گیا اور امریکی صدر مقتولین کے گھر افسوس کیلئے پہنچ گئے، لیکن شام اور برما کی قتل و غارت کی ان کو کوئی پرواہ نہیں۔ کیا مسلمانوں کا خون حیوانوں سے بھی سستا ہے؟ اللہ کرے مغربی دنیا کی قیادت اپنے دوہرے معیار ختم کر دے اور حیوانیت کی بجائے انسانیت کو ترجیح دے۔ 

عراق کی جنگ میں حصہ لینے والے ایک امریکی سپاہی Matt Southworth نے 4 اگست 2012ء کو اپنے خیالات کا اظہار ایک مضمون میں کیا، جس کا عنوان ہے۔”Human Dignity-A Casuality of War” امریکی سپاہی کے مطابق امریکہ کی افغانستان میں دس سالوں سے لڑی جانے والی جنگ بالکل بے سود ہے۔ میٹ جو امریکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں میں بطور تجزیہ نگار کام کرتا رہا ہے، لکھتا ہے کہ عراق او ر افغانستان میں سینکڑوں ایسے لوگوں کو ہم نے قیدی بنایا، جو بالکل بے گناہ تھے۔ ان میں بہت سارے اگر امریکی فوج کے حق میں نہیں تو مخالف بھی نہ تھے۔ بہت سے بزرگ لوگوں کو جنہیں ہمیں انکل کہہ کر عزت دینا چاہیے تھی، اُن کو ہم نے انسان بھی نہ سمجھا۔

اس طرح ڈرون حملوں سے ہم نے تباہی مچائی، اگر صدر بش نے 12 حملے کئے، تو اوباما نے 329حملے کئے اور 2004ء سے اب تک 2365 لوگ ہلاک ہوئے، جن میں بہت سارے بے گناہ لوگ اس لئے مارے گئے کہ وہ غلط وقت پر غلط جگہ پر موجود تھے۔ امریکی فوجی دانشور جس نے خود عراق جنگ میں حصہ بھی لیا لکھتا ہے۔ 

“We Could not see these (civilians) prisoners as uncles, fathers and mentors. Rather we came up with a slew of derogatory names for Iraqies. We treated them as less than people, losing our humanity as we robbed them of theirs” 

ہم ان قیدیوں کو چچا، باپ یا بزرگ سمجھنے کے بجائے اُن کر برا بھلا کہتے تھے، ہم نے اُ ن کو انسان نہ سمجھا اور اپنی انسانیت بالکل اسی طرح کھو دی، جیسے اُن کی انسانیت پر ہم نے ڈاکہ ڈالا۔

تبصرے
Loading...