امام خمینی (رہ)کی قرآن سے انسیت کے بعض نمونے

انبیاء اور ائمہ علیہم السلام انسانی زندگی کیلئےانسان کامل کا سب سےعظیم نمونہ ہیں اور انکا طرز حیات حق طلب افراد کیلئے بہترین نمونہ عمل ہے۔ انسان کو ہمیشہ کامیابی اور بلند اہداف تک پہنچنے کے لئے نمونہ کی ضرورت ہے۔ انسانی نمونہ عمل اس راہ میں اسکے بہترین معاون ہیں۔ خداوندعالم نے بھی بنی نوع انسانی میں سے ہی ہادیوں کو منتخب کرکے انسانوں کے سامنے انسانیت کے حقیقی نمونوں کو پیش کیا ہے۔ یقینا زندگی کے ہر میدان میں نمونہ عمل اختیار کرنا ضروری ہے جو جوش و خروش اور مصمم ارادہ کے ساتھ روشن مستقبل اور ہدف تک پہنچنے کا سبب بنتا ہے۔

انبیاء اور ائمہ علیہم السلام انسانیت کے لئے حقیقی نمونہ عمل ہیں۔ثقل اصغر ہونے کے عنوان سے ائمہ کا رابطہ ثقل اکبر سے انتہائی مستحکم ہوتا ہے ۔ ہمیں انکی زندگی میں قرآن کا انتہائی عظیم مقام نظر آتا ہے؛ یہاں تک کہ انکی ہر رفتار و گفتار کو کسی نہ کسی آیت قرآن کا مظہر کہا جاسکتا ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ خود حقیقی حامل قرآن اور اس پر عمل کرنے والے تھے بلکہ انہوں نے کتاب خدا کے ساتھ رابطہ رکھنے اور اس سے مانوس ہونے کی جابجا تاکید فرمائی ہے۔

اہل بیت (ع) کے علاوہ ہمیں علماء، بزرگوں اور ائمہ طاہرین(ع)کے حقیقی پیروکاروں کے درمیان بھی ہمیں قرآن پر عمل کرنے والے ایسے بہت سے افراد نظر آجاتے ہیں کہ جنہوں نے آیات خدا کو مدنظر رکھتے ہوئے عظمت کی بلندیوں پر کامیابی کا پرچم لہرایا ہے اور اپنی تشنہ روح کو قرآن سے سیراب کیا ہے۔ یقینا ہر زمانے میں ایسے افراد رہے ہیں اور انہیں قرآن سے رابطہ کیلئے نمونہ عمل بنایا جاسکتا ہے۔ ہم بھی اپنے عہد میں ایسے لوگوں سے محروم نہیں رہے ہیں۔ جمہوریہ اسلامی ایران کے بانی بھی انہی افراد میں سے ہیں جوعملی زندگی میں قرآن سے رابطہ رکھتے ہوئےآسمان فضیلت و انسانیت پر مہتاب کی صورت ضوفشاں ہیں۔ مندرجہ ذیل سطور میں ہم امام راحل کی قرآن پر خصوصی توجہ کےبعض پہلو پیش کررہے ہیں۔

انقلاب؛ قرآن کے زیرسایہ

وہ کہ جسکا نام ہمیشہ کے لئے انقلاب سے جڑ چکا ہے اور پوری دنیا میں ایران کے اسلامی انقلاب کے ساتھ ساتھ پہچانا جاتا ہے، اس نے اپنی تحریک کی بنیادیں قرآنی اصولوں پر رکھیں اور اپنی افکار، مقاصد اور آرزوؤں کا سرچشمہ قرآن کو قرار دیتے ہوئے ہمیشہ کوشش کی کہ ہمیشہ حکومت کو قرآنی اصولوں پر چلائے ۔ امام راحل تحریک اور انقلاب کا مقصد اس طرح بیان فرماتے ہیں:”جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ انقلاب اسلامی حاکم کے اجراء کے لئے ہے۔ ہمارا اسکے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں تھا۔ آپ لوگ قدرت و طاقت حاصل کرنے کے درپے نہیں تھے، بلکہ آپ چاہتے تھے کہ (معاشرے میں) قرآن کو نئی زندگی عطا کریں”۔(صحیفہ نور، ج۱۶، ص۲۷)

امام راحل کی نگاہ میں جب بھی قرآن مہجور و متروک ہو جائے تو اسلام بھی مظلوم ہوجائیگا اور قرآن کے مہجور جانے کی دلیل اسلام کے سیاسی احکام سے غافل ہوجانا ہے۔ آپ زندگی کے تمام شعبوں میں قرآن کے موجود رہنے پر تاکید کرتے ہیں اورآپ کا ماننا ہے کہ اسلام کے سیاسی احکام جنہیں قرآن نے بیان کیا ہے، مسلمانوں کی سربلندی اوردنیا پر انکی حکمرانی کا باعث بن جائیں گے۔ اگر مسلمان قوم اور حکومتیں استکباری طاقتوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے بجائے قرآن کے نورانی اورحریت آمیز پیغامات پر عمل پیرا ہوتے تو آج صہیونی اور امریکی ظالموں کے جال میں گرفتار نہ ہوتے۔ (صحیفہ نور، ج ۱۶، ص۳۹ اورج۱، ص۱۸۶)

اجتماعی اور سیاسی میدانوں میں قرآنی احکام جاری کرنے پربہت زیادہ توجہ دینے کے علاوہ ائمہ (ع) کی پیروی کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ کے بانی کا قرآن سے رابطہ بہت مستحکم تھا ۔ آپ کو جب بھی موقع ملتا تھا آپ قرآن کی تلاوت کرنے لگتے تھے۔ قرآن سے اپکے عشق کو آپکی زندگی کے مختلف پہلووں میں موجود قرآنی آیات کے تجسم کی صورت میں بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔

وقت کو غنیمت شمار کرنا

امام راحل نے اپنے روزانہ کے کاموں کے لئے ایک نظام الاوقات (Time Table ) بنا یا ہوا تھا۔اس میں آپ کے پورے دن کےکام لکھے ہوتے تھے۔(حجۃ الاسلام انصاری کرمانی، رسالت اخبار) اس نظم و ضبط کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آپ کے دن و رات میں کوئی بھی اسی لمحہ نہیں تھا جسکا آپکے پاس کوئی حساب نہ ہو اور وہ بیکار چلا جائے ۔ (فرشتہ اعرابی، سیرہ۱، ص ۱۹۰)

جب آپ پیرس میں تھے اور صحافی آپ سے انٹرویو لینے کیلئے آتے تھے تو انہیں کیمرا وغیرہ ٹھیک کرنے میں دس پندرہ منٹ لگ جاتے تھے۔ امام اس مختصر وقت میں بھی تلاوت قرآن شروع کردیتے تھے۔ بعض حاضرین کہتے تھے:خود کو انٹریو کے لئے تیار کیجئے (یعنی فی الحال قرآن نہ پڑھئے) آپ جواب میں فرماتے تھے: “کیا اپنی عمر کے یہ چند لمحات ضایع کردوں؟”۔ (مجلہ حوزہ، شمارہ ۹۶، ص ۲۰۸)

آپ کے نزدیکی افراد میں سے ایک شخص کا کہنا ہے کہ امام دن بھر میں متعدد بار قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ نماز صبح کے بعد، نماز ظہر و عصر سے پہلے، نماز مغرب وعشاء سے پہلے اور دوسرے تمام فرصت کے لمحات میں آپ یہ مستحب عمل انجام دینے کے پابند تھے۔ ہم دن بھر میں جب بھی آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوتے تھےزیادہ تر آپ کو تلاوت قرآن میں مشغول پاتے تھے”۔ (مصطفی وجدانی، سرگذشت ھای ویژہ از زندگی امام خمینی، ج۲، ص۵۲)

مجھے اپنی آنکھیں تلاوت قرآن کے لئے چاہئیں

جس وقت آپ نجف میں تھے، آپکی آنکھ میں کچھ تکلیف ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر نےمعاینہ کرنے کے بعد آپ سے کہا کہ آپ کچھ دن قرآن نہ پڑھئے اور آرام کیجئے۔ امام راحل مسکرائے اور کہا :”ڈاکٹر صاحب! مجھے مجھے اپنی آنکھیں تلاوت قرآن کے لئے چاہئیں!اگر آنکھیں ہوں اور قرآن نہ پڑھ سکوں تو ان آنکھوں کا فائدہ ہی کیا ہے؟ “(مجلہ حضور، شمارہ ۳، فاطمہ طباطبائی)

تلاوت قرآن کی تاکید

امام خود تو تلاوت قرآن سے مانوس تھے ہی دوسروں کو بھی ہمیشہ غور و فکر کے ساتھ تلاوت قرآن کی تاکید کرتے رہتے تھےیہاں تک کہ قرآن سے ظاہری رابطہ کو بھی مفید اور مؤثر جانتے تھے۔ چنانچہ آپ اپنے بیٹے سید احمد خمینی کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:”صرف قرأت کے ہی ذریعہ سہی لیکن معرفت کی اس عظیم کتاب، قرآن سےمانوس رہو اور اسے اپنے محبوب تک پہنچنے کا ایک راستہ قرار دو۔ یہ ہرگز نہ سوچو کہ بغیر معرفت کے تلاوت کا کوئی اثر نہیں ہے۔ یہ شیطان کا وسوسہ ہے۔ محبوب کی جانب سے یہ کتاب تمہارے اور سب کے لئےنامہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور نامہ محبوب، محبوب ہوتا ہے اگر چہ عاشق اس کا مضمون نہ سمجھ سکے۔ اس قصد کے ساتھ قرأت کرنے سے محبوب کی محبت کہ جو ہمارا مقصود ہے، تمہارے شامل حال ہوجائے اور تمہارا ہاتھ تھا م لے”۔ (مجلہ حوزہ، شمارہ ۹۶، ص۲۲۵)

قرآن کا احترام

قرآن وہ عظیم کتاب ہے کہ جسکی عظمت کا سرچشمہ خداوندعالم کی عظمت ہے کیونکہ قرآن خدا کا سب سے نمایاں مظہر ہے۔ امام علی (ع) فرماتے ہیں:”فتجلی سبحانہ لھم فی کتابہ من غیر ان یکونوا راوہ” (نھج البلاغہ، صبحی صالح، خطبہ۱۴۷)

آسمانی اور الہی کتاب ہونے کی وجہ سے قرآن کریم قابل احترام ہے۔ امام خمینی ظاہری و باطنی دونوں اعتبار سے قرآن کا احترام کرتے تھے :”کبھی کبھی کسی کا سے ہم اپنے بیگ میں قرآن رکھ کر امام کے پاس لے جاتے تھے۔ شروع میں ایک دو مرتبہ ایسا ہوا کہ متوجہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم قرآن کو دوسری چیزوں کے ساتھ میں فرش پر رکھ دیتے تھے۔ امام فوراً فرماتے تھے :”قرآن فرش پر نہ رکھو!” اور بلافاصلہ ہاتھ بڑھا کر قرآن لیتے تھے اور اسے میز پر رکھ دیتے تھے”۔ (سرگذشت ھای ویژہ از زندگی امام خمینی، ج۵، ص۶۹)

آیت قرآن کے مکمل مصداق

رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں:” جس رات امام راحل نے اس دار فانی کو الوداع کہااسکے اگلے دن صبح کے وقت میں نے انتہائی پریشانی کے عالم میں قرآن سے تفال کیا، سورہ کہف کی ۸۸ ویں آیت آئی:”و اما من آمن و عمل صالحا فلہ جزاء الحسنی و سنقول لہ من امرنا یسرا” میں نے سوچا کہ واقعاً آپکی عظیم الشان شخصیت اس آیت کی مکمل مصداق ہے۔ ایمان، عمل صالح اور بہترین جزاء آپکے لئے ہے”(حدیث ولایت، ج۱، ص۶، قرآن کتاب زندگی در آینہ نگاہ رہبر انقلاب ، ص۱۹۱)

 

تبصرے
Loading...