اتحاد بین المسلمین کے دشمن کون ہیں اور کیوں

میں اکثر سوچتی ہوں آج کل زمانہ بہت تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے اور ہم اس کا ساتھ نہیں دے پارہے ۔۔۔ کل تک جو بات کہنا حق اور زمیداری سمجھی جاتی تھی آج اپنے بچوں کو سمجھاتے ہوئے ڈر لگنے لگا ہے ۔ کل جب کسی کے ہمسائے کے گھر خاموشی ہوتی تھی تو دائیں بائیں کے ہمسائے بھی چل کر دیکھتے تھے ماجرا کیا ہے ۔۔۔ اور آج اسی خاموشی پر ہمسائے شکر ادا کرتے ہیں ۔۔ بھائی بہن ایک دوسرے سے نظر چراتے ہیں کہ کہیں حال دل سن کر مدد کی مد میں دو بول ہی نہ بولنے پڑ جائیں ۔۔۔ ایسا ہی کچھ برداشت کے ساتھ ہوا ۔۔ کل جو شیر و شکر تھے ۔۔ آج شیروں کی طرح گھات لگائے ایک دوسرے کی بو سونگھتے پھر رہے ہیں ۔

دنیا کی کل آبادی سات ارب کے لگ بھگ ہے جن میں تین ارب مسلمان ہونگے ۔ ان تین ارب مسلمانوں میں اتحاد اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا یہ عالم ہے کہ کسی مسلمان ملک میں امن نہیں ہے ۔۔۔ کسی مسلمان دل میں سکون موجزن نہیں ہے ۔۔۔ جس قوم کو محسن انسانیت حضور پرنور محمد مصطفی صلہ اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا سب سے زیادہ شکر گزار ہونا چاہیئے تھا اور ان کاپیغام پوری دنیا میں پہنچانا چاہیئے تھاانہوں نے ہی اپنی مسجدوں ، مجلسوں ، منبروں اور محفلوں سے مسلک کے نام پر ایک دوسرے کو بے دخل کر دیا ۔ علماء عنقاء ہو گئے ۔۔۔ مولوی ملا نے مذہب ہائی جیک کر لیا اور اس نے مسلمانوں کی کم علمی اوراندھی تقلید سے فائدہ اٹھایا ۔۔۔ مسلمان جنہیں سوائے دینیات پڑھنے کے ہر علم سے دلچسپی ہے۔۔ یوں مولوی ملا ں نے دینیات پڑھانے کی زمیداری خود لے لی اور پھر یوں ہوا کہ مسلمانوں کا شاندار دور ختم ہوا اور قوم وہی آکھڑی ہوئی جہاں عرب بدو کبھی کھڑے تھے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکت نے اپنے حلم، بردباری اور بے پایاں شفقت و برداشت سے دنیا کو امن کا خطہ بنایا تھا ۔۔۔۔

دوستو میں آپ کو اسی عربی دور کی چند مثالیں دینا چاہتی ہوں تاکہ دور حاضر سے تقابلی جائزہ لینے میں آسانی ہو سکے ۔۔۔

(پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام امن و سلام، نقوش، جلد سوم، صفحہ نمبر 460)

عرب میں عدم برداشت کی یہ حالت تھی کہ معمولی باتوں پر قبائل کے درمیان جھگڑا ہو جاتا۔ قبل از اسلام کی دو خونیں جنگیں ‘البسوس‘‘ اور ‘داحس والغبراء‘‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ الدکتور حسن ابراہیم حسن تاریخ الاسلام السیاسی والدینی والثقافی والاجتماعی، جلد اول کے صفحہ نمبر 53 پر رقمطراز ہیں کہ ‘بسوس کی جنگ چالیس سال تک رہی‘‘۔

تاریخِ عالم عدم برداشت کے واقعات سے بھری پڑی ہے مثلاً بقول اسد سلیم ‘شیخ ذونواس نے یمن میں خندق کھدوائی اور تیس ہزار کے قریب ان عیسائیوں کو زندہ جلوادیا جنہوں نے یہودیت اختیار نہ کی‘‘۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خارجی پالیسی صفحہ نمبر 205)۔

سید ابوالحسن ندوی اپنے مقالہ ‘بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے‘‘ میں تحریر کرتے ہیں : ‘اگر کوئی شودر کسی برہمن کو ہاتھ لگائے یا گالی دے تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے‘‘۔ (رسول نمبر، جلد سوم، صفحہ نمبر 109 )

اسی طرح رومی سلطنت کی تاریخ عدم برداشت کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ تاریخ وحشیانہ سزاؤں اور لرزہ خیز مظالم کی داستانوں سے لبریز ہے۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں درج شدہ مضمون ‘سپین‘‘ کے مطابق 1492ء میں سپین میں اسلامی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو مذہبی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان میں سے 28,540 کو سزائے موت ملی اور 12,000 کو زندہ جلا دیا گیا۔ بقول رابرٹ ہریقو ‘ڈیڑھ لاکھ کے قافلے میں سے ایک لاکھ مسلمانوں کو سپین میں قتل کردیا گیا‘‘۔ (دی میکنگ آف ہیومینٹی صفحہ نمبر 253)

ڈاکٹر غلام جیلانی برق اپنی تصنیف ‘یورپ پر اسلام کے احسان‘‘ کے صفحہ 87 پر لکھتے ہیں کہ 1610ء میں تمام مسلمانوں کو سپین چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ 1630ء میں ایک مسلمان بھی سپین میں باقی نہ رہا حالانکہ مسلمانوں نے قریباً پونے آٹھ سو سال حکومت کی۔

عدم برداشت کی چند اور مثالیں ملاحظہ ہوں اور خون انسانی کی ارزانی کا اندازہ کیجئے

710 قبل از مسیح (یروشلم) 40 ہزار اشخاص ذبح ہوئے۔

711 قبل از مسیح (یروشلم) ایک لاکھ 20 ہزار اشخاص مارے گئے۔

957 قبل از مسیح (یروشلم) 5 لاکھ یہودی مارے گئے۔

70 قبل از مسیح (یروشلم) 11 لاکھ یہودی مارے گئے۔

135-36 ق۔ م (یروشلم) 5 لاکھ 80 ہزار یہودی ذبح ہوئے۔

جنگ عظیم اول اور دوم میں عدم برداشت کی وجہ سے 

جنگ عظیم اول : 73 لاکھ 38 ہزار افراد مارے گئے۔

جنگ عظیم دوم : 4 کروڑ اشخاص لقمہ اجل بنے۔(بحوالہ نقوش، رسول نمبر، جلد نمبر 4، صفحہ 313)

آیئے اب حالیہ دور میں امن اور برداشت کے اٹھ جانے کامنظر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

عراق ، شام ، دمشق ، فلسطین، بوسنیا، لبنان، افغانستان ، کشمیر اور اب پاکستان میں مسلمانوں کا لہو کتنا ارزاں ہے۔ بین الاقوامی دہشت گردی ہو کہ فرقہ واریت یا اسلحہ کی دوڑ عدم برداشت اپنی شکلیں بدل بدل کر دنیا سے اخوت، بے مثال ربط و ضبط، ایثار، قربانی اور برداشت و حلم جیسے جذبوں کو لمحہ لمحہ قتل ہو رہے ہیں ۔

پاکستان کو جہاں اندورن خانہ بے شمار مسائل ہیں وہیں اس کی بقا پر بے شمار خطرات بھی منڈدلا رہے ہیں ۔ اور اس پر فکری انتشار۔۔۔ خدمت الناس کے جذبے سے عاری۔۔۔ اور عدم برداشت کی عادی بیوروکریسی اور کرپٹ ٹیکنوکریسی۔۔۔ مجرمانہ تغافل۔۔۔ ثقافتی بدحالی ۔۔۔ ثقافتی روایات میں تبدیلیاں ۔۔۔ محبت، یگانگت، انسیت اور اپنائیت کا فقدان۔۔۔ مختلف قومیتوں کا ایک دوسرے کو نیچا دیکھانا۔۔۔ لسانی گروہ بندی۔۔۔ علاقائی عصبیتیں۔۔۔ صوبائی تعصب بازی ، ذات، برادری، علاقی تفاوت۔۔۔ رنگ اور نسل کی بنیاد پر عدم برداشت اور تعصب۔۔۔ مذہبی رہنماؤں اور تنظیموں میں عدم برداشت کا رجحان۔۔۔ مذہبی فرقہ واریت اور دہشت گردی کا رجحان۔۔۔ اتحاد بین المسلمین کا فقدان۔۔۔ اسلام دشمن اور ملک دشمن عناصر اور تنظیموں کا منفی کردار۔۔۔۔ دلوں پر نفرتوں کا بوجھ۔ ۔۔ دماغوں پر آلودگیوں کا انبوہ۔۔۔ منافقت کے لبادے۔۔۔ اغوا، قتل، اغوا برائے تاوان، ڈاکے، بھیانک جرائم۔۔۔ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا قتل۔۔۔ عصمت دری، خانہ سوزی، جسم سوزی۔۔۔ گولیوں کی گھن گرج۔۔۔ ۔۔ سوچیئے تو عدم برداشت کی وجہ سے مسلمانوں نے کیا کیا نہ کھویا ہے ۔

اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں عدم برداشت نے کس طرح سے انسانی زندگی کومتاثر کیا ہے ۔۔

قومی اور سیاسی عدم برداشت

خواجہ ناظم الدین، غلام محمد اور اسکندر مرزا کے دور 1947-58ء میں سیاست میں عدم برداشت کا رجحان رہا۔ عدم برداشت کا مظاہرہ آئین ساز اسمبلی توڑنے کی صورت میں کیا گیا۔۔۔ 1969-71ء کے دوران ہم نے مشرقی پاکستان سے عدم برداشت کا مظاہرہ کیا۔ گو مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بین الاقوامی سیاست بھی کارفرما تھی تاہم ہم اپنے آپ کو کسی صورت میں بھی بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔۔۔ 1973ء میں پہلی بار عوامی آئین بنا۔ اس کے آرٹیکل نمبر 20 کے ذریعے مذہب کی آزادی کا تصور دیا گیا۔ نیز آرٹیکل نمبر 36 کے تحت اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا اور اس کے بعد کی صورت حال بھی ہمارے سامنے ہے۔ 1985میں بشریٰ زیدی کا حادثہ ہوا جس نے کراچی میں لسانی فسادات کا ایک افسوسناک سلسلہ شروع کردیا۔ ۔ مارچ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کا سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ لسانی اور مذہبی منافرت واضح طور پر ملک میں ظاہر ہوگئی اور خصوصاً کراچی میں لسانی تقسیم بالکل واضح طور پر سامنے آگئی تھی۔ 1988-99ء کے دوران میں بھی قومی سیاست میں عدم برداشت کا رجحان رہا۔ اس کے بعد کا دور آپ سب کے سامنے ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں برداشت اور تحمل نہ ہونے نے کیا کیا کروٹیں بدلیں ۔

معاشرتی عدم برداشت

معاشرتی امور میں عدم برداشت کا رجحان انتہائی تکلیف دہ ہے ۔ غریب ہو کہ امیر اپنے اپنی سطح پر تنہائی اور مہنگائی کے دباؤ کو برداشت نہیں کر پا رہے ۔ جس کی وجہ سے زہنی انتشار ، ڈیپریشن کاشکار ہو کر خود کشی کر رہے ہیں یامنشایت کا سہارہ لے رہے ہیں ۔۔۔۔ تازہ ترین اقوام متحدہ کی عالمی صحت کانفرنس کے مطابق اوسطاً ہر چالیس سیکنڈ میں ایک شخص اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لیتا ہے۔ یوں، مجموعی طور پر سالانہ دس لاکھ افراد خودکشی کے ذریعے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔

مذہبی عدم برداشت

قرآن حکیم نے اتفاق اور اتحاد کا درس دیا۔ ارشاد فرمایا :

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُو.(اٰل عمران، 3 : 103)

‘اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو ‘‘۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اتفاق اور برداشت کا حکم دیا۔ صحیح مسلم میں ہے :

‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : تین باتوں سے خدا خوش ہوتا ہے اور تین باتوں سے ناخوش ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کی رسی کو اتفاق سے پکڑو اور فرقوں میں نہ بٹو‘‘۔ (بحوالہ تفسیر ابن کثیر، جلد اول، صفحہ 462)

دوستو !

جس ملک میں بھی مذھبی عدم برداشت جنم لیتی ہے اس کی عوام سے فکری آزادی سلب کر لی جاتی ہے ۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں میں عدم برداشت کی وجہ سے مذہبی فرقہ واریت نے جنم لیا ہے۔ یوں مولوی ملا ں نے سب سے پہلا ڈاکہ ان پر اخلاقی پسماندگی ، بدعت اور عریانیت کے خلاف جہاد کہہ کر ڈالا ۔ پاکستان میں فکری آزادی کا قتل ضیالحق کے دور سے شروع ہو اتھا جو ہنوز پوری آب و تاب سے جاری ہے ۔2011 مارچ میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہِ فلاسفی میں اسلامی جمیت کے غنڈوں کی دہشت گردی اور خواتین اساتذہ سمیت طالبات کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کو کون بھول سکتا ہے ۔۔ پھر جنرل مشرف کے دور میں لال مسجد کاواقعہ تاریخ سے کبھی مٹایا نہ جا سکے گا۔

پاکستان میں جہاد کے نام پر بلین ڈالرز کی صہیوانی انڈسٹری نے ہمارے معاشرے میں نہ صرف برداشت اور رواداری کے ماحول کو مسموم کیا بلکہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو بھی فروغ دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ کوکین ، کلاشنکوف اور لاقانونیت وبا کی شکل میں پورے ملک میں پھیل چکی ہے ۔ اور آج نوبت یہ ہے کہ کوئی بھی شخص ذاتی عداوت کی بنا پہ دوسرے شخص کو کافر قرار دے کر سرِعام سنگسار کر کے بھی نہ صرف وہ قانون کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے بلکہ اکثر قانون انہیں راتوں رات عوامی ہیرو بھی بنا دیتا ہے ۔۔ اس کی تازہ ترین مثال ، حالیہ پنڈی میں ہونے والا عاشورہ کے جلوس پر وہابی فرقے کا پتھراو ہے جس میں اب تک نو افراد جابحق ہو چکے ہیں اور تا حال پنڈی میں کرفیو کے نفاز سے پورا ملک متاثر ہے ۔

عدم برداشت کا ایک اور نتیجہ بھی نکلتا ہے اور وہ ہے “جنگ ” جو پسماندہ ملکوں پر جلد مسلط ہو جاتی ہے ۔۔ آیئے دیکھتے ہیں عدم برداشت نے عالمی سطح پر جنگ کی صورت میں کتنا مالی اور جانی نقصان پہنچایا ۔

1۔ پہلی جنگ عظیم میں خرچ کا تخمینہ 80 ارب پونڈ

2۔ جنگ عظیم دوم میں 1939ء تا 1944ء روزانہ وہ رقم جو صرف برطانیہ جنگ پر خرچ کرتا رہا۔ ساڑھے 19 کروڑ پونڈ۔

بین الاقوامی سطح پر عدم برداشت کی وجہ سے افغانستان، کشمیر، فلسطین، بوسینیا، چیچنیا، ایریٹریا، صومالیہ، الجزائر اور دنیا کے دیگر گوشوں میں امن مفقود رہا ہے۔ عدم برداشت کا رجحان اسلحہ کی دوڑ اور ایٹمی پھیلاؤ کی صورت میں نمودار ہو کر اقوام عالم میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر رہا ہے اسی وجہ سے بھارت اسلحہ لینے والا سب سے بڑ املک بن گیا ۔ چند سال پہلے انڈیا نے عدم برداشت کی ایک بھونڈی مثال قائم کی۔ بابری مسجد پر لاکھوں ہندوؤں نے ہلا بول دیا۔ گنبد شریف کو شہید کردیا۔ مینار مبارک شہید کردیا گیا۔ آناً فاناً مسجد ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ انڈیا نے اپنے متعصبانہ رویے کا اظہار کرکے اپنی ہی ساکھ بین الاقوامی برادری میں برباد کردی۔ اپنی تمام تر تعصبات کے ساتھ انڈیا امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل کا نور نظر ہے ۔

اس صدی میں عدم برداشت کے رجحان نے اقوام عالم کے امن کو پارہ پارہ کر دیا۔ چین کی خانہ جنگی (1945-49)۔۔۔ کوریا کی جنگ (1950-53)۔۔۔ انڈونیشیا میں فسادات (1958-65)۔۔۔ کانگو میں خانہ جنگی (1960-64)۔۔۔ الجیریا اور مراکش کے مابین جھگڑا (1963ء)۔۔۔ یمن میں خانہ جنگی (1962-69)۔۔۔ ویت نام کی جنگ (1965-72)۔۔۔ نائیجیریا میں خانہ جنگی (1967-70)۔۔۔ مصر اور اسرائیل کی جنگ (1967)۔۔۔ پاکستان اور انڈیا میں جنگیں (1965-71)۔۔۔ انگولا میں خانہ جنگی (1975-76)۔۔۔ کمبوڈیا میں بحران (1978-79)۔۔۔ افغانستان کی جنگ (1978,2002)۔۔۔ اور دیگر ممالک میں جنگیں اقوام کے درمیان عدم برداشت کے رجحان کی وجہ سے ہوئیں۔ اس صدی کے اواخر میں روسی قیصریت کا عظیم الشان قصر آناً فاناً کھوکھلا ہوگیا۔ روسی اشتراکیت نے بدترین عدم برداشت کا مظاہرہ کیا۔ روسی کمیونزم کی زد میں آ کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد اڑھائی کروڑ سے چار کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

ساری دنیا جانتی ہے کہ اسلام میں برداشت اور مذہبی رواداری ہے اور غیر مسلموں کے معبدوں کا احترام ہے۔ جس کی ایک روشن مثال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں نجران کے وفد کی ہے۔ یہ وفد نصاریٰ کا تھا جو مدینہ شریف حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وفد کی مہمانداری کی۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان کو جگہ دی بلکہ ان کو اپنے طور طریقے پر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نماز پڑھنے کی بھی اجازت فرمادی۔ 

(ملاحظہ ہو ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، اسلام کی مذہبی رواداری (مضمون)، نقوش، جلد سوم، صفحہ نمبر 666)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان تھا : ‘طاقتور وہ نہیں جو کسی دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ اصل طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو رکھے‘‘۔ 

(مسلم، حدیث نمبر 2014)

تاریخ رقم ہے کہ اعلان نبوت کے بعد تین سال بڑی سختی اور آزمائش کے تھے۔ ابوجہل اور کفار مکہ کی کھلم کھلا مخالفت، مزاحمت، تضحیک اور سب و شتم کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ 5 نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے 10 نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک یعنی حضرت ابوطالب کی وفات تک کفار مکہ نے تشدد کا مظاہرہ کیا۔۔۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ان کا مالک امیہ دوپہر کے وقت تپتی ریت پر لٹاتا۔۔۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو دہکتے کوئلوں پر لٹایا جاتا یہاں تک کہ ان کی پیٹھ کی چربی نکل آتی۔۔۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو اتنا مارا جاتا کہ آپ رضی اللہ عنہ بے ہوش ہوجاتے۔۔۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ پر ظلم۔۔۔ ابوفکیہ رضی اللہ عنہ پر ظلم۔۔۔ مسلمان لونڈیوں لبینہ رضی اللہ عنھا، زنیرہ رضی اللہ عنہ، نہدیہ رضی اللہ عنہ اور ام عبیس رضی اللہ عنہ پر بے پایاں ظلم۔۔۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ، ابوذر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ پر ظلم اور سفاکی تاریخ اسلام کی کتابوں میں مرقوم ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر ظلم اور سختی کو برداشت کرتے اور اُف نہ کرتے تھے، نہ کسی پر ہاتھ اٹھاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنھم کو بھی صبر اور برداشت کی تلقین فرماتے۔

محقیقین لکھتے ہیں ۔۔۔

‘کاش کہ کوئی آئزن ہاور، کوئی سٹالن، کوئی میک آرتھر، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سنت پر عمل کی توفیق پاتا اور محرومین کی آئندہ انتقامی جنگ کے امکان کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرکے انسانوں کو امن و چین عطا کرسکتا‘‘۔

(رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی، صفحہ نمبر 326)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میثاق مدینہ کے ذریعے مذہبی رواداری اور برداشت کا درس دیا۔ بقول ڈاکٹر محمد حمیداللہ ‘یہ دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور تھا‘‘۔

(عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نظام حکمرانی، صفحہ نمبر 75)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کو ایک قومیت کی لڑی میں پرو دیا۔ بقول محمد حسین ہیکل ‘معاہدین کی یہ بستی (شہر مدینہ) اس میں رہنے والوں کے لئے امن کا گہوارہ بن گئی‘‘۔

(حیات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صفحہ نمبر 270) :

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں بین الاقوامی امن، رواداری اور برداشت کا درس دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

‘لوگو! تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے کے لئے ایسی ہی حرام ہیں جیسے تمہارے لئے آج کا دن، اس شہر، اس مہینہ کی حرمت۔ خبردار! میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو‘‘۔

مجھے اس کے بعد کچھ اور نہیں کہنا آپ سب جانتے ہیں آج دنیائے اسلام نئے عالمی نظام کے زیر اثر ہے۔ اور اس کا انجام کیا ہو گا اس کا قیافہ بھی آسان ہے ، خدارا اپنی سوچ بدلیئے ۔۔۔ آزادی دیجئے اور آزادی لینا سیکھیئے ۔۔ سانسیں قید کردینے سے روحیں نہیں نکلتیں ۔۔اور روحوں کے نکل جانے سے پیغام نہیں مرتے ۔۔ یقین کیجئے علم حاصل کرنا اور فکر کو تبدیل کرنا ہی خود شناسی کی پہلی منزل ہے 

اب ہر فرد کو ایک زمیدار شہری ہو کر خود سوچنا ہے کہ عدم برداشت اور تشدد کو کون ہوا دے رہا ہےاور کیوں ؟ 

گردنیں کون کاٹ رہا ہے اور کیوں ۔۔۔ ۔۔۔ ؟ 

گمراہ کون ہیں اور کیوں ہیں ۔۔۔۔۔ ؟ 

ا تحاد بین المسلمین کے دشمن کون ہیں اور کیوں ۔۔۔۔ ؟

 

 

تبصرے
Loading...