ابواب علوم اہلبیت(ع)

1۔ علم الکتاب

409۔ابوسعید خدری ! میں نے رسول اکرم سے آیت شریفہ ” و من عندہ علم الکتاب“ کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ اس سے میرا بھائی علی (ع) بن ابی طالب مراد ہے۔( شواہد التنزیل 1 ص 400 / 422)۔

410۔ ابوسعید خدری ! میں نے رسول اکرم سے ارشاد احدیت ” قال الذین عندہ علم من الکتاب“ کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ یہ میرے بھائی سلیمان بن داود کا وصی تھا، پھر دریافت کیا کہ ” قل کفی باللہ شہیدا بینئ و بینکم و من عندہ علم الکتاب“ سے مراد کون ہے تو فرمایا کہ یہ میرا بھائی علی (ع) بن ابی طالب ہے۔( امالی صدوق (ر) 453 / 3)۔

411۔ امام علی (ع) نے آیت شریفہ و من عندہ علم الکتاب کے ذیل میں فرمایا کہ میں وہ ہوں جس کے پاس کل کتاب کا علم ہے۔( بصائر الدرجات 216 / 21)۔

412 ۔ امام حسین (ع) ! ہم وہ ہیں جن کے پاس کل کتاب کا علم اور اس کا بیان موجود ہے اور ہمارے علاوہ ساری مخلوقات میں کوئی ایسا نہیں ہے اس لئے کہ ہم اسرار الہیہ کے اہل ہیں ۔( مناقب ابن شہر آشوب 4 / 52 از اصبغ بن نباتہ)۔

413۔ عبداللہ بن عطاء ! میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ادھر سے عبداللہ بن سلام کے فرزند کا گذر ہوگیا ، میں نے عرض کی کہ میری جان آ پر قربان، کیا یہ مصداق ”الذی عندہ علم الکتاب“ کا فرزند ہے؟ فرمایا ہرگز نہیں ، اس سے مراد علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہیں جن کے بارے مین بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں۔( مناقب ابن المغازلی 314 / 358 ، شواہد التنزیل 1 ص 402 / 425 ، ینابیع المودہ 11 ص 305 ، العمدة ص 290 / 476 ، تفسیر عیاشی 2 ص 220 ، /77 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 29 )۔

414۔ امام محمد باقر (ع) ! آیت شریفہ قل کفی کے ذیل میں فرمایا کہ اس سے مراد ہم اہلبیت (ع) ہیں اور علی (ع) ہمارے اول و افضل اور رسول اکرم کے بعد سب سے بہتر ہیں۔( کافی 1 ص 229 /6 ، تفسیر عیاشی 2 ص 220 / 76 ، روایت برید بن معاویہ ، بصائر الدرجات 214 /7 روایت عبدالرحمان بن کثیر از امام صادق (ع) )۔

415۔ عبدالرحمان بن کثیر نے امام صادق (ع) سے آیت شریفہ ”قال الدی عندہ علم من الکتاب“ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے سینہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ ہم وہ ہیں جن کے پاس ساری کتاب کا علم ہے۔ ( کافی 1 ص 229 / 5 ص 257 / 3 از سدیر ، بصائر الدرجات 21 / 2)۔

416۔ ابوالحسن محمد بن یحییٰ الفارسی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ابونو اس نے امام (ع) رضا کو مامون کے یہاں سے سواری پر نکلتے دیکھا تو قریب جاکر سلام عرض کیا اور کہا کہ فرزند رسول میں نے آپ حضرات کے بارے میں کچھ شعر لکھے ہیں اور چاہتاہوں کہ آپ سماعت فرمالیں ، فرمایا سناؤ۔

ابونو اس نے اشعار پیش کئے۔

” یہ اہلبیت (ع) وہ افراد ہیں جن کا لباس کردار بالکل پاک و صاف ہے اور ان کا ذکر جہاں بھی آتاہے صلوات کے ساتھ آتاہے۔

جو شخص بھی اپنی نسبت علی (ع) سے نہ رکھتاہو اس کے لئے زمانہ میں کوئی شے باعث فخر نہیں ہے۔

اے اہلبیت (ع) ! پروردگار نے جب مخلوقات کو خلق کیا ہے تو تمھیں کو منتخب اور مصطفی قرار دیاہے۔

تمھیں ملاء اعلیٰ ہو اور تمھارے ہی پاس علم الکتاب ہے اور تمام سوروں کے مضامین ہیں“۔

یہ سنکر حضرت نے فرمایا کہ ایسے شعر تم سے پہلے کسی نے نہیں کہے ہیں۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 143 / 10 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 366)۔

 

2۔ تاویل قرآن

417۔ رسول اکرم ! میرے بعد علی (ع) ہی لوگوں کو تاویل قرآن کا علم دیں گے اور انھیں باخبر بنائیں گے۔( شواہد التنزیل 1 ص 39 / 28 از انس)۔

418۔ امام علی (ع) ! مجھ سے کتاب الہی کے بارے میں جو چاہو دریافت کرلو کہ کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں مجھے یہ نہ معلوم ہو کہ دن میں نازل ہوئی ہے یا رات میں ، صحرا میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر ( الطبقات الکبریٰ 2 ص 338 ، تاریخ الخلفاء ص 218 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 3 ص 21 / 1039 ، تفسیر عیاشی 2ص 383 / 31 روایت ابوالطفیل ، امالی صدوق 227 / 13 ، امالی مفید 152 /3)۔

419۔ امام علی (ع) ! مجھ سے کتاب خدا کے بارے میں دریافت کرو، خدا کی قسم کوئی آیت دن میں یا رات میں ، سفر میں یا حضر میں ایسی نازل نہیں ہوئی جسے رسول اکرم نے مجھے سنایا نہ ہو اور اس کی تاویل نہ بتائی ہو۔

یہ سن کر ابن الکواء بول پڑا کہ بسا اوقات آپ موجود بھی نہ ہوتے تھے اور آیت نازل ہوتی تھی۔؟

فرمایا کہ رسول اکرم اسے محفوظ رکھتے تھے یہاں تک کہ جب حاضر ہوتا تھا تو مجھے سنادیا کرتے تھے اور فرماتے تھے یا علی (ع) ! اللہ نے تمھارے بعد یہ آیات نازل کی ہیں اور ان کی یہ تاویل ہے اور مجھے تنزیل و تاویل دونوں سے باخبر فرمادیا کرتے تھے(امالی طوسی (ر) 523 /1158 ، بشارة المصطفیٰ ص 219 از مجاشعی از امام رضا (ع) ، الاحتجاج 1 ص 617 / 140 از امام صادق (ع) ، کتاب سلیم بن قیس ص 214)۔

420 ۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم پر کوئی بھی آیت قرآن نازل نہیں ہوئی مگر یہ کہ مجھے سنابھی دیا اور لکھا بھی دیا اور میں نے اپنے قلم سے لکھ لیا اور پھر مجھے اس کی تاویل و تفسیر سے بھی باخبر فرما دیا اور ناسخ و منسوخ ، محکم و متشابہ اور خاص و عام بھی بتادئے۔( کافی 1 ص 64 / 1 ) ، خصال ص 217 / 131 ، کمال الدین 284 / 37 ، تفسیر عیاشی 1 ص 253 از کتاب سلیم بن قیس)۔

421۔ عبداللہ بن مسعود ! قرآن مجید سات حروف پر نازل ہوا ہے اور ہر حرف کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور علی (ع) بن ابی طالب (ع) کے پاس ظاہر کا علم بھی ہے اور باطن کا علم بھی ہے۔( حلیة الاولیاء 1 ص 65 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 3 / 25 / 1048 ، ینابیع المودہ 1 ص 215 / 24)۔

422۔ امام حسن (ع) نے معاویہ کے دربار میں فرمایا کہ میں بہترین کنیز خدا اور سیدّہ النساء کا فرزند ہوں ، مجھے رسول اکرم نے علم خدا کی غذا دی ہے اور تاویل قرآن اور مشکلات احکام سے باخبر کیا ہے، ہمارے لئے غالب آنے والی عزت بلندترین کلمہ اور فخر و نورانیت ہے۔( احتجاج 2 ص 47)۔

423۔ امام باقر (ع) ! کسی شخص کے امکان میں نہیں ہے کہ یہ دعویٰ کرے کہ ہمارے پاس تمام قرآن کے ظاہر و باطن کا علم ہے،سوائے اوصیاء پیغمبر اسلام کے ۔( کافی 1 ص 228 / 2 ، بصائر الدرجات 193 از جابر)۔

424۔ امام باقر (ع) جس شخص نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ اس نے سارا قرآن تنزیل کے مطابق جمع کیا ہے وہ جھوٹا ہے… قرآن کو تنزیل کے مطابق صرف حضرت علی (ع) بن ابی طالب نے جمع کیا ہے اور ان کی اولاد نے محفوظ رکھا ہے۔( کافی 1 ص 228 /1 از جابر)۔

425۔ فضیل بن یسار ! میں نے امام باقر (ع) سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ قرآن کی ہدایت میں ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ، آخر ظاہر و باطن سے مراد کیا ہے ؟ فرمایا اس سے مراد تاویل قرآن ہے جس کا ایک حصہ گذرچکاہے اور ایک حصہ مستقبل میں پیش آنے والاہے، قرآن کا سلسلہ شمس و قمر کی طرح چلتارہے گا اور جب کوئی واقعہ پیش آجائے گا قرآن منطبق ہوجائے گا ، پروردگار نے فرمایا ہے کہ اس کی تاویل کا علم صرف خدا اور راسخوں فی العلم کو ہے اور راسخون سے مراد ہم لوگ ہیں۔(تفسیر عیاشی 1 ص11 /5 ، بصائر الدرجات 203 /2)۔

426۔ ابوالصباح ! خدا کی قسم مجھ سے امام باقر (ع) نے فرمایاہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کو تنزیل و تاویل دونوں کا علم دیا ہے اور انھوں نے سب علی (ع) بن ابیطالب (ع) کے حوالہ کردیاہے اور پھر یہ علم ہمیں دیا گیاہے۔( کافی 7 ص 442 / 15 ، تہذیب 8 ص 286 ، 1052 ، تفسیر عیاشی 1 ص 17 /13)۔

427 ۔ امام علی نقی (ع) نے صاحب الامر کی زیارت کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ خدایا تمام ائمہ راشدین، قائدین ہادیین، سادات معصومین (ع) ، اتقیاء ابرار پر رحمت نازل فرما جو سکون و وقار کی منزل ، علم کے خزانہ دار، حلم کی انتہاء ، بندوں کے منتظم ، شہروں کے ارکان ،نیکی کے راہنما، صاحبان عقل و بزرگی ، شریعت کے علماء ، کردار کے زہاد، تاریکی کے چراغ ، حکمت کے چشمے، نعمتوں کے مالک ، امتوں کے محافظ ، تنزیل کے ساتھی ، تاویل کے امین و ولی ، وحی کے ترجمان و دلائل تھے۔( بحار الانوار 102 /180)۔

 

3۔ اسم اعظم

428۔ امام علی (ع) ! قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور جاندار کو پیدا کیا کہ میں زمین و آسمان کے ملکوت میں وہ اختیارات رکھتاہوں کہ اگر تمھیں اس کے ایک حصّہ کا بھی علم ہوجائے تو تم برداشت نہیں کرسکتے ہو۔ پروردگار کے 72 اسم اعظم ہیں جن میں سے آصف بن برخیا کو ایک معلوم تھا اور اس کے پڑھتے ہی زمینیں پست ہوگئیں اور انھوں نے ملک سبا سے تخت بلقیس اٹھالیا اور پھرزمینیں برابر ہوگئیں اور ہمارے پاس کل 72 اسماء کا علم ہے، صرف ایک نام ہے جسے خدا نے اپنے علم غیب کا حصہ بناکر رکھاہے۔( بحار الانوار 27 / 37 / 5 ، البرہان 2 ص 490 / 2 روایت سلمان فارسی)۔

429۔ امام صادق (ع) ! جناب عیسیٰ بن مریم کو دو حرف عطا ہوئے تھے جن سے سارا کام کررہے تھے اور جناب موسیٰ کو چار حرف عطا ہوئے تھے۔

حضرت ابراہیم کو 8 حرف ملے تھے اور حضرت نوح کو 15 حرف اور حضرت آدم کو 25 حرف اور اللہ نے حضرت محمد کے لئے سب جمع کردئے مالک کے 73 ، اسم اعظم ہیں جن میں سے 72 ، اپنے پیغمبر کو عنایت فرمائے ہیں اور ایک اپنی ذات کے لئے مخصوص کرلیا ہے۔( کافی 1 ص 230 /2) بصائر الدرجات 208 / 2 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 479 روایت ہارون بن الجہم)۔

430۔ امام ہادی (ع) ! اللہ کے اسم اعظم 73 ہیں آصف بن برخیا کے پاس ایک تھا جس کا حوالہ دینے سے ملک سبا تک کی زمینیں پست ہوگئیں اور انھوں نے تخت بلقیس کو اٹھاکر جناب سلیمان کے سامنے پیش کردیا اور اس کے بعد پھر ایک لمحہ میں برابر ہوگئیں اور ہمارے پاس ان میں سے 72 ہیں8 صرف ایک نام خدا نے اپنے لئے مخصوص کرر کھاہے۔( کافی 1 ص 230 / 3 مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 406 ، اثبات الوصیّہ 254 روایت علی بن محمد النوفلی)۔

 

4۔ جملہ لغات

431۔ امام علی (ع) ! یزدجرد کی بیٹئ سے نام دریافت کرنے پر جب اس نے اپنا نام جہاں بانو بتایا تو فرمایا کہ نہیں شہر بانو اور یہ بات بھی فارسی زبان میں فرمائی ۔( مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 65)۔

432۔سماعہ بن مہران نے بعض شیوخ کے حوالہ سے امام باقر (ع) کے اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب دہلیز میں پہنچا تو سنا کہ آپ سریانی زبان میں کچھ پڑھ رہے ہیں اور گریہ فرمارہے ہیں یہانتک کہ ہم لوگوں پر بھی گریہ طاری ہوگیا ۔( مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 195)۔

433- موسی بن اکیل النمیری کا بیان ہے کہ ہم امام (ع) باقر کے دروازہ پر اذن باریابی کے لئے حاضرہوئے تو عبرانی زبان میں ایک دردناک آواز سنائی دی اور حاضری کے بعد ہم نے دریافت کیا کہ اس کا قاری کون تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے ایلیا کی مناجات یاد آگئی تو مجھ پر گریہ طاہری ہوگیا۔( مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 195)۔

434۔احمد بن قابوس نے اپنے والد کے حوالہ سے امام صادق (ع) کے بارے میں نقل کیاہے کہ آپ کے پاس اہل خراسان کی ایک جماعت حاضر ہوئی تو آپ نے بغیر کسی تمہید کے فرمایا کہ جو شخص بھی مال جس قدر جمع کرے گا اللہ اس پر اسی اعتبار سے عذاب کرے گا… تو ان لوگوں نے عرض کی کہ ہم عربی زبان نہیں جانتے ہیں تو آپ نے فارسی میں فرمایا:

ہر کہ درم اندوز و جزایش دوزخ باشد

435۔ ابوبصیر ! میں نے حضرت ابوالحسن (ع) سے عرض کی کہ میں آپ پر قربان، امام کی معرفت کا ذریعہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ بہت سے اوصاف ہیں جنمیں پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے پدر بزرگوار کی طرف سے اس کے بارے میں اشارہ ہوتاہے تا کہ لوگوں پر حجت تمام ہوجائے اور اس سے سوال کیا جائے اور وہ جواب دے گا اور اگر دریافت نہ کیا جائے تو خود ابتدا کرے اور مستقبل کے حالات سے بھی آگاہ کرے اور ہر زبان میں کلام کرسکے!

ابو محمد ! میں تمھارے اٹھنے سے پہلے تم کو ایک علامت دیدینا چاہتاہوں… چنانچہ ابھی میں اٹھنے بھی نہیں پایا تھا کہ ایک مرد خراسانی وارد ہوگیا اور اس نے عربی میں کلام شروع تو آپ نے اسے فارسی میں جواب دیا ۔

مرد خراسانی نے کہا کہ میں نے فارسی میں اس لئے کلام نہیں کیا کہ شائد آپ اسے نہ جانتے ہوں تو آپ نے فرمایا۔ سبحان اللہ !

اگر میں تمھارا جواب نہ دے سکوں تو میری فضیلت ہی کیا ہے۔

دیکھو ! ابومحمد! امام پر کسی انسان، پرندہ ، جانور اور ذیروح کا کلام مخفی نہیں ہوتاہے اور اگر کسی میں یہ کمالات نہ ہوں تو وہ امام نہیں ہے۔( کافی 1 ص 285 /7 ، ارشاد 2 ص 224 ، دلائل الامامة 337 /294 ، قرب الاسناد 339 / 1224)۔

436۔ ابوالصلت ہروی ! امام رضا تمام لوگوں سے ان کی زبان میں کلام فرماتے تھے اور سب سے زیادہ فصیح زبان بولتے تھے کہ سب سے زیادہ واقف لغات تھے، میں نے ایک دن عرض کیا یابن رسول اللہ ! مجھے آپ کے اس قدر زبانیں جاننے پر تعجب ہوتاہے تو فرمایا کہ ابوالصلت ! میں مخلوقات پر خدا کی حجت ہوں اور خدا کسی ایسے شخص کو حجت نہیں بناسکتاہے جو قوم کی زبان سے باخبر نہ ہو کیا تم نے امیر المومنین (ع) کا یہ کلام نہیں سنا ہے کہ ہمیں قول فیصل کا علم دیا گیا ہے اور قول فیصل معرفت لغات کے علاوہ اور کیاہے۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 228 / 3)۔

437۔ ابوہاشم جعفری کا بیان ہیں کہ میں مدینہ میں تھا جب واثق باللہ کے زمانہ میں وہاں سے بغاء کا گذر ہوا تو امام ابوالحسن نے فرمایا کہ میرے ساتھ چلو تا کہ میں دیکھوں کہ ان ترکوں نے کیا انتظام کررکھاہے۔ ہم لوگ حضرت کے ساتھ باہر نکلے تو اس کی فوجیں گذررہی تھیں، ایک نزکی سامنے سے گذرا تو آپ نے اس سے ترکی زبان میں کلام کیا ، وہ گھوڑے سے اتر پڑا اور آپ کی سواری کے قدموں کو چومنے لگا، ہم لوگوں نے اسے قسم دے کر پوچھا کہ اس شخص نے کیا کہا ہے؟ اس نے کہا کیا یہ نبی ہے؟

ہم لوگوں نے کہا نہیں !

اس نے کہا کہ اس نے مجھے اس نام سے پکارا ہے جو میرے بچپنے میں میرے ملک میں رکھا گیا تھا اور اسے آج تک کوئی نہیں جانتاہے۔ (اعلام الوریٰ ص 343 ، الثاقب فی المناقب 538 / 478 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 408)۔

438۔ علی بن مہزیار نے امام ہادی (ع) کے حالات میں نقل کیا ہے کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فارسی میں کلام شروع کردیا۔( بصائر الدرجات 333/1)۔

439۔ علی بن مہزیار، میں نے حضرت ابوالحسن ثالت( امام علی نقی (ع) )کی خدمت میں اپنے غلام کو بھیجا جو صقلابی (رومی) تھا، وہ یہاں سے انتہائی حیرت زدہ واپس آیا، میں نے پوچھا خیر تو ہے ؟ اس نے کہا کہ یہ تو مجھ سے صقلابی زبان کی طرح باتیں کررہے تھے اور میں سمجھ گیا کہ مجھ سے اس زبان میں اس لئے باتیں کررہے تھے کہ دوسرے غلام نہ سمجھنے پائیں۔(اختصاص ص 289 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 408 ، کشف الغمہ 3 ص 179)۔

440۔ ابوحمزہ نصیر الخادم کا بیان ہے کہ میں نے امام عسکری (ع) کو بارہا غلاموں سے ان کی زبان میں بات کرتے سناہے کبھی رومی کبھی صقلابی تو حیرت زدہ ہوکر کہا کہ آخر ان کی ولادت مدینہ میں ہوئی ہے اور امام نقی (ع) کے انتقال تک باہر نہیں نکلے ہیں تو اس قدر زبانیں کس طرح جانتے ہیں ؟

ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حضرت نے میری طرف رخ کرکے فرمایا پروردگار نے اپنی حجت کو ہر طریقہ سے واضح فرمایاہے اور وہ اسے تمام لغات، اجل ، حوادث سب کا علم عطا کرتاہے، ورنہ ایسا نہ ہوتا تو اس میں اور قوم میں فرق ہی کیا رہ جاتا۔( کافی 1 ص 509 /11، روضة الواعظین ص273 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 428 ، الخرائج والجرائح 1 ص 436 /14 ، کشف الغمہ 3 ص 202 ، اعلام الوریٰ ص 256 ، بصائر الدرجات ص 333)۔

 

5۔ منطق الطیر

441۔ امام علی (ع) ! ہمیں پرندوں کی زبان کا اسی طرح علم دیا گیا ے جیسے سلیمان بن داؤد کو دیا گیا ہے اور ہم برو بحر کے تمام جانوروں کی زبان جانتے ہیں،( مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 54 ، بصائر الدرجات 343 / 12 از زرارہ)۔

442۔ امام علی (ع) ! ہمیں پرندوں کی گفتگو اور ہر شے کا علم دیا گیا جو خدا کا عظیم فضل ہے۔( اثبات الوصیہ ص 160 ، اختصاص ص 193 از محمد بن مسلم)۔

443۔ علی بن ابی حمزہ ! حضرت ابوالحسن کے غلاموں میں سے ایک شخص نے آکر حضرت سے درخواست کی کہ میرے ساتھ کھانا نوش فرمائیں؟

حضرت اٹھے اور اٹھ کر اس کے ساتھ گھر تک گئے، وہاں ایک تخت رکھا تھا، اس پر بیٹھ گئے، اس کے نیچے کبوتر کا ایک جوڑا تھا، نر نے مادہ سے کچھ باتیں کیں ، صاحب خانہ دان، کھانا لانے چلاگیا اور جب پلٹ کر آیا تو حضرت مسکرانے لگے، اس نے عرض کی حضور ہمیشہ خوش رہیں اس وقت ہنسنے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ یہ کبوتر کبوتری سے باتیں کررہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تو میری محبوبہ ہے اور مجھے کائنات میں اس شخص کے علاوہ تجھ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں ہے ! اس نے کہا کیا حضور اس کی باتیں سمجھتے ہیں ! فرمایا بیشک ہمیں پرندوں کی گفتگو اور دنیا کی ہر شے کا علم دیا گیا ہے۔( بصائر الدرجات 346/ 25 ، مختصربصائر الدرجات ص 114 ، الخرائج والجرائح 2 ص 833 / 49 اختصاص ص 293)۔

434 ۔ علی بن اسباط ! میں حضرت ابوجعفر (ع) کے ساتھ کوفہ سے برآمد ہوا، آپ ایک خچر پر سوار تھے اور ایک بھیڑوں کے گلے کے قریب سے گذرے تو ایک بکری گلہ سے الگ ہوکر دوڑتی ہوئی آپ کے پاس شور مچاتی ہوئی آئی، آپ ٹھہر گئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اس کے چروا ہے کو بلاؤں میں نے اسے حاضر کردیا، آپ نے اس سے فرمایا کہ یہ بکری تمھاری شکایت کررہی ہے کہ اس میں دو آدمیوں کا حصّہ ہے اور تو اس پر ظلم کرکے سارا دودھ دوہ لیتاہے تو جب شام کو گھر واپس جائے گی تو مالک دیکھے گا کہ اس میں بالکل دودھ نہیں ہے اور اذیت کرے گا تو دیکھ خبردار آئندہ ایسا ظلم نہ کرنا ورنہ میں تیری بربادی کی بددعا کردوں گا؟

اس نے فوراً توحید و رسالت کی گواہی کے ساتھ امام کے وصی رسول ہونے کا کلمہ پڑھ لیا اور عرض کیا کہ حضور کو یہ علم کہاں سے ملاہے فرمایا ہم علم غیب و حکمت الہی کے خزانہ دار ہیں اور انبیاء کے وصی اور اللہ کے محترم بندے ہیں۔( الثاقب فی المناقب 522 / 255)

445۔ عبداللہ بن سعید ! مجھ سے محمد بن علی بن عمر التنونی نے بیان کیا کہ میں نے حضرت محمد بن علی (ع) کو ایک بیل سے بیات کرتے دیکھا جب وہ سرہلارہا تھا تو میں نے کہا کہ میں اس طرح نہ مانوں گا جب تک اسے یہ حکم نہ دیں کہ وہ آپ سے کلام کرے؟

آپ نے فرمایا کہ ہمیں پرندوں کی گفتگو اور ہر شے کا علم دیا گیا ہے، اس کے بعد بیل کو حکم دیا کہ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ کہے اس نے فوراً کہہ دیا اور آپ اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔( دلائل الامامة 40 / 356)۔

 

6۔ ماضی و مستقبل

446۔ امام علی (ع) اگر قرآن مجید میں یہ آیت نہ ہوتی کہ ” اللہ جس چیز کو چاہتاہے محو کردیتاہے اور جس کو چاہتاہے باقی رکھتاہے اور اس کے پاس ام الکتاب ہے، تو میں تمھیں تمام گذشتہ اور آئندہ قیامت تک ہونے والے حالات سے باخبر کردیتا۔( التوحید 305 /1 ، امالی صدوق (ر) ص 280 /1 الاختصاص ص 235 ، الاحتجاج 1 ص 610 بروایت اصبغ بن نباتہ، تفسیر عیاشی 2 ص 215 /59 ، قرب الاسناد 354 / 1266)۔

447۔ امام صادق (ع) ! اے وہ خدا جس نے ہم کو تمام ماضی اور آئندہ کا علم دیا ہے اور انبیاء کے علم کا وارث بنایاہے، ہم پر تمام گذشتہ امتوں کا سلسلہ ختم کیا ہے اور ہمیں وصایت کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔( بصائر الدرجات 129 / 3 بروایت معاویہ بن وہب)۔

448۔ معاویہ بن وہب ! میں نے امام صادق (ع) کے دروازہ پر اجازت طلب کی اور اجازت ملنے کے بعد گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ حضرت مصلیٰ پر ہیں۔ میں تھہر گیا جب نماز تمام ہوگئی تو دیکھا کہ آپ نے مناجات شروع کردی، ” اے وہ پروردگار جس نے ہمیں مخصوص کرامت عطا فرمائی ہے اور وصیت کے ساتھ مخصوص کیا ہے اور ہم سے شفاعت کا وعدہ کیاہے اور ہمیں تمام ماضی اور مستقبل کا علم عطا فرمایاہے اور لوگوں کے دلوں کو ہماری طرف جھکادیاہے، خدایا ہمیں اور ہمارے برادران ایمانی کو اور قبر حسین (ع) کے تمام زائروں کو بخش دے۔( کافی 4 ص 582 /11 ، کامل الزیارات ص 116)۔

449۔ سیف تمار ! میں ایک جماعت کے ساتھ امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا، آپ نے تین مرتبہ خانہ کعبہ کی قسم کھاکر فرمایا کہ اگر میں موسی ٰ (ع) اور خضر (ع) کے درمیان حاضر ہوتا تو دونوں کو بتاتا کہ میں ان سے بہتر جانتاہوں اور وہ باتیں بتاتا جو ان کے پاس نہیں تھیں، اس لئے کہ موسیٰ (ع) اور خضر کو گذشتہ کا علم دیاگیا تھا۔( انھیں مستقبل اور قیامت تک کے حالات کا علم نہیں دیا گیاتھا اور ہمیں یہ سب رسول اللہ سے وراثت میں ملا ہے۔( کافی 1 ص 260 / 1 ، بصائر الدرجات 129 /1 ، 230 / 4 ، دلائل الامامة ص 280 / 218)۔

450۔ حارث بن المغیرہ امام صادق (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا کہ میں آسمان و زمین کی تمام اشیاء جنت و جہنم کی تمام اشیاء ، ماشی اور مستقبل کی تمام اشیاء کا علم رکھتاہوں، اور پھر یہ کہہ کر خاموش ہوگئے جیسے سننے والے کو یہ بات بری معلوم ہورہی ہے اور اس کی اس طرح وضاحت فرمائی کہ یہ سب مجھے کتاب خدا سے معلوم ہواہے کہ اس میں ہر شے کا بیان پایا جاتاہے۔( کافی 1 ص 261 / 2 ، بصائر الدرجات 128 / 5 ، 128 / 6 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 249)۔

451۔امام صادق (ع) ! ہم اولاد رسول اس عالم میں پیدا ہوئے ہیں کہ ہمیں کتاب خدا،ابتدائے آفرینش اور قیامت تک کے حالات کا علم تھا، اور اس کتاب میں آسمان و زمین، جنت و جہنم ، ماضی و مستقبل سب کا علم موجود ہے اور ہمیں اس طرح معلوم ہے جس طرح ہاتھ کی ہتھیلی ، پروردگار کا ارشاد ہے کہ اس قرآن میں ہر شے کا بیان موجود ہے۔( کافی 1 ص 61/8، بصائر الدرجات 197 /2 ، ینابیع المودة 1 /80/20 ، روایت عبدالاعلیٰ بن اعین ، تفسیر عیاشی 2 ص 266 / 65)۔

452۔ امام رضا (ع) ! کیا خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب کا اظہار صرف اپنے پسندیدہ بندوں پر کرتاہے اور رسول اکرم اس کے پسندیدہ بندہ تھے اور ہم سب انھیں کے وارث ہیں جن کو خدا نے اپنے غیب پر مطلع فرمایاہے اور تمام ماضی اور مستقبل کا علم دیا ہے( ا لخرائج و الجرائح 1 ص 343 روایت محمد بن الفضل الہاشمی)۔

453 ، عبداللہ بن محمد الہاشمی ! میں مامون کے دربار میں ایک دن حاضر ہوا تو اس نے مجھے روک لیا اور سب کو باہر نکال دیا ، پھر کھانا منگوایا اور ہم دونوں نے کھایا ، اور خوشبو لگائی ، پھر ایک پردہ ڈال دیا اور مجھے حکم دیا کہ صاحب طوس کا مرثیہ سناؤ۔

میں نے شعر پڑھا۔

” خدا سرزمین طوس پر اور اس کے ساکن پر رحمت نازل کرے جو عترت مصطفی میں تھا اور ہمیں رنج و غم دے کر رخصت ہوگیا “ مامون یہ سن کر رونے لگا اور مجھ سے کہا کہ عبداللہ ! میرے اور تمھارے گھرانے والے مجھے ملامت کرتے ہیں کہ میں نے ابوالحسن الرضا (ع) کو ولی عہد کیوں بنادیا ، سنو میں تم سے ایک عجیب و غریب واقعہ بیان کررہاہوں ، ایک دن میں نے حضرت رضا (ع) سے کہا کہ میں آپ پر قربان، آپ کے آباء و اجداد موسیٰ بن جعفر (ع) ، جعفر (ع) بن محمد، محمد بن علی (ع) ، علی بن الحسین (ع) کے پاس تمام گذشتہ اور آئندہ قیامت تک کا علم تھا اور آپ انھیں کے وصی اور وارث ہیں اور آپ کے پاس انھیں کا علم ہے ، اب مجھے ایک ضرور ت ہے آپ اسے حل کریں۔

فرمایا بتاؤ ! میں نے کہا کہ یہ زاہر یہ میرے لئے ایک مسئلہ بن گئی ہے، میں اس پر کسی کنیز کو مقدم نہیں کرسکتا، لیکن یہ متعدد بار حاملہ ہوچکی ہے اور اس کا اسقاط ہوچکاہے، اب پھر حاملہ ہے، اب مجھے کوئی ایسا علاج بتائیں کہ اب اسقاط نہ ہونے پائے۔

آپ نے فرمایا گھبراؤ نہیں، اس مرتبہ اسقاط نہیں ہوگا اور ایسا بچہ پیدا ہوگا جو بالکل اپنی ماں کی شبیہ ہوگا اور اس کی ایک انگلی داہنے ہاتھ میں زیادہ ہوگی اور ایک بائیں پیرمیں۔

میں نے اپنے دل میں کہا کہ بیشک خدا ہر شے پر قادر ہے۔

اس کے بعد زاہریہ کے یہاں بالکل ویسا ہی بچہ پیدا ہوا جیسا حضرت رضا (ع) نے فرمایا تھا تو بتاؤ اس علم و فضل کے بعد کس کو حق ہے کہ ان کو پرچم ہدایت قرار دینے پر میری ملامت کرسکے۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 223 / 43 ، الغیبتہ الطوسی 74 / 81 روایت محمد بن عبداللہ بن الحسن الا فطس ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 333)۔

 

7۔ اموات و آفات

454۔ امام علی (ع) (ع)! ہم اہلبیت (ع) وہ ہیں جنھیں اموات ، حوادث روزگار اور انساب کا علم عطا کیا گیاہے کہ اگر ہم میں سے کسی ایک کو بھی پل پر کھڑا کردیا جائے اور ساری امت کو گذار دیا جائے تو وہ ہر ایک کے نام اور نسب کو بتاسکتا ہے۔( بصائر الدرجات 268 / 12 روایت اصبغ بن بناتہ)۔

455۔ امام زین العابدین (ع) ! ہمارے پاس جملہ اموات اور حوادث کا علم ہے، حرف آخر ہمارا ہے اور انساب عرب اور موالید اسلام سب ہمیں معلوم ہیں، (بصائر الدرجات 266 / 3 روایت عبدالرحمان بن ابی بحران عن الرضا (ع) 267/4 روایت عمار بن ہارون عن الباقر (ع) ، تفسیر فرات 396 / 527 ، الیقین 318 / 121 روایت زیاد بن المنذر عن الباقر (ع))۔

456۔ اسحاق بن عمار ! میں نے عبدصالح کو اپنی موت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے سنا تو مجھے خیال پیدا ہوا کہ کیا یہ اپنے شیعوں کی موت کے بارے میں بھی جانتے ہیں ، آپ نے غضبناک انداز سے میری طرف دیکھا اور فرمایا اسحاق ! رشید ہجری کو اموات اور حواد ث کا علم تھا تو امام تو اس سے اولیٰ ہوتاہے۔

اسحاق ، دیکھو جو کچھ کرناہے کرلو کہ تمھاری زندگی تمام ہورہی ہے اور تم و سال کے اندر مرجاؤگے اور تمھارے برادران اور اہل خانہ بھی تمھارے بعد چند ہی دنوں میں آپس میں منتشر ہوجائیں گے اور ایک دوسرے سے خیانت کریں گے یہاں تک کہ دشمن طعنے دیں گے ، یہ تمھارے دل میں کیا تھا؟ میں نے عرض کی کہ میں اپنے غلط خیالات کے بارے میں مالک کی بارگاہ میں استغفار کرتاہوں۔

اس کے بعد چند دن نہ گذرے تھے کہ اسحاق کا انتقال ہوگیا اور اس کے بعد تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ بنی عمار نے لوگوں کے مال کے ساتھ قیام کیا اور آخر میں افلاس کا شکار ہوگئے۔( کافی 1 ص 484 /7 ، بصائر الدرجات 265 / 13 ، دلائل الامامتہ 325 / 277 ، الخرائج والجرائح 2 ص 712 ، 9)۔

457۔ امام رضا (ع) نے عبداللہ بن جندب کے خط میں لکھا کہ حضرت محمد اس دنیا میں پروردگار کے امین تھے، اس کے بعد جب ان کا انتقال ہوگیا تو ہم اہلبیت (ع) ان کے وارث ہیں، ہم زمین خدا پر اس کے اسرار کے امانتدار ہیں اور ہمارے پاس تمام اموات اور حوادث روزگار اور انساب عرب اور موالید اسلام کا علم موجود ہے۔( تفسیر قمی 2 ص 104 ، مختصر بصائر الدرجات 174 ، بصائر الدرجات 267 /5)۔

 

8۔ ارض و سماء

458۔ رسول اکرم ! فضا میں کوئی پرندہ پر نہیں مارتاہے مگر ہمارے پاس اس کا علم ہوتاہے۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 32 / 54 روایت داؤد بن سلیمان الفراء عن الرضا (ع) ، صحیفة الرضا (ع) 62 / 100 روایت احمد بن عامر الطائ عن الرضا (ع) )۔

459۔ ابوحمزہ ! میں نے امام باقر (ع) کی زبان سے یہ سناہے کہ حقیقی عالم جاہل نہیں ہوسکتاہے کہ ایک شے کا عالم ہو اور ایک شے کا جاہل پروردگار اس بات سے اجلّ و ارفع ہے کہ وہ کسی بندہ کی اطاعت واجب کرے اور اسے آسمان و زمین کے علم سے محروم رکھے، یہ ہرگز نہیں ہوسکتاہے۔(کافی 1 ص 262 /6)۔

460۔ امام صادق (ع) ! پروردگار اس بات سے اجل و اعلیٰ ہے کہ وہ کسی بندہ کو بندوں پر حجت قرار دے اور پھر آسمان و زمین کے اخبار کو پوشیدہ رکھے۔( بصائر الدرجات 126/6 روایت صفوان)۔

461۔ امام صادق (ع) ! اللہ کی حکمت اور اس کے کرم کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ایسے بندہ کی اطاعت واجب قرار دے جس سے آسمان و زمین کے صبح و شام کو پوشیدہ رکھے۔( بصائر الدرجات 125 / 5 روایت مفضل بن عمر)۔

 

9۔ حوادث روز و شب

462۔ سلمہ بن محرز ! میں نے اما م باقر (ع) کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ ہمارے علوم میں تفسیر قرآن و احکام قرآن ، علم تغیرات و حوادث زمانہ سب شامل ہیں پروردگار جب کسی قوم کے لئے خیر چاہتاہے تو انھیں سنادیتاہے اور اگر کسی ایسے کو سنادے جو سننا نہیں چاہتاہے تو منھ پھیر لے گا جیسے کہ سنا ہی نہیں ہے ، یہ کہہ کر خاموش ہوگئے، تھوڑی دیر کے بعد پھر فرمایا اگر مناسب ظرف اور مطمئن ماحول مل جاتا تو میں اور کچھ بیان کرتا لیکن فی الحال اللہ ہی سے طلب امداد کررہاہوں۔

463۔ ضریس ۔ ہم اور ابوبصیر امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ابوبصیر نے علم اہلبیت (ع) کے بارے میں سوال کیا اور آپ نے فرمایا کہ ہمارا عالم خاص غیبت کا علم نہیں رکھتاہے اور اگر خدا اس کے حوالہ کردیتا تو تمھارا ہی جیسا ہوتا لیکن اسے دن کو رات کی باتیں بتادی جاتی ہیں اور رات کو دن کے امور سے آگاہ کردیا جاتاہے اور یونہی قیامت تک کے حالات سے باخبر کردیا جاتاہے۔( مختصر بصائر الدرجات 113)۔( بصائر الدرجات 325 /2 ، الخرائج و الجرائح 2 ص 831 /47)۔

464۔ حمران بن الحسین ! میں نے امام صادق (ع) سے سوال کیا … کیا آپ کے پاس توریت ، انجیل ، زبور ، صحف ابراہیم (ع) و موسی ٰ (ع) کا بھی علم ہے؟

فرمایا بیشک !

میں نے عرض کیا کہ یہ تو بہت بڑا علم ہے، فرمایا حمران ! شب و روز پیدا ہونے والے حوادث کا علم بھی ہمارے پاس ہے اور یہ اس سے عظیم تر ہے، وہ ماضی ہے اور یہ مستقبل ۔( بصائر الدرجات 140 / 5)۔

465۔ محمد بن مسلم ! میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ میں نے ابوالخطاب کی زبانی ایک بات سنی ہے؟

فرمایا وہ کیا ہے؟

میں نے عرض کی ، ان کا کہناہے کہ آپ حضرات حلال و حرام اور قضایا کو فیصل کرنے کا علم رکھتے ہیں۔

آپ خاموش ہوگئے۔ پھر جب میں نے چلنے کا ارادہ کیا تو میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا ، دیکھو محمد ! یہ علم قرآن اور علم حلال و حرام اس علم کے پہلو بہ پہلو ہے جو ہمارے پاس حوادث روز و شب کے بارے میں ہے۔ (بصائر الدرجات 394/11 ، اختصاص 314)۔

466۔ امام صادق (ع)ہمارے یہاں کوئی رات ایسی نہیں آتی ہے جب ساری کائنات کا اور اس کے حوادث کا علم نہ ہو ، ہمارے پاس جنات کا بھی علم اور ملائکہ کے خواہشات کا بھی علم ہے۔( کامل الزیارات 328 روایت عبداللہ بن بکر الارجانی)۔

تبصرے
Loading...