آیہء صادقین کی روشنی میں اما مت

(سورئہ توبہ/۱۱۹)

”اے صا حبا ن ایمان!اللہ سے ڈرواورصادقین کے ساتھ ہوجاؤ“

جس آیہء شریفہ کے بارے میں ہم بحث وتحقیق کرنا چاہتے ہیں،اس پر سر سری نگاہ ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک اخلاقی پہلوہے مذ کورہ آیت میں تقوی کاحکم دینے کے بعد مو منین سے یہ کہا جا رہا ہے کہ صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ ہمیں ہمیشہ سرسری نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ قرآن مجید کا ارشادہے:

(سورہ ملک/۳۔۴)

”پھر نظراٹھاکردیکھوکہیں کوئی شگاف تو نہیں ہے۔اس کے بعدباربارنگاہ ڈالو “

خاص کر قرآن مجید میں اس کے بلندمعارف تک رسائی اوراس کے مفاہیم کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے اس امر کی رعا یت بہت ضروری ہے چنانچہ بعض مواقع پر خودقرآن نے تدبرکرنے کاحکم فرمایاہے۔ہمیشہ اور بار بارغوروخوض کی ضرورت ہے۔ اس لئے قرآن مجید کے سلسلہ میں ابتدائی اورسرسری نگاہ ڈالنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کی آیتوں پر تدبر اور غورو خوض کرناچاہئے۔

اگرہم اس آیہ کریمہ کا اس نقطہ نظر سے مطا لعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس آیت کریمہ میں قرآن مجید کے ایک عظیم اور اصلی معارف، یعنی اما مت و رہبری کے مسئلہ ، کو بہترین تعبیر میں پیش کیا گیا ہے۔

اس لحاظ سے امامت سے مربوط آیات کی بحث و تحقیق میں یہ آیہ کریمہ بھی نمایاں اور قابل توجہ ہے۔ اس آیہ شریفہ کے سلسلہ میں بحث و تحقیق چند محوروں پرمشتمل ہے:

۱۔آیت کے مفردات اور مفاہیم کی تحقیق۔

۲۔مذکورہ آیت کااس سے پہلے والی آیات سے ربط

۳۔اس آیت کامسئلہ رہبری سے ربطہ اور اس کے قرائن کی چھان بین پڑتال۔

۴۔علما ء ومفسرین کے بیانات 

۵۔شیعہ،سنی احادیث وروایات

آیت کے بارے مفردات میں بحث

اس حصہ میں جن الفاظ کی تحقیق ضروری ہے وہ لفظ”صدق“اور”صادقین“ہیں۔اس سلسلہ میں پہلے ہم ان کے لغوی معنی پر ایک نظرڈالیں گے اور ان کے بعد اس کے قرآنی استعمالات پر بحث کریں گے۔

استعمالا ت لغوی

اس سلسلہ میں ہم دو اہل لغت کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱۔ ابن منظور نے ”لسان العرب۱“میں لفظ”صدق“کے مختلف استعمالات کویوں بیان کیاہے:

الصدق:نقیض الکذب،سچ،جھوٹ کی ضدہے۔

رجل صدق:نقیض رجل سوء۔اچھاانسان برے انسان کی ضدہے۔یعنی اچھائی اور برائی کی صفتیں ایک دوسرے کی ضدہیں۔

وکذالک ثواب صدق وخمارصدق،اسی طرح کہا جاتا ہے اچھا لباس اوراچھابرقعہ۔

ویقال: رجل صدق،مضاف بکسرالصادومعناہ نعم الرجل ھونیزاسی

طرح حالت اضا فت میں صاد کے کسرے کے ساتھ استعمال ہو تا ہے”رجل صدق“یعنی وہ ایک اچھا مردہے۔

رجل صدق اللقاء وصدق النظر،خوش اخلاق مرداور خوش بین انسان۔

والصّدق:بالفتح الصلب من الرماح وغیرہا، ورمح صدق:

مستو،وکذالک سیف صدق:صاف اورسیدھا نیزہ ،اوراسی طرح سیدھی تلوارکو بھی صدق کہتے ہیں۔

عن ابن درستویہ:قال إنّما لصدق الجامع للاٴوصاف المحمودة۔ابن درستویہ کا کہنا ہے کہ”صدق“اس شخص کوکہاجاتاہے جس میں تمام پسندیدہ اوصاف موجودہوں۔

قال الخلیل:الصدق:الکامل کلّ شیءٍ۔خلیل نے کہاہے کہ ہرمکمل چیزکو”صدق“کہتے ہیں۔

۲۔”مفردات قرآن 2 “میںراغب کاکہناہے:ویعبّرعن کل فعل فاضل ظاہراًوباطناًًبا لصدق،فیضاف إلیہ ذٰلک الفعل الّذی یوصف بہ نحو قولہ۔۔۔“ہروہ کام جوظاہروباطن کے اعتبارسے اچھا اور پسندیدہ ہو اسے”صدق“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اوراس کے موصوف کی”صدق“کی نسبت )اضافت) دی جاتی ہے۔استعما لات قرآ نی کے وقت ہم اس کے شاہدپیش کریں گے۔

استعمالات قرآنی

قرآن مجید میں ہمیں بہت سی ایسی آیات نظر آتی ہیں جن میں لفظ”صدق“کوایسی چیزوں کی صفت قرار دیا گیاہے جوگفتگووکلام کے مقولہ نہیں ہےں۔نمونہ کے طور پر درج ذیل آیات ملاحظ ہوں: ”وبشّرالّذین آمنوا اٴنّ لہم قدم صدق عندربّہم>

(سورہ یونس/۲)

اس آیہء شریفہ میں’ صدق“،”قدم“کی صفت واقع ہے۔

)سورئہ یونس/۹۳)

اس آیہء شریفہ میں”صدق“کو”جگہ“کی صفت قرار دیا گیاہے۔

سورئہ اسراء/۸۰)

اس آیہء شریفہ میں ”مدخل“ و ”مخرج“ یااسم مکان)داخل اورخارج کرنے کی جگہ) ہیں یا مصدر) خودکوداخل کرنایاخارج کرنا)ہیں۔بہرحال کسی طرح بھی مقولہ کلام سے نہیں ہے۔

)سورئہ قمر/۵۰)

اس آیہ شریفہ میں ”صدق“،”مقعد“)جگہ اوربیٹھنے)کی صفت ہے۔

)سورئہ بقرہ/۱۷۷)

اس آیہء شریفہ میں خداوندمتعال نے پہلے نیکیوں کوعقائد کے شعبہ میں یعنی خدا،قیامت،فرشتوں،آسمانی کتابوں اورانبیاء پرایمان کے سلسلہ میں اس کے بعدعمل کے شعبہ میں یعنی اپنے رشتہ داروں،محتاجوں،ابن سبیل اورسائلوں کوانفاق کرنا،خداکی راہ میں بندوں کو آزادکرنانیزایفائے عہدکرنا وغیرہ وغیرہ کی طرف اشارہ کیاہے۔اس کے بعداخلاقی شعبہ میں یعنی مشکلات و پریشاں نیوں میںصبروتحمل استقامت و پائیداری کا مظا ہرہ کر نے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اورمذکورہ تینوں شعبوں میں نیکیاں کرنے والوںصد ق وتقویٰ کے ذریعہ تعریف کرتاہے۔

لغت اورآیات کریمہ میں مذکورہ استعمالات کے پیش نظرواضح ہوجاتاہے کہ”صدق“کاایک ایساوسیع مفہوم ہے کہ جس کا دائرہ صرف مقولہء،کلام،وعدہ وخبرتک محدود نہیں ہے،بلکہ یہ فکرواندیشہ عقا ئد و اخلا قیات نیزانسانی رفتارجیسے دیگر مواردپربھی اطلاق کرتا ہے اوراس کااستعمال ان موا رد میں حقیقی ہے۔

اس آیت کا گزشتہ آیات سے ربط 

اس آیت سے پہلی والی آیت )جیساکہ تفسیر وحدیث کی کتابوں میں آیا ہے )ان مومنین کے بارے میں ہے کہ جنہوں نے پیغمبراسلام (ص) کے ہمراہ جنگ تبوک میں جانے سے انکار کیا تھا اوراس کے بعدنادم اورپشیمان ہوکرانھوں نے توبہ کرلی تھی،مسلمانوں نے پیغمبراکرم (ص) کے حکم سے ان کے ساتھ اپنے رشتہ نا طے توڑ دئے تھے،یہاں تک کہ ان کی بیویوں نے بھی ان سے بات کرنا چھوڑدی تھی۔

انہوں نے جب شہر سے باہرنکل کربارگاہ الٰہی میں التماس والتجا کی اور خدا کی بار گاہ میں توبہ کی تو خدا وند متعال نے ان کی توبہ قبول کی اوروہ پھرسے اپنے لوگوں اوراپنے خانوادوں میں واپس لوٹے۔

بعد والی آیت میں بھی خدا وند متعال فرماتا ہے”اہل مدینہ اوراس کے اطراف کے لوگوں کو نہیں چا ہئیے کہ پیغمبر خدا (ص)کی مخالفت اوران سے رو گردانی کریں۔ اس کے بعد خدا کی راہ میں مشکلات و پریشا نیاں،بھوک وپیاس کی سختیاں برداشت کرنے کی قدرواہمیت کی طرف بھی اشارہ کرتاہے۔

اس آیہء شریفہ)زیر بحث آیت)میں مؤمنین کومخاطب کرکے انھیں تقویٰ و پر ہیز گاری کا حکم دیا گیا ہے،اورانھیں اس بات کا پیغام دیا گیا ہے کہ وہ”صادقین“کے ساتھ ہوجائیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آیہء شریفہ میں”صادقین“سے مراد کون لوگ ہیں؟

اس آیت کا ائمہ معصومین(ع)کی امامت سے ربط 

ابتدائی نظر میں )جیسا کہ”صدق“ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا گیا ) ایسالگتاہے کہ جملہسے مرادسچوں کے ساتھ ہونے کاحکم ہے۔ 

قابل غور بات اورجو چیز ضروری ہے وہ سچ بولنااورجھوٹ بولنے سے پر ہیز کر نا ہے۔ لیکن سچ بولنے والوں کے ساتھ ہونا یہ شر عی واجبات میں سے نہیں ہے،جبکہ سچوں کے ساتھ ہونے کا یہ آیہ شریفہ میں حکم ہواہے اور یہ امروجوبی ہے اور جملہکا وقوع”إ تقوااللّٰہ“کے سیاق میں ہے کہ جس میں تقوائے الٰہی کا حکم تھالہذایہ بیشک وجوب کے لئے ہے اوراس سے وجوب کی مزیدتاکیدہوتی ہے۔

مفہوم صدق کی وسعت کے پیش نظرمقولہ کلا م و گفتگو تک محدودیت نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ فکرو عقائد،اخلاق وکردار نیزرفتار و عمل تک پھیلا ہواہے کہ جس میںصادقین سے ہونے کو آیہء کریمہ میںواجب قرار دیا گیاہے،ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ صادقین کے ساتھ ہونے سے مرادجسمانی معیت اورہمراہی نہیں ہے بلکہ ہمراہی ہراس چیز میں ہے جس میں صحت وسچائی پا ئی جاتی ہو اورآیہء کریمہ میں صادقین سے مرادوہ لوگ ہیں جوصدق مطلق کے مالک ہیں نہ مطلق صدق کے۔او رصدق مطلق وہ ہے جوہر جہت سے سچااورصحیح ہواورفکروعقائد،گفتاروکرداراور اخلاقیات کے لحاظ سے کسی طرح کا انحراف نہ رکھتاہو۔اس طرح کا شخص معصوم کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتاہے۔اس طرح کے انسان کے ساتھ ہونے کامطلب اس کے افکار و عقائد، کردارواخلاق کی پیروی کر نا ہے۔

چونکہ مسلمانوں کااس بات پراجماع ہے کہ چودہ معصومین علیہم السلام کے علاوہ کوئی صاحب عصمت اور صدق مطلق کا مالک نہیں ہے،اس لئے”صادقین“ سے مرادپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہوں گے۔

علماء ومفسرین کے بیانات کی تحقیق 

اس سلسلہ میں ہم صرف دوبزرگ علماء کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

علامہئ بہبہانی کا قول: 

پہلا قول شیعہ امامیہ کی ایک عظیم شخصیت وبزرگ عالم دین،گراں قدرمفکرمرحوم علامہ محقق سید علی بہبہانی کاہے۔وہ اپنی عظیم کتاب”مصباح الھدایہ“)کہ جوواقعاًامامت کے بارے میں ایک بے نظیرکتاب ہے )میں آیہء شریفہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”وقداستفاضت الروایات من طریقناوطریق العامةاٴنّ الصادقین ہم اٴہل بیت النبیّی المطہّرون۔“وقد ذکرفی غایة المرام عشرةخبارمن طریقنا وسبعة اٴخبار من طریق العامة۔3

اٴقول:ویدّل علی اختصاص الصادقین فی الآیةالکریمہ فی الاٴئمّة المعصومین الطبّین من آل محمد (ص)وعدم إرادة مطلق الصادقین منہ۔کمادلّت علیہ الروایات المستفیضة من الطر فین:اٴنّہ لوکان المراد بالصدق مطلق الصدقالشامل لکلّ مرتبة منہ المطلوب من کلّ مؤ من،وبالصادقین المعنی العام الشامل لکلّ من اتّصف بالصدق فی اٴیّ مرتبة کان،،لوجب اٴن یعبّرمکان”مع“ بکلمة”من“ضرورةاٴنّہ یجب علی کلّ مؤمن اٴن یتحرزعن الکذب و یکون مع الصادقین۔فالعدول عن کلمة ”من“إلی”مع“ یکشف عن اٴن المراد ”باالصدق“مرتبةمخص صةو”باالصادقین“ طائفة معینة۔ومن المعلوم اٴنّ ہذہ المرتبة مرتبة کاملة،بحیث یستحقالمتصفون بہا اٴن یتبعہم سائر المؤمنین جمیعاً،وہذاالمرتبة الکاملة التی تکون بہذہ المثا بة لیست إلاّ العصمة والطھارة التی لم یتطرّق معہا کذب فی القول والفعل،إذفی الاٴمّة من طہّرہ اللّٰہ تعالی واٴذہب عنہ الرجس!وہم اٴہل بیت النبیّی بنصّایة التطہیرواتّفاق جمیع المسلمین۔

فلواٴُرید من الصّادقین غیر المعصومین لزم اٴن یکون المعصومون ماٴمورین بمتا بعة غیر المعصومین المتطرّق فیہم الکذب و لو جہلاً اٴو سہواً و ہو قبیح عقلاً ، و تعیّن اٴن یکون المراد الصادقین المطہّرین الحائزین جمیع مراتب الصدق قولاً و فعلاً،ولا یصدق ذلک إلاّ علی اٴہل بیت النبیّی (ص) الّذین اٴذہب اللّٰٰہ عنہم الرجس و طہرَّہم تطہیراً، و إلیہ یشیر قول مولانا الرضا (علیہ السلام)”ہم الاٴئمّة الصدیقون بطا عتہم“۱

و یدلّ علی کونہم اٴئمّة کمانبّہ علیہ مولانا الرضا (علیہ السلام) فی ہذہ الروایة اٴمرہ سبحانہ وتعالی جمیع المؤ منین بعد اٴمرہم بالاٴتّقاء عن محارمہ باٴن یکونوا مع الصادقین، و لا یصدق الکون

۱۔فی المصدر:”والصدیقون بطا عتہم “فراجع

معہم إلا باٴن یکونوا تحت طاعتہم ،متحرّزین عن مخا لفتہم ۔ ولیس للإمامة معنی إلاّافتراض طاعة الإمام علی الماٴموم من قبلہ تعالی،بل لا تعبیراٴقرب إلی معنی الإمامة من اٴمر المؤمنین باٴن یکونوامعہ،إذ حقیقة الإئتمام عبارة عن متابعة الماٴموم إمامہ وعدم مفارقتہ عنہ۔4

شیعہ اور اہل سنّت سے مستفیض5روایتیں نقل ہوئی ہیں کہ آیہء شریفہ میںصادقین سے مراد)پیغمبراسلام (ص))کے اہل بیت علیہم السلام ہیں۔مرحوم بحرانی نے اپنی کتاب ”غایة المرام“ میں شیعہ طریقہ سے دس احادیث اورسنی طریقہ سے سات احادیث نقل کی ہیں۔

آیہء کریمہ میں”صادقین“سے مراد)جیساکہ فریقین کی احادیثوں میں ایاہے )ائمہء معصومین علیہم السلام ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ”صدق“)سچائی)کہ جو”صادقین“کے عنوان میں ماخوذہے،اس سے مرادمطلق سچائی ہے کہ جوہرمرتبہ کو شامل ہے اور”صادقین“کے زمرے میں ہروہ شخص شامل ہوکہ جو صفت صدق کے کسی بھی مرتبہ سے متصف ہے تو آیہء کریمہ کی تعبیر ”کو نوا من الصا دقین“ہونی چا ہئے تھی اوراسصورت میں اس آیت کے معنی یہ ہو تے کہ ہرمسلمان پر ضروری ہے کہ وہ سچ بو لنے والوں سے ہو اورجھوٹ سے پرہیزکرے۔

یہ جو”مع الصادقین“تعبیرہے،یہ خوداس بات کی دلیل ہے کہ”صدق“سے مراد ایک خاص مرتبہ و مقام ہے اور”صادقین“سے مرادایک مخصوص اور ممتازگروہ)اورصادقین کے ساتھ ہونے کا معنی ان کی پیروی کرنا)ہے۔

صفت صد ق کا کا مل اور نہائی مرتبہ وہی عصمت وطہارت ہے جس کی وجہ سے گفتار وکردار میں سچائی مکمل طورپرمحقق ہوتی ہے۔

اس مطلب کاقطعی ثبوت یہ ہے کہ)اگر”صادقین“سے مرادائمہ معصومین(ع)کے علاوہ کوئی اورہوں تواس فرض کی بنیادپرکہ آیہء تطہیرکی نص مو جود ہے اورتمام مسلمانوں کا اہل بیت کے معصوم ہو نے پر اتفاق ہے ،اس کالازمہ یہ ہوتا کہ تمام انسان حتی کہ ائمہ معصو مین بھی غیرمعصوم کی اطاعت وپیروی کریں اوریہ عقلاًقبیح ہے۔لہذایہ مرتبہ)عصمت وطہارت)پیغمبر (ص)کے خاندان کے علاوہ کہیں اورنہیں پایا جاسکتاہے۔

دوسراثبوت یہ ہے کہ خدا وند متعال نے آیت کی ابتداء میں تمام مؤمنین کو تقویٰ اورگناہوں سے اجتبا ب کر نے کاحکم دیاہے اوراس کے بعد انہیں”صادقین“ کے ساتھ ہونے کا فرمان جاری کیا ہے،اوران کے ساتھ ہونے کا مطلب ان کی اطاعت کرنے اوران کی نافرمانی نہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور امامت کے معنی بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہےں کہ ماٴموم پر امام کی اطاعت واجب ہے۔

اگرہم امامت واطاعت کی صحیح تعبیر کرناچاہیں توبہترین تعبیریہ ہے کہ امام کے ساتھ ہونا اوراس کی پیروی و اطا عت سے جدانہ ہو ناہے۔

فخررازی کا قول

دوسراقول اہل سنت کے مشہورومعرو ف علا مہ فخررازی کاہے۔وہ آیہء شریفہ کی تفسیر میں کہتے ہیں:

”و فی الآیة مسائل: المساٴلة الاٴولی: اٴنّہ تعالی اٴمرالمؤمنین بالکون مع الصادقین! و متی وجب الکون مع الصادقین فلا بدّمن وجود الصادقین فی کلّ وقت، و ذلک یمنع من إطباق الکلّ علی الباطل، و متی إمتنع إطباق الکلّ علی الباطل وجب إذا اٴطبقوا علی شیء اٴن یکونوا محقّین۔ فہذا یدل علی اٴنّ إجماع الاٴمّة حجّة۔

فإن قیل: لمَ لا یجوز اٴن یقال: المراد بقولہ: اٴی کونوا علی طریقة الصادقین، کما اٴنّ الرجل إذا قال لولدہ: ”کن مع الصالحین“ لا یفید إلاّ ذلک؟

سلّمنا ذلک، لکن نقول: إن ّ ہذا الاٴمر کان موجوداً فی زمان الرسول فقط، فکان ہذا اٴمراً بالکون مع الرسول، فلا یدّل علی وجود صادق فی سائر الاٴز منة۔

سلّمنا ذلک لکن لم لا یجوز اٴن یکون الصادق ہو المعصوم الذی یمتنع خلوّ زمان التکلیف عنہ کما تقو لہ الشیعة؟

و الجواب عن الاول: اٴنّ قولہ: اٴمر بموافقة الصادقین، و نہی عن مفارقتہم، و ذلک مشروط بوجود الصادقین وما لا یتمّ الواجب إلاّ بہ فہو واجب۔ فدّلت ہذہ الآیة علی وجود الصادقین ۔ و قولہ: ” إنّہ عدول عن الظاہر من غیر دلیل۔

قولہ: ” ہذا الاٴمر مختصّ بزمان الرسول (ص) اٴنّ التکالیف المذکورة فی القرآن متوجہة إلی المکلّفین إلی قیام القیامة، فکان الاٴمر فی ہذا التکلیف کذلک۔

الثانی : اٴنّ الصیغة تتناولال اٴوقات کلّہا بدلیل صحة الاستثناء۔ الثالث: لمّا لم یکن الوقت المعین مذکوراً فی لفظ الآیة لم یکن حمل الآیة علی البعض اٴولی من حملہ علی الباقی۔ فإماّ اٴن لا یحمل علی شیء من الاٴوقات فیفضی إلی التعطیل و ہو باطل ! اٴو علی الکلّ فہو المطلوب۔و الرابع: و ہو اٴنّ قولہ: اٴمر لہم بالتقوی و ہذا الاٴمر إنّما یتناول من یصحّ منہ اٴن لا یکون متّقیاً، و إنّما یکون کذلک لو کان جائز الخطاٴ۔ فکانت الآیة دالّة علی اٴنّ من کان جائز الخطاٴ وجب کونہ مقتدیاً بمن کان واجب المعصمة، و ہم الّذین حکم اللّٰہ تعالی بکونہم صادقین۔ فہذ ایدّل علی اٴنّہ واجب علی جائز الخطاٴ کونہ مع المعصوم عن الخطاٴ حتی یکون المعصوم عن الخطاٴ مانعا لجائز الخطاٴ عن الخطاٴ! و ہذا المعنی قائم فی جمیع الاٴزمان، فوجب حصولہ فی کل الازمان۔

قولہ:”لم لا یجوزاٴن یکون المراد ہو کون المؤمن مع المعصوم الموجود فی کلّ زمان“

قلنا:نحن نعترف باٴنّہ لابدّ من معصوم فی کلّ زمان،إلا اٴناّ نقول: ذلک المعصوم ہو مجموع الاٴمّة و اٴنتم تقولون ذلک المعصوم واحد منہم۔ فنقول: ہذا الثانی باطل، لاٴنّہ تعالی اٴوجب علی کلّ واحدمن المؤمنین اٴن یکون مع الصادقین،وإنّما یمکنہ ذلک لو کان عالماً بان ذلک الصادق من ہو ،لاالجاہلباٴنّہ من ہو۔

فلو کان ماٴموراً بالکون معہ کان ذلک تکلیف مالا یطاق، واٴنّہ لا یجوز، لکنّا لا نعلم إنساناً معیّناً موصوفاً بوصف العصمة، و العلم

باٴنّا لانعلم ہذا الانسان حاصل بالضرورة، فثبت اٴنّ قولہ: لیس اٴمراً بالکون مع شخص معیّن۔

و لمّا بطل ہذا بقی اٴنّ المراد منہ الکون مع مجموع الاُمّة، وذلک یدل علی اٴنّ قول مجموع الاُمّة حقّ و صواب ، و لا معنی لقولنا،”الإجماع حجة“إلاّ ذلک“6 

ترجمہ:

”خداوند متعال نے مو منین کو صادقین کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا ہے۔اس مطلب کا لازمہ یہ ہے کہ ہرزمانہ میں صادقین کاوجودہو اور یہ اس بات کے لئے ما نع ہے کہ پوری امت کسی باطل امر پر ا تفاق کر ے ۔اس لئے اگر پوری امت کسی چیز پر اتفاق کرتی ہے تو ان کا یہ اتفاق صحیح و بر حق ہو گا اوریہ،اجماع امت کے حجت ہونے کی دلیل ہے۔

اگر کہا جائے:صادقین کے ساتھ ہو نے کا مقصد یہ کیوں نہیں ہے کہ صادقین کے طریقہ کار کی پیروی کرے ،چنانچہ اگر ایک باپ اپنے بیٹے سے کہے:”صالحین کے ساتھ ہو جاؤ“یعنی صالحین کی روش پر چلو )اور یہ امر اس بات پر دلالت نہیں کرتا ہے کہ ہرزمانہ میں صادقین کا وجود ہو)

جواب یہ ہے کہ:یہ خلاف ظاہر ہے،کیونکہیہ ہے کہ پہلے ان صادقین کا و جود ہو جن کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا گیا ہے۔

مزید اگریہ کہا جائے کہ:یہ جملہ صرف رسول خدا (ص) کے زمانہ میں موضوعیت رکھتا تھا،کیونکہ اس زمانہ میںصرف آنحضرت (ص)کی ذات صادق کے عنوان سے مو جود تھی اور یہ اس بات پردلالت نہیں کرتاہے کہ ہرزمانہ میں صادقین موجود ہوں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ:یہ خطاب قرآن مجید کے دوسرے خطابوں کے مانندقیامت تک

کے لئے تمام مکلفین سے متعلق و مر بوط ہے اوراس میں ہر زمانہ کے مکلفین سے مخطاب ہے اور یہ خطاب رسول اللہ (ص)کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ استثناء صحیح ہے)اوراستثناء کے صحیح ہو نے کی دلیل ہمیشہ مستثنی منہ میں عمومیت کا پا یا جا تا ہے ) ۔

اس کے علاوہ خدا وند متعال نے پہلے مرحلہ میں مؤ منین کو تقویٰ کا حکم دیا ہے،اور یہ انھیں تمام افراد کے لئے تقویٰ کا حکم ہے کہ جن کے لئے امکان ہے کہ متقی نہ ہوں اوراس خطاب کے مخاطبین وہ لوگ ہیں جو جائزالخطاء ہیں۔لہذاآیہء شریفہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جائز الخطاء افراد کو ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہونا چاہئے کہ جو خطا سے معصوم ہوں تاکہ وہ معصوم لوگ انھیں خطا سے بچا سکیں۔اور اس طرح کاامکان ہرزمانہ میں ہے۔اس لئے آیہء شریفہ تمام زمانوں سے متعلق ہے اورصرف پیغمبر (ص)کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔

یہاں تک فخررازی کے بیان سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ صادقین سے مراد خطا سے معصوم افراد ہیں اور یہ افراد ہر زمانہ میں موجود ہیں اوریہ مطلب صحیح اور نا قابل اشکال ہے۔ لیکن فخررازی کاکہنا ہے:

”معصوم”صادقین“ امت کے مجموعی افراد ہیں اور یہ امت کے خاص اورمشخص افراد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ اس صورت میں ہر ایک پر لازم ہے کہ ان معین مشخص افراد کو پہچانے ان کی معرفت حاصل کرے تا کہ ان کے ساتھ ہو جائے جبکہ یہ معرفت اورآگا ہی ممکن نہیں ہے اورہم ایسے خاص افراد کو نہیں پہچانتے ہیں کہ جو خطا و غلطی سے پاک اورمعصوم ہوں۔ لہذااس بات کے پیش نظر معصوم صادقین سے مراد مجموعہ امت ہے کہ جس کا نتیجہ اجماع کی حجیّت ہے۔“

فخررازی کے قول کا جواب

فخررازی کے بیان میں دونمایاں نکتے ہیں:

پہلانکتہ:یہ ہے کہ معصوم صادقین سے مراد مشخص و معیّن افراد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ ہمیں ان کے بارے میں علم وآگاہی نہیں ہے۔

اس قول کا صحیح نہ ہو نا واضح و روشن ہے،کیونکہ شیعہ اما موں کی عصمت کی دلیلوں کی طرف رجوع کرنا ہرایک کے لئے ممکن ہے،جن احادیث میں ان معصوم اما موں کاصراحتاًنام لیا گیا ہے،وہ تواتر کی مقدار سے زیادہ ہیں نیزیہ حدیثیں بعض سنی منابع اور بے شما ر شیعہ منابع میں ذکر ہوئی ہیں۔

دوسرا نکتہ:یہ کہ” معصوم صادقین سے مراد تمام امت ہے“اس پر بہت سا رے اعتراضات ہیں ذیل کے عبا رت میں ملا حظہ ہو:

۱۔چودہ معصومین(ع)کی عصمت کے علاوہ کسی اور کی عصمت کا قول تمام مسلمانوں کے قطعی اجماع کے خلاف ہے

۲۔آیہ شریفہ میں صادقین کے عنوان )جو ایک عام عنوان ہے )سے جو چیز ظاہر ہے وہ اس کااستغراقی اورشمولی ہو نا ہے نہ کہ مجموعی ہونا اور فخررازی کے کلام سے جو بات ظاہر اور واضح ہے کہ عصمت مجموعہ امت کی صورت میں ہے نہ جمیع امت کی صورت میں اور”مجموعہ“ایک اعتباری عنوان ہے جووحدت افراد کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیتا ہے۔عنوان عام میں اصل”استغراقی ہو نا“ہے،کیونکہ عام مجموعی مجازہے اور اسے قرینہ کی ضرورت ہے جبکہ اصالةالحقیقة کا تقاضا یہ ہے کہ عام،جس کا حقیقی عنوان استغراقی ہو نا ہے اس پر حمل ہو۔

۳۔عصمت ایک حقیقی عنوان ہے اوراسے ایک حقیقی موضوع کی ضرورت ہے،اور عام مجموعی ایک اعتباری موضوع ہے اورحقیقی موجود کا اعتباری موضوع پر قائم ہو نا محال ہے۔

۴۔فخررازی کا قول”یاایھاالذین آمنوا“اور صا دقینکے درمیان ایک دوسرے مقابل ہو نے کا جو قرینہ پا یا جا تا ہے اس کے خلاف ہے اور ان دو عناوین کے درمیان مقا بلہ کا تقاضا ہے کہ وہ مومنین کہ جن کو خطاب کیا جا رہا ہے وہ دوسرے ہوں اور وہ صادقین جوان کے مقا بل میں قرار دیئے گئے ہیں اور جن کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا گیا ہے وہ دوسرے ہوں۔

۵۔صادقین سے مراد مجموعہ امت )عام مجموعی) ہونا خود فخررازی کے بیان سے متناقص ہے،کیونکہ اس نے اس مطلب کی توجیہ میں کہ صادقین کا اطلاق فقط پیغمبر (ص)کی ذات میں منحصر نہیں ہے ،کہاہے:

”آیہء شریفہ اس پہلو کو بیان کر نے والی ہے کہ ہرزمانے میں ایسے مؤ منین کا وجود رہا ہے کہ جو جائزالخطا ہوں اور ایسے صادقین بھی پائے جاتے رہے ہیں کہ جوخطا سے محفوظ اورمعصوم ہوں اور ان مؤمنین کو چاہئیے کہ ہمیشہ ان صادقین کے ساتھ ہوں۔“

لہذا فخر رازی نے ان مؤمنین کو کہ جن کوخطاب کیا گیا ہے جائز الخطا اور صادقین کو خطا سے معصوم فرض کیا ہے۔

اس آیت کے بارے میں شیعہ اورسنّی احادیث

حاکم حسکانی7نے تفسیر”شواہد التنزیل8“میں چند ایسی حدیثیںذکرکی ہیں،جن سے ثابت ہو تا ہے کہ آیہ شریفہ میں ”صادقین“ سے مراد (ص)اورحضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام یاپیغمبراکرم (ص)کے اھل بیت(ع)ہیں۔یہاں پرہم ان احادیث میں سے صرف ایک کی جا نب اشارہ کرتے ہیں:

”حدثنایعقوب بن سفیان البسوی قال:حدثناابن قعنب،عن مالک بن اٴنس،عن نافع،عن عبداللّٰہ بن عمرفی قولہ تعالی:

قال:اٴمراللّٰہ اصحاب محمد (ص)باٴجمعہم اٴن یخافوا للّٰہ،ثمّ قال لہم :یعنی محمداً واہل بیتہ۔“9

”یعقوب بن سفیان بسوی نے ابن قنعب سے،اس نے مالک بن انس سے،اس نے نافع سے اس نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ خداوندمتعال کے اس قول:”اتقوااللّٰہ“کے بارے میں کہا:خداوندمتعال نے پیغمبراکرم (ص)کے تمام اصحاب کوحکم دیاکہ خداسے ڈریں۔اس کے بعدان سے کہا’:’صادقین“یعنی پیغمبر (ص)اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ ہوجائیں۔“

اسی حدیث کوشیعوں کے عظیم محدث اوربزرگ عالم دین ابن شہر آشوب10نے تفسیر یعقوب بن سفیان سے،مالک بن انس سے،نافع بن عمرسے روایت کی ہے۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے محدث کلینی نے اس سلسلہ میں اصول کافی میںیوں روایت کی ہے:

”عن ابن اُذینہ،عن برید بن معاویةالعجلی قال: اٴباجعفر-علیہ السلام-عن قول اللّٰہ عزّوجلّ:قال: إیاّ نا عنی“۔11

”ابن اذینہ نے برید بن معاویہ عجلی سے روایت کی ہے انھوں نے کہا:میں نےخداوندمتعال کے قولکے بارے میں امام باقر(علیہ السلام)سے سوال کیا،حضرت(ع)نے فرمایا:خداوندمتعال نے اس سے صرف ہمارے)اہل بیت پیغمبرعلیہم السلام کے)بارے میں قصدکیاہے۔“

اہل سنّت کے ایک بہت بڑے محدث جوینی نے ایک روایت میںیوں نقل کیا ہے:

”ثمّ قال علیّ(علیہ السلام):اٴنشدکم اللّٰہ اٴتعلمون اٴنّ اللّٰہ اٴنزل فقال سلمان:

یارسول اللّٰہ،عامّة ہذااٴم خاصّة؟قال:اٴماّ المؤمنون فعامّة المؤمنین اٴمروابذلک،واٴمّاالصادقون فخاصّة لاٴخی علیّ واٴوصیائی من بعد إلی یوم القیامة قالوا:اللّہمّ نعم۔“12

”اس کے بعد علی(علیہ السلام) نے فرمایا:تمھیں خداکا واسطہ دے کر کہتا ہوں۔کیاتم جانتے ہو،جب یہ آیہءنازل ہوئی،توسلمان نے آنحضرت سے کہا :یارسول اللہ! (ص)کیا یہ آیت اس قدرعمومیت رکھتی ہے تمام مؤمنین اس میں شامل ہو جا ئیںیا اس سے کچھ خاص افراد مراد ہیں؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:جنہیںیہ حکم دیا گیا ہے اس سے مرادعام مؤمنین ہیں،لیکن صادقین سے مرادمیرے بھائی علی(علیہ السلام)اوراس کے بعدقیامت تک آنے والے میرے دوسرے اوصیاء ہیں؟انہوں نے جواب میں کہا:خداشاہدہے،جی ہاں۔“

البتہ اہل سنت کی حدیث وتفسیرکی بعض کتا بوں میں چند دوسری ایسی روایتیں بھی نقل ہوئی ہیں،جن میں”صادقین“سے مرادکے بارے میں ابوبکروعمریا پیغمبر (ص) کے دوسرے اصحاب کو لیا گیا ہے۔البتہ یہ روایتیں سندکے لحاظ سے قابل اعتماد نہیں ہیں۔ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱۔ابن عساکرنے ضحاک سے روایت کی ہے کہ:قال:مع ابی بکروعمراصحابہما13“

آیہء شریفہ میں”صادقین“سے ابوبکر،عمراوران کے اصحاب کا قصد کیا گیا ہے 14طبری نے سعیدبن جبیرسے ایک اورروایت نقل کی ہے کہ”صادقین“سے مراد ابوبکروعمرہیں۔15

ان احادیث کاجواب:

پہلی حدیث کی سندمیں جویبربن سعیدازدی ہے کہ ابن حجرنے تہذیب التہذیب16 میں علم رجال کے بہت سارے علما،جیسے ابن معین،ابن داؤد،ابن عدی اورنسائی کے قول سے اسے ضعیف بتا یاہے،اورطبری۴نے اسی روایت کوضحاک سے نقل کیاہے کہ اس کی سندمیں بھی جویبرہے۔

دوسری روایت کی سندمیں اسحاق بن بشرکاہلی ہے کہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں17ابن ابی شیبہ،موسی بن ہارون،ابوذرعہ اوردارقطنی کی روایت سے اسے جھوٹا اور حدیث روایت سے اسے جھوٹااورحدیث جعل کرنے والابتایاہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کے بعدکہ ہم نے خود آیہء شریفہ اوراس کے شواہد سے جان لیاکہ آیت میں”صادقین“ سے مرادوہ معصوم ہیں جن کے ساتھ ہونے کا ہمیں حکم دیا گیاہے،اور یہ بات ہم جانتے ہیں کہ جو بھی مسلمانوں کے اتفاق نظر سے معصوم نہ ہووہ اس آیت)صادقین کے دائرے) سے خارج ہے۔

__________________

۱۔لسان العرب ،ج۱۰،ص۳۰۹۔۳۰۷

2۔مفردات فی القرآن،ص۲۷۷،دارالمعرفة،بیروت 

3۔نمایة المرام ،ص۲۴۸

4-”مصباح الہدایة“ص۹۳۔۹۲،مطبع سلمان فارسی قم 

5۔سے دس تک کی احادیث پر”حدیث مستفیض“اطلاق ہوتا ہے )

6۔التفسیر الکبیر ،فخررازی ،ص۲۲۱۔۲۲۰،دار احیاء التراث العربی ،بیروت

7۔اہل سنت کے بڑے مشہور معروف عالم دین، ذہبی نے حسکانی کے بارے میں کہاہے:”شیخ متقن ذوعنایة تامة بعلم الحدیث،وکان معمّراً عالی الاسناد۔تذکرة الحفاظ،ج۳،ص۱۲۰۰،دارالکتب العلمیة بیروت۔یعنی:متقن اورمحکم اسناد میں علم حدیث کے بارے میں خاص اہمیت و توجہ کے کامل رکھتے ہیں۔انہوں نے ایک طولانی عمر گذاری ہے اور)حدیث میں)عالی اسنادکے مالک تھے ۔

8۔شواہد التنزیل،ج۱،ص۳۴۱

9۔شواہد التنزیل،ج۱،ص۳۴۵،ح۳۵۷

10۔ذہبی نے تاریخ اسلام میں۵۸۱ئھ سے ۵۹۰ئھ کے حوادث کے بارے میں بعض بزرگ علماء )ابن ابی طی)کی زبانی اس کی تمجیدکی ہے اور اسے اپنے زمانہ کے امام اورمختلف علوم میں بے مثال شمار کیا ہے اورعلم حدیث میں اسے خطیب بغدادی کے ہم پلہ اورعلم رجال میںیحیی بن معین کے مانند قراردیاہے اور اس کی سچائی وسیع معلو مات نیز،کثرت خشوع وعبادت اورتہجدکا پابند ہو نے سے متصف کیاہے۔مناقب،ابن شہرآشوب،ج۳،ص۱۱۱،ذوی القربیٰ 11۔اصول کافی ،ج۱،ص۲۰۸،مکتبةالصدق

12۔فرائدالسبطین ،ج۱،ص،۳۱۷،مؤسسہ المحمودی للطبا عة والنشر ،بیروت،کماالدین ،ص۲۶۴۔بحار الا نور ،ج۳۳ص۱۴۹۔مصباح الہدایة،ص۹۱طبع سلمان الفارسی۔قابل ذکر ہے کہ مؤخر الذکر مد رک میں بجائے ”اٴنشدکم اللّٰہ“’اسالکم باللّٰہ“آیا ہے۔

13۔تاریخ مدینةدمشق،ج۳۰،ص۳۱۰دارالفکر 

14۔جامع البیان،ج ۱۱،ص۴۶ 

15۔تہذیب التہذیب، ج۲ص۱۰۶دارالفکر۔

16۔جامع البیان،ج۱۱،ص۴۶ 

17۔میزان الاعتدال،ج۱،ص۱۸۶،دارالفکر

تبصرے
Loading...