ولايت اميرالمؤمنين قرآن کي روشني ميں11

امام علی(ع)

شرک يہ ہے کہ ہم کہہ ديں کہ: ابوالفضل العباس ايک ہے اور خدا بھي ايک ہے- کہيں کہ ميں تجھ سے محبت کرتا ہوں، تجھ سے بھي محبت کرتا ہوں- کہتے ہيں يہ شرک ہے- ليکن اگر کہيں کہ: ميں تم سے محبت کرتا ہوں اور آپ کے بچے سے بھي محبت کرتا ہوں کيونکہ وہ آپ کا بچہ ہے، بعد ميں جب آپ کے بچے کو ديکھتا ہو کہتا ہوں کہ “اپنے والد کو بھي سلام پہنچانا”، يہ ايک تسلسل اور ايک طول ميں واقع ہيں- بچہ آپ سے تعلق رکھتا ہے اور آپ کا تعلق آپ کے والد سے ہے- شرک يہ ہے کہ کوئي کہہ دے کہ تو ايک ہے ميں ايک ہوں- ايک کے مقابلے ميں ايک، يہ شريک کہلاتے ہيں- شريک کا کام کيا ہے؟ کہتا ہے تو ايک ہے ميں بھي ايک ہوں! ليکن باپ بيٹا يہ ايک دوسرے کے طول و تسلسل ميں واقع ہيں- وہابي کہتے ہيں کہ يہ جو تم کہتے ہو کہ يا حسين، يا علي، يا فاطمہ، اسي لئے تم مشرک ہو- ہم کہتے ہيں: کيوں؟ کہتے ہيں: تمہيں يا اللہ کہنا چاہئے- ہم کہتے ہيں: حسين و حسن اور فاطمہ اور ائمۂ اطہارعليہم‌السلام، يہ خدا کے مد مقابل نہيں ہيں- چابي ميرے ہاتھ ميں ہے اور ہاتھ ميرے اختيار ميں ہے- يہ بھي ايک مسئلہ-

ولايت بالفعل اور ولايت بالقوہ

بالقوہ اور بالفعل سے مراد کيا ہے؟ بالفعل يعني ابھي اسي وقت، [حاضر و موجود] اور بالقوہ يعني اس ميں صلاحيت اور ظرفيت ہے- مثلاً آپ ايک بچے کو ديکھتے ہيں کہتے ہيں کہ “بوعلي سينا ہے”، يعني اس ميں يہ صلاحيت موجود ہے کہ مستقبل ميں بو علي سينا بن جائے- اب ہم ديکھتے ہيں کہ آيت ولايت کے مطابق علي آيت کے نزول کے وقت ولي بننے کي صلاحيت رکھتے تھے يا اسي وقت “بالفعل” ولي تھے؟ فرماتا ہے: تمہارا ولي وہ ہے جس نے حالت رکوع ميں انگشتري عطا کي يا تمہارا ولي وہ ہے جس نے رکوع ميں انگشتري عطا کي…

———-

تبصرے
Loading...