کیا یھ صحیح ھے کھ رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی نماز صبح ایک مرتبھ قضا ھوئی۔

یھ مسئلھ ایک فقھی بحث ھونے کے ساتھه ساتھه کلامی مباحث سے متعلق ھے اگرچھ اس کا تفصیلی بیان یھاں پر ممکن نھیں لیکن اشاره کے طورپر بعض مطالب کو بیان کیا جاتا ھے۔

شیعھ  اور اھل سنت [1] کے منابع میں بعض روایات موجود ھیں جو اس واقعھ کو بیان کرتی ھیں۔ ان روایات میں بعض کی اسناد بھی معتبر ھیں جیسے کھ کتاب شریف کافی میں حضرت امام صادق علیھ السلام سے منقول ھے کھ راوی کھتا ھے: “میں نے حضرت امام صادق علیھ السلام سے سنا ھے آپ نے فرمایا : “رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم ایک دن نماز صبح کے وقت سوئے رھے اور(اصل میں) خداوند متعال نے آنحضرت کو سلادیا۔ یھاں تک کھ سورج طلوع ھوا ، یھ واقعھ لوگوں پرخداکی رحمت تھی تا کھ امت میں اگر کوئی صبح کی نماز کے دوران سویا رھے اور دوسرے لوگ اس کام پر اس کی  مذمت کریں اور اس سے کھیں کھ ” تمھارں نماز میں تقوی نھیں ھے ، تو آنحضرت کا یھ کام لوگوں کیلئے نمونھ عمل ھو اور اگر کوئی شخص دوسرے سے کھے کھ ” نماز کے وقت آپ سوئے رھے ” تو وه اس شخص کے جواب میں کھے پیغمبر(ص) بھی نماز کے وقت سوئے رھے ، پس پیغمبر کا یھ کام لوگوں کیلئے رحمت کا سبب ھے اور خدا نے اس امت کو مورد رحمت ٹھهرایا ھے ( تا کھ وه شخص بھی رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے سوئے رھنے کی یاد آوری کرکے لوگوں کی مذمت سے بچ سکے ” [2]

اس روایت میں اور دیگر معتبر روایات جو اس سلسلے میں وارد ھوئی ھیں ، دوسری دلیلیں اور روایات موجود ھیں جو ان روایات سے متعارض دکھائی دیتی ھیں جیسے :

۱۔ وه روایت جو رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے معصوم ھونے پر دلالت کرتی ھے۔ ان جملھ روایات میں ایک روایت جس کو حضرت امام صادق علیھ السلام نے حضرت علی علیھ السلام سے نقل کیا ھے کھ فرمایا: امام کے اوصاف میں سے ایک یھ ھے کھ صغیره اور کبیره گناھوں سے پاک ھو، اور فتوا دینے میں کوئی غلطی نھ کرے ، کسی سوال کے جواب میں اس سے کوئی خطا سرزد نھ ھو اور کسی بھی دنیاوی امر میں سھو ، نسیان ، یا بیھودگی سے وه پاک ھو۔ [3]

۲۔ جو روایات بیان کرتی ھیں “۔۔۔۔ وینام عینھ و لا تنام قلبھ ۔۔۔۔”[4] یعنی ، امام کی آنکھیں تو سوتی ھیں لیکن ان کا دل نھیں سوتا۔

۳۔وه عقلی دلیلیں جو علماء نے پیغمبر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے مبعوث ھونے کی وجھ  میں بیان کی ھیں جیسے یھ دلیل : کھ پیغمبر صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم لوگوں کی ھدایت کیلئے بھیجے گئے ھیں ان کا طرز عمل اس طرح ھو کھ لوگ انھیں کامل طور پر قبول کریں ۔

پیغمبر صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی چھوٹی سی غلطی انھیں اپنے اعلی درجھ کی ساکھه سے گرادیتی ھے اور جس مقصد کیلئے پیغمبر مبعوث ھوئے ھیں وه مقصد حاصل  نھیں ھوتا ھے۔ لھذا خداوند متعال اس کو لوگوں کےساتھه اپنے واسطھ کے طورپر منتخب نھیں کرتا جو سھو و نسیان کا مرتکب ھوجائے اور لوگ اسی وجھ سے اس سے دور ھوجاتے ھیں اور اس طرح خدا کا مقصد متحقق نھیں ھوتا بلکھ جب خداوند متعال بغیر چون و چرا کے اطاعت کرنے کا حکم دیتا ھے تو اس کےسب اعمال اور حرکات لوگوں کیلئے نمونھ ھونے چاھئیں ۔ اور جو بھول چوک کا مرتکب ھو وه اس طرح کی قابلیت سے بھره مند نھیں۔

۴۔ چوتھی دلیل سب علماء کا اتفاق اور اجماع ھے کھ پیغمبر سے کسی طرح کی بھول  اور غلطی سرزد نھیں ھوتی ۔ اس طرح فقھاء ان روایات کے بارے میں دو گروھوں میں تقسیم ھوگئے ھیں۔

الف ) بعض فقھاء پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی صبح کی نماز کے قضا ھونے کے بارے میں وارد شده روایات کو قطعی سند نھ ھونے کی وجھ سے یا راویوں کی غلطی ، یا روایوں کے جعل ، یا تقیھ کی صورت میں صادر ھونے یا دوسرے معتبر روایات کے ساتھه تعارض رکھنے کی وجھ سے نھیں مانتے ھیں ۔ جیسے صاحب جواھر (رح) [5] ، صاحب حدائق [6] اور شیخ انصاری (رح) [7] ۔۔۔

مرحوم میرزا آقا جواد ملکی تبریزی(رح)[8] اور مرحوم آیۃ اللھ سید محسن حکیم(رح)[9] اس طرح کی روایات کی رد میں فرماتے ھیں؛ اس روایت کے استناد سے جس میں رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم اپنے اصحاب سے  فرماتے ھیں ۔۔۔۔آپ شیطان کی سرزمین میں سوئے رھے،[10] یھ بات سمجھه میں آتی ھے کھ قرآنی آیت[11] کی رو سے اور دوسرے قطعی دلائل کی بناپر شیطان پیغمبر سے دورھے اور شیطان  میں،  رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کو غافل کرنے یا نیند کے دوران ان میں اثر کرنے کی توانائی نھیں ھے ۔ لھذا ان روایات کی یھ عبارت جو رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے سوئے رھنے کو شیطانی القائات کی وجه سے جانتے ھیں ان روایات کے غیر صحیح ھونے پر دلیل ھے۔

ب ) اس گروه کے مقابلے میں دوسرے فقھاء نے ان روایات کو مان لیا ھے اور اسے دوسری روایات کے ساتھه متعارض، یا رسول کی عصمت کے منافی نھیں جانتے ھیں، جیسے کھ شیخ صدوق ، جو ان روایات کے ذیل میں اس طرح کی روایات کا شدید دفاع کرتےھیں [12] اور شیطانی سھو کو اس سے الگ مانتے ھیں شیخ مفید شیخ صدوق کے برعکس ، پیغمبرصلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے سھو اور ان کے سوئے رھنے کے درمیان فرق کرتے ھیں ، شیخ مفید سهو پیغمبر کو رد کرتے ھیں اور ان کے کلام سے یھ بات  سمجھه میں آتی ھے کھ وه رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے سوئے رھنے کو قبول کرتے ھیں [13] شھید اول بھی ایک روایت کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ھیں ھم کسی کو نھیں جانتے ھیں جس نے ان روایات کو مقامِ عصمت کے خلاف  ھونے کے گمان سے ان پر عمل نھ کیا ھو [14] شیخ بھائی فرماتے ھیں علماء نے ان روایات کو قبول کیا ھے یھ اس بات کو واضح کرتا ھے کھ پیغمبر کے سوئے رھنے اور ان کے سھو کے درمیان فرق رکھا ھے اور اس کے مطابق فتوا دیا ھے مرحوم مجلسی نے بھی ان روایات کو قبول کیا ھے۔ [15]

عصر حاضر کے علماء جھاں تک ھماری اطلاع ھے حضرت آیۃ اللھ بھجت ان روایات کو عصمت کے مقام سے متناقض نھیں جانتےھیں۔ [16]

آخر میں اس بات کی یاد دھانی  ضروری ھے کھ مذکوره دلائل کے ھوتے ھوئے بھی  اس واقعه کے ھونے پر یقین حاصل نھیں ھوتا ھے۔ کیوں کھ کسی بھی دلیل سے روایت میں  خدشھ وارد ھوسکتا ھے اور رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے مقام کے بارے میں ھمیں زیاده ھی احتیاط اور غور و خوض سے بحث کرنی چاھئے۔



[1]  صحیح مسلم ، ج ۲ ص ۱۳۸۔ و سنن ابی داود ، ج ۱ ص ۱۰۷۔

[2]  کافی ج ۳ ص ۲۹۵۔ ( قال سمعت ابا عبد اللھ علیھ السلام یقول نام رسول اککھ عن الصبح و اللھ عز و جل انامھ حت طلعت الشمس علیھ و کان ذلک رحمۃ مں ربک للناس لا ری لو ا 

 [3]  بحار الانوار ج ۱۷ ص ۱۰۹ ، عن الصادق علیھ السلام عن امیر المؤمنین علیھ السلام فی بیان صفات الامام قال فمنھا ان یعلم الامام المتولی علیھ انھ معصوم من الذنوب کلھا صغیرھا و کبیرھا لا یزل فی الفتیار و لا یخطی فی الجواب و لا یسھو و لا ینسی و لا یلھو بشی من امر الدنیا۔

[4]   الکافی ج ۱ ص ۳۸۸

[5]  جواھر الکلام فی شرح شرائع الاسلام ، ج ۱۳ ص ۷۳ ۔۔ ۷۶۔ 

 فالانصاف انھ لا یجتری علی نسبتھ الیھم ( علیھم السلام ) لام دل من الآیات و الاخبار (۳) کما نقل علی طھارۃ النبی و عترتھ ( علیھم الصلاۃ و السلام ) من جمیع الارجاس و الذنوب و تنزھھم عن القبائح و العیوب ، و عصمتھم من العثار و الخل ، فی القول و العمل و بلوغھم الی اقصی مراتب الکمال ، و افضلیتھم من عداھم فی جمیع الاحوال و الاعمال، و انھم تنام اعینھم و لا تنام قلوبھم و ان حالھم فی المنام کحالھم فی الیقظۃ و ان النوم لا یغیر منھم شیئا من جھۃ الادراک و المعرفۃ و انھم لا یحتلمون ، ولا یصیبھم لمۃ الژطان ، ولا ینثاوبوں و لایتمطوں فی شیء الاحیان ، و انھم یرون مں خلقھم کما یرون من بین ایدیھم و لا یکون لھم ظل و الا یری لھم بول و لا غائط و ان رائحۃ نجوھم کرائھۃ المسک ، و امرت الارض بستره و ابتلاعھ ، وانھم علموا ما کان و ما کیون من اول الدھر الی انقراضه ، و انھم جعلو اھداء علی الناس فی اعمالھم ، وان ملائکۃ اللیل و النھار کانو یشھدون معن النبی (صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم صلاۃ الفجر و ان ان الملائکۃ   کانو یاتنو الارمۃ ( علیھم السلام ) عند وقت کل صلاۃ ، و انھم ما من یوم و ساعۃ و لا وقت صلاۃ الا وھم ینبھنھم لھا لیصلوا معھم ، و انھم کانو مؤیدین بروح القسم یخبرھم و یسدھم لا یصیبھم الحدثان ، و لا یلھو و لا ینام و لا یغفل ووبھ علموا ما دون العرش الی ما تحت اکلثری ، و اقوا ما فی اشرق الارض و غیرھ الی غی رذلک مما لا یعلمھ لا اللھ کما ور (۱) انھم لا یعرفھم لا اللھ و لا یعرف اللھ حق المعرفۃ لا ھم و لیسوا ھم اقل مں ادیکۃ التھ تسرخ فی اوقات الصلوات و فی اواخر الیل لسماعھا صوت تسبیح ویدک السماء السی هو مں الملا ئکۃ و عرفھ تحت العرش و رجلاه فی نجوم الارض السابعۃ ، و جناحاه بجاوزان المشرو و المغرب ، آخر تسبیحھ فی اللیل بعد طلوع الفجر ” ربنا الرھمن ل الھ غیره ” ( ۳) لیقم الغافلون ، تعالو عن ذلک علوا کبیرا نعم لو امکن دعوی ثبوت تکالیف خاصه لھم تقوم مقام ھذه التکالیف اتجه دعوی جواز نومھم عنھا و ربما یومی الیھ قول النبی ( صلی اللھ علیھ وآلھ ) و” اصابکم فیھ الغفلۃ ” و قولھ ( صلی اللھ علیھ و آلھ ) ” نمتم بوادی الشیطان ) و اللھ اعلم بحقیقۃ الحال۔

[6]  الحدایق الناضرۃ ، ج ۶ ص ۲۷۳۔

 و بالجملۃ مقتضی عدم تجویز السھو علیھ ( صلی اللھ علیھ و آلھ ) کما  هو طاھر اتفاقھم ردھذه الاخبار و ںحوها او حملھا علی التقیۃ کما یشیر الیھ ما نقلھ من روایۃ العامۃ الخبر المذکور عن ابی قتادۃ و جماعۃ مں الصحابه ، اذ لا یخفی ما بین الحکمین مں التدافع و التناقض ۔

[7]شیخ انصاری ، در رسائل فقھیۃ خود صفحھ ، ۳۲۳ و صاحب الجواھر ، جو جواھر جلد ۱۳ صفحھ ۷۶ میں اس احتمال کی اشاره کرتے ھیں اور اسے قبول کرتے ھیں۔

[8]  شیخ جواد تبریزی الانوار الالھیۃ ، رسالی فی لبس السواد ، ص ۵۴۔

[9]  مستمسک العروۃ الوثقی ، ج ۵ ص ۱۳۸۔

[10]   ۔۔۔ قال یا بلال ما لک قال بلال ارقدنی الذی ارقدک یا رسول اللھ قال و کره المقام و قال یمتم یوادی الشیطان ۔۔۔۔ تھذیب ج ۲ ص ۲۶۵۔

[11]  سوره نحل ، / ۱۰۰

[12]  من لا یحضره الفقیھ ج ۱ ص ۳۵۹۔

[13]  رسالی عدم سھو النبی ، ص ۲۸۔

[14]  ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعۃ ، ج ۳ ص ۴۲۳۔

[15]  مرآۃ العقول ، فی شرح اخبار آل الرسول ج ۱۵ ص ۶۔ اقول ، نوم النبی صلی اللھ علیھ و آلھ کذلک ای فوت الصلاۃ ما رواۃ الخاصۃ و العامۃ ، و لیس من قبیل السھو و لز الم یقل بالسھو الا شاذ ول لم یر و ذلک احد کما ذکره الشھید۔ ( رح)۔

[16]  بھجت الفقیه ص ۱۵۰۔

تبصرے
Loading...