کیا قرآن مجید اور روایات میں حضرت خضر علیه السلام کے بارے میں کچھـ مطالب بیان کیے گئے هیں؟

قرآن مجید میں واضح طور پر حضرت خضر کا نام نهیں لیا گیا هے، بلکه ان کے بارے میں : ” عبداً من عبادنا آتیناه رحمۃ من عند نا و علمنا من لدنا علھاً…”[1] کے عنوان سے یاد کیا گیا هے جو ان کى عبودیت کے مقام اور خاص علم و دانش کو بیان کرتا هے ـ متعدد روایات میں اس عالم شخص کا نام ” خضر ” کے عنوان سے معرفى کیا گیا هے ـ

وه ایک الهىٰ دانشور تھے، خدا وندمتعال کى خاص رحمت ان کے شامل حال تھى، وه عالم تکوین کے باطن و ظاهر کے مامور تھے، بعض اسرار سے آگاه تھے اور ایک لحاظ سے حضرت موسى (ع) بن عمران کے معلم تھے، اگر چه حضرت موسى (ع) بعض لحاظ سے ان پر مقدم تھےـ

بعض روایات اور بظاهر قرآن مجید کى بعض آیات کى تعبیر سے معلوم هوتا هے که حضرت خضر (ع) مقام نبوت پر فائز تھے اور مرسل انبیاء میں سے تھے که خدا وندمتعال نے انھیں ان کى قوم کى طرف بھیجا تھا، تاکه انھیں یکتا پرستى اور انبیاء ورسل اور آسمانى کتابو کا اقرار کرنے کى دعوت دیں ـ ان کامعجزه یه تھا که جب اراده فرماتے تھے که ایک خشک لکڑى یا خشک زمین ، سرسبز و شاداب هو جائے، تو امر فوراً محقق هوتا تھا اور اس لئے آپ کو ” خضر ” (یعنى) کها گیا هے اور ” خضر ” ان کا لقبه هے ـ ان کا اصلى نام تالیا بن ملکان بن عابر بن ارفخشد بن سام بن نوح هے ـ[2]

قرآن مجید میں حضرت خضر علیه السلام کے بارے میں حضرت موسىٰ کے مجمع البحرین جانے کى داستان کے علاوه کهیں کوئى جیز ذکر نهیں هوئى هے اور ان کے بارے میں یهى ارشاد فرمایا هے : ” تو اس جگه پر همارے بندوں میں سے ایک بندے کو بایا جسے هم نے اپنى طرف سے رحمت عطا کى تھى اور اپنے علم خاص میں سے ایک خاص علم کى تعلیم دى تھى ـ”[3]

حضرت امام صادق علیه السلام سے نقل کیا گیا هے که آپ نے فرمایا : “ــ ـ ـ لیکن وه خدا کا بنده صالح خضر، خداوند متعال نےاس کى عمر کو اس کى رسالت کے لئے طولانى نهیں کیا اور نه اس پر نازل کى جانے والى کتاب کے لئے اور نه اس لئے که ان کے اور ان کى شریعت کے ذریعه، ان سے پهلے والے انبیاء (ع) کى شریعت کو منسوخ کرے اور نه اس کى امامت کے لئے که بندگان خدا اس کا اقتدا کریں اور نه اس اطاعت کے لئے جسے خدا نے ان پر واجب قرار دیا تھا ـ بلکه پروردگار عالم نے حضرت خضر(ع) کى عمر کو اس لئے طولانى فرمایا که اس نے اراده فرمایا تھا که حضرت قائم (عج) کى عمر شریف کو ان کى غیبت کے دوران کافى طولانى فرمائے اور جانتا تھا که اس کے بندے ان کى طولانى عمر پر اعتراض کریں گے، اسى لئے اپنے اس بنده صالح (خضر) کى عمر کو طولانى فرمایا که اس استدلال سے حضرت قائم (عج) کى عمر ان کى عمر سے تشبیه کى جائے اور اس طرح دشمنوں اور بد حواهوں کے اشکا ل و اعتراضات باطل اور مسترد کئے جائیں ـ”[4]

بیشک وه (حضرت خضر) زنده هیں اور اس وقت ان کى عمر چھـ هزار سال سے زیاده هےـ[5]

حضرت خضر علیه السلام کى زندگى اور ان کا بحر ظلمات میں جانا اور وهاں پر آپ حیات پینا ، من جمله ایسے مسائل هیں جن کے بارے میں تاریخ اور احادیث کى کتابوں میں مفصل بحث هوئى هے اور آپ اس سلسله میں حدیث کى مفصل کتابوں کى طرف رجوع کرسکتے هیں ـ[6]

سرزمین غدیر پر عید غدیر کے دن، رسول خدا صلى الله علیه وآله وسلم کى رحلت کى سوگوارى کى تقریب میں اور حضرت على علیه السلام کى شهادت کے موقع پر آپ (ع) کى سوگوارى کى تقریب پر حضرت خضر علیه السلام کى شرکت کے بارے میں حدیث کى کتابوں میں تفصیلى ذکر آیا هےـ

حضرت امام رضا علیه السلام نے فرمایا : ” حضرت خضر (ع) نے آب حیات کو پى لیا ، وه زنده هیں اور صورکے پھونکے جانے تک دنیا سے نهیں چلے چایئں گے، وه همارے پاس آتے هیں اور هم پر سلام کرتے هیں، هم ان کى آواز سنتے هیں اور خود ان کو بھى دیکھتے هیں، [7] وه حج کے مراسم میں شرکت کرتے هیں اور تمام مناسک کو بجالاتے هیں، عرفه کے دن سرزمین عرفات میں ٹھهرتے هیں اور مومنین کى دعا کے لئے آمین کهتے هیں ـ خداوند متعال ان کے ذریعه غیبت کے زمانے میں همارے قائم (عج) کى غریب الوطنى کو دور کرتا هے اور ان کے ذریعه وحشت کو انس و محبت میں تبدیل کرتا هے ـ”[8]

اس حدیث سے معلوم هوتا هے که حضرت خضر علیه السلام ان تیس افراد میں شامل هیں جو همیشه حضرت بقیته الله (عج) کے همراه هوتے هیں اور حضرت (عج) کے فرمان سے امور کے نظم و انتظام کو سنبھالے هوئے هیں ـ[9]

حضرت خضر قرآن مجید کى روشنى میں :

حضرت موسىٰ علیه السلام اس الهىٰ عالم [10]کے همراه چلے ، یهاں تک که کشتى میں سوار هوگئے، اس عالم نے کشتى میں سوراخ کیا! چونکه ایک طرف سے حضرت موسى (ع) خدا کے اولوالعظم پیغمبر تھے اس لئے اسے لوگوں کے مال جان کى حفاظت کرنى چاهئے تھى، اور امر بالمعروف ونهى عن المنکر کرناچاهئے تھا اور دوسرى جانب سے انسانى ضمیر انھیں اجازت نهیں دیتا تھا که اس قسم کے کام کے مقابلے میں خاموش تماشائى بن بیٹھیں، اس لئے انهوں نے زبان کھولى اور اعتراض کیا اور کها : ” کیا آپ نے کشتى کو اس لئے سوراخ کیا تاکه اس میں سوار لوگوں کو غرق کردو گے ؟ بیشک آپ نے ایک برا کام انجام دیا هے ـ

بیشک بنده صالح مقصد کشتى میں سوار لوگوں کو غرق کرنا نهیں تھا، لیکن چونکه اس کام کا نتیجه ان کے غرق هونے کے علاوه کچھـ اور نظر نهیں آتا تھا، اس لئے موسى (ع) نے اسے ” لام غایت ” جو مقصد بیان کرنے کے لئے هوتا هے، کے ذریعه بیان کیا هے ـ

بعض روایتوں میں ملتا هے که کشتى میں سوار لوگ خطره کے بارے میں متوجه هوئے اور کسى چیز سے عارضى طور پر سوراخ کو بند کیا، لیکن اب وه کشتى ایک سالم کشتى نهیں رهى تھى ـ

یهاںپر عالم ربانى اور بنده صالح (حضرت خضر) نے ایک خاص سنجید گى کے ساتھـ حضرت موسىٰ پر نظر ڈالى اور کها : کیا میں نے نهیں کها تھا که آپ میرے ساتھـ (چلنے میں) هر گز صبر نهیں کرسکو گے ؟!

حضرت موسىٰ (ع) نے جو جلد بازى کى تھى، وه حادثه کى اهمیت کے پیش نظر تھى، فوراً انھیں اپنا وعده یاد آیا اور پشیمان هوئے اورمعافى مانکتے هوئے استاد سے مخاطب هوکر یوں کها : ” مجھے اپنى فراموشى پر مواخذه نه کرنا اور اس کام کے لئے مجھـ پر سختى نه کرنا ـ” یعنى ایک غلطى هوئى، جو بھى تھا وه گزر گیا اور آپ اپنى بزرگى کے پیش نظر اس سے چشم پوشى کرنا ـ

ان کا دریائى سفر تمام هوا اور وه کشتى سے اتر ے ” اور اپنے راسته پر گامزن هوئے، راسته میں ایک نوجوان کو دیکھا ، حضرت خضر (ع) نے بلا تمهید اس نوجوان کو قتل کر ڈالا! “

یهاں پر حضرت موسىٰ نے پھر سے کها : ” کیا آپ نے ایک بے گناه اور پاک انسان کو قتل کرڈالا، بدون اس کے که اس نے کوئى قتل کیا هو ؟ ” آپ نے بیشک ایک براکام انجام دیا هے؟

یهاں پر اس مرد عالم نے ٹھنڈے دل سے وهى اپنا سابقه جمله دهرایا اور کها : ” میں نے  آپ سے کها تھا که آپ هر گز میرے ساتھـ صبر کرنے کى طاقت نهیں رکھتے هو ـ “

موسىٰ (ع) کو اپنا وعده یاد آیا، پھر اس نے بشیمانى کا اظهار کیا، کیونکه اس نے دو بار پیمان شکنى کى تھى، اگر چه فراموشى کى وجه سے ، اب وه رفته رفته احساس کر رهے تھے که ممکن هے استاد کى بات سچ هو اور اس کے کام موسىٰ کے لئے ابتداء میں ناقابل پرداشت تھے، اس لئے دوباره عذر خواهى کرتے هوئے یوں بولے :

“اس دفعه بھى مجھـ سے چشم پوشى کرنا، اور میرى فراموشى کو نذرانداز کرنا،لیکن اگر اس کے بعد بھى میں نے آپ کے کاموں کے بارے میں وضاحت چاهى (اور آپ پر اعتراض کیا) تو میرے ساتھـ مصاحبت نه کرنا کیونکه آپ اس وقت میرى طرف سے معذور هوں گے ـ “

اس گفتگو اور دوباره تعهد کے بعد ” موسى (ع) اپنے استاد کے همراه آگے بڑھے، یهاں تک که ایک گاوں میں بهنچے اور اس گاوں کے باشندوں سے کھانا مانگا، لیکن انهوں نے ان دو مسافروں کو مهمان بنانے سے انکار کیا ” بیشک حضرت موسى ٰ اور حضرت خضر (ع) ایسے نهیں تھے که اس گاوں کے لوگوں پر بوچھـ بن جاتے، معلوم هوتا هے که انهوں نے سفر کے دوران اپنا زادراه کھودیا تھا یا ختم هو چکا تھا، اس لئے اس گاوں کے باشندوں کے مهمان بن جانا چاهتے تھے (یه بھى ممکن هے که اس بنده صالح نے عمداً ان لوگوں سے یه درخواست کى هوتا که موسى (ع) کو ایک نیا درس سکھایئں ـ)

اس کے بعد قرآن مجید اضافه کرتا هے :” بهر حال انهوں نے اس آبادى میں ایک دیوار کو پایا ، جو گرنے کے قریب تھى، اس بنده صالح نے اس دیوار کو گرنے سے بچا یا” اور منهدم هونے میں رکاوٹ بنا ـ

حضرت موسى چونکه اس وقت کافى تھکے اور بھوکے تھے، اور سب سے اهم یه که احساس کررهے تھے که ان کى اور ان کے استاد کى عظیم شخصیت گاوں والوں کے ناشائسته برتاو کى وجه سے مجروح هو چکى تھى، اور دوسرى جانب سے مشاهده کر رهے تھے که حضرت خضر اس بے احترامى کے بدلے میں گرنے والى دیوار کى مرمت کرنے لگے ، جیسا که ان گاوں والوں کى برائى کا اجر دینا چاهتے هیں اور (حضرت موسى) خیال کرتے تھے که استاد اس کام کو کم از کم ایسى اجرت کے مقابلے میں انجام دیتے جس کے نتیجه میں ان کو کھانا ملتا ـ

اس لئے (حضرت موسىٰ ) ایک بار پھر اپنے وعده کو بالکل بھول گئے اور اعتراض کى زبان کھولى،لیکن پهلے کى به نسبت نرم اور ملایم اعتراض کرتے هوئے بولے :”

” کیا اس کام کے بدلے میں کوئى اجرت لینا چا هتے هو “

یهاں پر اس بنده صالح نے اپنى آخرى بات حضرت موسى سے کهدى، کیونکه گزشته مجموعه حوادث سے یقین کر چکے تھے که موسى (ع) ان کے کام کے مقابلے میں صبر نهیں کرسکتے هیں اور فرمایا : “اب آپ کى اور میرى جدائى کا وقت آگیا هے ! لیکن وه اسرار میں تجھے جلدى بتادوں گا ، جن پر آپ صبر نه کرسکے ـ”

اس قسم کے رهبر سے جدا هونا کافى دردناک تھا، لیکن ایک تلخ حقیقت تھى که بهرحال حضرت موسى (ع) کو اسے قبول کرنا چاهئے تھا ـ

معروف مفسر ابوالفتح رازى کهتے هیں که ایک روایت میں هے که حضرت موسى (ع) سے بوچھا گیا : اپنى زندگى کى مشکلات میں سے سخت ترین مشکل کو بیان کیجئے، انهوںنے جواب میں فرمایا : ” میں نے بهت سى سختیاں دیکھى هیں (فرعون کے دوران مشکلات اور بنى اسرائیل کى حکومت کے دوران سختیوں کى طرف اشاره هے) لیکن ان میں سے کوئى مشکل اس کے مانند نهیں تھى، جب مجھے خضر (ع) نے فراق و جدائى کى خبردیدى اور میرے دل پر اس کا اثر پڑا ! “[11]

موسىٰ اور خضر کى جدائى یقینى بننے کے بعد، ضرورى تھا که یه استاد الهىٰ ان اسرار کو بیان کریں ، جن کے مقابل میں حضرت موسىٰ صبر نه کرسکے تھے، اور حقیقت میں، حضرت موسىٰ (ع) کى ان کے ساتھـ مصاحبت کا فائده، ان تین عجیب حوادث کے اسرار کو سمجھنا تھا ، جو بهت سے مسا ئل کى کلید اور بهت سے سوالات کا جواب هو سکتے تھے ـ

ان حوادث کے باطنى اسرار:

حضرت خضر (ع) نے پهلے کشتى کى داستان سے شروع کرتے هوئے کها : ” لیکن وه کشتى چند مساکین سے متعلق تھى، جو اس کے ذریعه دریا میں کام کرتے تھے، میں اسے ناقص بننا چاهتا تھا کیونکه چانتا تھا که اس کے بیچھیے ایک ظالم بادشاه کا هاتھـ تھا جو هر سالم کشتى کو زبردستى غصب کرتا تھا ـ”

اس طرح کشتى میں سوراخ کرنے کے بظاهر برے کام کے پیچھےایک اهم مقصد تھا اور وه ظالم بادشاه کے توسط سے اسے غصب کرنے سے بچا نا تھا، کیونکه وه ناقص کشتیوں کو اپنے کام کے مناسب نهیں سمجھتا تھا اور ان کو غصب کرنے سے چشم پوشى کرتا تھا، مختصریه که یه کام مسکینوں کے ایک گروه کے منافع کو بچانے کے لئے تھا اور اسے انجام پانا چاهئے تھا ـ

اس کے بعد دوسرے حادثه یعنى نوجوان کو قتل کرنے کے سلسله میں یوں کها : ” لیکن اس نوجوان کے ماں باپ با ایمان تھے، اور هم نے نهیں چاها که یه نوجوان اپنے ماں باپ کو ایمان کى راه سے باهر لاکر کفر و طغیان سے دوچار کرے ـ”

اس مرد عالم نے اس نوجوان کو قتل کرنے کا اقدام کیا اور اس کے زنده رهنے کى صورت میں مستقبل میں اس کے با ایمان والدین کو ایمان کو هاتھـ سے دینے کے ناگوار حادثه پیش آنے کو بچانے کا سبب بنا ـ

هم مختلف اسلامى منابع میں درج متقدد احادیث میں پڑھتے هیں :

” خداوند متعال نے اس فرزند کے بدلے میں اس کے والدین کو ایک ایسى بیٹى عطا کى که جس کى نسل سے ستر انبیا پیدا هوئے ـ[12]

اس بحث سے مربوط آخرى آیت میں، بنده صالح اپنے تیسرے کام یعنى دیوار کو مرمت کرنے کے راز سے پرده اٹھاتے هوئے یوں کهتا هے : ” اما، وه دیوار اس شهر کے دو یتیم نوجوانوں کى تھى، اور اس کے نیچے ان سے متعلق ایک خزانه تھا اور ان کا باپ ایک صالح شخص تھا ـ” آپ کا پروردگار چاهتا تھا وه بالغ هو چایئں اور اپنے خزانه کو استخراج کریں”ـ یه  ” آپ کے پروردگار کى ایک رحمت تھى ـ” اور میں ان دو یتیموں کے والدین کى نیکى کى وجه سے اس دیوار کى مرمت کرنے پر مامور تھا، تا که گرنے کى صورت میں خزانه ظاهر هوسکتا تھا اور خطر لاحق هوتاـ

آخر پر حضرت موسى (ع) کے ذهن سے هر قسم کے شک و شبهه کو دور کرنے کے لئے اور اس لئے که یقین کے ساتھـ جان لے که یه کام ایک نقشه اور خاص ماموریت کے مطابق تھا، اضافه کرتے هوئے کها: ” اور میںنے اس کام کو اپنے حکم سے انجام نهیں دیا هے ” بلکه خدا وند متعال کا حکم تھا ـ

جى هاں ” یه تھا ان کاموں کا راز جن پر صبر و تحمل کرنے کى آپ میں طاقت نهیں تھى ـ”

جعلى افسانے:

حضرت موسى (ع) اور حضرت خضر (ع) کى داستان کى بنیاد یهى هے جو قرآن مجید میں آئى هے لیکن افسوس که اس کے بارے میں بهت سے افسانے جعل کئے گئے هیں ، که بعض اوقات ان افسانوں کو اس داستان سے چوڑنے کے نتیجه میں یه داستان ایک خرافاتى صورت میں بدل جاتى هے! جاننا چاهئے که یه صرف ایک هى داستان نهیں هے جو ایسے حادثه سے دوچار هوئى هے ، بلکه دوسرى حقیقى داستانیں بھى هیں جو اس حادثه سے نه بچ سکى هیں ـ

حقیقت کو درک کرنے کے لئے قرآن مجید کى آیات کو معیار قرار دینا چاهئے [13] اور حتى احادیث کو بھى اس صورت میں قبول کیا جاسکتا هے که قران مجید کے موافق هوں، اگر کوئى حدیث اس کے موافق نه هو تو قطعاً قابل قبول نهیں هے ـ[14]

حضرت خضر علیه السلام کى داستان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے درج ذیل تفاسیر اور کتابوں کى طرف رجوع کیا جاسکتا هے :

1ـ حجع البیان، جلد 6، سوره کهف کى آیت نمبر 65 سے 81 کے ذیل هیںـ

2ـ نورالثقلین جلد 3، مذکوره آیات کے ذیل هیں

3ـ المیزان جلد 13، مذکوره آیات کے ذیل هیں

4ـ درالمنثور اور ان آیات کے سلسله میں دوسرى کتابیں.



[1]  کهف، 65ـ82

[2]  ملاحظه هو، ترجمھ المیزان، ج 13،ص 584.

[3]  ایضاً

[4]  کمال الدین، ج 3، ص 357: بحارالانوار، ج 51،ص 222

[5]  یوم الخلاص، ص 157.

[6]  بحارالانوار، ج 12، ص 172ـ 215، ج13 ،ص 278ـ322

[7]  البته ایسى روایتیں پا ئى جاتى هیں جن سے معلوم هوتا هے ائمه اطهار حضرت خضر کو دیکھتے تھے من جمله: لما قیض رسول الله (ص) جاء الخضر فوقف على باب البیت و فیھ على و فاطمھ والحسن والحسین (ع); کمال الدین، ج 2 ص 390: بحارالانوار، ج 13 ص 299.

[8]  کمال الدین، ج 2،ص 390; بحارالانوار، ج 13،ص 299

[9]  غیبھ نعمانى، ص 99; بحارالانوار، ج 52، ص158.

[10]  اس بحث میں جهاں پر ” مرد عالمى الهىٰ ” یا ” مرد عالم ” کى بات کى گئى هے ـ اس سے مراد حضرت خضر هیں

[11]  تفسیر ابو الفتوح رازى ذیل آیھ مورد بحث.

[12]  نور الثقلین، ج 3، ص 286و 287.

[13]  کهف، 65ـ82

[14]  تفسیر نمونه ، ج 12، ص 486، کے بعد : المیزان فى تفسیر القران، ج 13، مورد بحث آیات کے ذیل هیں ـ

تبصرے
Loading...