کیا فرشتوں میں عصمت کا کوئی درجه پایا جاتا هے؟

ملائکه اور فرشتے انتهائی شریف اور لطیف مخلوق هیں جو هر قسم کے گناه معصیت سے پاک و منزه هوتے هیں ـ قرآن مجید نے ان کا کافی احترام کیا هے، یهاں تک که ملائکه کا ایمان خدا انبیاء علیهم السلام اور آسمانی کتابوں پر ایمان کی فهرست میں قرار پایا هے ـ[1]

قرآن مجید ان کی خصوصیات کو یوں بیان کرتا هے:

1ـ فرشتے، عاقل و باشعور مخلوقات اور خداوند متعال کے محترم بندے هیں ـ[2]

2ـ وه خداوند متعال کے فرمان بردار هیں اور هرگز معصیت نهیں کرتے هیں ـ[3]

3ـ وه مسلسل خداوند متعال کی تسبیح و تقدیس میں مشغول هیں :” فرشتے اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بجالاتے هیں اور زمین کے باشندوں کے لئے، استغفار کرتے هیں[4]

4ـ فرشتے بلا استثنا، حضرت آدم (علیه السلام) کی تخلیق کے لئے سجدے میں گرے اور حضرت آدم (علیه السلام) ان کے معلم بن گئے ـ[5] یه اس بات کی حکایت هے که انسان اپنی مکمل استعداد کے مطابق، ان سے برتر هے ـ

5ـ وه نه کھانا کھاتے هیں، نه پانی بیتے هیں اور نه ازدواج کرتے هیں، چنانچه هم خضرت امام صادق علیه السلام سے نقل کی گئی ایک حدیث میں پڑھتے هیں که آپ (ع) نے فرمایا : “فرشتے غزا نهیں کھاتے هیں اور پانی نهیں پیتے هیں اور ازدواج نهیں کرتے هیں، بلکه عرش الٰهی کی نسیم سے زنده هیں”ـ[6]

6ـ وه نه سوتے هیں اورنه ان میں سستی آتی هے اور نه غفلت، چنانچه حضرت علی علیه السلام نے ایک حدیث میں یوں فرمایا: “ان میں نه سستی هے، نه غفلت اور نه معصیت ـ ـ ـ ان پر نیند طاری نهیں هوتی هے اور ان کی عقل سهو ونسیاں سے دوچار نهیں هوتی هے، ان کے بدن میں سستی پید نهیں هوتی هے اور وه اپنے باپ کے صلب اور ماں کے رحم میں قرار نهیں پاتے هیں ـ”[7]

7ـ ان کے مختلف مقام اور متفاوت مراتب هیں، ان میں سے بعض همیشه رکوع میں هیں اور بعض همیشه سجده میں ـ

قرآن مجید میں ارشاد هے:

” اور هم میں سے هر ایک کے لئے ایک مقام معین هے اور هم اس کی بارگاه میں صف بسته کھڑے هونے والے هیں اور هم اس کی تسبیح کرنے والے هیں ـ”[8] [9] لیکن کیا یه شریف اور لطیف مخلوقات معصوم بھی هیں یا نهیں؟ اس سوال کے جواب کے لئے ضروری هے که پهلے عصمت کی تعریف کی جائے ـ لغت میں عصمت کے معنی روکنا اور رکاوٹ بننا هے اور اصطلاح میں اس نفسانی حالت اور ملکه کو کهتے هیں جو انسان کو گناه، حتی خطا اور اشتباه سے روکے ـ[10]

اس بنا پر، عصمت کا مقام ایک نفسانی ملکه اور تقوائے الٰهی کی حالت هے، جو خداوند متعال کی مدد سے انبیاء اور ائمه علیهم السلام میں پیدا هوتی هے ـ البته یه حالت اس معنی میں نهیں هے که وه گناه انجام نه دے سکیں، بلکه یه نفسانی حالت رکھنے والے اس کے باوجود که گناه تک ان کی پهنچ هوتی هے اور اس کے مرتکب هونے کی طاقت بھی رکھتے هیں، لیکن اپنے اراده و اختیار سے گناه سے چشم پوشی کرتے هیں اور هرگز کسی معصیت کے مرتکب نهیں هوتے هیں ـ

ان کی مثال بالکل اس بهت آگاه طبیب کے مانند هے که ایک خطرناک زهریلے ماده کے خطرات سےآگاه هونے کے سبب هرگز اسے نهیں کھاتا هے، باوجود یکه اس کو کھانے کی طاقت رکھتا هے، اس کی آگاهی اور اس کی فکری و روحی بنیادیں سبب بن جاتی هیں که وه اپنے اراده و اختیار سے اس کام کو انجام دینے سے برهیز کرے ـ

قابل توجه بات هے که عصمت ایک خاص عطیه الٰهی هے، جسے خداوند متعال نے رهبری اور قیادت کی بھاری مسئولیت کے سبب اپنے انبیاء اور ائمه علیهم السلام کو عطا کیا هے ـ اس بنا پر، عصمت ایک ایسا امتیاز هے جس اکا فائده عوام اناس کو پهنچتا هے ـ[11]

عصمت کے معنی اور حقیقت کے پیش نظر قابل ذکر هے که: اگرچه فرشتے هر قسم کے گناه و معصیت سے پاک و منزه هیں، لیکن وه اس عصمت کے مالک نهیں هیں، جو انبیاء اور ائمه علیهم السلام میں پائی جاتی هے ـ

البته اگر عصمت کے معنی کو وسعت بخشی جائے اور اسے هر وجه سے عدم ارتکاب گناه کے معنی میں لیا جائے تو اس صورت میں فرشتے بھی معصوم هیں ـ کیونکه ان میں گناه کو انجام دینے کے بارے میں کسی قسم کا رجحان اور کشش نهیں پائی جاتی هے اور وه همیشه اپنے پروردگار کی تسبیح و تقدیس میں مشغول اور اس کے حکم کے تابع هوتے هیں ـ

البته ملائکه ایک هی سطح اور ایک هی درجه پر نهیں هیں، بلکه ان کے مختلف درجے هیںـ قرآن مجید اس سلسله میں ارشاد فرماتا هے :”اور هم میں سے هر ایک کے لئے ایک مقام معین هے ـ”[12]

ان میں سے بعض ملائکه، جیسے جبرئیل، مکائیل، اسرافیل اور عزرائیل درگاه الٰهی کے مقرب ملائکه هیں اور ان کے درجات بهت بلند هیں که فلاسفه نے انھیں “رووس الملائکه” کا خطاب دیا هے، اور بعض دوسروں کے درجات اور فرائض کو یوں بیان کیا گیا هے: “ان میں سے بعض پروردگار کی طرف سے پیغمبروں (ع) کو وحی پهنچانے کے امین هیں اور بعض خدا کے بندوں کے محافظ اور بعض بهشت کے دربان هیں ـ ـ ـ”[13]

لیکن جو روایتیں، بعض ملائکه کی طرف سے خداوند متعال کے حکم کی نافرمانی کرنے اور ان کی تنبیه اور سزا کے بارے میں نقل هوئی هیں، جیسے “فطرس” کے بارے میں، یه مصدقه نهیں هیں اور تمام علمائے اسلام نےایسی روایتوں کو قبول نهیں کیا هے ـ ان میں سے بعض کا اعتقاد هے که :”فطرس” کے قضیه کو ثابت کرنے کی ضرورت هے، کیونکه “فطرس” ایک یونانی لفظ هے اور تیسری شعبان کی دعا میں بھی اسے فرشته نهیں کها گیا هے ـ بلکه اس صورت میں آیا هے : “وعاذ فطرس بمھده” یعنی فطرس نے امام حسین (علیهه السلام) کے گهوارے میں پناه لے لی ـ دوسری جانب سے اس دعا کی سند بھی قابل تحقیق هے اور اس کا اعتبار معلوم هونا چاهئے ـ ـ ـ [14]

بعض افراد فرشتوں کی معصیت اور ان کو تنبیه کی جانے کے منکر هیں اور کهتے هیں : “فطرس” کے معصیت کی روایت، آیه شریفه : “عباد مکرمون”[15] اور آیه : “وه فرمان الٰهی کی نافرمانی نهیں کرتے هیں اور جو حکم هوتا هے اسے انجام دیتے هیں ـ”[16] سے تضاد رکھتی هے ـ اس بنا پر اس گروه کے نظریه کے مطابق فرشتوں کی معصیت قابل قبول نهیں هے ـ

دوسری جانب سے شیعه علماء نے اس قسم کی روایت کے صیحح هونے کے فرض پر چند احتمالات پیش کئے هیں:

1ـ بعض مفسرین نے کها هے: ملائکه کی سزا اور تنبیه “ترک اولٰی” کی وجه سے تھی نه گناه و معصیت کی وجه سےـ “ترک اولٰی” کا مراد، یه هے که انهوں نے فرمان الٰهی کو نافذ کرنے میں اس عمل کو چھوڑا هے جو زیاده اولویت کا حامل تھا اور وه عمل انجام دیا هے جو کم تر اولویت کا حامل تھا، یا عمل کو جس زمانه میں انجام دینا اولویت کا حامل تھا، انجام نهیں دیا هے اور دوسرے حالات اور وقت میں انجام دیا هے که اولویت نهیں رکھتا تھا، اس لئے انھیں سزا اور تنبیه کا سامنا کرنا پڑا هے ـ[17]

2ـ بعض لوگوں نے فرشتوں کے عصیان اور تنبیه کے مسئله کو حل کرنے کے لئے، احتمال دیا هے که اس قسم کی روایتیں ان ملائکه سے مربوط هیں جو انسان کی شکل میں هیں ـ اس سلسله میں شهید مطهری فرماتے هیں : “احادیث اور روایتوں میں بعض ملائکه کو “زمینی ملائکه” کها گیا هے، وه نامرئی مخلوقات هیں، لیکن شائد انسان کے شبیه هیں، یعنی تکلیف قبول کرتے هیں اور نافرمانی کرتے هیں ـ ان کی حقیقت همارے لئے واضح نهیں هے ـ ـ ـ حتی بعض رویتوں میں آیا هے که بعض ملائکه اس دنیا کے عناصر سے خلق کئے گئے هیں ـ”[18]

3ـ بعض کا اعتقاد هے که “فطرس” کی روایت کی سند اور اس کا فرشته هونا ثابت هونے کی صورت میں یه امر آیه شریفه “لایعصون الله”[19] کے منافی نهیں هے، کیونکه فرشتے یکساں نهیں هیں ـ عرش کو حمل کرنے والے فرشتے، اور وحی کو حمل کرنے والے فرشتے، بلند مقام والے فرشتے هیں : ” وما مناالالھ مقام معلوم”[20] وحی کو حمل کرنے والے فرشتے معصوم هیں اور ان میں کمال نهیں هے ـ همارے پاس کوئی دلیل موجود نهیں هے که تمام فرشتے ایک قسم کے هوں اور کوئی فرشته انسان کے مانند کمال والا نفس نه رکھتا هو! پس ممکن هے “فطرس” زمینی فرشتوں میں سے هو اور آسمانی و اخروی فرشتوں سے فرق رکھتا هو ـ[21]

جو کچھـ حضرت علی علیه السلام نے فرشتوں کی خصوصیات کے بارے میں توصیف میں بیان فرمایا هے، اس کے پیش نظر اگر اس کلام کو هم فرشته کی توصیف قرار دیں تو حضرت (ع) نے تمام فرشتوں کی توصیف بیان فرمائی هے، اس صورت میں سب سے نچلے درجه کے فرشتے بھی ان خصوصیات کے مالک هونے چاهئے ـ لهذا ان کے بارے میں معصیت کا تصور نهیں کیا جاسکتا هے، مگر یه که ترک اولٰی اور تنزلی گناه کی صورت میں ـ[22] لیکن اگر هم نے کها که حضرت علی علیه السلام نے ایک خاص قسم کے فرشتوں کی توصیف فرمائی هے اور اس سلسله میں کچھـ اور روایتیں بھی گواه هیں، تو همیں مذکوره دو توجیهات میں سے ایک کو قبول کرنا چاهئے ـ

بهرحال چونکه فرشتے غیرمادی مخلوقات هیں، اس لئے ان کی پهچان صرف آیات و روایات کے ذریعه هونا ممکن هے اور هر روایت سے استفاده نهیں کیا جاسکتا هے ـ بلکه روایتیں سند اور دلالت کے لحاظ سے مکمل طور پر قابل اعتماد هونی چاهئے، جب تک هم اس قسم کی کوئی روایت نه پایئں تب تک همارا مرجع صرف قرآن مجید کی آیات هیں ـ



[1] سوره بقره،285، ” آمن الرسول یما انزل الیھ من ربھ والمومنون کل آمن با الله و ملایکتھ و کتبھ ورسلھ” : “رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا هے جو اس کی طرف نازل کی گئی هیں اور مونین بھی سب الله اور ملائکه اور مرسلین پر ایمان رکھتے هیں ـ”

[2]  سوره انبیاء 26، “بل عباد مکرمون” ـ

[3] سوره انبیاء 27، “لایسبقونھ بالقول وھم بامره یعلمون” ،سوره تحریم، 6ـ

[4] سوره شوری، 5، “والملائکۃ یسمحون بحمد ربھم و یستغفرون لمن فی الارض” ـ

[5]  سوره بقره، 30 ـ 34 ـ

[6]  بحار انوار، ج 59، ص 174، ” ان الملائکۃ لا یاکلون ولا یشربون ولا ینکحون وانما یعیشون بنسیم العرش”ـ

[7]  بحار انوار، ج 59، ص 175، “لیس فیھم فترۃ، ولا عندھم غفلۃ، ولا فیھم معصیۃ. . . لا یغشاھم نوم العیون ولا سھوا العقول، ولا فترۃ الابدان،لم یسکنو الاصلاب ولم تضمھم الارحام”ـ

[8] سوره صافات 164 ـ 166 ، “ما منا الا لھ مقام معلوم و انا لنحن الصاقون وانا لنحن المسبحون”ـ

[9]  تفسیر نمونھ ، ج 18، ص 174 ـ 176.

[10] مصباح یزدی، محمد تق، اصول عقاید،ج 2، ص 121.

[11]  تفسیر نمونھ، ج 17، ص 304.

[12] سوره صفات، 164.

[13]  نھج البلاغه فیض الاسلام، خطبھ 1.

[14]  پرسش و پاسخ ھا در محضر آیت الله جوادی آملی، ج 2، ص 88.

 [15]  “وقالو اتخذ الرحمن ولدًا سبحانھ بل عباد مکرمون”،سوره انبیاء 26.

 اور لوگوں نے یه کهنا شروع کر دیا الله نے کسی کو بیٹا بنا لیا هے، حالانکه وه اس امر (عیب و نقص) سے پاک و منزه هے بلکه وه (فرشتے) سب اس کے محترم بندے هیں ـ

[16]  “یا ایھا الذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم ناراً وقودھا الناس والحجارۃ علیھا ملایکۃ غلاظ شدادً لا یعصون الله ما امرھم و یفعلون ما یومرون ” ایمان والو اپنے نفس اور اپنے اهل کو اس آگ سے بچاو جس کا ایندھن انسان اور پتھر هوں گے جس پر وه ملائکه معین هوں گے جو سخت مزاج اور تند و تیز هیں اور خدا کے حکم کی مخالفت نهیں کرتے هیں اور جو حکم دیا جاتا هے اسی پر عمل کر تے هیں ـ(سوره تحریم/ 6)

[17] آیت الله مکارم، درپرسش و پاسخھای حضوری.

[18]  مرتضی مطھری، توحید،ص 342،

19]  “یا ایھاالذین آمنواقواانفسکم و اھلیکم ناراً وقودھا الناس والحجارۃ علیھا ملایکۃ غلاظ شدادً لا یعصون الله ما امرھم و یفعلون ما یومرون”ـ سوره تحریم ، 6.

[20]  سوره صافات، 164.

[21]  توصیھ ھا، پرسشھا و پاسخ ھا در محضر آیت الله جوادی آملی، ج 2، ص 88ـ 87.

[22]  اس سلسله میں، جناب محمد احسانی فر کا فرشته فطرس کے بارے میں روایات پر تحقیقی مقاله ملاحظه هو: مجله علوم حدیث شماره 34، صفحه 68 تا 80 (سال نهم شماره چهاردم 1383 ھ ش) وه اس مقاله میں فطرس کی روایت کی سند کو قابل اعتبار جانتے هیں اور اسے گناه منزلتی جانتے هیں اور گناه منزلتی عصمت سے منافات نهیں رکھتا هے ـ

تبصرے
Loading...