کیا شیطان (ابلیس) جنّات میں سے هے یا فرشتوں میں سے؟

کیا شیطان (ابلیس) جنّات میں سے هے یا فرشتوں میں سے؟
ایک مختصر

شیطان، جنّوں سے هے یا فرشتوں میں سے هیں اس سلسله میں مختلف نطریات پائے جاتے هیں اور اس اختلاف نطر کا منشأ آدم علیه السلام کی تخلیق کا واقعه هے که جب الله کے حکم سے فرشتوں نے جناب آدم علیه السلام کو سجده کیا لیکن شیطان سجدے سے انکار کردیا۔

بعض حضرات کهتے هیں شیطان (ابلیس فرشتوں مین سے تھا،ان کی دلیل یه هے که چونکه آیت شریفه مین ابلیس ملائکه کے درمیان سے استثناء (جدا) کیا گیا هے (یعنی سارے ملائکه نے سجده کیا سوائے ابلیس کے) لهذا ابلیس ملائکه مین سے هے۔

ابلیس کا ملائکه کے درمیان سے جدا هونا اس بات پر دلیل نهیں هے که وه ملائکه میں سے هے یا ملائکه میں سے نهیں هے بلکه اس بحث سے یه نتیجه نکلتا هے که ابلیس (اپنی چند ساله عبادت کی وجه سے)ملائکه کے در میان اور انکی صفوں میں رهتا تھا لیکن بعد میں تکبر و نافرمانی اوردشمنی کی بنا پر بارگاه خدا اور جنت سے نکال دیا گیا۔

اس مدّعا کی تاکید پر چند مطالب مندرجه ذیل ذکر کئے جاتے هیں:

۱۔ پروردگار سوره کهف میں فرماتا هے ۔ کانَ مِنَ الجِن (آیت ۵۰) وه جنّات میں سے تھا۔

۲۔ خدا نے عمومی طور پر معصیت (گناه) کو ملائکه سے الگ رکھتا هے لهذا ملائکه معصوم هیں کبھی بھی گناه ،دشمنی ،غرور اور تکبر اور ایک دوسرے پر فخر نهیں کرتے هیں۔

۳۔ بعض آیتوں میں شیطان کے آباؤ اجداد کا تذکره هے جو اس مطلب پر دلیل هے که اولاد اور نسل بڑھانے کا رواج شیطان اور جنّات کے درمیان عام هے جبکه ملائکه روحانی مخلوقات هیں اور اس طرح کے مسائل حتّی ان کے یهاں کھانے پینے کا تصوّر بھی نهیں هے۔

۴۔ پروردگار بعض آیتوں میں اس طرح فرمایا هے: که هم نے ملائکه کو رسول بنایا هے اور رسول کا مطلب هے خدا کا بھیجا هوا جو رسول کے عنوان سے الله کی طرف سے منتخب هوتا هے جس کے یهان کفر،معصیت، خطا،اور هر طرح کی غلطی کا امکان نهیں هوتا هے لهذا کیسے ممکن هے که جو شیطان اتنے بڑے گناه کا مرتکب هوا هے وه ملائکه میں سے هو۔

اس کے علاوه علماء کا اجماع اور متواتر خبریں معصوم اماموں علیهم السلام کی جانب سے هم تک پهونچی هیں جو اس بات پر دلیل هیں که شیطان ملائکه میں سے هے اور هم کو معلوم هے که تواتر (پے در پے اور سلسله کا منقطع نه هونا ) حدیث کی سچائی کو آشکار کرنے کا اهم سبب هے ۔

تفصیلی جوابات

اس سوال کے پیش کرنے کا بنیادی سبب اور محور حضرت آدم علیه السلام کی خلقت کا واقعه هے که جس وقت الله نے حکم سنایا که میں انسان کو پیدا کروں گا تو فرشتے نهایت ادب و احترام کے ساﺗﻬ سوال اور استفهام کے غرض سے پوچھنے لگے ،که کیا پم تیری تسبیح و تحلیل کے لیئے کافی نهیں هیں ؟ اور اصولاً انسان کی تخلیق کس لیئے هے؟ اور جس وقت الله نے انسان کی خلقت کا راز بیان فرمایا اور فرشتوں کو خوشخبری سنائی که انسان زمین پر الله کا خلیفه هے تو فرشتوں نے خضوع و خشوع کے ساﺗﻬ اپنے پروردگار کی دعوت (جو حضرت آدم علیه السلام کے سجده پر موقوف تھی) کو قبول کرلیا۔

اور حضرت آدم علیه السلام کے آگے سجده کرنے کے لیئے سر کو خلوص و احترام کے ساﺗﻬ جھکادیا۔

انهیں فرشتوں کے درمیان یا یه کهنا بهتر هے که فرشتوں کے صفوں میں ابلیس موجود تھا جس نے ایک طولانی مدت تک خدا کی عبادت کی تھی ۔ لیکن اس کے اندر ایک راز چھپا تھا جس کوالله کے سوا کوئی نهیں جانتا تھا وه راز مدتوں پوشیده رها لیکن جب حضرت آدم کی خلقت کا سلسله آیا تو اس کی پرده گشائی هوگئی اور وه ابلیس کا کفر تھا که سجده نهیں کیا تو وه پوشیده کفر ظاهر و آشکار هوگیا ۔

جب الله نے تمام فرشتوں اور ابلیس کو (جو ان کے درمیان عبادتوں میں مصروف رهتا تھا) حکم دیا که آدم علیه السلام کو سجده کرو تو ابلیس کے علاوه سارے فرشتوں نے اطاعت کی اور اس نے حکم کی نافرمانی کی لهذا سجده نهیں کیا اس کا استدلال یه تھا که میں آگ سے خلق هوا هوں اور آدم خاک سے پیدا هوئے هیں یه کیسے ممکن هے که برتر وجود اپنے پستر وجود کا سجده کرے ؟

گویا ابلیس آدم علیه السلام کی خلقت سے غافل تھا اس نے یه نهیں دیکھا کے آدم علیه السلام میں الٰهی روح دوڑ رهی هے اور انسان کی انسانیت اور اسکی قدر و منزلت وهی ملکوتی گوهر هے جس کو اسکے پروردگار نے عطا فرمایا هے شیطان کی نگاه میں آگ ،مٹی سے زیاده لطیف تھی اگر چه اس قیاس میں بھی اس نے غلطی کی تھی که هماری بحث سے یه بات مربوط نهیں هے۔ اس نے صرف انسان کی ناسوتی و بدنی پهلو کو دیکھا اور اس کی انسانیت کے عظیم مرتبه سے غافل هوگیا تھا ، جس کا نتیجه یه هوا که شیطان دوعمل کے مقابل دورد عمل کا شکار هوکر جنّت اور الله کے عالی بارگاه سے نکالا گیا

اس کا پهلا رد عمل: انسان کی خلقت کی نسبت خود پر فخر کرنا اور دوسرا رد عمل : اس کا غرور و تکبر تھا جس کا نتیجه خدا اور اس حکم کی مخالفت کی شکل میں ظاهر هوا ۔

اب یه بحث باقی هے که کیا شیطان (ابلیس) ملائکه میں سے تھا یا نهیں ؟ اس سوال کا جواب دینے سے پهلے همارے لیئے اس سوال کے مفردات کو مختصرطور پر مد نظر رکھنا ضروری هے تا که توفیق خدا کے ساﺗﻬ مستحکم و یقینی اور زیاده علمی جواب دیا جا سکے ۔

اس لیئے چند الفاظ کی وضاحت اور تحقیق ضروری هے ۔

(الف) شیطان (ب) ابلیس (ج) فرشته (د) جنّات

 

(الف) شیطان : کلمه شیطان ،شَطَن سے نکلا هے اور شاطن سے مراد خبیث و پست ، سرکش و نافرمان،ظالم و ستمگر وجود هے چاهے انسان هو یا جنّات یا دوسرے حیوانات هوں حتّیٰ بد کار اور حق سے دور روح کے معنی میں نیز آیا هے که در حقیقت حیوانات سارے مفاهیم کی قدر مشترک ایک هے ۔

لهذا شیطان اسم عام (اسم جنس) هے جو منحرف کرنے اور اذیت دینے والا وجود هے (چاهے انسان هو یا غیر انسان ) هر ایک پر استعمال هوتا هے ۔

قرآن مجید اور معصوم اماموں علیهم السلام زبان میں بھی شیطان کسی خاص وجود کے لیئے استعمال نهیں هواهے بلکه بدکار انسانوں یا حتّی حسد جیسے ناپسند اخلاق کو بھی شیطان بتایا گیا هے [1]

(ب) ابلیس : اسم خاص (عَلَم) هے که جس کا صرف ایک مصداق هے اور وه یه هے که اس عالم امکان میں جو پهلی مرتبه گناه کا مرتکب هوا ، اور جس نے اپنے پروردگار کے سامنے اپنے استقلال و اختیار کو ظاهر کیا ، فخر اور غرور و تکبر کا اظهار کیا اور اپنے خدا کا حکم ماننے سے انکار کیا جس کے نتیجه میں جنت سے نکالا گیا۔

ابلیس کا نام “غرازیل”[2] هے اور ابلیس”ابلاس” سے نکالا هے در حقیقت یه اس کا لقب هے ابلاس کا مطلب مایوس هونا هے اور شاید اسی وجه سے اس کو ابلیس کها جاتا هے کیونکه وه رحمت خدا سے مایوس هوا لهذا اس نے یه لقب پایا۔

(ج) فرشته: پهلے فرشتوں کی بعض صفات په اشاره کرنا مناسب اور بهتر هے تا که یه نتیجه نکالا جا سکے که چونکه فرشته گناه نهیں کرسکتا هے اس بنا پر شیطان فرشتوں میں سے نهیں هو سکتا هے [3]۔ فرشتے وه موجودات هے جن کو قرآن مجید میں خدا نے بهترین تعریف و توصیف سے نوازا هے اور فرماتا هے (بَل عِباد المکرَمون لا یَسبقونهُ بالقول ِ و ھُم بامرهِ یعلمون)[4] بلکه وه سب اس کے محترم بندے هیں جو کسی بات پر اس پر سبقت نهیں کرتے هیں اور اسکے احکام پر برابر عمل کرتے هیں ۔

فرشتوں کے اندر خلاف حق کوئی چیز نهیں هے وه همیشه اور هر حال میں اپنے پروردگار کی اطاعت میں مشغول هیں وه معصوم مخلوقات هیں ،اپنے آپ اور اپنے ضمیر کو کبھی بھی گناه سے آلوده نهیں کرتے ۔ سب سے زیاده اهمیت کی بات یه هے که وه اپنے پروردگار کے سامنے مطیع و فرمانبردار هیں جس چیز کو نهیں جانتے اس کے سامنے عاجزی کا اظهار کرتے هیں اور جس چیز کو جانتے هیں اس کے سامنے غرور و تکبّر ،فخر و مباحات نهیں کرتے ۔ کیونکه ان کو یقین هے که یه سب ان کے پروردگار کی جانب سے

هے ۔ اگر ایک لمحه اس کے ارادے کا تعلّق کسی چیز کے نه جاننے پر هو تو وه جو ﻜﭽﻬ جانتے هیں وه بھی نادانی میں بدل جائے گا ۔

ملائکه اور شیطان کے در میان فرق آدم علیه السلام کی تخلیق اور ان کو سجده کرنے کے واقعه میں ظاهر هوا کیونکه فرشتوں نے یه دل و جان سے قبول کر لیا تھا که وه اسماء کا علم نهیں رکھتے هیں یعنی وه ﺴﻤﺠﻬ گئے که وه ﻜﭽﻬ چیزوں کو نهیں سمجھتے هیں ۔ لیکن شیطان جو غرور و تکبر اور دشمنی کے سبب یه سمجھتا تھا که اس کو هر چیز کا علم هے اور وه اس بات کو هرگز نهیں سمجھتا تھا که آدم علیه السلام کو سجده ان علوم کی وجه سے هے جس کی الله نے آدم علیه السلام کو تعلیم دی تھی ۔اور شیطان کا تاریک ذهن ان علوم تک رسائی نهیں رکھتا تھا یعنی اس کا غرور ان کو سمجھنے سے قاصر تھا اور آخر میں سجده کا انکاراسکی گردن کا طوق بن گیا کیونکه اس کا سجده سے انکار کرنا غروری انکار تھا ایسا نهیں تھا که وه سجده کرنے کی طاقت یا توان نهیں رکھتا تھا ۔

ان بیانات سے واضح هو جاتا هے که فرشتے خالص معصوم هیں ان کے اندر گناه کا کوئی راسته نهیں هے اور جب وه کوئی گناه نهیں کرتے تو ان کے سارے امور خالص اطاعت پروردگار هیں اور اگر کسی مخلوق کے لیئے اطاعت واجبار ضروری هوگئی تو کفر ، غرور و تکبر اور گناه اس کے لیئے منع هوجاتا هے ۔(یه شیطان اور فرشته کے فرق پر پهلی عقلی دلیل هے جس کا نتیجه فرشته کا شیطان نه هونا هے ) تمام عقلی و شرعی دلیلوں کے بیان سے پهلے جن کے بارے میں مختصر توجیح دینا ضروری هے ۔

(د) جنّ : حقیقت میں ایسا وجود هے جو انسان کے حواس سے پوشیده هے اور قرآن مجید نے اس مخلوق کی تصدیق کی هے اور اس کے بارے میں چند مطالب بیان فرمائے هیں اور اس کے جنس کو آگ سے جانا هے جس طرح نوع بشر کی تخلیق خاک سے هے البته ان موجودات کی تخلیق انسان سے پهلے هوئی هے [5] ۔

بعض علماء نے جنّات کو ایک قسم کی عقل رکھنے والی روحوں مین سے تعبیر کیا هے جو مادّه سے خالی هیں البته یه بات ظاهر هے که وه کامل تجرد نهیں رکھتے هیں کیونکه جو چیز آگ سے پیدا هوئی هے وه مادّی هے اور یه ایک نصف تجرد کی حالت اور دوسری تعبیر میں وه ایک قسم کا لطیف جسم هے [6]۔

قرآن مجید کی آیتوں سے یه معلوم هوتا هے که جنّات بھی بشر کے مانند هیں ان کے پاس بھی اراده و شعور هے ۔ وه سخت کامون کو بھی انجام دے سکتے هیں وه مؤمن اور کافر بھی هیں بعض نیک هیں تو بعض برے هیں انسان کی طرح ان کے لیئے بھی زندگی و موت کا رواج هے اور قیامت و غیره مرحله هے ان میں بھی مذکر اور مونث هیں ۔اورشادی بیاه اور نسل بڑھانے کا رواج هے لیکن اصل مسئله یه هے که ابلیس ملائکه میں سے هے یا نهیں هے اس سلسلے میں علماء کے درمیان نظریه کا اختلاف هے شاید اس اختلاف کی وجه قرآن مجید کی آیتیں هیں ۔

بعض حضرات کهتے هیں شیطان (ابلیس) ملائکه میں سے هے۔ ان کی بهترین دلیل یه آیت هے جس میں پروردگار نے فرمایا هے ” وَ اِذ قُلنا للملائکۃِ اسجُدوا لآدم فَسجدوا الّا ابلیسَ [7] اور یاد کرو وه موقع جب هم نے ملائکه سے کها که آدم علیه السلام کو سجده کرو تو ابلیس کے علاوه سب نے سجده کر لیا ۔ کیونکه اس آیت میں ابلیس سجده کرنے سے استثناء (جدا) هوا هے اور مستثنیٰ منه (جو سجده کرنے والے هیں) ملائکه هیں نتیجه میں ابلیس ملائکه میں سے هے۔

لیکن حق یه هے که ابلیس جزو ملائکه نهیں هے کیونکه متواتر روایتیں جو معصوم اماموں علیهم السلام سے نقل هوئی هیں اور امامیه (شیعه اثنا عشری) اس پر اجماع رکھتے هیں یه سب اس بات پر تاکید هے که بلیس جنّات میں سے هے نه ملائکه میں سے ! اور اس مطلب پر چند دلیلں موجود هین ان میں سے هم ﻜﭽﻬ اهم دلیلوں کی جانب اشاره کرتے هیں:

۱۔ الله نے فرمایا هے ابلیس، “کانَ منَ الجنِّ ” یعنی وه جنّات میں سے تھا[8]۔

۲۔ دوسری جگه فرماتا هے “لا یعصونَ الله ما امرھم و یفعلونَ ما یؤمرونَ”[9]۔

فرشتے الله کے حکم کی مخافت نهیں کرتے هیں اور ان کو جو حکم دیا جاتا هے اسی پر عمل کرتے هیں یعنی عمومی صورت میں ملائکه کو گناه سے منع کیا گیا هے اور اس سے یه معلوم هوتا هے که ایک یه که ملائکه میں سے کوئی ایک اور دوسرے کسی بھی طرح کی معصیت کے مرتکب نهیں هوتے هیں ۔

۳۔ اسی طرح ایک اور موقع پر ارشاد فرماتا هے ” أفَتَتَّخَذونَهُ وذیّ تیه اولیاء من دونی و ھم لَکُم عدو”[10]۔ کیا تم مجھے چھوڑکر شیطان اور اس کی اولاد کو اپنا سرپرست بنا رهے هو جب که وه سب تمهارے دشمن هیں۔ اس سے پتا چلتا هے جنّاتوں کے درمیان ذرّیت اور نسل یا دوسرے الفاظ می اولاد پیدا کرنا اور نسل بڑھانا پایا جاتا هے جبکه فرشتوں کی خلقت روحانی هے اس طرح کے مسائل ان کے یهاں نهیں پائے جاتے هیں ۔

۴۔ جیسا که اس آیت شریفه میں فرمایا هے که” جاعلِ الملائکۃِ رُسُلاً”[11]،یعنی خداوند عالم ملائکه کو اپنا پیغامبر بنایاهے اور هم کو معلوم هے که خدا کے رسول کے لیئے گناه اور کفرجائز نهیں هے ۔

لیکن جو لوگ ابلیس کو فرشتوں سے استثناء (الگ) قرار دیتے هیں ان کے لیئے یه جواب کافی هے که ابلیس کا ملائکه سے استثناء (جدا) هونا کسی بھی صورت میں اس بات پر دلالت نهیں کرتا هے که وه ملائکه میں سے هے آخری بات جو اس مطلب سے ﺴﻤﺠﻬ میں آتی هے وه یه هے که ابلیس ملائکه کے درمیان اور ان کی صف میں حضور رکھتا تھا اور فرشتوں کی طرح اسے بھی سجده کرنے کا حکم دیا گیا تھا حتی بعض لوگوں نے تو یه بھی کها هے که یه استثنائے منقطع هے یعنی جملے میں استثنیٰ منه کا وجود نهیں هے [12]

ابلیس کی تعریف میں یه بیان کیا جاتا هے که اس نے تقریباً 6 هزار سال خدا کی عبادت کی هے ۔ لهذا جو مخلوق زیاده مدّت تک الله کی عبادت میں مصروف تھی اس کا ملائکه کی صف میں داخل هونا کوئی بعید اور مشکل امر نهیں هے ۔

امام صادق علیه السلام سے پوچھا گیا که کیا ابلیس ملائکه مین سے هے یا تمام آسمانی مخلوقات کا جزو هے؟ تو آپ علیه السلام نے فرمایا نه ملائکه میں سے هے نه تمام آسمانی مخلوقات میں سے ،بلکه وه جنّات هے لیکن ملائکه کے ساﺗﻬ تھا ، ملائکه نے بھی گمان کیا که وه ان کا جزو هے لیکن خدا کو معلوم تھا که وه ایسا نهیں هے اور یه سلسله جاری رها یهاں تک آدم علیه السلام کو سجده کرنے کا مسئله پیش آیا اور ابلیس کا پوشیده راز آشکار هوگیا [13]

مزید مطالعه کے لیئے چند منابع مندرجه ذیل ذکر کئے گئے هیں :

۱۔ کتاب مجمع البیان مؤلف مرحوم طبرسی جلد ۱ صفحه 163 ذیل آیت 34 سوره بقره

۲۔ کتاب تفسیر المیزان مؤلف علامه محمد حسین طباطبائی جلد ۱ صفحه 122 و جلد8 صفحه20

۳۔ کتاب تفسیر موضوعی قرآن کریم مؤلف عبد الله جوادی آملی جلد 6 ، خلقت آدم سے مربوط بحث

۴۔ کتاب معارف قرآن مؤلف محمد تقی مصباح یزدی 1-3 صفحه 297

۵۔ تفسیر نمونه – جلد ۱ ذیل آیت سوره بقره و جلد ۱۱ صفحه 8 کے بعد

[1] راغب اصفهانی ،مفردات، مادّه شطن ۔

[2] مجمع البیان مرحوم طبرسی جلد 1 صفحه 165 چاپ بیروت ۔

[3] آیت شریفه مین کلمه ملائکه (یعنی فرشتے) جمع ک صورت میں ‘الف’ اور ‘لام’ کے ساﺗﻬ آیا هے یعنی تمام فرشتوں نے آدم علیه السلام کو سجده کیا۔

[4] سوره انبیاء آیت 26 – 27۔

[5] و الجانّ خَلَقناهُ مِن النّار السَّموم ۔ سوره حجر آیت 27 ۔اور هم نے جنات کو اس سے پهلے زهریلی آگ سے پیدا کیا هے ۔

[6] علماء کا ایک گروه، تفسیر نمونه جلد11 صفحه 79 – 80۔

[7] سوره بقره آیت 36 ۔

[8] سوره کهف آیت 50۔

[9] سوره تحریم ،آیت 6۔

[10] سوره کهف ،آیت 50۔

[11] سوره فاطر ،آیت 1 – سوره حج آیت 75۔

[12] البته یهاں پر دوسری دلیلیں بھی بیان هوئی هیں مختصر بحث کی بنا پر ان کو ذکر نهیں کیا گیا هے اگر آپ خواهشمند اور صاحب رغبت هیں تو تفسیر مجمع البیان میں سوره بقره آیت 34 کے ذیل میں ملاحظه کریں ۔

[13] کتاب مجمع البیان ،مؤلف مرحوم طبرسی جلد1 ، صفحه 163 ، چاپ بیروت۔

 

تبصرے
Loading...