کیا خداوند متعال کے علاوه کوئی غیب کا عالم ھے۔

اس سوال کا جواب تین محوروں میں (بنیادوں پر ) دیا جاسکتا ھے:

 

پھلا محور : علم غیب کیا ھے؟

 

غیب کے معنی، کسی چیز کے حواس و ادراک سے مخفی ھونے کے ھیں۔ اھل لغت کھتے ھیں : ” الغیب کل ما غاب عنک” یعنی جو بھی چیز غائب اور تم سے مخفی ھو ، اسے غیب کھتے ھیں[1] اس لئے جب سورج ڈوبتا ھے ، تو عرب اسے کھتے ھیں : ” غابت الشمس” یعنی سورج غائب ھوگیا اور آنکھوں سے اوجھل ھوگیا [2]

 

لیکن شھود کے مقابلے میں غیب ( جو قرآنی و کلامی اصطلاحات میں سے ھے) ایک ایسے امر سے متعلق ھے جو ماده اور عالم محسوسات سے بالاتر اور عام اور مادی حواس سے ادراک نھیں کیا جاسکتا ھے ۔ بلکھ اس کے ادراک ، احساس اور شھود دوسرے آلات ووسائل کے محتاج ھیں۔

 

علامھ طباطبائی اس سلسلھ میں کھتے ھیں : ” غیب اور شھود (حضور) دونسبتی معانی ھیں ، یعنی ایک ھی چیز ممکن ھے ایک چیز کی بھ نسبت مخفی ھو اور ایک دوسری چیز کی بھ نسبت حاضر ھو ، یھ اس لئے ھے کھ مخلوقات ، لا محدود نھیں ھیں اور اپنے حدود سے جدا و منفک نھیں ھوتے ھیں ۔ اس بنا پر ، ھر وه چیز جو حدود کے اندر دوسری چیز کے احاطھ میں ھو، وه اس کے لئے شھود ھے ، چونکھ مشھود اس کا ادراک ھے ، اور اگر اس کی حد سے خارج ھو ، تو اس کے لئے غیب ھوئی ، کیونکھ مشھود اسکا ادراک نھیں ھے۔ [3]

 

دوسرا محور: غیب کا عالم کون ھے؟

 

مذکوره تجزیھ سے غیب کے بارے میں جو نتیجھ نکلتا ھے ، وه یھ ھے که علم غیب مکمل صورت میں خداوند متعال کے اختیار میں ھے ، کیونکھ اس کا تمام عالم پرھر جھت سے احاطھ ھے اور وه عالم پر محیط ھے اور کوئی بھی چیز اس کی ھستی کے حدود سے باھر نھیں ھے اور کوئی بھی چیز اپنے حدود کے ڈھانچھ میں ، اپنے آپ کو خداوند متعال سے مخفی نھیں رکھه سکتی ھے ، قرآن مجید کی بھت سی آیات میں ان معانی کا مختلف صورتوں میں اظھار کیا گیا ھے ھے جیسے :

 

” وه غایب و حاضر سب کا جاننے والا بزرگ و بالاتر ھے ” [4]

 

” آپ ( اے پیغمبر !) کھدیجئے کھ تمام غیب کا اختیار پروردگار کو ھے ” [5]

 

” کھدیجئے :کھ آسمان و زمین میں غیب کا جاننے والا اللھ کے علاوه کوئی نھیں ھے” [6]

 

بظاھر ان آیات کے ابتدائی معانی یھ ھیں کھ ، خداوند متعال کے علاوه کوئی غیب کا عالم نھیں ھے ، لیکن ان کے مقابل کچھه ایسی آیات بھی ھیں ، جن سے معلوم ھوتا ھے کھ اولیائے الھی بھی اجمالی طورپر غیب سے آگاھی رکھتے ھیں، جیسے :

 

” وه تم کو غیب پر مطلع نھیں کرنا چاھتا ، ھاں اپنے نمایندوںمیں سے کچھه لوگوں کو اس کام کے لئے منتخب کرلیتا ھے ۔۔۔۔” [7]

 

“وه عالم الغیب ھے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نھیں کرتا ھے ، مگر جس رسول کو پسند کرے ۔۔۔۔” [8]

 

حضرت عیسی علیھ السلام کے معجزوں کے بارے میں آیا ھے :

 

” اور تمھیں اس بات کی خبردونگا کھ تم کیا کھاتے ھو اور گھر میں کیا ذخیره کرتے ھو۔۔۔”[9]

 

آیات کے علاوه، بھت سی ایسی روایتیں پائی جاتی ھیں ، جن سے معلوم ھوتا ھے کھ پیغمبر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم اجمالی طورپر غیب کے بارے میں آگاھی رکھتے تھے۔

 

غیب کے بارے میں ان کی آگاھی کم ازکم دو صورتوں میں تھی:

 

پھلی صورت : پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کا وحی اور اس کے نازل ھونے کے بارے میں خبر دینا ھے کھ یھ بذات خود ایک قسم کی غیبی خیر ھے جوآپ (ص) کے اختیار میں ھے۔

 

دوسری صورت : ان کا (پیغبمر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم و ائمھ اطھار علیھم السلام کا) مستقبل کے بارے میں خبر دینا اور صحیح پیشنگوئیاں کرنا ھے۔جیسے پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کا جنگ موتھ اور حضرت جعفر طیار اور کئی دوسرے اسلامی کمانڈروں کے شھید ھونے کے ماجرا کی خبر دینا ، اس سلسلھ میں پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے جنگ کے آغاز پر ھی مدینھ منوره میں لوگوں کو آگاه فرمایا تھا، [10] بھت سی روایتوں میں معصومین علیھم السلام کے علم غیب کے بارے میں آگاھی رکھنے کی طرف اشاره ھوا ھے [11] اور ان روایتوں کے بارے میں متواتر ھونے کا دعوی کیا جاسکتا ھے۔ [12]

 

لیکن دوسرے محور کی آیات و روایات اور پھلے محور کی آیات کو آپس میں جمع کرنے کی کیفیت کے سلسلھ میں مندرجھ ذیل مطالب کی طرف اشاره کیا جاسکتا ھے :

 

۱۔ خداوند متعال سے مخصوص علم غیب ، ذاتی اور مستقل علم ھے ، اس بنا پر ، خدا کے علاوه غیب کے بارے میں مستقل طورپر کوئی آگاھی نھیں رکھتا ھے ، بلکھ یھ صرف خداوند متعال کی ھی مھربانی اور عنایت ھے کھ دوسرے لوگ بھی علم غیب کے بارے میں آگاھی حاصل کرتے ھیں اور دوسروں کی یھ آگاھی خدا کے تابع ھوتی ھے ۔

 

۲۔ غیبی علوم کو تفصیلی طور پر، صرف خداوند متعال جانتا ھے اور خدا کے علاوه علم غیب سے آگاه ھونے والے افراد اجمالی آگاھی پاتے ھیں ،یعنی ان امور کے جزئیات کی آگاھی خداوند متعال سے مخصوص ھے۔

 

۳۔ خداوند متعال تمام غیبی اسرار کے بارے میں بالفعل آگاه ھے ، لیکن انبیائے الھی و ئمھ اطھار علیھم السلام اور بعض اولیائے الھی ممکن ھے بھت سے غیبی اسرار کو بالفعل نھ جانتے ھوں ، لیکن جب خداوند متعال اراده فرمائے تو وه آگاه ھوتے ھیں یا جب خود اراده کرتے ھیں تو خداوند متعال کے اذن و رضا سے غیبی علم کے بارے میں مطلع ھوتے ھیں۔

 

اس مطلب کی تائید میں ایک روایت ھے کھ امام صادق علیھ السلام ایک حدیث میں فرماتے ھیں کھ : ” جب امام (ع) کسی چیزکو جاننے کے بارے میں اراده کرتا ھے ، تو خداوند متعال اسے اس کی تعلیم دیتا ھے” ۔ [13]

 

اس کے علاوه، قرآن مجید میں کئی ایسی آیات ھیں جو یھ بیان کرتی ھیں کھ ایک قسم کی خاص معرفت ھے ،جو تھذیب نفس، شریعت پر عمل کرنےا ور حق اور عالم قدس کی طرف سیر و سلوک کرنے سے حاصل ھوتی ھے ، جیسے ارشاد الھی ھے : ” ایمان والو ! اگر تم تقوی الھی اختیار کرو گے تو وه تمھیں حق و باطل میں فرق جاننے ( حق کو باطل سے پھچاننے ) کی صلاحیت عطاکردے گا۔۔۔۔”[14]

 

حضرت علی علیھ السلام قرآن مجید کی اس آیت : ” وه مرد جنھیں کاروبار یا دیگر خرید و فروخت ذکر خدا ۔۔ سے غافل نھیں کرسکتی “[15] کی تلاوت کرتے وقت فرماتے تھے۔ خداوند متعال نے اپنی یاد سے دلوں کو روشنی بخشی ھے ، تاکھ کان ، بھرے ھونے کے بعد سن سکیں اور آنکھیں نابینا ھونے کے بعد دیکھه سکیں اور جنگ کے بعد دلوں کو آرام و سکون مل سکے ۔ جس زمانھ میں کوئی پیغمبر نھ ھو ، ھمیشھ خداکے ایسے بندے ھوتے ھیں جن کے ساتھه خداوند متعال ان کی فکرو عقل کی راه سے راز و نیاز کی گفتگو کرتا ھے۔ [16]

 

بحث کا تیسرا محور

 

اب ھم سوره لقمان کی آیت نمبر ۴۳ پر بحث کرتے ھیں ، خداوند متعال اس آیھ شریفھ میں ارشاد فرماتا ھے:

 

“یقینا اللھ ھی کے پاس قیامت کا علم ھے اور وھی پانی برساتا ھے اور شکم کے اندر کا حال جانتا ھے اور کوئی نفس یھ نھیں جانتا ھے کھ وه کل کیا کھائے گا اور کسی کو نھیں معلوم کھ اسے کس زمیں پر موت آئے گی ، بیشک اللھ جاننے والا ھے۔”

 

اس آیھ شریفھ کی دوصورتوں میں تفسیر ممکن ھے:

 

الف ) اس سے پھلی والی آیت میں قیامت کے بارے میں کی گئی بحث کی نسبت سے اس آیھ شریفھ میں ان علوم کے بارے میں اشاره ھوا ھے جو خدا وند متعال کی پاک ذات سے مخصوس ھیں اصطلاح میں انھیں ” غیبی علوم ” کھتے ھیں۔[17] اس آیت میں اس کی پانچ صورتوں کی طرف اشاره کیا گیا ھے:

 

۱۔ قیامت کے وقت کی آگاھی : یھ سوال مشرکین نے کئی بار پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم سے پوچھا ھے کھ:” قیامت کب آئے گی ” [18] قرآن مجید میں اس کا یھ جواب دیا گیا ھے کھ خداوند متعال کے علاوه اس لمحھ کے بارےمیں کوئی آگاه نھیں ھے اور خداوند متعال نے اسے سب سے مخفی رکھا ھے۔

 

ارشاد ھوتا ھے: ” یقینا وه قیامت آنے والی ھے اور میں اسے چھپائے رکھتا ھوں”[19]

 

۲۔ بارش ھونے کا وقت : بارش کب ، کھاں اور کس قدر ھوگی ، یھ علم خداوند متعال کو ھی ھے اور دوسرے لوگ صرف گمان کی حد تک اس کی اطلاع رکھه سکتے ھیں۔

 

۳۔ جو ماں کے شکم میں ھے : یعنی جنین کی نوع اور ظاھری و باطنی خصوصیات اس بنا پر ممکن ھے ، انسان کے اختیار میں ایسے وسائل ھوں جنسے قطعی طورپرجنین کی نسیت کے بارے میں آگاھی ھوجائے ۔ لیکن اس کے جسم و روح کی خصوصیات ، اس کی صلاحیتوں ، علمی ، فلسفیاتی و ادبی ذوق اور اس قسم کی ھزاروں خصوصیات سے آگاھی خدا کے علاوه کسی اور کے لئے ممکن نھیں ھے۔ [20]

 

اس طرح جنین کے مستقبل ، اس کے انجام اور اس کی سعادت و بدبختی اور دوسرے امور کے بارے میں آگاھی ، خداوند متعال کے علاوه کسی کے لئے ممکن نھیں ھے ۔

 

۴۔ مستقبل کے حوادث اور ان کی خصوصیت اور تفصیلات اور ھر شخص کے مستقبل میں انجام دے جانے والے کام۔

 

۵۔ سر انجام یھ کھ انسنا کس سرزمیں پر اس دنیا سے رخصت ھوگا۔

 

تفسیر کے مطابق، مذکوره صورتیں علم غیب شمار ھوتی ھیں اور خداوندم متعال سے مخصوس ھیں ، اگر کھا جائے کھ پھر   روایات میں کیوں ان آگاھیوں میں سے بعض ائمھ اطھار علیھم السلام کے لئے ثاب ھوئی ھیں ، تو ھم جواب میں کھیں گے کھ : ان امور میں سے بعض کے اجمالی علم کی صورت میں آگاھی وه بھی تعلیم الھی کے ذریعھ   خداوند متعال کے مخصوص تفصیلی علم کے ساتھه کسی قسم کا تضاد نھیں رکھتی ھے بلکھ اس کا عرضی و تعلیمی پھلو ھے اور یھ آگاھی و علم خداکی تعلیم کے ذریعھ حاصل ھوتا ھے اور اسی حد و مقدار میں ھوتا ھے جسے خدا چاھے اور مصلحت جانے۔ [21]

 

ب) اس آیھ شریفھ کے مختلف حصے یکسان صورت میں نھیں ھیں اور ان کے بیان کا طریقھ مختلف ھے ، اس آیت کے پھلے جملھ سے معلوم ھوتا ھے کھ قیامت کے وقت کے بارے میں آگاھی خداوند متعال سے مخصوس ھے اور اس کے علاوه کوئی اور اس بارے میں آگاه نھیں ھے ، یھ مطلب لفظ ” علم الساعۃ” پر لفظ ” عنده” کے مقدم ھونے سے معلوم ھوتا ھے ، جو عربی ادبیات کے قواعد کے مطابق حصر کی علامت ھے ، اس کے علاوه کئی دوسری آیات بھی اس قسم کے علم کے منحصر ھونے کی گواھی دیتی ھیں۔

 

لیکن زیر بحث آیت کے دوسرے حصھ میں ھم مشاھده کرتے ھیں کھ بیان کا طریقھ تبدیل ھوتا ھے اور حصر کی صورت میں بات نھیں کی جاتی ھے آیت کے اس حصھ سے معلوم ھوتا ھے کھ خداوند متعال پانی برسنے کے اوقات اور ماں کے شکم میں موجو جنین کے بارے میں آگاه ھے ، اور اس میں قید و شرط کا ذکر نھیں ھے کھ یھ علم صرف خداوند متعال سے مخصوص ھے اور اس کے علاوه کوئی شخص اس سے آگاه نھیں ھے یا مستقبل میں اس سے آگاه نھیں ھوگا۔

 

اس بنا پر پانی برسنے اور ماں کے شکم میں موجود جنین کے بارے میں خدا کا علم ، اس امر سے کوئی ٹکراؤ نھیں رکھتا ھے کھ بندے بھی وحی الھی یا غیبی الھام یا کسی دوسرے ذرائع سے ان امور کے بارے میں آگاھی حاصل کرسکیں ، فرق صرف یھ ھے کھ خداوند متعال کا علم ذاتی اور ضروری ھے اور دوسروں کا علم اکتسابی و امکانی ھے۔

 

چوتھے اور پانچویں حصھ میں  بات کھنے کا طریقھ اور بھی بدل جاتا ھے ، ان دو حصوں میں بات کا محور انسان کی تقدیر اور موت کی جگھ کے بارے میں خدا کی آگاھی ھے یھ عدم آگای قانون فطرت کے مطابق ھے کھ کوئی بھی شخص ذاتی طورپر غیب اور پس پرده سے آگاه نھیں ھے ، لیکن یھ چیز اس امر میں رکاوٹ نھیں بن سکتی ھے کھ خداوند متعال ، بعض اولیائے الھی کو ان کے مستقبل کے کام یا مرنے کی جگھ کے بارے میں آگاه نھ کرے ۔[22]

 

مختصر یھ کھ آیھ شریفھ کے پھلے حصھ کے بارے میں قرآن مجید کی دوسری آیات کی مدد سے معلوم ھوتا ھے کھ قیامت برپا ھونے کے وقت کے بارے میں آگاھی خداوند متعال کے علم سے مخصوس ھے اور اسکے علاوه اس سے نھ کوئی آگاه تھا اور نھ آگاه ھوگا۔

 

لیکن آیھ شریفھ کے باقی چار حصوں میں ، بات کا لھجھ اور طریقھ یھ ھے کھ خداوند متعال پانی برسنے کے وقت اور ماں کے شکم میں موجود جنین کے بارے میں آگاه ھے اور کوئی اپنے مستقبل اور موت کے وقت سے آگاه نھیں ھے۔ لیکن ان کے بارے میں علم کو خداسے مخصوس نھ کیا گیا ھے پس ممکن ھے دوسرے لوگ بھی خداکی تعلیم یا وحی و الھام یا دوسرے طریقوں سے ، ان امور کے بارے میں آگاھی حاصل کرسکتے ھیں۔

 



[1] قریشی ، سید علی اکبر ، قاموس قرآن ج ۵ ، ص ۱۳۲۔

[2]  ابن فارس ، معجم مقاییس اللغۃ ، ماده “غیب”

[3]  المیزان ، ج ۱۱، ص۴۱۸

[4]  سوره رعد / ۹

[5]  یونس / ۲۰

[6]  سوره نمل / ۶۵

[7] سوره آل عمران / ۱۷۹ آیت کا مفھوم یھ ھے کھ خداوند متعال علم غیب کو انبیاء کے اختیار مین قرار دیتا ھے۔

[8]  سوره جن / ۲۷۔۔ ۲۶

[9]  آل عمران / ۴۹۔

[10]  ابن اثیر ، الکامل فی التاریخ ، ج ۲ ص ۲۳۷۔

[11]  کلینی ، اصول کافی ، ج ۱ اس سلسلھ میں متعدد ابواب پائے جاتے ھیں۔ مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار، ج ۲۶۔

[12]  تواتر: علم حدیث کی اصطلاح میں کسی خاص مطلب کو زیاده نقل ھونے کوکھتے ھیں البتھ اس قید کے ساتھه کھ اس میں راویوں کے بارے میں جھوٹ بولنے پر اتفاق کی نفی ھو۔

[13] اصول کافی ، ج۱ ، با ” ان الائمۃ اذا شاؤوا ان یعلموا علموا ” ح ۳۔

[14]  سوره انفال / ۲۹۔

[15]  سوره نور / ۳۷۔

[16]  نھج البلاغه ، ترجمھ فولادوند۔ مھدی، خ ۲۱۳۔

[17]  اس کا اصلی متن اس طرح ھے: ان اللھ عنده علم الساعۃ و ینزل الغیب و یعلم ما فی الارحام و ما تدری نفس ما ذا تکسب غدا و ما تدری نفس بای ارض تموت ان اللھ علیم خبیر” ۔

[18]   اسراء / ۵۱۔

[19]  سوره طھ / ۱۵۔

[20]  مکارم شیرازی، ناصر ، تفسیر نمونھ ، ج ۱۷، ص ۹۹۔

[21]  ایضا ً / ص ۱۰۰۔

[22]  مربی نمونھ ، ( تفسیر سوره لقمان ) ، سبحانی ، جعفر، ص ۲۱۱، ۲۱۲۔

تبصرے
Loading...