واجب الوجود، جو بسیط هے اور اس کی ذات میں کسی قسم کی ترکیب نهیں هے، کے ساتھه ممکن الوجود کا کیسے تصور کیا جا سکتا هے؟

حکمت متعالیه کے پیروکار وحدت تشکیکی کے معتقد هیں، انهوں نے ابتداًء عالم میں موجود کثرتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا هے اور وه اعتقاد رکھتے هیں که ان کثرتوں میں سے ایک قسم مُتبائِنه کثرتیں هیں اور دوسری قسم وه کثرتیں هیں جو وحدت کی طرف پلٹتی هیں- اس سلسله میں وجود کی گردش عدد کی گردش هے- جیسے عدد میں دو قسم کی کثرت کا وجود هے: ایک قسم کی کثرت، معدود کے لحاظ سے هے، جیسے دس کتابیں اور دس قلم وغیره، اور دوسری کثرت عدد کے لحاظ سے هے اور وه وحدت کی طرف پلٹتی هے، جیسے دس، بیس، تیس اور چالیس وغیره میں پائی جانے والی کثرت- کیونکه ان اعداد کا اشتراک اور امتیاز خود عدد میں هے اور اجنبی کے متعدد اعداد میں واقع هونے کی کوئی گنجائش نهیں هے که ان کی کثرت وحدت اور اور اصل کی طرف پلٹ نه جائے- وجود میں بھی دو قسم کی کثرت پائی جاتی هے- ایک موضوعی کثرت هے جو ماهیت کے لحاظ سے هوتی هے ، لهذا یه کثرت فاقد وحدت هے- موجود زمین اور موجود آسمان کے درمیان پائی جانے والی جیسی کثرت- دوسری کثرت ایک ایسی کثرت هے جو خود وجود کے لحاظ سے هوتی هے اور وحدت کی طرف پلٹتی هے- علیّت و معلولیّت، حدوث و قِدم اور تجرّد اور مادیت میں پائی جانے والی کثرت کے مانند-

حکمت متعالیه کے مطابق، جس طرح عدد، عدد هونے کے لحاظ سے منفصل کا ڈھانچه اور قابل تقسیم هے اور خاص مراتب میں ظاهر هونے کے پیش نظر یا متناهی هے یا غیر متناهی، یا زوج هے یا فرد وجود کے بھی، وجود هونے کے پیش نظر کچھه احکام هیں، جیسے، بسیط هونا، اصالت، برابری یا شے هونا- لیکن چونکه وجود بظاهر کثرت میں هے اس لحاظ سے کچھه اور احکام هیں، جیسے، علیّت، معلولیّت اور حدوث و قِدم[1] اب جبکه وجود کے طولی سلسله کے بارے میں حکمت متعالیه میں جو خاکه پیش کیا جاتا هے، اس میں وجود کے تمام حقائق پائے جانے کے باوجود ، موجودیت میں مختلف مراتب اور طبقات پائے جاتے هیں که ان وجودی مراتب کے وجود و هستی میں اشتراک بھی پایا جاتا هے اور امتیاز و اختلاف بھی، جیسے نور کے مراتب میں شدت اور ضعف کا هونا- لهذا اس سلسله میں عالی ترین مرتبه حق تعالیٰ سے متعلق هے، جو محض وجود هے اور اس وجود کے لامتناهی هونے کے سبب، اس میں کسی قسم کی ماهیت اور وجودی حد نهیں پائی جاتی هے- لیکن باقی مخلوقات چونکه باری تعالیٰ کے معلول هیں اس لئے مکمل طور پر ذات باری تعالیٰ سے مربوط اور منحصر هیں ان کی مثال کسی چیز کے سایه کے مانند هے اور جس طرح آفتاب کی روشنی کا خود آفتاب سے ربط هوتا هے یا انسان کے نفس کے بارے میں اس کا ذهنی تصور، ان سب کی وابستگی نفس کی شناخت سے هوتی هے، جبکه اگر نفس ایک لمحه کے لئے اپنی توجه کو هٹادے تو ان تصورات کا کوئی اثر باقی نهیں رهتا هے- کیا اب یه فرض کیا جا سکتا هے که نفس کے یه تصورات اس کے لئے کوئی رکاوٹ بن سکتے هیں؟ یا سورج کی کرن کو سورج کے عرض میں ایک مخلوق فرض کیا جا سکتا هے، جس کی شناخت سورج کے جسم کی مرهون منت هے؟ چونکه حق تعالیٰ کا وجود محض بسیط هے اس لئے اس میں هستی کے حقائق، وجود کے عنوان سے پائے جاتے هیں {بسیط الحقیقه کل الاشیاء} اور اس کے باوجود اشیاء میں سے کوئی شئے وسیع {بسیط} هونے کا عنوان نهیں رکھه سکتی هے { ولیس بشئ منھا} اور حق تعالیٰ میں کسی بھی کمال کا فقدان نهیں هے اور وهی دوسرے تمام کمالات کا سرچشمه هے اور تمام کمالات “فیض” کے نام سے اُسی سے جاری هوتے هیں- بیشک واجب الوجود، چونکه بسیط محض هے، لهذا اس کے لئے {ثانی} اور شریک ناممکن هے، کیونکه اگر واجب الوجود کے لئے کوئی شریک هوتا تو اس کے لئے مخصوص کمال هوتا اور دوسرے کے کمال سے محروم هوتا، پس ان میں سے هر ایک وجود و عدم وجود کا مرکب هے که ترکیب کی یه قسم {وجود و عدم کی ترکیب، به الفاظ دیگر وجود و عدم} ترکیب کی بدترین قسم هے[2]

نتیجه کے طور پر، ممکن الوجود اپنی وجودی محدودیت کی وجه سے حضرت حق تعالیٰ کے وجود کے عرض میں رهنے کی قدرت نهیں رکھتا هے، کیونکه وجود باری تعالیٰ بسیط اور لامحدود هونے کی وجه سے “شریک سے منزّه” هے- بلکه ممکن الوجود، باری تعالیٰ کے وجود کے طول میں اور اس کا معلول اور واضح تر الفاظ میں اس کی آیات کا جلوه اور مظهر هے- اور مشخص هے که چونکه، ممکن الوجود، محدود هے، اس لئے ترکیب، ماهیت، تغیّر و تبدّل وغیره {ممکنات کے قسم میں} جیسے ضعف اور محدودیتیں، فقدان و ناداری کی وجه سے هوتی هیں اور یه معلول کی خاصیت هے که علت سے وجودی رابطه رکھنے کے باوجود علت کے تمام کمالات نهیں رکھتا هے اور علت، معلول کے کمالات کے علاوه، دوسرے کمالات بھی رکھتی هے- اس لحاظ سے واجب الوجود بسیط محض هے، اور ممکن الوجود مرکب اور محدود هے- امام خمینی {رح} کی تعبیر میں:” “وجود” ، خیر و شرافت اور درخشندگی هے اور “عدم” ، شر، پستی، تاریکی اور کدورت هے اور جس قدر وجود کامل ترهے اس کی خیر و شرافت مکمل تر هے یهاں تک که ایک ایسے وجود پر منتهی هوتا هے جس میں کسی قسم کا عدم نهیں هے اور یه ایسا کمال هے جس میں کسی قسم کا نقص نهیں هے اور تمام خیروشرافت اور تجّلیات حق تعالیٰ سے مربوط هیں اور کوئی خیر و کمال حقیقی نهیں هے، مگر یه که اس سے مربوط هو، اس کے ذریعه هو اور اس میں پایا جاتا هو اور اس کے تحت هو {به و منه و علیه} دوسرے تمام مراتب کے خیروکمالات اس سے منسوب هونے کے اعتبار سے هوتے هیں-[3]



[1] جوادى آملى، عبداللَّه، تحریر تمهید القواعد، الترکّه صائن الدین على بن محمد، ص 319.

[2] جوادى آملى عبداللَّه، شرح حکمت متعالیه (اسفار اربعه)، ج 6، بخ 1، ص 434 – 433 – انتشارات الزهراء.

[3] امام خمینى، روح اللَّه، شرح دعاى سحر، ص 143.

تبصرے
Loading...