قرآن مجید کے معجزه ھونے کے وجوھات کیا ھیں ؟

قرآن مجید کے معجزه ھونے کے وجوھات کیا ھیں ؟

ہم پہلے قرآن کریم کی عظمت کے سلسلہ میں چند نامور افراد یہاں تک کہ ان لوگوں کے اقوال بھی نقل کریں گے کہ جن لوگوں پر قرآن کریم سے مقابلہ کرنے کا الزام بھی ہے :

۱۔ ابو العلاء معرّی (جس پر قرآن کریم سے مقابلہ کرنے کا الزام بھی ہے) کہتا ہے: اس بات پر سبھی لو گ متفق ہیں (چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان) کہ حضرت محمد (ص) پر نازل ہونے والی کتاب نے لوگوں کی عقلوں کو مغلوب اور مبہوت کردیا ہے، اور ہر ایک اس کی مثل و مانند لانے سے قاصر ہے، اس کتاب کا طرز ِبیان عرب ماحول کے کسی بھی طرز بیان سے ذرہ برابر بھی مشابہت نہیں رکھتا ، نہ شعر سے مشابہ ہے، نہ خطابت سے، اور نہ کاہنوں کے مسجع سے مشابہ ہے،اس کتاب کی کشش اور اس کا امتیاز اس قدرعالی ہے کہ اگر اس کی ایک آیت دوسرے کے کلام میں موجود ہو تو اندھیری رات میں چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح روشن ہوگی!“۔
۲۔ ولید بن مغیرہ مخزومی، ( جو شخص عرب میں حسن تدبیر کے نام سے شہرت رکھتا تھا)اور دور جاہلیت میں مشکلات کو حل کرنے کے لئے اس کی فکر اور تدبیر سے استفادہ کیا جاتا تھا، اسی وجہ سے اس کو ”ریحانہ قریش“ (یعنی قریش کا سب سے بہترین پھول) کہا جاتا تھا، یہ شخص پیغمبر اکرم (ص) سے سورہ غافر کی چند آیتوں کو سننے کے بعد قبیلہ ”بنی مخزوم“ کی ایک نشست میں اس طرح کہتا ہے:
” خدا کی قسم میں نے محمد ( (ص)) سے ایسا کلام سنا ہے جو نہ انسان کے کلام سے شباہت رکھتا ہے اور نہ پریوں کے کلام سے، ”إنَّ لَہُ لحلاوة، و إِنَّ علیہ لطلاوة و إنَّ اعلاہ لمُثمر و إنَّ اٴسفلہ لمغدِق، و اٴنَّہ یَعلو و لا یُعلی علیہ“ (اس کے کلام کی ایک مخصوص چاشنی ہے، اس میں مخصوص خوبصورتی پائی جاتی ہے، اس کی شاخیں پُر ثمر ہیں اور اس کی جڑیں مضبوط ہیں، یہ وہ کلام ہے جو تمام چیزوں پر غالب ہے اور کوئی چیز اس پر غالب نہیں ہے۔)(1)
۳۔ کارلائل۔ یہ انگلینڈ کا مورخ اور محقق ہے جو قرآن کے حوالہ سے کہتا ہے: ”اگر اس مقدس کتاب پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس کے مضا مین بر جستہ حقائق اور موجودات کے اسراراس طرح موجزن ہیں جس سے قرآن مجید کی عظمت بہت زیادہ واضح ہوجاتی ہے، اور یہ خود ایک ایسی فضیلت ہے جو صرف اور صرف قرآن مجید سے مخصوص ہے، اور یہ چیز کسی دوسری علمی، سائنسی اور اقتصادی کتاب میں دیکھنے تک کو نہیں ملتی، اگرچہ بعض کتابوں کے پڑھنے سے انسان کے ذہن پر اثر ہوتا ہے لیکن قرآن کی تاثیر کا کوئی موازنہ نہیں ہے، لہٰذا ان باتوں کے پیش نظر یہ کہا جائے کہ قرآن کی ابتدائی خوبیاں اور بنیادی دستاویزات جن کا تعلق حقیقت، پاکیزہ احساسات، برجستہ عنوانات اور اس کے اہم مسائل و مضامین میں سے ہے ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہیں، وہ فضائل جو تکمیل انسانیت اور سعادت بشری کا باعث ہیں اس میں ان کی انتہا ہے اور قرآن وضاحت کے ساتھ ان فضائل کی نشاندہی کرتا ہے۔(2)
۴۔ جان ڈیون پورٹ: یہ کتاب ”عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمد و قرآن“ کا مصنف ہے، قرآن کے بارے میں کہتا ہے: ”قرآن نقائص سے اس قدر مبرا و منزہ ہے کہ چھوٹی سی چھوٹی تصحیح اور اصلاح کا بھی محتاج نہیں ہے، ممکن ہے کہ انسان اسے اول سے آخر تک پڑھ لے اور ذرا بھی تھکان و افسردگی بھی محسوس نہ کرے“۔(3)
اس کے بعد مزید لکھتا ہے: سب اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ قرآن سب سے زیادہ فصیح و بلیغ زبان اور عرب کے سب سے زیادہ نجیب اور ادیب قبیلہ قریش کے لب و لہجہ میں نازل ہوا ہے اور یہ روشن ترین صورتوں اور محکم ترین تشبیہات سے معمور ہے“۔(4)
۵۔ گوئٹے: جرمنی شاعر اور دانشور کہتا ہے:
”قرآن ایسی کتاب ہے کہ ابتدا میں قاری اس کی وزنی عبارت کی وجہ سے روگردانی کرنے لگتا ہے لیکن اس کے بعد اس کی کشش کا فریفتہ ہوجاتا ہے او ربے اختیار اس کی متعدد خوبیوں کا عاشق ہوجاتا ہے“۔
یہی گوئٹے ایک اور جگہ لکھتا ہے:
”سالہا سال خدا سے نا آشنا پوپ ہمیں قرآن اور اس کے لانے والے محمدکی عظمت سے دور رکھے رہے مگر علم و دانش کی شاہراہ پر جتنا ہم نے قدم آگے بڑھایاتو جہالت و تعصب کے ناروا پردے ہٹتے گئے اور بہت جلد اس کتاب نے جس کی تعریف و توصیف نہیں ہوسکتی دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس نے دنیا کے علم و دانش پر گہرا اثر کیا ہے او رآخر کار یہ کتاب دنیا بھر کے لوگوں کے افکار کا محور قرار پائے گی“۔
مزید لکھتا ہے: ”ہم ابتدا میں قرآن سے روگرداں تھے لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا کہ اس کتاب نے ہماری توجہ اپنی طرف جذب کرلی اور ہمیں حیران کردیا یہاں تک کہ اس کے اصول اور عظیم علمی قوانین کے سامنے ہم نے سرِتسلیم خم کردیا۔(5)
۶۔ول ڈیورانٹ: یہ ایک مشہور مورخ ہے ، لکھتا ہے:
”قرآن نے مسلمانوں میں اس طرح کی عزت نفس، عدالت اور تقویٰ پیدا کیا ہے جس کی مثال دنیا کے دوسرے ممالک میں نہیں ملتی“۔
۷۔ ژول لابوم: یہ ایک فرانسیسی مفکر ہے اپنی کتاب ”تفصیل الآیات“ میں کہتا ہے: ”دنیا نے علم و دانش مسلمانوں سے لیا ہے اور مسلمانوں نے یہ علوم قرآن سے لئے ہیں جو علم و دانش کا دریا ہے اور اس سے عالم بشریت کے لئے کئی نہریں جاری ہوتی ہیں“۔
۸۔ دینورٹ : یہ ایک اور مستشرق ہے، لکھتا ہے: ”ضروری ہے کہ ہم اس بات کا اعتراف کریں کہ علوم طبیعی و فلکی اور فلسفہ و ریاضیات جو یورپ میں رائج ہیں زیادہ تر قرآن کی برکت سے ہیں اور ہم مسلمانوں کے مقروض ہیں بلکہ اس لحاظ سے یورپ ایک اسلامی شہر ہے“۔(6)
۹۔ ڈاکٹر مسز لورا واکسیاگلیری: یہ ناٹل یونیورسٹی کی پروفیسر ہے، ”پیش رفت سریع اسلام“ میں لکھتی ہے: ”اسلام کی کتاب آسمانی اعجاز کا ایک نمونہ ہے قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی، قرآن کا طرز و اسلوب گزشتہ ادبیات میں نہیں پایا جاتا، اور یہ طرز روحِ انسانی میں جو تاثیر پیدا کرتا ہے وہ اس کے امتیازات اور بلندیوں سے پیدا ہوتی ہے کس طرح ممکن ہے کہ یہ اعجاز آمیز کتاب ،محمدکی خود ساختہ ہو جب کہ وہ ایک ایسا عرب تھا جس نے تعلیم حاصل نہیں کی، ہمیں اس کتاب میں علوم کے خزانے اور ذخیرے نظر آتے ہیں جو نہایت ہوش مند اشخاص، بزرگ ترین فلاسفہ اور قوی ترین سیاست مدارو اور قانون داں لوگوں کی استعداد اور ظرفیت سے بلند ہیں، اسی بنا پر قرآن کریم کسی تعلیم یافتہ مفکر اور عالم کا کلام نہیں ہوسکتا“۔(7)(8)

قرآن مجید کی حقانیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ پورے قرآن میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں پایا جاتا، اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے درج ذیل مطالب پر توجہ فرمائیں:

” انسانی خواہشات میں ہمیشہ تبدیلی آتی رہتی ہے، تکامل اور ترقی کا قانون عام حالات میں انسان کی فکر و نظر سے متاثر رہتا ہے، اور زمانہ کی رفتار کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے، اگر ہم غور کریں تو ایک موٴلف کی تحریر ایک جیسی نہیں ہوتی، بلکہ کتاب کے شروع اورآخر میں فرق ہوتاہے، خصوصاً اگر کوئی شخص ایسے مختلف حوادث سے گزرا ہو، جو ایک فکری ، اجتماعی اور اعتقادی انقلاب کے باعث ہوں، تو ایسے شخص کے کلام میں یکسوئی اور وحدت کا پایا جانا مشکل ہے، خصوصاً اگر اس نے تعلیم بھی حاصل نہ کی ہو، اور اس نے ایک پسماندہ علاقہ میں پرورش پائی ہو۔
لیکن قرآن کریم ۲۳ /سال کی مدت میں اس وقت کے لوگوں کی تربیتی ضرورت کے مطابق نازل ہوا ہے، جبکہ اس وقت کے حالات مختلف تھے، لیکن یہ کتاب موضوعات کے بارے میں متنوع گفتگو کرتی ہے، اور معمولی کتابوں کی طرح صرف ایک اجتماعی یا سیاسی یا فلسفی یا حقوقی یا تاریخی بحث نہیں کرتی ، بلکہ کبھی توحید اور اسرار خلقت سے بحث کرتی ہے اور کبھی احکام و قوانین اور آداب و رسوم کی بحث کرتی ہے اور کبھی گزشتہ امتوں اور ان کے ہلا دینے والے واقعات کو بیان کرتی ہے ، ایک موقع پر وعظ و نصیحت ، عبادت اور انسان کے خدا سے رابطہ کے بارے میں گفتگو کرتی ہے۔ او رڈاکٹر ”گوسٹاولبن“ کے مطابق مسلمانوں کی آسمانی کتاب قرآن مجید صرف مذہبی تعلیمات اور احکام میں منحصر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے سیاسی اور اجتماعی احکام بھی اس میں درج ہیں۔
عام طور پر ایسی کتاب میں متضاد باتیں، متناقض گفتگو اور بہت زیادہ اتار چڑھاؤپایا جاتاہے، لیکن اس کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی آیات ہر لحاظ سے ہم آہنگ او رہر قسم کی تناقض گوئی سے خالی ہیں، جس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کتاب کسی انسان کا نتیجہٴ فکر نہیں ہے بلکہ خداوندعالم کی طرف سے ہے جیسا کہ خود قرآن کریم نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے“۔(9) (10)
سورہ ہود کی آیت نمبر ۱۲سے ۱۴ تک ایک بار پھر قرآن مجید کے معجزہ ہونے کو بیان کررہی ہیں یہ ایک عام گفتگو نہیں ہے، اور کسی انسان کا نتیجہ فکر نہیں ہے، بلکہ یہ آسمانی وحی ہے جس کا سرچشمہ خداوندعالم کا لا محدود علم و قدرت ہے ،اور اسی وجہ سے چیلنج کرتی ہے اور تمام دنیا والوں کو مقابلہ کی دعوت دیتی ہے ، لیکن خود پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ کے لوگ بلکہ آج تک بھی، اس کی مثل لانے سے عاجز ہیں ، چنانچہ انھوں نےبہت سی مشکلات کو قبول کیا ہے لیکن قرآنی آیات سے مقابلہ نہ کیا، جس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ نوع بشر اس کا جواب نہیںلا سکتا تو اگر یہ معجزہ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
قرآن کی یہ آواز اب بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے، اور یہ ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ اب بھی دنیا والوں کو اپنے مقابلہ کی دعوت دے رہا ہے اور دنیا کی تمام علمی محفلوں کو چیلنج کررہا ہے ، اور یہی نہیں کہ صرف فصاحت و بلاغت یعنی تحریر کی حلاوت،اس کی جذابیت اور واضح مفہوم کو چیلنج کیا ہے بلکہ مضامین کے لحاظ سے بھی چیلنج ہے ایسے علوم جو اس وقت کے لوگوں کے سامنے نہیں آئے تھے، ایسے قوانین و احکام جو انسان کی سعادت اور نجات کا باعث ہیں، ایسا بیان جو ہر طرح کے تناقض او رٹکراؤ سے خالی ہے، ایسی تاریخ جو ہر طرح کے خرافات اور بےہو دہ باتوں سے خالی ہو۔(11)
یہاں تک سید قطب اپنی تفسیر ”فی ظلال“ میں بیان کرتے ہیں کہ (سابق) روس کے مستشرقین نے ۱۹۵۴ءء میں ایک کانفرس کی تو بہت سے مادیوں نے قرآن مجید میں عیب نکالنا چاہے
تو کہا:یہ کتاب ایک انسان (محمد) کا نتیجہ فکر نہیں ہوسکتی بلکہ ایک بڑے گروہ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے! یہاں تک کہ اس کے بارے میں یہ بھی یقین نہیں کیا جاسکتا کہ یہ جزیرة العرب میں لکھی گئی ہے بلکہ یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس کا کچھ حصہ جزیرة العرب سے باہر لکھا گیا ہے!!(12)
چونکہ یہ لوگ خدا اور وحی کا انکار کرتے ہیں ،دوسری طرف قرآن مجید کو جزیرة العرب کے انسانی افکار کا نتیجہ نہ مان سکے، لہٰذا انھوں نے ایک مضحکہ خیز بات کہی اور اس کو عرب اور غیر عرب لوگوں کا نتیجہ فکر قرار دے دیا، جبکہ تاریخ اس بات کا بالکل انکار کرتی ہے۔(13)

ماخذ

(1) مجمع البیان ، جلد۱۰ ،سورہٴ مدثر  (2) مقدمہ سازمانہای تمدن امپراطوری اسلام
(3) مقدمہ سازمانہای تمدن امپرا طوری اسلام، صفحہ ۱۱۱
(4) مقدمہ سازمانہای تمدن امپرطوری اسلام، صفحہ ۹۱
(5)کتاب ”عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمد و قرآن“
(6) المعجزة الخالدہ،بنا بر نقل از قرآن بر فراز اعصار
(7)پیش رفت سریع اسلام، اعجاز قرآن کے سلسلہ میں مذکورہ بحث میں ”قرآن و آخرین پیامبر“ سے استفادہ کیا گیا ہے
(8) تفسیر نمونہ ، جلد ۱، صفحہ ۱۳۵
(9) قرآن وآخرین پیغمبر صفحہ۳۰۹
(10) تفسیر نمونہ ، جلد ۴، صفحہ ۲۸
(11) تفسیر نمونہ ، جلد ۹، صفحہ ۴۲
(12) تفسیر فی ظلال ، جلد ۵، صفحہ ۲۸۲
(13) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۱، صفحہ ۴۱۰
تبصرے
Loading...