شیعه هاﭡﮭ کھول کر نماز کیوں پڑھتے هیں؟

هاﭡﮭ باندھ کر نماز پڑھنے کی روش ایسی هے جو رسول الله صلی الله علیه وآله کے زمانے میں نهیں تھی اور آپ هاﭡﮭ کھول کر نماز پڑھتے تھے۔[1] اور چونکه شیعه حضرات هر عمل میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله اور ائمه اطهار علیهم السلام کی پیروی کرتے هیں لهٰذا اسی طرح نماز پڑھتے هیں۔ البته نماز میں هاﭡﮭ باندھنا ایک ایسی بدعت ھے جو رسول اکرم صلی الله علیه وآله کے بعد ایجاد هوئی، یعنی آپ کے زمانے میں هاﭡﮭ باندھنا سرے سے تھا ھی نهیں بلکه یه خلیفه دوم کے زمانے میں شروع ھوا، اور اس وقت سے اس بدعت کا راسته کھل گیا[2] اور اب بھی اکثر سنی، خلیفه دوم کی روش پر عمل کرتے هیں،[3] لیکن ائمه علیهم السلام اس طریقه کو مجوسیوں کا طریقه کهتے اور کفار کے رنگ میں رنگنا کهتے هیں اور انھوں نے شیعوں سے کها هے که پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله کی سنت پر عمل کرتے هوئے نماز کو هاﭡﮭ کھول کر پڑھیں۔ ایک حدیث میں حمید ساعدی نے نماز کے بارے میں رسول الله صلی الله علیه وآله کے تمام اعمال کو تکبیرۃ الاحرام سے لیکر نماز کے سلام تک ذکر کیا هے لیکن اس میں هاﭡﮭ باندھنے سے متعلق کسی طرح کے عمل کو ذکر نهیں کیا هے بلکه اس میں آیا هے که تکبیر کے بعد حضور صلی الله علیه وآله اپنے هاتھوں کو نیچے لاکر دونوں پهلوؤں سے چپکاتے تھے ۔[4]

یه بات بھی واضح هے که یه ممکن نهیں که کسی مستحب عمل کو رسول اکرم صلی الله علیه وآله نے پوری زندگی میں ترک کیا هو۔

اسی طرح حماد ابن عیسی نے امام صادق علیه السلام سے چاھا که آپ انھیں مکمل اور صحیح نماز سکھائیں تو آپ روبقبله کھڑے هوئے اور تمام مستحبات کے بعد تکبیرۃ الاحرام کهی اور قرائت شروع کی اور پھر اسی طرح نماز کو پڑھا جس طرح اس وقت اھل تشیع پڑھتے هیں اور سلام پر نماز کو ختم کیا۔[5] اس روایت میں امام علیه السلام نے حماد ابن عیسی کو وهی نماز سکھائی هے جسے پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله پڑھتے تھے اور هاﭡﮭ باندھنے کا ذکر نهیں کیا هے اور اگر یه عمل سنت هوتا تو امام علیه السلام ضرور اسے بیان فرماتے۔

اسی طرح ائمه اهلبیت علیهم السلام سے بهت سی روایات هیں جن میں آپ نے فرمایا هے که: یه کام اهل کفر اور مجوسیوں کے رنگ میں رنگنے کے برابر هے اور اس پر عمل نهیں کرنا چاهئے۔ هم اس کے صرف چند نمونے پیش کرتے هیں:

1۔ روی محمد ابن مسلم، عن الصادق او الباقر علیهما السلام قال: قلت له: الرجل یضع یده فی الصلاۃ ۔و حکی۔ الیمنی علی الیسری؟ فقال: ذلک التکفیر لایفعل۔[6]

2۔ و روی زرارۃ عن ابی جعفر علیه السلام انه قال: وعلیک بالاقبال علی صلاتک، و لاتکفر، فانما یصنع ذلک المجوس[7]۔

3۔ روی الصدوق باسناده عن علی علیه السلام انه قال: لایجمع المسلم یدیه فی صلاته و ھو قائم بین یدی الله عز وجلّ یتشبه باھل الکفر، یعنی المجوس۔ [8]

مزید مطالعه کے لئے رجوع کریں:

الانصاف فی مسائل دام فیھا الخلاف، آیۃ الله شیخ جعفر سبحانی، ج1، ص169۔193



[1] اس سلسله کی روایت کچھ بعد میں آنے والی هے۔

[2] ِ اس بات پر سھل ابن سعد کی حدیث شاهد هے جسے بخاری نے نقل کیا هے: کان النأٌس یومرون ان یضع الرجل الید الیمنی علی ذراعه الیسری فی الصلاۃ (فتح الباری فی شرح صحیح البخاری، ج2، ص224) ظاهر هے که اگر پیغمبر نے قبض الید کا حکم دیا هوتا تو کوئی تک هی نهیں هے که کها جائے بلکه کهنا چاهئے تھا۔

[3] َ حنفی، شافعی اور حنبلی هاتھ باندھنے کو سنت اور مستحب سمجھتے هیں لیکن مالکی هاﭡﮭ کھولنے کو مستحب سمجھتے هیں (الفقه علی المذاهب الخمسه ص110)۔

[4] سنن بیهقی، ج2، 72، 73، 101، 102؛ سنن ابی داوود ج1،194

[5] وسائل، ج4، باب1 من ابواب افعال الصلاۃح1

[6] وسائل، ج4، باب15 من ابواب قواطع الصلاۃح1

[7] وسائل، ج4، باب15 من ابواب قواطع الصلاۃح2، 3، 7

[8] سبحانی، جعفر، فقه الشیعۃ الامامیۃ و مواضع الخلاف بینه و بین المذاهب الاربعۃ، ص183

تبصرے
Loading...